April 26th, 2024 (1445شوال17)

جنگیں مادی اسباب  سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اعلیٰ مقاصد اور ایمان سے فتح یاب ہوتی ہیں۔دردانہ صدیقی  

غزوہ بدر وہ فیصلہ کن اور تاریخ ساز جنگ تھی جس میں ملت اسلامیہ کی تقدیر اور دعوت حق کے مستقبل کا فیصلہ ہوا اس کے بعد آج تک مسلمانوں کو جتنی فتوحات اور کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ان کی جتنی حکومتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں وہ سب اسی فتح مبین کی مرہون منت ہیں جو بدر کے میدان میں مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی اسی لیے اللہ تعالی نے اس جنگ کو قرآن مجید میں یوم فرقان یعنی حق اور باطل میں فرق کا دن کہا ہے یعنی اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور غلبے نے یہ واضح کردیا تھا کہ اسلام حق ہے اور کفر و شرک باطل ہے۔ان خیالات کا اظہار سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی دردانہ صدیقی نے 17 رمضان المبارک یوم بدر کے موقع پر اپنے ایک بیان میں کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ وہ عظیم الشان یادگار دن ہے جب اسلام اور کفر کے درمیان پہلی فیصلہ کن جنگ لڑی گئی جس میں کفار قریش کی طاقت کا گھمنڈ خاک میں ملنے کے ساتھ ساتھ مٹھی بھر مسلمانوں کو وہ ابدی طاقت اور رشک زمانہ  غلبہ نصیب ہوا جس پر آج تک مسلمان فخر کا اظہار کرتے ہیں۔
اللہ کی خاص فتح نصرت سے 313 مسلمانوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لاؤ لشکر کو اس کی تمام تر مادی اور معنوی طاقت کے ساتھ خاک چاٹنے پر مجبور کر دیا جس نے یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں مادی اسباب  سے نہیں لڑی جاتیں بلکہ اعلیٰ مقاصد اور ایمان سے فتح یاب ہوتی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ حق، کسی مرحلے اور کسی سطح پر بھی باطل کے ساتھ سمجھوتے کا روادار نہیں، اگر مسلمان اپنے عظیم مشن کو پس پشت ڈال کر باطل کے عقائد و نظریات کے ساتھ سمجھوتہ کرلیتے اور اپنے عقائد و نظریات سے اپنی فکری و روحانی وابستگی کو کمزور کر لیتے تو معرکہ بدر کبھی برپا نہ ہوتا۔دردانہ صدیقی نے کہا کہ آج چودہ سو سال بعد ملت اسلامیہ نہایت ہی تاریک دور سے گزر رہی ہے اور حقیقت کو نگاہ میں رکھا جائے تو عالم اسلام کا بیشتر حصہ نوزائیدہ مملکتوں پر مشتمل ہے، لیکن دور نبوی صہ کی طرح وسائل کی کوئی کمی نہیں اس کے باوجود ملت اسلامیہ ہر طرف سے دشمنوں کے درمیان گھری ہوئی ہے۔ ان حالات میں آج ملت اسلامیہ کو ایمان کی رسی کو تھامنے اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاؤں کی بیڑیاں بنانے کی ضرورت ہے اس کے بعد اللہ کی طرف سے استعانت اور فرشتوں کے نزول کا وعدہ کسی وقت اور مقام کے ساتھ مخصوص و مشروط نہیں بلکہ یہ  وعدہ ہر مقام اور ہر وقت کے لئے ہے لیکن ضرورت صرف جذبہ ایمان، عشق حقیقی اور اطاعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے جو اسلام کے دور اول کے مسلمانوں اور مجاہدین بدر میں تھا ۔