March 28th, 2024 (1445رمضان18)

کیرئیر پلاننگ

تنویر اللہ خان

کیرئیر کیا ہے؟ ایک کیرئیر تعلیم، ملازمت، کاروبار، بچے، گھر وغیرہ ہے اور دوسرا کیرئیر مرنے کے بعد کی زندگی قبر، جنت، دوزخ، حشر کا حساب کتاب ہے۔ ہم اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ دونوں کیرئیر ایک دوسرے کی ضد ہیں لہٰذا دین دار دُنیا داری سے فارغ سمجھا جاتا ہے اور دُنیا دار کا تعلق دین سے واجبی سا ہوتا ہے، پہلے قسم کے اکثر لوگ آخرت سے خود کو آزاد سمجھتے ہیں اور دوسری قسم کے اکثر لوگ تعلیم، ملازمت کے معاملات سے خود کو فارغ سمجھ لیتے ہیں۔

لہٰذا جو قرآن اچھی طرح پڑھ سکتا ہے اُس کے لئے دروازے پر لکھا پُل اور پُش انجان ہے اور جو رائج نصابی کُتب پڑھ لیتا ہے قرآن اُس کے لیے اجنبی ہو جاتا ہے، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ ہم نے دین اور دُنیا کو دو الگ خانوں میں رکھا ہوا ہے۔

سچ یہ ہے کہ آخرت کو سب کچھ سمجھنے والے نہ دُنیا کے معاملات سے بچ سکتے ہیں اور نہ ہی دُنیا کو سب کچھ سمجھنے والے آخرت سے بھاگ سکتے ہیں، دونوں طرح کے لوگوں کو چاہے نہ چاہے دُنیا اور آخرت دونوں کا سامنا کرنا ہے، لہٰذا ان دونوں کو دین اور دُنیا دونوں کی تیاری کرنی چاہئے۔

آخرت کی کامیابی کو مختصراََ بیان کیا جائے تو کچھ یوں ہے کہ، اللہ کا راضی ہونا کامیابی ہے اور اللہ کا ناراض ہونا ناکامی ہے اسی طرح جنت میں جانا کامیابی ہے اور دوزخ میں جانا ناکامی ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آخرت والے دُنیا سے آزاد ہوجاتے ہیں اور دُنیا والے آخرت سے آزاد ہوجاتے ہیں، آسان مثال ہے کہ فرض کریں آپ کو کراچی سے اسلام آباد کا سفر کرنا ہو اور آپ ریل گاڑی میں جا رہے ہوں تو راستے میں کئی اسٹیشن آتے ہیں جہاں آپ ہاتھ پیر سیدھا کرنے کے لئے گاڑی سے اترتے ہیں پلیٹ فارم پر چہل قدمی کرتے ہیں اگر فیملی ساتھ ہو تو اُن کے کھانے پینے کا انتظام کرتے ہیں اور جب گاڑی چلنے کی وسل دیتی ہے تو آپ اُس پر سوار ہوجاتے ہیں تا کہ اصل منزل کو پہنچ سکیں لیکن اگر آپ پلیٹ فارم پر ہی ٹہلتے رہیں اور گاڑی نکل جائے تو آپ کے اس رویے کو کیا کہا جائے گا؟ یقیناً آپ غافل اور منزل کھوٹی کرنے والے کہلائیں گے لیکن اگر آپ پلیٹ فارم پر متعین وقت پر ضروری کام کر کے اپنی گاڑی میں سوار ہوجاتے ہیں تو آپ منزل سے باخبر، اور منزل پر نظر رکھنے والوں میں شمار ہوں گے۔

اس تمہید کا مقصد حال ہی میں میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں کامیاب اور ناکام ہونے والے طلبہ اور طالبات سے کچھ گزارشات کرنا ہے۔

پہلی اور سب سے اہم گزارش آپ اپنی نیت کو سیدھا کرلیں، ایک صاحب اپنی پرانی گاڑی میں بیٹری ڈاون ہونے کے خدشے کی وجہ سے ٹچنگ وائر ساتھ رکھنے کے عادی تھے تا کہ راستے میں گاڑی کھڑی ہوجائے تو کسی دوسری گاڑی والے سے مدد لے سکیں اللہ نے ان کے لئے نئی بیٹری لگوانا ممکن بنا دیا لیکن وہ صاحب حسب عادت تار اپنے ساتھ رکھتے تھے کسی دوست نے ان سے پوچھا کہ اب اس تار کی کیا ضرورت ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ بیٹری تو نئی ہے لیکن کیا پتہ پھر بھی ضرورت پڑ جائے تو دوست نے کہا میں تمہیں ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ یہ تار تمہارے لئے ثواب کا سبب بن جائے گا تم ارادہ کر لو کہ ممکن ہے کسی اور کی بیٹری ڈاون ہوجائے تو یہ تار اُس کے کام آئے گا اس طرح یہ تار وقت پڑنے پر تمہاری ضرورت تو پوری کرے گا ہی لیکن ساتھ تمہیں دوسرے کی مدد کرنے کی نیت کا ثواب ملے گا، مدینہ منورہ میں گھر میں ہوا اور روشنی کے لیے بنائی جانے والی کھڑکی پر محمد کا مشورہ کہ تم نیت کرلو کہ کھڑکی سے اذان کی آواز آئے گی تو ہوا اور روشنی کے ساتھ یہ اجر کا سبب بھی ہوگا، لہٰذا اپنی تعلیم کو اللہ کی رضا سے جوڑ لیں اچھا مسلمان ایک اچھا طالب علم ہو تو یہ مسلمانوں کے فخر کا سبب بنے گا۔

جن طلبہ و طالبات نے میٹرک پاس کیا ہے وہ انٹر کے دو برسوں کو صرف ’’دو‘‘ نہ سمجھیں یہ دو سال اُن کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوں گے، جو ان دو برس محنت کرلے گا وہ بقیہ پوری زندگی آرام پائے گا اور جو ان دو برسوں کی قدر نہیں کرے گا تو آئندہ تمام زندگی اس کی کوئی قدر نہیں ہوگی ضروری نہیں کہ تجربہ اور نقصان کرکے ہی سیکھا  جائے اپنے زندگی کی میراتھن ریس میں (طویل دوڑ) بڑوں کے تجربات کی روشنی میں بڑھیں۔

دُنیا  بھر میں پوزیشن لینے والے، اچھا پڑھنے والے طلبہ و طالبات کو اسکالر شپ وغیرہ آفر کی جاتی ہیں حد یہ ہے کہ نیکی کے جذبے کے نتیجے میں پیسہ جمع کرنے والی این جی اوز بھی ذہین بچوں کو مدد کی پیشکش کرتی ہیں حالانکہ ذہین یا قابل بچہ اپنی صلاحیت کے زور پر کسی نہ کسی طرح اپنا مقام بنالے گا جب کہ این جی اوز کا بنیادی کام ہی کمزوروں کا اُٹھانا ہے۔

جو بچے امتحان میں ناکام ہوگئے ہیں یا جن کا نتیجہ توقع کے مطابق نہیں آیا ہے وہ یہ نہ سمجھیں کہ سب کچھ ختم ہوگیا لہٰذا اب وہ ناکارہ و ناکام زندگی گزارنے پر مجبور ہیں یا اُنھیں مرجانا چاہیے، کوئی بھی ناکامی حتمی نہیں ہوتی، کسی بھی گیند کو آخری گیند نہ سمجھیں ٹھیک ہے کہ امکانات یا موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے لیکن اگر ایسا نہیں ہوسکا ہے تو بھی بہت سے راستے کھلے ہوتے ہیں ہمارے یہاں ضرب المثل ہے کہ ’’ایک در بند ہوتا ہے تو سو در کھلتے ہیں“ ایک ناکامی کا مطلب پوری زندگی کی ناکامی نہیں ہے لہٰذا ایسے بچے جو ذہانت، تعلیم وغیرہ میں مقابلہ نہیں کرسکتے انہیں محض شوق میں یا دیکھا دیکھی یا دوستوں کے اصرار پر ایسے مضامین یا شعبوں میں نہیں جانا چاہیے جہاں مقابلہ اور مسابقت زیادہ ہو، آپ کے پاس ہنڈا ففٹی ہے اور آپ پہنچ جائیں ہیوی بائیک کی ریس میں حصہ لینے کے لیے تو نتیجہ کیا نکلے گا؟ لہٰذا اپنی خواہشات کو ایک طرف رکھتے ہوئے اپنی صلاحیت سے ایک قدم نیچے کے مضمون یا کام کا انتخاب کریں، ایسے بچے جو بی یا ڈی گریڈ نمبر لینے کے بعد بھی اپنے والدین کو مجبور کر کے یا کسی اور طریقے سے اے پلس قابلیت رکھنے والوں کے شعبے میں داخل  ہو جاتے ہیں ایسے بچوں کی سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کلاس میں کیا پڑھایا جارہا ہے بس وہ وقت گزاری کرتے رہتے ہیں اور اگر انھیں سند مل بھی جائے تو کام کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں لہٰذا اپنے آپ کو اور اپنے والدین کو پریشان کرنے کے بجائے اپنی صلاحیت اور حالات کے مطابق شعبے کا انتخاب کریں اور اگر ہمت  کرسکیں تو زیادہ اچھا یہ ہوگا کہ اپنی صلاحیت سے کم شعبہ کا انتخاب کریں اس طرح آپ اپنے شعبہ کے نمایاں لوگوں میں شمار ہوں گے ویسے بھی سرمایہ داری نظام نے حلیم بیچنے والے اور سونا بیچنے والے یا یونیورسٹی میں پڑھنے والے سب کو ایک صف میں لاکھڑا کیا ہے۔

نمبر ون بننے کی کوشش کریں، محنت میں عظمت ہے سننے میں اچھا لگتا ہے کسی حد تک بات بھی ٹھیک ہے لیکن محض محنت سے گزارا ہوتا ہے اس سے بڑی کامیابی نہیں ملتی لہٰذا ہارڈ ورک سے زیادہ اسمارٹ ورک  کرنے کی کوشش کریں، در در پر جاکر کام تلاش کرنے سے زیادہ اچھا یہ ہے کہ اپنے کام میں مہارت حاصل کریں اپنے شعبے میں نمبر ون بنیں دنیا کام دینے کے لئے لائن لگا کر آپ کے در پر کھڑی ہوگی۔

اس وقت امت کو نمبر ون استاد، نمبر ان انجینئر، نمبر ون ڈاکٹر، نمبر ون منتظم، نمبر ون سیاست دان کی ضرورت ہے جب آپ دنیا کے معاملات میں انسانوں کی قیادت کا مقام حاصل کرلیں گے تو چاہے نہ چاہے دیگر معاملات میں بھی لوگ آپ سے رجوع کریں گے، اپنے آس پاس مشاہدہ کریں، مولوی مریض قابل ڈاکٹر ڈھونڈتا ہے قطع نظر اس کے کہ ڈاکٹر اچھا مسلمان بھی ہے یا نہیں اسی طرح بڑے سے بڑا اللہ کا انکاری آپریشن کے لئے اچھے سرجن کے پاس جاتا خواہ سرجن کے چہرے پر ڈاڑھی ہو اور ماتھے پر سجدے سے بننے والی محراب ہی کیوں نہ ہو۔

لہٰذا اگر آپ اپنی اور اپنے دین اسلام کی عظمت اور وقعت چاہتے ہیں تو اپنے آپ کو کسی قابل بنائیں آپ کو کوئی اعزاز حاصل ہوگا تو یہ اعزاز آپ کا اور آپ کے دین کا اعزاز ہوگا۔

آپ کو اپنے رحجان کا اندازہ کیسے ہوگا، آپ جس مضمون یا شعبے کا انتخاب کرتے ہیں اور وہاں پڑھایا جانے والا مضمون آپ کو سمجھ آتا ہو اُسے پڑھ کر آپ کے ذہن میں سوالات اٹھتے ہوں مضمون سے متعلق نئے نئے خیالات آتے ہوں اور آپ میں خود بھی کچھ بیان کرنے کی خواہش پیدا ہو تو سمجھ لیں کہ مضمون آپ کے رحجان سے مطابقت رکھتا ہے اور اگر آپ کلاس میں سب سے پیچھے جگہ تلاش کرتے ہوں استاد کے سوال سے بچنے کی کوشش کرتے ہوں استاد کا سامنا کرنے سے کتراتے ہوں تو سمجھ لیں آپ اس مضمون کے لیے فٹ نہیں ہیں لہٰذا اگر غلطی سے یا کسی شوق میں یا کسی کہ کہنے پر یا فیشن میں آپ نے کسی ایسے شعبہ کا انتخاب کرلیا ہے تو اس غلط انتخاب کا احساس ہوتے ہی متبادل راستہ تلاش کریں، اسٹیپ ڈاؤن کر لینے کو خفت کے بجائے ناکامی سے بچنے کی حکمت عملی سمجھیں۔

اپنے تعلیمی شعبے یا روزگار میں کامیابی کے لیے اپنی ضمنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کریں مثلاً اگر آپ نے شعبہ تعلیم میں جانا ہے تو پہلے اپنے گھر میں پھر دوستوں میں اپنی بات بیان کرنے کی مشق کیجئے، اپنی مادری زبان کے علاوہ انگریزی یا کوئی اور بڑی زبان سیکھیں ایک سے زیادہ زبان بولنے والے لوگوں کا ذہن بھی تیز ہوجاتا ہے۔جو لوگ کوئی دوسری زبان سیکھنا چاہتے ہیں وہ اپنے دماغ میں بٹھا لیں کہ زبان بولنے سے آتی ہے، گرامر کی درستگی بعد کا مرحلہ ہے، گرامر اور لکھنے کی صلاحیت کے لیے پڑھنا ضروری لہٰذا اگر آپ زبان بولنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ’’بولیں‘‘ دیگر مراحل بعد میں طے ہوتے رہیں گے، بولنا اور لکھنا دو بڑی انسانی خوبیاں ہیں جبکہ بولنے کو لکھنے پر فوقیت حاصل ہے لہٰذا پہلے اچھا بولنا سیکھیں پھر لکھنے کی مشق کریں، اسٹیج پر کھڑے ہو کر تقریر کرنا ہی اچھا بولنا نہیں ہوتا بلکہ اپنی بات کو سہل انداز اور مکمل پہنچا دینا بھی کافی ہوتا ہے۔

یہ خود ایک بڑا موضوع ہے لیکن آپ کی ضرورت کی حد تک بیان کرتا ہوں، شیطان نے ہماری زندگی سے ’’ربّ‘‘ کو نکال دیا ہے اور اس کی جگہ انسانیت، وطن ملک قوم کو دے دی ہے، اب کوئی کسی کی مدد کرتا ہے تو یہ نہیں کہتا کہ یہ کام اللہ کے حکم کے مطابق کیا ہے بلکہ کہتا ہے کہ  میں نے انسانیت کے ناطے یہ کام کیا ہے، کسی نے قربانی دی تو یہ نہیں کہتا کہ میرے ربّ کا حکم ہے بلکہ کہتا ہے کہ یہ سب وطن کے لئے کیا ہے۔ آپ اپنی زندگی میں اللہ کو شامل رکھیے اپنی ہر کامیابی کو اللہ کی عطاء کہنے کو  اپنا معمول بنائیں اسی طرح اپنی ہر کوشش کو اللہ کی طرف منسوب کریں، ایسا کرنے سے امید ہے کہ اللہ آپ کو دُنیا و آخرت کی تمام کامیابیاں عطاء فرمائیں گے۔