April 26th, 2024 (1445شوال17)

حقوقِ نسواں کا عالمی ایجنڈا اورمسلمان عورت کا کردار

سمیحہ راحیل قاضی

پسِ منظر

عورت ہمیشہ سے تاریخِ انسانی کی صنفِ مظلوم رہی۔وہ مختلف تہذیبوں میں مختلف مسائل کا شکار رہی۔مشرق میں اسے مرد کے دامن تقدس کا داغ سمجھا جا تا رہا ۔روما میں اسے گھر کا اثاثہ جانا گیا۔یونان میں اسے شیطان کا لقب ملا اور یہودیت میں ا سے لعنتِ ابدی کا مستحق گر دانا گیا۔کلیسا نے اسے باغِ انسانیت کا کانٹا تصور کیا اور یو رپ میں اسے خدا ئی میں شریک مانا گیا مگر اسلام کا تصور ان سب سے جدا اور حقیقت پر مبنی اور فطرت کے ہم آہنگ تھا ‘ہے اور رہے گا۔ اس نے مرد اور عورت کو اکائی اور وحدت تصور کیا۔انھیں حقوق اور اجر وثواب اور عذاب وپاداش میں یکساں قرار دیا مگر ان کی فطرت کے موافق ان کے میدان کار الگ الگ رکھے۔مگر جب یہ تعلیمات نظروں سے اوجھل ہو نا شروع ہوگئیں تو پچھلی صدی کے اوائل میں عورت اور اس کے مسائل پھر سے اجا گر ہوئے اور اُن کو Issueبنایا گیا۔

انسان کی نظر میں انسانوں کی تعداد بڑھتی اور وسائل کم ہو گئے ۔پانی کی کمی‘ غربت کی زیا دتی اور بنیا دی حقوق کی پامالی سے سب سے زیا دہ متاثر خواتین کا طبقہ ہوا۔

خواتین کا منظر نامہ

مظلوم‘مقھور‘مجبور اوربنیا دی حقوق سے محروم جس میں تعلیم‘صحت ‘زندگی‘شادی ‘ را ئے کی آزا دی ‘فیصلہ سا زی جیسے اہم امور شامل ہیں۔اِنھی نا انصافیوں اور حقو ق سے محرومیوں نے تحریکِ آزا دی نسواں کی داغ بیل ڈالی ‘جس نے آخر کار عورت کو مزید محرومیوں کا شکار کر دیا ہے۔

بین الاقوامی کانفرنس اور معاہدات

عورت کو اپنے حقوق سے آشنا کرا نے کے لیے کچھ بین الاقوامی کا نفرنسیں ہوئیں تا کہ عورت کے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکے۔پہلی کانفرنس 1975 ؁ء میں ہوئی جس میں حاضری بہت کم تھی۔دو سری کانفرنس Mexicoمیں منعقد ہوئی جس میں 67ممالک نے حصہ لیا۔تیسری کانفرنس 1985 ؁ء میں نیرو بی میں ہوئی جس میں 130ملک شریک ہوئے اور 1995 ؁ء میں beijingمیں وہ کانفرنس منعقد ہوئی جس نے دنیا کی عورت کو بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن دیا ‘جسے BPFAکہا جاتا ہے۔اور اس کانفرنس میں دنیا بھر سے تیس ہزار سے زا ئد خوا تین نے شر کت کی ۔ 2000 ؁ء میں نیویارک میں عورتوں کی عا لمی کانفرنس منعقد ہوئی جسے اقوامِ متحدہ کے خصوصی اجلاس کے طور پر منعقد کیا گیا تھا اور جس میں این جی اوز نے بھی ریکارڈ تعداد میں شر کت کی اور دستا ویزکی تیا ری پرخوب اثر انداز ہوئیں ۔اسے بیجنگ پلس فائیو(B+5)کا نام دیا گیا اور اب 2005 ؁ء میں بیجنگ کانفرنس کی دسویں سا لگرہ کوB+10کا نام دیا گیا ہے اور پاکستان میں بھی اسے منانے کی بھر پورتیا ریاں جا ری ہیں۔

اس بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن کے 12مخصوص میدان کار ہیں جو عورت کی تمام زندگی کا احا طہ کر تے ہیں۔اُس میں تعلیم‘ صحت‘ غربت‘ انسانی حقوق‘ لڑکی ‘ ذرائع ابلاغ‘ ماحول ‘ معیشت‘ ادا رہ جا تی نظام‘مسلح جا رحیت‘ فیصلہ سا زی میں شمولیت اورتشدد کے مو ضوعات شامل ہیں۔ اور ہرسال حکومتیں اس کی پابند ہیں کہ عورت کے لیے ان میدان کار میں جو کام ہو چکے ہیں اور جو ابھی با قی ہیں اور جو حکمتِ عملی تر تیب دی جا تی ہے اُس کی ایک جا مع رپورٹ اقوامِ متحدہ کو پیش کرے۔

اسی طرح کا ایک معا ہدہ CEDAWہے ۔جو خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کا معا ہدہ ہے۔

Covention for the elimination of all types of discrimination against women.

اس کے بھی16آرٹیکل ہیں ۔BPFAاورCEDAWمیں حقوقِ نسواں کا جو عا لمی ایجنڈا دیا گیا ہے اُس کی کچھ با توں سے اتفاق کرتے ہوئے بھی اکثر ملکوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا ہے یہاں تک کہ امریکہ جو رو شن خیالی اور اعتدال پسندی کا درس دیتا ہے ‘اُس نے بھی ان معا ہدات پر دستخط نہیں کیے ۔اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ مسلم تہذیب کے لیے اس کے اثرات کتنے تباہ کن ہوں گے۔

مولانا مودودیؒ نے نصف صدی قبل مسلمان عورت کو خبر دار کیا تھا کہ معا شرت کو تباہ کر نے کے لیے اسے معا شرت کے3ستونوں ماحول‘معا شرتی اقدارا ور مذہب سے بغاوت کے لیے تیار کیا جا ئے گا۔ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ مساوات‘ معیشت میں بہتری اور women empowermentکے خوش نما جال میں مسلمان عورت کو پھانس کر اسے بھی مغربی عورت کی طرح تنہائی کے عذاب کا شکار اور محبتوں اور حفاظتوں کے حصار اور محبوب ترین رشتوں سے کا ٹا جا رہا ہے۔

عالمی ایجنڈے کے بنیادی اہداف

1۔ مخلوط معا شرت

2۔ مساوات‘ معا شی تر قی اورwomen empowermentکے نام پر مسلمان عورت کو گھر سے با ہر نکالا

3۔ مرد اور عورت کو ایک اکائی اور وحدت اور معاون کی بجا ئے ایک دوسرے کی مد مقابل قوتیں بنانا

4۔ مسلم تہذیب کا افتخار ۔اس کے خاندانی نظام کو بکھیر دینا۔

مغربی ایجنڈے پر عملدرآمد کر نے والیN.G.O'sکا کر دار

1۔ خاندان‘ شا دی‘ مذہب‘ مادریت عورت کی آزا دی اور تر قی میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

2۔ مرد اور عورت کو ایک دو سرے کے مدمقابل قوتیں ثابت کر نا تا کہ خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیر دیا جاسکے۔

3۔ معیشت میں بہتری ‘ عورت کو با اختیار بنا نے اور 33222نما ئندگی دینے کے دھوکہ میں عورت کو فریب دینا تاکہ عورت اپنے اصل کردار انسان سازی سے غافل ہو جائے۔

4۔ بہبود آبادی کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی

5۔ کم عمری کی شادی پر سزا مگر معصوم بچوں کو نصابی کتابوں کی تعلیم اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے بے حیائی کی ترغیب

6۔ اسقاطِ حمل کی اجازت

7۔ عورت کو گھریلو کام کا معاوضہ بھی دیا جائے تا کہ محبت و رحمت کے جذبے نا پید ہو جائیں۔

8۔ شادی سے گریز ۔بغیر نکاح کے اکٹھے اورمخلوط ماحول میں رہنا زیادہ آسان

9۔ ہم جنس پرستی کو بطورِ حق تسلیم کروانا

10۔ آبرو با ختہ عورتوں اور مردوں کو معاشرے میں قابلِ نفرت نہ رہنے دینا۔ان کو sex worker کا نیا نام دینا۔

11۔ بچوں کو ریاست کی تحویل میں دینا۔ والدین کا کر دار کم سے کم کر نا۔

مغربی معاشرے کی تصویر

مغرب میں مندرجہ بالا کارروائیوں کے نتیجے میں جو تصویر نطر آتی ہے وہ شا عر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی زبانی

تمہاری تہذیب اپنے ہاتھوں خود آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیا نہ بنے گا ناپائیدار ہو گا

کے مصداق ٹوٹے خاندانوں ‘ جنس زدہ معا شرے ‘محبت‘احترام ‘ حیا اور حفظ مرا تب کے تقاضوں سے عا ری نسل کی صورت میں ظہور پذیر ہے۔

امریکہ کے ایک سر وے کے مطا بق شا دی کی شر ح میں ایک ہزار میں صرف36جو ڑے قانونی طور پر شا دی شدہ ہیں ۔ملک کے مختلف حصوں میں ٹو ٹے خاندانوں کی شرح 45222ہے۔

دومغربیresearchersڈاکٹر ڈیوڈ اور ڈاکٹر بار براڈیفووائٹ ہیڈ کا سر وے:

* بغیر شا دی کے اکٹھے رہنے والے جو ڑوں کے بگاڑ کا خدشہ 20گنا زیا دہ

* ماں اور اس کے مرد دوست کے بچوں کے بگاڑ کا خدشہ 33گنا زیا دہ

* singleماں یا باپ کے بچوں کے بگاڑ کا خدشہ 14گنا زیا دہ

* اور اب ہم جنس پرستوں کو بھی قانونی جو ڑے کی حیثیت حاصل ہونے والی ہے اور وہ بچے بھی adoptکر تے ہیں۔اُن بچوں

کی اخلاقی حالت کا اندا زہ ہر ذی شعور اوررجل رشید کر سکتا ہے۔

پرو فیسر رچرڈولکنزامریکہ کی ریا ست UTAHکی یو نی ورسٹی میں قانون کے پرو فیسر کا تجزیہ:

ماں اور بچے کے لیے تحفظ کے سب سے بڑے ادا رے شا دی اور خاندان ہیں۔مغربی معاشرہ میں سب سے زیا دہ مظلوم عورت اور بچہ ہیں۔اُن سے عبرت حاصل کریں اور اپنے ممالک کو ان تجربات سے بچائیں۔ما دی تر قی اور وسائل کے لحاظ سے امریکہ اور مغرب دنیا میں سب سے آگے ہیں اور خاندانی اقدار اور روایات کے لحاظ سے مسلمانو!تم سب سے آگے ہو۔اپنے اس افتخار کوختم نہ ہو نے دینا۔

پروفیسر ماریہ گوائر کا تجزیہ:

مغرب میں خاندانی نظام کی شکست وریخت نے معا شروں اور حکومتوں کو بے پناہ مسائل سے دو چار کیا ہے۔شکستہ خاندانوں کی امداد کے لیے بے پناہ وسائل کی ضرورت ہو تی ہے ‘بچوں کی بحالی‘جرائم سے نمٹنے کے پرو گرام ‘ منشیات کی شکار نسل کے علاج ‘جنسی تشد د کا شکار کم عمر ماؤں کی دیکھ بھال ‘ خصوصی افراد کی تعلیم وتر بیت ‘ معمر افراد کے اولڈ ہاؤسز اور عدا لتی چکروں میں اضا فے کے با عث اربوں ڈالر کا خرچ ہو رہا ہے۔

مغرب کا تجزیہ

عورت کو اس کے بنیا دی کر دار اور اس کی (The Job)یعنی انسان کو تخلیق کر نے اور اسے انسا نیت کی معراج پر پہنچا نے کے فر یضے سے نکال کر عورت اور معا شرے دونوں کے ساتھ ظلمِ عظیم ہوا ہے۔عورت اور اس کے بچے کا بہترین مفاد اِ سی میں ہے کہ شا دی اور خاندان کے ادارے کو مضبوط بنایا جا ئے اور اِن کے تقدس کو بحال کیا جائے۔

عورت معاشرے کی بنیاد

اسلام وہ پہلا مذہب ہے جو مردو عورت کے مقام میں کوئی تفریق نہیں کر تا ۔مساوات مردوزن کا حقیقی علمبر دار ہے اور حقوق ‘ اجروثواب اور عذاب وپاداش میں اِنھیں مسا وی وبرابر رکھتا ہے مگر میدان کار اور فرائض مختلف ودیعت کیے ہیں۔

They are equal but not similar.

سورۂ نساء کی پہلی آیت جو نکاح کے خطبے کا لازمی جزو ہے ‘میں ارشاد با ری تعالیٰ ہے :

یا ایھا الناس اتقوا ربکم الذی خلقکم من نفسِِ واحدۃ

ترجمہ:’’ اے لوگو! اپنے اس رب سے ڈرو جس نے تمھیں نفسِ واحدۃ سے پیدا کیا ہے۔‘‘

قرآن کریم کی تعلیمات اور حضور نبی کریم ؐ کی پو ری سنت اس بات کی گواہ ہے کہ اسلام نے عورت کو انسا نیت کے شرف سے آرا ستہ کیا اور اسے وہ حقو ق بن ما نگے ہی عطا کیے جس کے لیے آج کی جدید عورت در بدر پھر رہی ہے ۔

عورت معا شرے کی بنیاد ہے ۔معا شرے کی مضبوط بنیادوں پر تعمیر کے لیے اس کی ذات کی مضبو طی بہت ضروری ہے ۔ا س لیے اسے درج ذیل نکات کا لحاظ رکھنا ہے:

* اللہ اور اس کے رسول ؐ اور ان کے لائے ہو ئے دین سے گہری محبت کا تعلق

* قرآن وسنت سے محبت اور اس کے حلال کو حلال جاننا اور اس کے حرام کو حرام جاننا۔ضروری احکام سے آگا ہی۔

* با خبر دماغ اور گر دوپیش کا مطا لعہ۔آج کی مسلمان عورت کو اس کا علم ہو کہ وہ خلا میں نہیں رہتی اور ما حول سے متاثر ہو نا انسانی

فطرت کا تقاضا ہے اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر اپنے آپ کو تیز رفتا ری سے بدلتے ہوئے حالات سے با خبر رکھنا ۔

* جدید وقدیم ذرائع اور لٹریچر سے استفادہ

قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ علمائے ملت کی محنتوں اور ریا ضتوں کا ثمر ان کی ورا ثت جو کتا بوں کی صورت مو جود ہیں ۔اورآج کے جدید دور میں زبا نوں کی اہمیت کئی گنا ہو گئی ہے۔خود بھی اور اپنی نئی نسل کو بھی بین الاقوامی زبا نوں ‘ انگریزی‘ فا رسی‘ عربی‘فرانسیسی اور چینی زبا نوں پر عبور کی طرف را غب کر نا اور کمپیوٹر کی ٹیکنا لوجی کو مسلم اُمت کے عروج کے لیے آلہ سمجھ کر استعمال کر نا ۔اس کے علا وہ میڈیا میں اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا میں اپنے اثرات کو پائیدار بنا نے کے لیے انھیں ھدف بنا کر ان میں نفوذ کرنا ۔

* خود اعتمادی

اپنے اوپر یہ اعتماد کہ ہم خیر اُمت ہیں ‘ اللہ کی آخری ہدایت ہما رے پاس ہے اور عصائے مو سیٰ ہما رے پاس ہے جس سے فرعونوں کا یہ طلسم نیست ونابود ہو گا ۔اور یہ کہ ہم تو صرف جدو جہد کے مکلف ہیں۔ نتائج سے بے پر واہ ہو کر ‘ ما یو سی کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ کرچلتے رہنا کہ تاریخ چلنے والوں کی ہو تی ہے ۔

Proud to be a muslim women.

* متوازن طرزِ فکر

اسلام کے زریں اصولوں پر کوئی سمجھو تہ کیے بغیر اپنے آپ میں اتنی لچک پیدا کر نا جو حضور نبی کریم ؐ کی متوازن سیرت مبا رکہ کا خاصہ تھا ۔ہر ایک انسان کے اندر سے اس کے خیر کو نکال کر اجتما عیت میں جذب کر نا۔آج اُمت کو ان افراد کی ضرورت ہے جو خود عزیمت کی راہوں پر چلیں اور دوسروں کو رخصتیں دیں اور عفو اوردرگزرقائم کریں ۔

* اولاد ‘ خاندان‘ تحریک‘ معا شرے اور اپنی زات کے لیے یکساں ہمدردی اور خیر خواہی

* قرآن کریم اچھی عورتوں کے لیے جو سب سے پہلی صفت ضروری قرار دیتا ہے ‘ وہ ہے فالصٰلحٰت قانتات۔جو نیک اور اچھی عورتیں ہو تی ہیں وہ فرمانبردار ہوتی ہیں ۔

اللہ اور اس کے رسول ؐ کی فرمانبردار ‘ اپنے باپ ‘شوہر‘ بڑوں کی فر نبردار۔اور پھر اسے وہ تمام حقوق خود بخود مل جا تے ہیں ‘ جس کے لیے آج کی عورت کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔

اقوامِ متحدہ کے خصوصی اجلاس B+5میں الجیریا کی ایک خاتون مفکر نے اچھی خاتون کی صفات بتائیں کہ

دوسروں کے با رے میں تڑپ رکھنا 1. Concern about others

حیا اور ہمت 2. Modesty and Courage

جواں فکر 3. Young state of mind

حساس ہو نا 4. Feelings

محبت 5. Love

حسن و خوبی کا ادراک 6. Beauty

دوسروں کی سننا 7. Readiness to listnening

سیکھنے کی تلاش میں رہنا 8. Curious about learning

دوسروں پر اعتماد رکھنا 9. Confidence on others

عورت نسلِ نو کی معمار

عورت نسلِ نوکی معمار ہے اور وہ دوہرا کر دار ادا کر تی ہے ۔ اس کا ایک کر دا ر گھر میں ماں ‘ بہن ‘ بیوی اور بیٹی کا ہے اور دو سرے کر دار مین وہ معا شرے کی تہذیب و تر قی میں بھر پور حصہ لیتی نظر آتی ہے ۔

ماں کا کر دار: یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ معا شرے کا حسن ‘ وقار اوراستحکام کا راز ماؤں کی پُر خلوص جدو جہد اور لازوال قر با نی میں پنہاں ہے۔ اگر چہ اسلامی معا شرے میں عو رت اپنے ہر روپ مین ہر لحاظ سے قابلِ تحسین واکرام میں مرا تب پر فائز ہے ۔مگر ماں کی صورت میں اسے جو مر تبہ اور عزت ملی ہے نوعِ نسواں کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔اِ س عظمت ‘فوقیت ومرتبے کی بنیا دی وجہ وہ عظیم المرتبت ذمہ دا ری ہے جو ایک ماں ‘ممتا کی شکل میں ادا کر تی ہے ۔ماں ہی قوم کی معمار ہو تی ہے اور یہ ماں ہی ہو تی ہے جو ایک مصور کی طرح محبت ‘ رحمت ‘ شفقت ‘ مو دت ‘ اور ہمدر دی سے رنگوں کا کام لے کر زندگی کے کینوس میں رنگ بھر تی چلی جا تی ہے۔ممتا کی یہ قوت اس قدر قوی ہے کہ اللہ کی صفتِ تخلیق اور صفتِ رحمت میں زیا دہ حصہ ماں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ ماں ہی ایک حقیقی صحت مند مسلمان امت کی پر ورش اور نشوونما کر سکتی ہے اور اس کے صلے میں جنت اس کے قدموں تلے بچھا دی جا تی ہے۔

ماں کی گود بچے کے لیے ابتدا ئی مدرسہ ہے جس کے اثرات بچے کے ذہنی اور نفسیاتی شخصیت کا مستقل حصہ بن جا تے ہیں ۔آج مغربی معاشرے میں ماں انسان سا زی کی بنیا دی ذمہ دا ریوں سے بے نیاز ہو چکی ہے ۔ وہ اس کو اپنے لیے اعزاز اور رحمت کیے بجا ئے ایک بوجھ اور ایک ذمہ دا ری سمجھتی ہے ۔بچے کو فخر و انسباط سے دنیا میں لانے اور انسان بنا نے کے بجا ئے کبھی اس کا اسقاط کر دیتی ہے ۔کبھی معصوم روح کو گندگی کے ڈھیر پر پھینک دیا جا تا ہے۔اور کبھی ڈے کیئر سنٹر کے حوا لے کر دیا جاتا ہے۔ گھر سے اسے وہ محبت نہیں ملتی جو ایک ممتا سے ملنی چا ہیے۔اس لیے مغربی معاشرہ میں ایسی نسل معرض وجود میں آئی جو والدین کے ہو تے ہوئے یتیموں کی طرح زندگی بسر کر تے ہیں۔ سڑ کوں پر راتیں گزا رتے ہیں ۔جسمانی تشدد کا شکار رہتے ہیں۔سا ئے کی طرح زندگی بسر کر تے ہیں۔ اور زندہ در گور ہو کر موت کی تا ریکیوں میں گم ہو جا تے ہیں۔

اسلام میں ماں کی اہمیت اس لیے اس قدر زیا دہ ہے کہ اگر بچوں کی جسمانی ‘ ذہنی‘ فکری نشوونما کے لیے منا سب نگرا نی اور کا وش نہ کی جا ئے تو وہ آسا نی کے سا تھ اجنبی تہذیب اور طرزِ زندگی کو سینے سے لگا لیتے ہیں۔آج کا یہ بچہ کل کا مستقبل ہے۔صرف اور صرف یہ بات ہی مستقبل میں احیائے اسلام کی ضمانت بن سکتی ہے کہ بچے اور ان کی مائیں اسلام کو ایک جا مع نظام زندگی کے طور پر سمجھ جائیں ۔ہما ری قسمت کی شب تاریک کو منور کر نے اور مضبوط معا شرے کے قیام کے لیے مائیں ہی نوید سحربن سکتی ہیں اور صرف ممتا کا ادارہ ہی ہما رے رو شن مستقبل کی ضما نت ہے۔

ماں کے کر دار میں حضرت حاجرہؓ سے لے کر حضرت مریمؓ تک ‘ حضرت فا طمہؓ سے لے کر حضرت خنساءؓ تک اور آج کے قریبی دور میں اماں بی کی مثال( جو تحریکِ خلافت میں اس فقرے سے مشہور ہوئیں کہ)

بولیں اماں محمد علی کی

جان بیٹا خلافت پہ دے دو

ایسی رو شن دا ستانیں ہیں جنہوں نے امومت کا شاندار کردار ادا کر کے اسلام کی بقا ء میں لازوال کر دار ادا کیا اور جس پرعلامہ محمد اقبال ؒ نے بجا طور پر ایک پورا باب باندھا ہے:

درمعنی این کہ بقا ئے نوع از اموت است

وحفظ واحترام امومت اسلام است

اُمت کی بقاء ممتا کی بقاء میں پو شیدہ ہے اور ممتا کی بقاء اسلام کے سوا کچھ نہیں۔

بیوی کا کردار: بیوی کے کردار میں فرعون کی بیوی حضرت آسیہؓ کی مثال سے لے کر حضرت خدیجہؓ کی وفا اور محبت کی لازوال داستان تک جنہوں نے اپنا تن ‘من ‘دھن حقیقی طور پر نبوت پر نچھاور کر دیااور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی وفاا ور صابرانہ رفا قت کے لیے ہمیشہ ان کے شکر گزار رہے اور ہمیشہ یاد کر تے رہے۔حضرت عا ئشہؓ سے لے کر حضرت فا طمہؓ تک جنہوں نے قنا عت کی اعلیٰ مثال قائم کی ۔

بہن کا کر دار: حضرت خولہؓ نے شجا عت اور بہا دری کی مثال قائم کر کے اپنے بھائی حضرت ضرارؓ کو دشمن کی قید سے چھڑایا۔

بیٹی کے روپ میں : حضرت فا طمہؓ کو جس روپ میں دیکھیں اُ سی میں ارفع اور الگ شان لیے ہوئے نظر آتی ہیں ۔مگر بیٹی کی روپ میں انھوں نے تمام فرائض جس اطا عت اور فر مانبر دا ری سے ادا کیے اس سے انھیں جو اعزاز عطا ہوا کہ حضور ؐ نے انھیں اپنے وجود کا حصہ اور عورتوں کی جنت میں سردار ہو نے کی بشا رت سے نوازا۔

پنجاب کی ایک مغل شہزا دی شرف النساء کا قصہ بھی علا مہ اقبال ؒ اپنے فا رسی کلام میں سنا تے ہیں کہ اُس طرح کی بیٹی پھر میری ملت کے نصیب میں نہ آسکی کہ اُس کے ہاتھ میں قرآن اور اس کی کمر میں تلوار ہو تی تھی اور مر تے وقت اس نے ماں سے کہا کہ :

ایں دو قوت حافظ یک دیگر ند

یہ دو قوتیں یعنی قرآن اور تلوار یعنی قوت اور اختیار اور اقتدار ایک دو سرے کی محافظ ہیں اور پو ری کا ئنات کا مرکز ومحور ہیں۔میری قبر کے لیے انھی دونوں کا ساتھ رو شنی کے لیے کا فی ہے۔اور اقبالؒ فر ماتے ہیں کہ ایک عر صے تک قرآن اور تلوار اس کی قبر پر ملت کو یہ پیغام حیات دیتے رہے ۔ یہاں تک کہ سکھوں نے اس کا خاتمہ کر دیا اور پھر آج تک یہ اقتدار قرآن کے پاس یہاں اس خطے میں ہما ری بد اعمالیوں کے با عث نہ آسکا۔

مگر آج کی مسلمان بیٹی اگر یہ عزم کر لے تو دو با رہ کو ئی شہزا دی شرف النساء جیسی بیٹی حضرت فا طمہؓ کے ساتھ جنت میں ان کے قدموں میں جگہ پا نے کے لیے پیدا ہو سکتی ہے جو اپنے عزم وارا دے سے اِس خطے میں پھر سے قرآن کو با اختیار بنا دے۔

معاشرے میں کردار

معا شرے میں نسلِ انسا نی کی تر بیت اور اُس کی تر قی کے لیے عورت اہم کر دار ادا کر تی ہے ۔

آج نصاب اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے شیطان ہما رے معا شرے میں دندنا رہا ہے اور ہم اس شیطان کا مقابلہ صرف رحمن کے قرآن کے ذریعے کر سکتے ہیں۔ہم اس شیطا نی تہذیب سے اپنے آپ اور اپنی آنے والی نسلوں کو صرف قرآنی تہذیب کے ذریعے بچا سکتے ہیں۔

مسلمان عورت کی بنیا دی ذمہ دا ری۔خاندان کا تحفظ

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ

قوا انفسکم واھلیکم ناراََ

ترجمہ:’’ اپنے آپ اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاو۔‘‘

نبیؐ کا فر مان ہے کہ

’’انسان اپنی اولاد کو جو کچھ دیتا ہے اس میں سب سے بہتر عطیہ اولاد کی اچھی تعلیم وتر بیت ہے۔‘‘

حضرت معا ویہؓ نے حضرت احنفؓ بن قیس سے پو چھا کہ اولاد کے سلسلے میں کیا سلوک ہو نا چا ہیے؟احنف بن قیس نے جواب دیا کہ امیر المؤمنین اولاد ہما رے قلوب کاثمرہ ہے ‘کمر کی ٹیک ہے ‘ ہما ری حیثیت ان کے لیے نرم زمین کی طرح ہے جو نہا یت نرم اور بے ضرر ہے اور ہما را وجود ان کے لیے سا یہ فگن آسمان کی طرح ہے اور ہم انہی کے ذریعے بڑے بڑے کام انجام دینے کی ہمت کر تے ہیں۔پس اگر وہ آپ سے کچھ مطا لبہ کریں تو ان کو خوب دیجیے اور اگر کبھی دل گر فتہ ہوں تو ان کے دلوں کے غم کو دور کریں ۔نتیجہ میں وہ آپ سے محبت کریں گے ‘آپ کی پدرا نہ کوششوں کو پسند کریں گے اور کبھی ان پر ناقابلِ بر داشت بوجھ نہ بنیے کہ وہ آپ کی زندگی سے اُکتا جائیں اور آپ کی موت کے خواہاں ہوں‘ آپ کے قریب آنے سے نفرت کریں۔

* بچوں کی اصلاح سے کبھی بھی مایوس نہ ہوں ۔ان کی حوصلہ افزا ئی کریں تا کہ ان میں خود اعتما دی پیدا ہو اور وہ کارگہہ حیات

میں بڑے معرکے سر انجام دینے کے قابل ہوسکیں ۔

* بچوں کی ہر جاو بے جا ضد پو ری نہ کریں ۔

* اولاد میں فرق نہ کریں ۔

* جنت میں اکیلے جا نے کی فکر اور خوا ہش نہ ہو بلکہ اپنی محبتوں کے مر کز ‘ اپنے اہل وعیال کو ساتھ لے جا نے کی تڑپ ہو ۔انھیں

ایسی اجتما عیت میں جوڑ دیں تا کہ اس تڑپ اور خواہش کوعملی جا مہ پہنایا جا سکے۔

* اپنے آپ کوفرائض ادا کرنے کے لیے تیار کیا جا ئے اور پھر حقوق خود بخود مل جا تے ہیں۔

* پیار ومحبت ‘خوشیاں اور دکھ در دبا نٹیں۔دکھ بانٹنے سے کم اور خوشیاں با نٹنے سے زیا دہ ہو جا تی ہیں۔

ذرائع ابلاغ کے نقصانات سے بچاؤ کی تدابیر

* اپنے بچوں کو وقت دیں ۔اور اس کو بھر پور استفا دے کا ذریعہ بنا ئیں۔

* فحش اور لا دین پرو گراموں سے بچنے کے لیے وا حد اور بہترین ذریعہ یہ ہے کہ ہم ان کے متبا دل پرو گرام مہیا کریں ۔

* بچوں کے ذہنوں میں ابھر نے والے سوالوں کا شا فی جواب دیں۔

* ان کے قلوب میں ایمان کو بھر دیں تا کہ وہ اسلام کو صرف مذہب نہیں بلکہ طریقِ زند گی سمجھیں۔اس کے اوا مر کو اوا مر سمجھیں اور

اس کے منکرات سے بچنے کی تدبیر کریں ۔

* بچوں کوتنہا ئی کے عذاب کا شکار نہ کریں۔

* ان کے اوقات کو مقرر کر کے ان کی زندگی کو مرتب کریں ۔

* تعلیم ‘ ثقا فتی اور فنی میدانوں میں بھی ذرا ئع ابلاغ کوئی مثبت رول ادا نہیں کر رہے ۔ذرائع ابلاغ چا ہے وہ print ہوں یا

الیکٹرانک ۔دونوں میں فحاشی و عر یانی اور ناچ گا نے کی یلغار ہے۔ریڈیو ‘ ٹیلی ویژن‘ ڈش ‘کیبل‘کمپیوٹر‘ انٹر نیٹ یہاں تک کہ

کارٹونز بھی شیطا نی یلغار کی صورت میں نسلِ نو پر حملہ آور ہیں۔کمپیوٹر کے ما ہرین اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ

80222نوجوان اور بچے کمپیوٹر کو غلط مقا صد اور فحش کے لیے استعمال کر تے ہیں ۔صرف 20222لوگ مفید مقا صد کے تحت

استعمال میں لا رہے ہیں۔اس لیے اِن کو گھر کے ایسے گوشے میں رکھیں جہاں آپ نگرانی رکھ سکیں ۔کمپیوٹر کو بچوں کے بیڈ رومز

میں کبھی بھی نہ رکھنے دیں۔

نصاب تعلیم

استعمار کے نیو ولڈ آرڈر کے مطا بق نصاب تعلیم کو مغربی اقدار کے مطا بق کر نا اور اس سے قرآن وسنت پر مبنی تعلیمات نکال دینا اُن کی بنیادی حکمت عملی ہے۔ایک یو رپی ادارےIntenational Crisis Management Group(ICMG)نے قرآن وسنت پر مبنی تعلیمات کو نفرت انگیز مواد یعنی (Hatered Material)قرار دیا ہے اور حکومت پاکستان سے مطا لبہ کیا ہے کہ اپنے نصابِ تعلیم سے اسے خارج کر دے۔اپنی ایک حالیہ تقریر میں صدر بش نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پرویز مشرف کو ہم نے نظام تعلیم تبدیل کر نے کا کہا تھا اور انھوں نے اورونڈر فل لیڈی زبیدہ جلال نے اس پر عمل در آمد کا آغاز بھی کر دیا ہے۔مغرب اور امریکہ پاکستان کے تعلیمی نصاب اور دینی مدا رس میں اسلامی نظام تعلیم کو دہشت گر دی کی جڑ سمجھتے ہیں مگر کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا ؟ دنیا میں ابھی تک جتنی بھی دہشت گر دی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے چا ہے وہ انفرادی دہشت گر دی ہو یا ریا ستی دہشت گردی وہ تو امریکہ کی اعلیٰ یو نی ورسٹیوں سے فارغ التحصیل لوگ ہی کر رہے ہیں ۔اُن میں سے تو کوئی بھی پاکستان کے کسی اسکول یا مدرسے کا پڑھا نہیں تھا۔مسلمانوں کے عقیدے سے شہا دت اور جہاد فی سبیل اللہ کا نقش مٹانا خام خیالی اور دیوا نے کاخواب ہے۔

آغا خان فاؤنڈیشن کے ذمہ وہی فریضہ سونپا گیا ہے جو بر طا نوی سامراج نے قادیانیوں کے ذمہ کیا تھا مگر مسلمانوں کی نئی نسل آغاخانیوں کو بھی اگر وہ اپنے اس ایجنڈے سے باز نہ آئے تو قادیانیوں کی طرح انجام سے دو چار کر دے گی‘ ان شا ء اللہ۔

مسلم عورت کی دوہری ذمہ داری

مسلمان عورت کی دو ہری ذمہ دا ری یہ ہے کہ وہ اپنی زیر تر بیت نسل کے ذہنوں سے غلط افکار وخیالات کی تطہیر کر کے اسلامی علوم اور اسلامی فکر وایقان سے ان کے دماغوں کو بھر دیں۔وہ اپنی آنے والی نسل کی مذہبی‘ اخلاقی اور رو حانی تر بیت کرے اور ایک ایسی نسل پر وان چڑ ھائے جس کا دین سے رشتہ مضبوط ہو‘ جو خود کو زمین پر خدا کا خلیفہ سمجھتی ہو ‘ جو یہ بات جا نتی ہو کہ نسلِ انسانی کی تعمیر اس پر فر ض ہے جو آخرت کو فراموش نہ کرے بلکہ اسے یاد کر کے اس کی تیا ری کر نے والی ہو‘ مسلمان ماں اپنی نسلوں کی نہ صرف فکر ی بلکہ عملی تر بیت بھی کر تی ہے۔ اس کے سا منے زندہ اور عملی کر دار پیش کر تی ہے۔بچہ اُ سے نمونہ بناکر اس کی نقل میں اپنے کر دار کی تعمیر کرتا ہے۔

وہ عبادات کے ذریعے اپنی ذات کو بھی با وقار بنا تی ہے اور اپنی نسلوں کے سا منے رو حانی استاد کا رول بھی پیش کرتی ہے۔

اولاد کی تر بیت میں سب سے بڑا ہتھیار ۔دعا

اولاد کی تر بیت صبر ‘ حو صلے اور ثبات کا کام ہے ۔تبھی تو ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی گئی ہے۔اس صبر آزما فریضے کو سر انجام دینے میں دعا سب سے زیا دہ ممدومعاون ثابت ہو تی ہے۔اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:

اُجیب دعوۃ الداع اذا دعان

تر جمہ:’’ میں پکا رنے والے کی پکار کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہوں‘‘

وہ دعاؤں کو سننے والا رب ہے۔حضرت عبد اللہ ابن مبا رک بہت بڑے محدث اور فقیہ عصر گزرے ہیں ۔وہ فر ماتے ہیں کہ’’میں اپنی ماں کا دعاؤں کا جواب ہوں۔میں جوا نی میں بڑی بری عا دتوں کا شکار تھا مگر میری ماں مجھ سے کبھی مایوس نہ ہوئی اور ہمیشہ اپنے رب سے میرے لیے دعاگو رہی یہاں تک کہ اللہ نے اُس کی دعا کو سن لیا ۔‘‘ اور وہ اپنے وقت کے بہت بڑے محدث بنے۔ہمیں بھی اپنی اولاد کو پُر سوز دعاؤں میں یاد رکھنا چا ہیے ۔ دعا رائیگاں نہیں جا تی ۔

عصرِ جدید کے چیلنجز اور اُن کا حل

انسان فطرتاََ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کر تا ہے ۔قیدتنہائی اس کے لیے سب سے بڑا عذاب ہے۔اکیلا خاندان اور اکیلاگھراوراکیلا فردکبھی نیک اور صالح نہیں بن سکتاجب تک کہ معا شرے میں وہ نیکی رواج نہ پا جائے۔مو جو دہ صورتحال تو ایسی ہی ہے جیسے ایک جگہ آگ لگی ہو اور جب تک سب اسے مل کر نہ بجھائیں گے وہ پھیلتی ہی چلی جا ئے گی۔مو جو دہ نازک حالات کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہم حکمت ‘ محبت‘تدبیر اور تدریج کے ساتھ اچھے کاموں کو مل جل کر کر نے اور ایک دو سرے کا ہاتھ تھام کر چلنے کی ریت ڈالیں اور محبت اور تدبیر کے ساتھ غلط کاموں کے آگے بند باندھیں۔دعوتی مزاج پیدا کریں۔بقول شاعر مشرق

یقین محکم ‘ عمل پیہم ‘ محبت فاتح عالم

جہاد زندگانی میں ہے یہ مردوں کی شمشیریں

ہم خواتین کے ہاتھ میں بھی زندگی کے سفر کے لیے یہی زادِ راہ ہے کہ ہم جہدِ مسلسل اور محبت کے ہتھیار کے ذریعے سے جہانوں کو فتح کرسکنے کا مضبوط یقین پیدا کر یں۔ اور مختلف سطحوں پر افراد کو جوڑ کر چھو ٹے چھو ٹے کلب اور گروپ بنا کر ‘ قرآن کلب بنا کر ‘ قرآن ‘حدیث ‘لٹریچر ‘ دعائیں‘ون ڈش ‘ کمپیوٹر کلاسز ‘تعلیم وصحت کے پرو گرام‘ مشا عرہ‘مینا بازار‘ اسٹڈی سر کل کے ذریعے معا شرے میں نیکی کا چلن عام کریں۔اہم مواقع ‘ شادی‘ غمی‘ سیرت النبیؐ کی محفلوں اور پاکستان کے قومی دنوں اور عالمی تعطیلات کے ایام کو اُمتِ مسلمہ کے زوال کے دور کو عروج میں تبدیل کر دینے میں ا ستعمال کریں۔

خواتین اور مسجد

اللہ کے نزدیک سب سے محبوب مقام مسجد اور سب سے مبغوض مقام بازار ہے۔ہم اپنے رویوں پر غور کر لیں کہ ہم مسجد تو نہیں جا تے کہ ہم خود بھی اور ہما رے علما ء بھی یہ فتوٰی صادر کر دیتے ہیں کہ فتنے کا دور ہے اور مسجد نہیں جا نا چا ہیے ۔اُ س عورت کے لیے تو پھر بھی ایک جواز ہے جو بازار بھی کبھی نہ گئی ہو تو اس کے لیے اُس کا گھر ہی محفوظ ترین مقام ہے مگر اُن خواتین کے با رے میں کیا را ئے ہے جو سارا دن شا پنگ کے لیے ما ری ماری پھر تی ہیں مگر مسجد سے محروم ہیں۔آج کے اس دور میں خواتین کو مسجد سے جو ڑنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ خواتین اپنی نسلوں کو بھی مسجدوں کی محبت تبھی دے سکیں گی‘جب وہ خود اُس سے وابستہ ہوں۔ہر ہفتے وہ اپنی زندگی کے کسی بھی پہلو کے لیے جمعہ کے خطبے میں کچھ راہنمائی لے سکتی ہیں۔ وہ اپنے محلوں کی مسجدوں کو پھر سے تہذیب اسلامی کے احیا کے مرا کز میں تبدیل کر سکتی ہیں۔اس لیے کہ نماز مومن کے لیے ماں کی آغوش کی مانند ہے جس میں بچہ پناہ لیتا ہے‘ پیار وصول کرتا ہے‘آرام پاتا ہے اور محفوظ ہو جاتا ہے۔روح کی غذا‘دردکادرماں ‘زخم کا مرہم‘ بیما ری سے شفا اور ہردشمن سے پناہ گاہ نماز اور مسجد ہے۔اور اُس سے آج کے اس بے امان وبے سکون دور میں مسلمان عورت کو کسی بھی طور پر محروم نہیں رہنا چا ہیے۔

مسلمان عورت دو راہے پر

آج کی مسلمان عورت کو تہذیبوں کے تصادم کے اس وحشت ناک اور پُر آلام دور میں اپنے ایمان کو بھی بچانا ہے اور اپنی نئی نسل کو بھی بچا کر عروج کی راہ دکھا نی ہے۔اُ سے دو متصادم تہذیبوں سے واسطہ پڑا ہے۔ایک مغربی تہذیب جو اپنی تمام تر چکا چوند اور فریب کاریوں سے اُس پر چاروں طرف سے یلغار کیے ہوئے ہے اور دو سرے اسلامی تہذیب سے وہ وابستگی ہے جو اس کی فطرت کے قریب تر اور اس کے ماحول سے موافق ہے۔

بد قسمتی سے پو رے کرۂ ارض پر ماڈل اسلامی ریا ست موجود نہیں ہے اور روا یتی و جا ہلی معا شروں میں مسلمان عورت دو ہرے بوجھ اور ظلم کا شکار ہے۔آج بھی وہ جنس بے مایہ کی طرح بیچ دی جا تی ہے اور بے عزت ہو کر کاری کر دی جا تی ہے۔آج بھی غیرت کے نام پر اس کی چتا جلا ڈالی جاتی ہے اور قرآن کے مقدس اوراق سے اس کی شا دی کر کے اُس کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیا جا تا ہے۔آج بھی بیوہ ہو کر اسے روزستی ہو نے پر مجبور کیا جاتا ہے اور آج بھی وہ تعلیم ‘ صحت اور خوراک جیسے بنیا دی انسانی حقوق سے محروم نظر آتی ہے۔

اور دو سری طرف

مغرب سے تحفے میں ملی نام نہاد آزا دی ‘مساوات‘ معا شی تر قی اورWomen empowermentکے نام پر فریب اور دھوکہ کا شکار ہو کر تنہائی کے عذاب کا شکار ہو نے جا رہی ہے۔اُسے حقوق کو چھین لینے کی روش پر ڈال محبتوں اور حفاظتوں کے اُس حصار سے بھی محروم کیا جا رہا ہے جو اُسے اُ س کے عزیز ترین رشتے اور مسلمان معا شرہ فراہم کر تا ہے۔آج کی مسلمان عورت پر یہ بھا ری ذمہ دا ری عا ئد ہو تی ہے کہ وہ دنیا کی مظلوم عورت کو کائنات کے خوبصورت ترین نظام سے آشنا کرا دے‘ اسے اسلام کے نظام رحمت کے سا یہءِ عا طفت میں واپس لوٹا دے۔اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مر ضی کے مطابق‘ معیار مطلوب کے مطابق انسا نی تر بیت کاکام اُس وقت تک نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اسلامی معا شرے کے قیام کی بر کات سے مستفید ہوا جا سکتا ہے جب تک کہ مسلم خوا تین اس انقلاب کو برپا کر نے میں تن‘ من‘ دھن سے وہ کردار ادا نہ کریں جو کل ہما ری ماؤں نے حضرت خدیجہؓ ‘ حضرت عائشہ اور حضرت فا طمہؓ نے ادا کیا تھا اور جب تک ہم اِن صحابیات کواپنا رول ماڈل نہیں بنائیں گی تب تک مسلمانوں کی ذلت کا دور عروج کے دور میں نہیں بدل سکتا۔اسی لیے تو علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمان عورت سے کہا ہے کہ

زشام مابروں آورسحررا

زقرآں باز خواں اہل نظر را

نمے دانی کہ از سوز قرأت تو

دگر گوں کردتقد یر عمررا

میری اُمت کی اس تاریک رات سے سییدۂ سحر کی خوش خبری سنا دو۔پھر سے اہلِ بصیرت کو قرآن کی دعوت سے آشنا کرادو۔کیا تجھے نہیں معلوم کہ یہ تیری قرأت کا سوز ہی تو تھا جس نے حضرت عمرؓ کی تقدیر ہی بدل دی۔حضرت عمرؓ بھی نعوذ باللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادے سے نکلے تھے کہ را ستے میں کسی نے کہا کہ پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو۔وہ بہن کے گھر آئے تو وہ قرآن سیکھ رہی تھیں ۔حضرت عمرؓ نے انھیں پہلے خوب مارا اور پھر جب ان کے خون کو دیکھ کر ان کی مر دا نگی نے غیرت کھائی اور اُن کا دل نرم پڑا تو کہا کہ اچھا مجھے بھی سناؤ جو تم سن رہی تھیں۔بہن نے کہا کہ نہیں آپ پہلے نہا کر پاک ہو جائیں پھر آپ کو سناؤں گی اور یہ قرآن ایسی چیز ہے کہ اب یہ کسی کے ما رنے پیٹنے سے دل سے نہیں نکلے گا۔بہن کے اِس عزم وثبات اور مضبوط ارادے نے حضرت عمرؓ جیسے قوی ارادے والے شخص کو تبدیل کر دیا اور وہ جا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایمان لے آئے۔

علامہ اقبال نے پاکستان اور ملت اسلامیہ کی عورت کے با رے میں جو تصور پیش کیا تھا اور پاکستان کے سب طبقات اِس با رے میں بالکل یکسو ہیں کہ پاکستان کو علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کے مطابق تعمیرکریں گے۔وہ یہی تھا کہ یہاں کی مسلمان عورت اپنی آنے والی نسلوں کو قرآن کے پیغام حیات سے آشنا کرا دے۔پچھلی کچھ صدیوں سے جو مسلمانوں نے غفلت روا رکھی اب اُسے چھوڑ کر عملی کش مکش اور جدو جہد کے میدان میں قدم بڑھا نے ہیں۔قرآن کریم کو اپنی آنے والی نسلوں کی گھٹی میں ڈال دینا ہے تا کہ دشمن قوتیں کسی بھی طرف سے اُن پر حملہ آور ہوں‘ اُن کے نصاب تعلیم اور ذرائع ابلاغ اور ان کے تہذیبی تشخص پر کتنی ہی یلغار کیوں نہ ہو۔ ان کے قلب سے ایمان وقرآن کی رُوح کو کوئی کھرچ نہ سکے۔ایک جگہ علامہ اقبالؒ ہمیں ایک اور زندہ حقیقت سے بھی آشنا کرا تے ہیں جو آج کی مسلمان عورت کے لیے بہت بڑا سبق ہے کہ

نے پردہ‘ نہ تعلیم نئی ہو کہ پرانی

آزا دیء نسواں کا نگہبان ہے فقط مرد

جس قوم نے اِس زندہ حقیقت کو نہ پایا

اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

کہ مرد اور عورت اس کائنات کی اکائی ہیں ۔وہ ایک دو سرے کی معا ونت سے ایک دو سرے کی تکمیل کر تے ہیں اور اِن دو صنفوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل لا کھڑا کر نا انسا نیت کے ساتھ ساتھ اِن دونوں پر بھی ظلم ہے ۔نہ عورت مرد کے بغیر کچھ کر سکتی ہے اور نہ مرد ہی عورت کی رفاقت اور معا ونت کے بغیر کچھ کر سکتا ہے‘ چا ہے وہ انفرا دی معاملات ہوں یا اقوام کے اجتما عی معاملات ۔مسلمان عورت کو وہ تمام حقوق از خود ہی حاصل ہوجاتے ہیں جب وہ اپنے فرائض کی بجا آوری میں دل وجان سے لگ جا تی ہے جو اُس کی فطرت کا تقاضا بھی ہے۔

اورہم جب اِن راہوں کی تلاش کا اِ را دہ کر لیں تو قرآن ہمیں کہتا ہے کہ

ومن جا ھدوا فینا لنھدینھم سبلنا(القرآن)

تر جمہ:’’اور جو ہما رے را ستے میں کوشش کر تا ہے پھر راستے ہم خود اُس کو بتا تے ہیں۔‘‘

اور پھر فرمایا

فاذاعزمت فتو کل علی اللہ(القرآن)

تر جمہ:’’اور جب تم کسی کام کا پختہ ارادہ کر لو تواللہ پر بھروسہ رکھو۔‘‘

اللہ پر بھروسے ہی سے دنیا و آخرت کے کام سنورتے ہیں ۔اتنی بڑی طاقتوں کے آگے ہم تو کچھ نہیں بیچتے مگر ہمارا رب سب سے بڑی طاقت ہے۔ ہم اُ سی کے سہا رے اتنے بڑے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ہمت کرتے ہیں اور توکل با للہ کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپنے قوت بازو کی بجائے اپنے رب کی نصرت اور امداد پر ہی نگاہ ہو۔اور مسلمان عو رت ہی یہ سا رے کام کر سکتی ہے کیونکہ اُس کے زندگی کے موسم پر کبھی مایوسی کی خزاں نہیں آتی ۔اُس کا ایمان ہر دم جواں‘ اُس کے ارادے ہر دم پختہ اور اُس کا عزم ہر دم رواں دواں رہتا ہے۔یہاں تک کہ اس دنیا میں اُس کے رب کا نظام غالب ہو جائے اور آخرت میں وہ رضا ئے الٰہی سے سر فراز ہوجائے.