March 28th, 2024 (1445رمضان19)

بیوقوف مچھیرا

ایک مچھیرا تھا۔ وہ صرف مچھلی کا شکار کرتا اور باقی وقت گھر پر گزارتا۔ قناعت کا یہ عالم کہ جب تک پہلی شکار کی ہوئی مچھلی ختم نہ ہو دوبارہ شکار پر نہ جاتا۔ ایک دن مچھیرے کی بیوی مچھلی کو کاٹ رہی تھی کہ اس نے ایک حیرت ناک منظر دیکھا۔ حیرت نے تو اس کو دھنک کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک چمکتا دمکتا موتی مچھلی کے پیٹ میں۔ سبحان اللہ۔
سرتاج، سرتاج، آؤ دیکھو تو،  مجھے کیا ملا۔
کیا ملا ہے؟ بتاؤ تو سہی۔ یہ دیکھو اتنا خوبصورت موتی، کدھر سے ملا ہے۔ مچھلی کے پیٹ سے۔
لاؤ مجھے دو میری پیاری بیوی لگتا ہے آج ہماری خوش قسمتی ہے، جو اس کو بیچ کر مچھلی کے علاوہ کچھ اور کھانا کھانے کو ملے گا۔
مچھیرے نے بیوی سے موتی لیا اور محلّے کے سنار کے پاس پہنچا ہمیں مچھلی کے پیٹ سے موتی ملا ہے۔ دو مجھے میں دیکھتا ہوں اسے۔ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ یہ تو بہت عظیم الشان ہے میرے پاس تو ایسی قیمتی چیز خریدنے کی استطاعت نہیں ہے۔ چاہے اپناگھر، دکان اور سارا مال و اسباب ہی کیوں نہ بیچ ڈالوں۔ اس موتی کی قیمت پھر بھی ادا نہیں کرسکتا میں۔ تم ایسا کرو ساتھ والے شہرکے سب سے بڑے والے سنار کے پاس چلے جاؤ، ہوسکتا ہے وہ اس کی قیمت ادا کر سکے، جاؤ اللہ تیرا حامی و ناصر ہو۔ مچھیرا موتی لے کر ساتھ والے شہر کے سب سے امیر سنار کے پاس پہنچا اور اسے سارا قصّہ کہہ سنایا، مجھے بھی تو دکھاؤ، مینں دیکھتا ہوں ایسی کیا خاص چیز مل گئی ہے تمہیں۔  اللہ، پروردگار کی قسم ہے بھائی، میرے پاس اس کو خریدنے کی حیثیت نہیں ہے لیکن میرے پاس اس کا ایک حل ہے، تم شہر کے والی کے پاس چلے جاؤ۔ لگتا ہے ایسا موتی خریدنے کی اس کے پاس ضرور حیثیت ہوگی۔ مدد کرنے کا شکریہ میں چلتا ہوں والی شہر کے پاس۔ اور اب شہر والی کے دروازے پر، ہمارا یہ مچھیرا دوست ٹھہرا ہوا ہے، اپنی قیمتی متاع کے ساتھ ۔
محل میں داخلے کی اجازت کا منتظر اور اب شہر والی کے دربار میں اس کے سامنے۔ میرے آقا یہ ہے میرا قصّہ، اور یہ رہا وہ موتی جو مجھے مچھلی کے پیٹ سے ملا۔ اللہ اللہ ،کیا چیز ملی ہے کیا چیز ملی ہے تہمیں، میں توگویا ایسی چیز دیکھنے کی حسرت میں ہی تھا۔ لیکن کیسے اسکی قیمت کا شمار کروں۔ ایک حل ہے میرے پاس تم میرے خزانے میں چلے جاؤ۔ ادھر تمہیں 6 گھنٹے گزارنے کی اجازت ہوگی ۔
جس قدرمال ومتاع لے سکتے ہو لے لینا، شاید اس طرح موتی کی کچھ قیمت مجھ سے ادا ہوپائے گی۔ آقا 6 گھنٹے!مجھ جیسے مفلوک الحال مچھیرے کے لیے تو 2 گھنٹے بھی کافی ہیں۔ نہیں 6 گھنٹے جو چاہو اس دوران خزانے سے لے سکتے ہو، اجازت ہے تمہیں۔ ہمارا یہ مچھیرا دوست والی شہر کے خزانے میں داخل ہو کر دنگ ہی رہ گیا، بہٹ بڑا اور بہت عظیم الشان ہال کمرا، سلیقے سے تین اقسام اور حصّوں میں بٹا ہوا، ایک قسم ہیرے، جواہرات اور سونے کے زیورات سے بھری ہوئی ہے۔
ایک قسم ریشمی پردوں سے مزّین اور نرم و نازک راحت بخش مخملیں بستروں سے آراستہ اور آخری قسم کے کھانے پینے کی ہر اُس شے سے آراستہ جس کو دیکھ کر منہ میں پانی آجائے۔ مچھیرے نے اپنے آپ سے کہا، 6 گھنٹے؟ مجھ جیسے غریب مچھیرے کے لیے تو بہت ہی زیادہ مہلت ہے یہ۔ کیا کروں  گا میں ان 6 گھنٹوں میں آخر؟ خیر!کیوں نہ ابتداء کھانے پینے سے کی جائے آج تو پیٹ بھر کر کھاؤ گا، ایسے کھانے تو پہلے کبھی دیکھے بھی نہیں اور اس طرح مجھے ایسی توانائی بھی ملی گی۔
جو ہیرے، جواہرات اور زیور سمیٹنے میں مدد دے اور جناب ہمارا یہ مچھیرا دوست خزانے کی تیسری قسم میں داخل ہوا اور ادھر اس نے والی شہر کی عطاء کردہ مہلت میں سے دو گھنٹے گزار دئیے اور وہ بھی محض کھاتے، کھاتے، کھاتے۔ اس قسم سے نکل کر ہیرے جواہرات کی طرف جاتے ہوئے، اس کی نظر مخملیں بستروں پر پڑی، اس نے اپنے آپ سے کہا۔ آج تو پیٹ بھر کر کھایا ہے۔ کیا بگڑ جائے گا اگر تھوڑا آرام کر لیا جائے تو، اس طرح مال ومتاع جمع کرنے میں بھی مزا آئے گا  ایسے پر تعیش بستروں پر سونے کا موقع بھی تو بار بار نہیں ملے گا، اور موقع کیوں گنوایا جائے، مچھیرے نے بستر پر سر رکھا اور بس پھر وہ گہری سے گہری نیند میں ڈوبتا چلا گیا۔ اُٹھ اُٹھ اے احمق مچھیرے، تجھے دی ہوئی مہلت ختم ہوچکی ہے ہائے وہ کیسے؟ جی، تو نے ٹھیک سنا ہے نکل ادھر سے باہر کو۔ مجھ پر مہربانی کرو، مجھے کافی وقت نہیں ملا تھوڑی مہلت اور دو.....آہ......آہ تجھے اس خزانے میں آئے 6 گھنٹے گزر چکے ہیں۔ اور تو اپنی غفلت سے اب جاگنا چاہتا ہے، اور ہیرے جواہرات اکھٹے کرنا چاہتا ہے کیا؟
تجھے تو یہ سارا خزانہ سمیٹ لینے کے لیے کافی وقت دیا گیا تھا۔ تا کہ ادھرسے باہر نکل کر جاتا تو ایسا بلکہ اس سے بہتر خرید پاتا اور اس جیسے بلکہ اس سے بھی بہتر آسائش والے بستر بنواتا لیکن تو احمق نکلا کہ غفلت میں پڑ گیا۔ تو نے اس کنویں کو ہی سب کچھ جان لیا جس میں رہتا تھا۔ باہر نکل کر سمندروں کی وسعت دیکھنا تُو نے گوارہ ہی نہ کی۔ نکالو باہر اس کو۔ نہیں.....نہیں......
مجھے ایک مہلت اور دو، مجھ پر رحم کھاؤ(یہ قصّہ تو ادھر ختم ہوگیا ہے) لیکن عبرت حاصل کرنے والی بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اس قیمتی موتی کو پہچانا ہے آپ لوگوں نے؟ وہ تمہاری روح ہے اے ابن آدم، اے ضعیف مخلوق! یہ ایسی قیمتی چیز ہے جو کہ قیمت کا ادراک بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اچھا، اس خزانے کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ کیا چیز ہے۔ اس کی عظمت کو دیکھ دیکھ کر اس کے حصول کے لیے ہم کیسے مگن ہیں؟
اس خزانے میں رکھے گئے ہیرے جواہرات.........!!!وہ تیرے اعمال صالحہ ہے اور وہ پر تعیش و پر آسائش بستر، وہ تیری غفلت ہے، اور وہ کھانا پینا وہ شہوت ہے اور اب اے مچھلی کا شکار کرنے والے دوست ....اب بھی وقت ہے کہ نیندِ غفلت سے جاگ جا اور چھوڑ دے اور آرام دہ بستر کو ......اور جمع کرنا شروع کردے ان ہیروں اور جواہرات کو جو کہ تیری دسترس میں بھی ہے، اس سے قبل تجھ کو دی گئ 6 گھنٹوں کی مہلت ختم ہوجائے۔ تجھے محض حسرت رہ جائے گی۔ خزانے پر مامور سپاہیوں نے تو تجھے ذرا سی بھی اور زیادہ فرصت نہیں دینی، اور تجھے ان نعمتوں سے باہر نکال دینا ہے جس میں تو رہ رہا ہے۔