April 20th, 2024 (1445شوال11)

مور کی آخری آہ

سلطان محمد فاتح کو دنیا عظیم مسلمان سپہ سالار کی حیثیت سے جانتی ہے۔ جس نے اندلس کی سرزمین فتح کرکے حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بشارت کو پورا کر دیا تھا۔ لیکن اسی سلطان کے بیٹے سلطان بایزید ثانی نے اپنے باپ کے فتح کیے ہوئے کچھ یورپی علاقے بھی عیسائیوں کے حوالے کر دیے۔جزیرہ نماے اندلس میں مسلمان خانہ جنگیوں میں الجھ کر رہ گئے۔ عیسائیوں نے اندلس میںآہستہ آہستہ مختلف علاقوں پر قبضہ کرتے کرتے انہیں غرناطہ تک محدود کر دیا۔
اس وقت غرناطہ میں سلطان ابوالحسن کی حکمرانی تھی۔ اس بادشاہ کی بے مثال صلاحیتوں پر عوام الناس کو مکمل بھروسا تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ مسلمانوں کا نجات دہندہ آچکا ہے۔ عیسائیوں نے اس کے بھائی محمد بن سعد الزغل (جو کہ مالقہ کا حکمران تھا) کو آپس میں لڑانے کی کوشش کی۔ لیکن محمد بن سعد نے غرناطہ پہنچ کر بھائی کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس بیعت سے دشمنوں کو سخت ہزیمت ہوئی۔ اب سارے مسلمان جزیرہ نماے اندلس سے جمع ہو کر غرناطہ جمع ہونا شروع ہوگئے۔ وہ سلطان ابوالحسن کی قیادت میں اپنی گزشتہ غلطیوں کی تلافی کرنا چاہتے تھے۔
عیسائی بادشاہ فرڈی ننڈ نے زبردست جنگی تیاریوں کے بعد ابوالحسن کو خط لکھا کہ اگر خےر چاہتے ہو تو بلا توقف ہمیں دیے جانے والے خراج کی مقدار کی اطلاع دو۔ کہتے ہیں کہ اس وقت اگر ابوالحسن کی جگہ کوئی اور مسلم حکمران ہوتا تو وہ اس حالت میں فرڈی ننڈ کے اس مطالبے کو بلا چوں چرا مان لیتا۔ لیکن اس مرد مجاہد نے منہ توڑ جواب دیتے ہوئے کہا۔
”غرناطہ کی ٹکسال مےں اب خراج کے سکے ڈھالنے کے بجائے فولاد کی ایسی تلواریں تیار ہوتی ہیں جو دشمنوں کی گردنیں اڑا سکیں۔“ اس جواب نے بادشاہ اور اس کی ملکہ کو مبہوت کر دیا تھا۔
بادشاہ فرڈی ننڈ اور اس کی ملکہ ازابیلا کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ ہوا یوں کہ اسپین کی دو ریاستیں قستالیہ اور ارغون عیسائی ریاستیں تھیں۔ یہ ریاستیں آپس میں لڑتی رہتی تھی۔ ان دونوں ریاستوں میں بالترتیب ملکہ ازابیلا اور فرڈی ننڈ حکمران ہوئے۔ یہ دونوں حکمران مسلمانوں سے سخت تعصب رکھتے تھے۔ اس تعصب نے ایک غضب کا کام کردیا۔ ملکہ ازابیلا اور فرڈی ننڈ نے آپس میں شادی کرلی۔ دونوں سلطنتیں ایک ہو گئیں اور انہوں نے قسم کھائی کہ جزیرہ نماے اندلس سے اسلامی سلطنت کا نام و نشان مٹانا چاہیے۔
۷۲ جمادی الاول ۷۸۸ھ کو ابوالحسن…. فرڈی ننڈ اور ازابیلا کے درمیان ایک زبردست جنگ ہوئی جس میں عیسائیوں کو مسلمانوں نے شکست سے دوچار کیا۔ لیکن عین اس تاریخی لمحے میں جب لوشہ کے میدان میں سلطان ابوالحسن جیسا جری سپاہی دشمن کو شکست دے کر میدان چھوڑنے پر مجبور کررہا تھا۔ وہیں سلطان کا غدار بیٹا اپنے باپ کے خلاف سازشوں کے جال بننے میں مصروف تھا۔
ابوعبداﷲ مسلمانوں کی تاریخ کا ایک ایسا داغ ہے۔ جس نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا اور آج تک غرناطہ کی مسجد اذان کی آواز سے محروم ہے۔ ابوعبداﷲ نے غرناطہ پر اس وقت قبضہ کر لیا۔ جب مسلمانوں کی فوج عیسائیوں کو شکست دے کر ابھی میدان سے نکلے ہی نہ تھے۔ دوسری جانب ابوالحسن نے ہمت نہ ہاری اور دشمنوں کو ناکوں چنے چبوانے شروع کردیے تھے۔ اشبیلہ شہر کو بھی ابوالحسن نے فتح کیا اور اب مالقہ کے حکمرانوں سے دو دو ہاتھ کرنے جارہا تھا کہ ابوعبداﷲ اپنا لشکر لے کر مالقہ پر قبضہ کرنے باپ سے پہلے پہنچ گیا۔ یہاں دونوں باپ بیٹوں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ ابوعبداﷲ کو ذلت آمیز شکست اٹھانی پڑی۔ یہاں سے ابوعبداﷲ بھاگ کر غرناطہ پہنچا اور کچھ عرصہ بعد ایک عیسائی ریاست پر حملہ کردیا۔ قسمت نے اس کا ساتھ نہیں دیا اور اسے عیسائیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ابوعبداﷲ فرڈی ننڈ کے پاس قیدی کی صورت میں پہنچ گیا۔ بادشاہ فرڈی ننڈ نے ابوالحسن کے بعد اس کے بھائی سلطان الزغل کو شکست دینے کی کوشش کی لیکن اسے ہر بار شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
اب بادشاہ کو یقین ہو گیا کہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں شکست دینا ممکن نہیں۔ اس لیے فرڈی ننڈ اور ملکہ ازبیلا نے ابوعبداﷲ کو استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا جو کہ اقتدار کا بھوکا تھا۔
٭….٭
بادشاہ فرڈی ننڈ نے ابوعبداﷲ کو قید سے نکال کر اعزاز و اکرام سے نوازا اور اسے اپنی مجلسوں میں شریک کروانے لگا۔ ایک دن فرڈی ننڈنے باتوں باتوں میں ابوعبداﷲ کو کہا:” سلطنت غرناطہ کے اصل وارث تم ہو۔ تمہارے چچا الزغل کا اس پر قبضہ سراسر ناجائز ہے۔ اگر تمہیں اپنا حق لینے میں کسی قسم کی مدد کی ضرورت پیش آئے تو ہمارے وسائل آپ کے لیے حاضر ہیں۔ دراصل ہم چاہتے ہیں کہ ہم میں اور ہمسایہ مسلم سلطنت میں ہمیشہ خوش گوار تعلقات قائم رہیں۔ کبھی بدامنی یا بدمزدگی نہ ہو۔ غرناطہ کا موجودہ حکمران کہنے کو تو مسلمان ہے مگر معاف کرنا یہ دراصل مسلمانوں کو بدنام کررہا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی ہمدردی نہیں البتہ جس قدر علاقہ اور عوام تمہارے قبضے میں آجائیں۔ ان سے ہم دوستانہ تعاون کرتے رہیں گے اور کسی قسم کا نقصان ہماری طرف سے انہیں نہ پہنچے گا۔“
فرڈی ننڈ کی جانب سے پیغام مل جانے کے بعد ابوعبداﷲ نے مسلمانوں کے بچے کھچے علاقوںپر قبضہ کرنا شروع کردیا۔ عوام کی ایک بڑی تعداد نے ابوعبداللہ کا ساتھ دیا۔ آپس کی نااتفاقی۔ غلط حکمران کے ہاتھ پر بیعت۔ ایسے معاملات تھے۔ جنہوں نے اہل اندلس کو غارت کردیا۔
ابوعبداﷲ کے چچا الزغل ایک آخری امید تھے آخر کار وہ امید بھی ختم ہوگئی۔ کہتے ہیں کہ جس وقت اہل غرناطہ پر زمین تنگ ہو کر سکڑ رہی تھی۔ ابو عبداﷲ الحمراءکے بالاخانوں میں مصاحبوں اور مشیروں کے ساتھ اپنے چچا سلطان الزغل کی تباہی اور بربادی کا حال سن سن کر خوش ہورہا تھا۔
اچانک اسے فرڈی ننڈ کا خط پہنچا۔ ”تمہارے چچا سلطان الزغل نے اپنا سارا ملک میرے حوالے کردیا ہے لہٰذا اب تم بھی غرناطہ اور قصر الحمراءمیرے حوالے کردو۔“ کئی معرکوں اور مذاکرات کے بعد ابوعبداﷲ شہر کی چابیاں فرڈی ننڈ کو دینے پر تیار ہوگیا۔ اس کے بدلے اسے محفوظ راستہ دیا گیا تاکہ وہ جزیرہ نماے اندلس سے نکل سکے۔ الحمراءکے ٹاور پر صلیب لٹکا دی گئی اور عیسائی مقدس مریم کی شان میں نغمے گانے لگے۔ غرناطہ کے گھروں کے دروازے بند تھے۔ لیکن وہ گریہ وآہ وزاری سے نڈھال تھے۔ شہر پر وحشت کا سماں تھا۔ جو دلوں کو چھلنی کررہا تھا۔
غرناطہ سے نکلنے کے بعد قریبی پہاڑی کی ایک چوٹی پر پہنچ کر ابوعبداللہ نے غرناطہ کی طرف دیکھا۔ اس شہر کو اس نے اپنی ہوس اقتدار کے باعث کمزور کرکے دشمن کے حوالے کر دیا تھا۔ ابو عبداﷲ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ اس کی ماں نے جب اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو غصے اور نفرت سے کہا۔
”جس چیز کی تم مردوں کی طرح حفاظت نہ کرسکے۔ اس کے چھن جانے پر عورتوں کی طرح آنسو بہانے کا کیا فائدہ؟“
اس مقام کو جہاں ابوعبداللہ کی سرد آہ نکلی تھی۔ بے چارگی اور شکست کی علامت کے طور پر” مور کی آخری آہ“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مور عمومی معنوں میں اسپین کے مسلمانوں کے لیے بولا جاتا ہے۔
مسلمانوں کی تاریخ جہاں نہایت شان دار ہے۔ وہیں اقتدار پرست حکمرانوں کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ کیا ہم نے سقوط غرناطہ ، سقوط بغداد اور سقوط مشرقی پاکستان سے کچھ سیکھا۔ آپ ہی بتائیے؟

بشکریہ ماہ نامہ ساتھی