April 25th, 2024 (1445شوال16)

رمضان میں بے قیدی


مجھے بتائیے یہ کیا ماجرا ہے کہ رمضان بھر میں تقریباََ ۳۶۰ گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب آپ فارغ ہوتے ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہی کو کافور ہاجاتے ہیں؟ ہندو اپنے تہواروں میں جو کچھ کرتے ہیں وہی سب آپ عید کے زمانے میں کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ شہروں میں تو عید کے روز بدکاری اور شراب نوشی اور قمار بازی تک ہوتی ہے۔ اور بعض ظالم تو میں نے ایسے دیکھے ہیں جو رمضان کے زمانے میں دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں۔ عام مسلمان خدا کے فضل سے اس بگڑے ہوئے تو نہیں ہیں، گر رمضان ختم ہونے کے بعد آپ میں سے کتنے ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقویٰ اور پرہیز گاری کا کوئی اثر باقی رہ جاتا ہو؟ خدا کے قوانین کی خلاف ورزی میں کون سے کسر اُٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ لیا جاتا ہے اور نفسیات میں کیا کمی آجاتی ہے؟

عبادت کے غلط تصور کا نتیجہ

سوچیے اور گور کیجیے کہ اس کی وجہ آخر کیا ہے؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں؟ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ کے ذہن میں عبادت کا مفہوم اور مطلب ہی غلط ہوگیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لیے روزے کی تو آپ پوری حفاظت کرتے ہیں۔ خدا کا خوف آپ کے دل میں اس قدر ہوتا ہے کہ جس چیز میں روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا اندیشہ بھی ہوا اس سے بھی آپ بچتے ہیں۔اگر جان پر بھی بن جائے تب بھی آپ کو روزہ توڑنے میں تامّل ہوتا ہے۔ لیکن آپ یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاس رہنا اصل عبادت نہیں بلکہ عبادت کی سورت ہے اور یہ صورت مقرر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ آپ کے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو اور آپ کے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اُس سے اپنے نفس پر جبر کرکے بچ سکیں اور جس چیز میں ہر طرح کے خطرات اور نقصانات ہوں مگرخدا اس سے خوش ہوتا ہو، اس پر آپ اپنے نفس کو مجبور کرکے آمادہ کرسکیں۔

یہ طاقت اسی طرح پیدا ہوسکتی تھی کہا آپ روزے کے مقصد کو سمجھتے اور مہینہ بھر تک آپ نے خدا کے خوف اور خدا کی محبت میں اپنے نفس کو خواہشات سے روکنے اور خدا کی رضا کے مطابق چلانے کی جو مشق کی ہے اس سے کام لیتے۔ مگر آپ تو رمضان کے بعد ہی اس مشق کو اور اُن صفات کو جو اس مشق سے پیدا ہوتی ہیں اس طرح نکال پھینکتے ہیں جیسے کھانے کے بعد کوئی شخص حلق میں اُنگلی ڈال کر قے کردے، بلکہ آپ میں سے بعض لوگ تو روزہ رکھنے کے بعد ہی دن بھر کی پرہیزگاری کو اُگل دیتے ہیں۔ پھر آپ ہی بتائیے کہ رمضان اور اُس کے روزے کوئی طلسم تو نہیں ہیں کہ بس اُن کی ظاہری شکل پوری کردینے سے آپ کو وہ طاقت حاصل ہوجائے جوحقیقت میں روزے سے ہونی چاہیے۔ جس طرح روٹی سے جسمانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ معدے میں جاکر ہضم نہ ہو اور خون بن کر جسم کی رگ رگ میں نہ پہنچ جائے، اُسی طرح روزے سے بھی روحانی طاقت اُس وقت تک حاصل نہیں ہوسکتی جب تک کہ آدمی روزے کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں اور اپنے دل و دماغ کے اندر اس کو اُترنے اور خیال، نیت، ارادے اور عمل سب پر چھا جانے کا موقع نہ دے۔

روزہ،متقی بننے کا ذریعہ

یہی سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا:لعلکم تتقون، یعنی تم پر روزہ فرض کیا جاتا ہے، شاید کہ تم متقی و پرہیزگار بن جاؤ۔ یہ نہیں فرمایا کہ اس سے ضرور متقی و پرہیزگار بن جاؤ۔ اس لیے کہ روزے کا یہ نتیجہ تو آدمی کی سمجھ بوجھ اور اس کے ارادے پر موقوف ہے۔ جو اس کے مقصد کو سمجھے گا اور اس کے ذریعے سے اصل مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تو تھوڑا یا بہت متقی بن جائے گا، مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اُسے حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے گا اُسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی اُمید نہیں۔(خطبات، ص ۱۹۶۔۱۹۸)