April 20th, 2024 (1445شوال11)

صیام شوال، احکام و فضیلت

محمد صالح

ماہ رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ ماہ شوال کے چھ روزوں کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے۔ حدیث ہے: ابو ایوب انصاری سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:’’جس نے رمضان کے چھ روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، اس کو عمر بھر کے روزوں کا ثواب ملے گا۔(مسلم)

شوال کے روزوں کے حکمت:

ماہ شوال کے ان روزوں کی حکمت بیان کرتے ہوئے علامہ ابن رجب حنبلی رقم طراز ہیں:’’رمضان سے پہلے اور رمضان کے بعد سب سے بہتر نفل وہ ہے جو ماہ رمضان کے بلکل قریب ہو، رمضان سے قریب تر ہونے کی وجہ سے انہیں رمضان کے روزوں کے ساتھ ملا دیا گیا، اور انہیں رمضان کے روزوں کے فوراََ بعد ہونے کی وجہ سے فرائض کے پہلے و بعد والی سنتوں کا مقام دیا گیا، لہٰذا افضلیت میں یہ فرائض کے ساتھ ملا دی گئی  اور یہ فرائض کی کمی پوری کرنے والی ہوں گی  اور رمضان سے پہلے اور بعد روزہ رکھنا بھی اسی طرح افضل ہے جس طرح فرض نمازوں کے پہلے و بعد والی سنتیں مطلق نوافل پڑھنے سے بہتر ہیں۔(لطائف المعارج)

تحیک یہی بات شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے حجتہ اللہ البالطہ میں کہی:’’ان چھ روزوں کی مشروعیت کا راز یہ ہے کہ جس طرح نماز کے سنن و نوافل ہوتے ہیں جن سے نماز کا فائدہ مکمل ہوتا ہے، اسی طرح یہ چھ روزے بھی روزوں کے سنن و نوافل کے قائم مقام ہیں۔‘‘

ماہ شوال کی وجہ تخصیص:

رمضان کے بعد چھ روزوں کے لیے ماہ شوال ہی کو کیوں منتخب کیا گیا؟ اس سلسلے میں علامہ عبدالرؤف المناوی فرماتے ہیں:’’ان چھ روزوں کے لیے ماہ شوال کو اس لیے خاص کیا گیا کیونکہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے جس میں لوگ کھانے پینے کی طرف زیادہ راغب رہا کرتے ہیں کیونکہ وہ ابھی ابھی رمضان کے روزوں سے ہوتے ہیں ، لہٰذا جب کھانے کا شوق و خواہش شدت پر ہو اور اس حالت میں روزہ رکھا جائے تو  اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔(فیض القدیر)

اور علامہ ابن التمیم لکھتے ہیں:’’بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ رمضان کے روزوں کے حقوق و واجبات میں کچھ نہ کچھ کوتاہی و کمی ہو ہی جاتی ہے، اس لیے شوال کے چھ روزے مستحب قرار دیے گئے ہیں تاکہ ان کوتاہیوں اور کمیوں کی تلافی ہوسکے گویا کہ یہ روزے فرض نمازوں کے بعد والی سنتوں کے قائم مقام ہیں جو نمازوں میں واقع کمی و کوتاہی کو دور کرنے کے لیے ہوتی ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ماہ شوال ہی کے ساتھ شش عیدی روزوں کی تخصیص کا فائدہ کیا ہے۔(تہذیب سنن ابی داود)

چھ روزوں کی وجہ تخصیص:

شوال کے ان چھ روزوں کی تعداد صرف چھ ہی کیوں ہے؟ اس کی وضاحت حدیث میں آگئی ہے، ملاحظہ ہو یہ حدیظ: ثوہانؓ رسول اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:’’جس نے عید الفطر کے بعد چھ روزے رکھے تو اسے پورے سال کے روزوں کا ثواب ملے گا، جو ایک نیکی کرتا ہے اسے دس نیکیوں ثواب ملتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)

 مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک نیکی دس نیکی کے برابر ہے یعنی ایک روزہ دس روزہ کے برابر ہے، اس لحاظ سے رمضان کے تیس روزوں کے ساتھ  شوال کے چھ روزے ملا لیے جائیں تو کل چھتیس روزے ہوتے ہیں ، پھر ان میں ہر روزہ جب دس روزے کے برابر ہوگا، تو چھتیس روزے تین سو ساٹھ روزوں کے برابر ہوجائیں گے، اور چونکہ ایک سال میں کم و بیش ۳۶۵ دن ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ روزے پورے سال کے روزوں کے برابر ہوئے۔

درج ذیل حدیث میں اسی چیز کی مزید وضاحت ہے:

ثوہان سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: رمضان کے ایک ماہ کا روزہ رکھنے سے دس ماہ کے روزوں کا ثواب ملتا ہے اور (شوال کے) چھ دنوں کا روزہ رکھنے سے دو ماہ کے روزوں کا ثواب ملتا ہے ، اس لحاظ سے رمضان و شوال کے مذکورہ دنون میں روزہ رکھنے سے پورے سال بھر کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔(ابن خزیمہ)

اب اگر ہر سال رمضان کے روزوں کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے شوال کے چھ روزے رکھے جائیں تو ہر سال، پورے سال کے روزوں کا ثواب ملے گا اور اگر یہی سلسلہ عمر بھر رہا تو گویا کہ اس طرح عمر بھر کے روزوں کا ثواب ملے گا۔

روزے رکھنے کا طریقہ:

شوال کے ان چھ روزوں کو عید کے بعد فوراََ رکھ سکتے ہیں اسی طرح بیچ میں اور اخیر میں بھی رکھ سکتے ہیں نیز ان روزوں کو مسلسل بھی رکھ سکتے ہیں اور الگ الگ ناغہ کرکے بھی رکھ سکتے ہیں، کیونکہ حدیث میں کسی بھی قسم کی کوئی تقہید و تعین نہیں آئی ہے۔

پہلے شوال یا رمضان کے فوت شدہ روزے۔۔۔۔؟:

اگر شرعی عذر کی بنا پر کسی شخص کے رمضان کے کچھ روزے چھوٹ گئے تو یہ شخص پہلے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے گا، پھر شوال کے روزے رکھے گا، اس لیے کے شوال کے ان چھ روزوں کی فضیلت جس حدیث میں وارد ہے اس میں یہ صراحت ہے کہ’’جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے اسے ہمیشہ روزہ رکھنے کا ثواب حاصل ہوگا۔‘‘

لیکن اگر کوئی شخص رمضان کے روزوں کی قضا پہلے نہ کرسکے اور مخصوص نفلی روزوں کے وقت نکلنے کا ڈر ہو، اس بنیاد پر وہ پہلے نفلی روزے رکھ لے پھر بعد میں رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضاء کرلے، تو اس کے دونوں روزے صحیح ہوں گے