March 29th, 2024 (1445رمضان19)

آمد سال نو

ڈاکٹر ساجد خاکوانی

سال بھر کی عمرعزیز گویا ایک پگھلتی ہوئی برف کی سل ہے جو ہر ہر لمحے اپنے وجود سے عدم کی طرف گامزن ہے۔ اگرچہ فرد کے سال کا آغاز تو اس کی پیدائش سے ہی ہوجاتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ہر ہر فرد کے لیے الگ الگ کیلنڈر بنانا تو ممکن نہیں پس صدیوں سے انسان نے اپنے اجتماعی نظام کی بارآوری کے لیے ایک سال کی مدت کو اپنا رکھا ہے۔

ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ ’’اے انسان تو کشاں کشاں اپنے رب کی طرف بڑھتا چلا جا رہا ہے‘‘ محسن انسانیت نے فرمایا ’’جس کا آج اس کے گزشتہ کل سے بہتر نہیں وہ تباہ ہوگیا‘‘۔’’سال‘‘ ایک فرد کی انفرادی و ذاتی زندگی کا ایک بہت بڑا دورانیہ ہوتا ہے،ایک سال کے دوران کئی منصوبے، بے شمار ارادے اور کتنے ہی ترتیب دیے ہوئے انسانی قیاسات و اندازے و تخمینے گزر جاتے ہیں، سال کے آخر میں انسان سوچتا ہے کہ ان میں سے کتنے پایہ تکمیل ک پہنچے، کتنے ہنوز زیر تکمیل ہیں اور کتنے ہی ہیں جو محض ہوا میں تحلیل ہو کر آرزوؤں، خواہشات اور امنگوں کی شکل اختیارکر کے وقت کہ دبیز تہہ میں دب کر قبر ماضی میں دفن ہو چکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کی کسک سینے میں رہتی ہے اور کچھ نسیان و فراموشی کی منزل کو پا لیتے ہیں گویا ارادے سے شعور اور شعور سے تحت الشعور اور پھر لاشعور کے راستے انسانی وہم و گمان سے باہر نکل جاتے ہیں۔ پس اس خاص تناظر میں مذکورہ بالا قول رسول کتنا بر موقع ہے کہ اگرچہ ہر دن کے اختتام پر خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ایک خوشگوار عادت ہے لیکن دن کے حجم کو ایک سال کی وسیع تر مدت پر قیاس کیا جائے تو تصویر بہت کچھ واضع ہو جاتی ہے اور انسان اپنا کچھا چٹھا خود سے ملاحظہ کر کے اپنی بڑھوتری یا خسارے کا اندازہ لگا لیتا ہے۔

ایک سال کے اختتام پر اور آئندہ سال کے آغاز پر قرآن مجید نے اپنے ایک خاص انداز سے بہت خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ سال چونکہ زمانے کی ایک اکائی تصورکی جاتی ہے چنانچہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے زمانے کی قسم کھاتے ہوئے انسان کے نقصان کو واضع کیا ہے گویا زمانے کی اس مدت کے گزرنے پر انسان نقصان کا شکار ہوگیا۔ خود قرآن مجید نے انسانی مہلت کو وقت سے تعبیر کیا ہے اور جتنا وقت انسان کو ملا اس میں سے ایک سال گزرنے کا مطلب ہے ایک سال کا نقصان ہوگیا اور وقت کے استعارے کی جو دولت انسان کو میسر آئی تھی اب وہ مزید کمی کا شکار ہوتے ہوئے تنزل پزیر ہے۔ قرآن کا یہ تصور عقل و خرد انسانی سے کتنا قریب تر ہے کہ انسان کے ان تقاضوں اور پیمانوں پر عین پورا اترتا ہے جو خود حضرت انسان نے اپنی کامیابی و ناکامی کے لیے تراش رکھے ہیں۔ طالب علم کو امتحان گاہ میں ایک خاص وقت کے لیے پرچہ تھمایا جاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اعلان کیا جاتا رہتا ہے کہ اب اتنا وقت گزر گیا یا اتنا وقت رہ گیا، وقت کے اسی پیمانے پر طالب علم اپنی کارکردگی کو جانچتا اور تولتا چلا جاتا ہے اور جتنا وقت گزرتا چلا جائے وہ اس کی مدت امتحان سے منہا کرلیا جاتا ہے اور پھر بقیہ وقت میں وہ اپنی کارکردگی کو اس تیزی سے پورا کرتا ہے کہ وقت گزشتہ کے نقصان کو پورا کر سکے۔ اسی طرح فی زمانہ ایک مخصوص مدت کے لیے برسراقتدار آنے والے حکمرانوں کی کارکردگی کو وقت کے پیمانوں سے جانچا اور پرکھا جاتا ہے کہ کتنی مدت گزرگئی اور کتنی کامیابیاں حاصل کر لی گئیں یا نہیں حاصل کی جا سکیں۔ ایک سال کا اختتام اور اگلے سال کی آمد پر قرآن کے اس تبصرے کو امام رازیؒ نے ایک اور مثال سے بھی روشن کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ میں نے اس نقصان کو برف فروش کی صدا سے پہچانا جو بآواز بلند پکارتا چلا جارہا تھا کہ لوگوں میرا سرمایا پگھلتا چلا جارہا ہے، کوئی تو خریدلو۔ ہرمنصوبہ ایک خاص مدت کے لیے مرتب کیا جاتا ہے اور وہ مدت مقصود ہی اس کی کامیابی یا ناکامی کی دلیل ثابت ہوتی ہے۔ ایک سال کا اختتام اگلے سال کا آغاز انسان کو دعوت فکر دیتا ہے کہ کیا کھویا اور کیا پایا؟؟؟ انسان کا مقصد وجود عبادت ہے، پس انسان شعور سے وفات تک عبادت گزار ہی رہتا ہے، کہیں تو ایک ﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو کہیں اپنی خواہشات نفسانی کی عبادت کرتا ہےاور کسی نے دولت،شہرت اور اپنے پیشے کو الہ تصور کرلیاہے اور کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی قوم،رنگ،نسل ،علاقہ اور اپنی زبان کے دیوتا ؤں کی پوجا کرتے چلے جارہے ہیں اور انسانوں کے ہر قبیلے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اقتدارکے بت کا پجاری ہے اور اسے دین فروخت کرنا پڑے ا یااپنے ایمان کا سوداکرنا پڑے یا پھر اپنے ملک و ملت اور قوم کو داؤپر لگاناپڑے وہ کسی بھی قیمت پر اقتدارکے اس بت کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا۔انسان چاہے یا نہ چاہے وہ بہرصورت ایک پجاری کی سی زندگی گزارنے پر مجبور ہے اگرچہ اپنی پجارت و عبادت کووہ کیسے ہی دیگر ناموں سے موسوم کر بیٹھے۔پس جس کسی نے اپنا ایک سال کا سرمایا عظیم ایسی عبادت میں گزاراجس سے اسے نفع ہواتو وہ کامیاب ہے اورجس کی عبادت نے اسے نقصان سے ہمکنارکیااس کاسال اسی طالب علم کی طرح ضائع ہوگیاجو ایک بار پھر گزشتہ جماعت میں بٹھادیاگیا۔کامیابی کے بے شمار پیمانے ہمیشہ سے قبیلہ بنی آدم میں رہے ہیں اور آج بھی ہیں ان کو انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات نے دو ہی حصوں میں تقسیم کیاہے،دنیاکی کامیابی اور آخرت کی کامیابی ۔پس جس نبی علیہ السلام سے منسوب ایک سال کااختتام اور دوسرے کاآغاز ہے انہی کی تعلیمات آخرت ک کامیابی کی طرف بلاتی ہیں۔کیاہی خوبصورت بات ہو کہ جس رب کی طرف انسا کھنچاچلاجارہاہے اس کی طرف خود اپنی مرضی سے بڑھتاچلاجائے اور تمام جھوٹی عبادتوں کو خیرآبادکہتے ہوئے ایک سچی عبادت کواپنی زندگی میں اپنالے۔

روزانہ کی بنیاد پر خود احتسابی، پھر ہفتہ وار خود احتسابی اور پھر ماہانہ بنیادوں پر خود احتسابی کے بعد سال کے اختتام پر دیکھا جائے کہ ہم انفرادی طور پر کہاں ہیں اور بحیثیت قوم اور بحیثیت امت ہم نے کیا حاصل کیا۔ بحیثیت فرد کے موت ہر وقت پیش نظر رہے کیونکہ محسن انسانیت نے مسجد سے نکلتے ہوئے حضرت علیؓ سے پوچھا کتنا زندہ رہنے کی توقع ہے؟؟؟ عرض کیا ایک جوتا تو پہن چکا ہوں دوسرے کی خبر نہیں۔ آپ نے فرمایا تم نے تو بہت لمبی امید باندھ لی اور پھرارشاد فرمایا مجھے کو توآنکھ جھپکنے کی بھی توقع نہیں کہ اتنی مہلت بھی ملے گی کہ نہیں۔ یہ ایک فرد کے لیے تعلیمات ہیں جبکہ کل امت کے لیے اور آنے والی نسلوں کے لیے روم اور ایران کی کنجیاں اور بحرین کے خزانوں کی پیشین گوئیاں فرمائی جا رہی ہیں۔ پس ہمارا سال اس طرح گزرے کہ ایک فرد کی حیثیت سے رخت سفر ہمہ وقت تیار رہے اور مسافر پابہ رکاب رہے لیکن اپنے عقیدہ و ملک و ملت اور آنے والی نسلوں کے لیے اتنی بڑی قربانی کا جذبہ ہو کہ صدیوں تک ان کی بالادستی دنیا پر قائم کرنا پیش نظر ہو۔ نقصان پر خوشیاں منانا اور لہو لعب اور بدمستیوں میں راتیں گزارنا کہیں کی عقلمندی نہیں ہے، ہر نقصان دعوت فکر دیتا ہے اور فکر کے لمحات کو آوارگی کی نظر کرنا بے ہودگی اور واہیاتی کی علامات ہیں۔ ہمارا دشمن ہمیں ہمارے نقصان سے بے خبر رکھ کر ہمیں فتح کرنا چاہتا ہے۔ تین سو سالہ دورغلامی کے دوران انگریز نے اپنی خوبی تو کوئی بھی ہمارے اندر نفوذ پزیر نہیں ہونے دی لیکن اپنی خباثتیں ساری کی ساری چھوڑ گیا اور ایک بہت موثر طبقہ ہمارے درمیان باقی رکھ گیا جو آج تک اسی کا ذہنی غلام ہے اور اسی کی تہذیبی و ثقافتی باقیات سے چمٹا ہے۔ اب وقت نے کروٹ لے لی ہے اور بہت جلد یہ طبقہ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہو گا اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گریں گی،انشاء ﷲ تعالیٰ۔