April 25th, 2024 (1445شوال17)

اعتکاف اور شبِ قدر 

مولانا مفتی محمد شفیعؒ
 (۱): اعتکاف اس کو کہتے ہیں کہ اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہے اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں(جیسے پیشاب، پاخانہ کی ضرورت یا غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائے۔
 (۲): رمضان کا عشرہ اخیر میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفا یہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلّے میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلّے میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔
 (۳): بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں، بلکہ مکروہ ہے، البتہ نیک کلام کرنا اور لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔
 (۴): اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دین کی کتابوں کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
 (۵):جس مسجد میں اعتکاف کیا گیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔
 (۶): اگر بلاضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے تو اعتکاف جاتا رہے گا، کواہ عمداََ نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔
 (۷): اگر آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہو تو ۲۰ تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔ 
 (۸): غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مُعتکف کو جائز نہیں۔
شبِ قدر:
چونکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرما دی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینہ کی عبادت سے بھی زیادہ ہے، لیکن اس کی پوشیدہ رکھا تا  کہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں اور ثواب بے حساب پائیں۔ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں سبِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے یعنی ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷ اور ۲۹ ویں شب میں زیادہ احتمال ہے۔ ان راتوں میں بہت محنت سے عبادت اور توبہ و استغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہو تو جس قدر ہوسکے جاگے اور نفل نماز یا تلاوتِ قرآن یا ذکر و تسبیح میں مشغول رہے اور کچھ نہ ہوسکے تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے، حدیث میں آیا ہے کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہوجاتا ہے، ان راتوں کو صرف جلسوں تقریروں میں صرف کرکے سوجانا بڑی محرومی ہے، تقریریں ہر رات ہوسکتی ہیں، عبادت کا یہ وقت پھر ہاتھ نہ آئے گا۔ 
البتہ جو لوگ رات بھر عبادت میں جاگنے کی ہمت کریں، وہ شروع میں کچھ وعظ سن لیں، پھر نوافل اور دعا میں لگ جائیں تو دُرست ہے