March 19th, 2024 (1445رمضان9)

کبھی راستے میں ٹہر گئے، کبھی منزلوں سے گزر گئے

غزالہ عزیز
علامہ اقبال ؒ نے1921ء میں راولپنڈی سری نگر روڈ کے ذریعے کشمیر کا سفر کیا اس وقت اقبال کی عمر 44سال تھی ۔ اقبال کے اجداد کشمیری تھے ۔ اپنے آباو اجداد کے وطن کی زیارت اقبال کی زبر دست آرزو تھی کئی سال ارادے باندھتے رہے لیکن تکمیل نہ ہو سکی جس کا تذکرہ اقبال کے خطوط میں ملتا ہے ۔ ظفر حسین ظفرکی کتاب ’’وادی گل پوش‘‘ میں ان خطوط اور اس کے مندرجات تحریر ہیں ۔
لاہور سے کشمیر تک کا سفر اس زمانے کے ذرائع آمدو رفت کے لحاظ سے ایک طویل سفر تھا لیکن کشمیر کے دلفریب نظاروں نے اقبال کی ساری تھکن کو ایک طرب انگیز کیفیت میں بدل ڈالا ۔ سفر کشمیر کے دوران ڈل جھیل، شالیمار باغ، نشاط باغ کے سبزا زاروں میں لالہ و گل سے ہم کلامی ساقی نامہ اور ارمغانِ حجاز کی نظموں میں نظر آتی ہے ۔
خاص طور سے یہ2 شعر ڈل جھیل کی سیر کے بعد کہے ۔ جب شکارے پر ڈل جھیل کے شفاف پانی پر سورج کے ڈوبنے کا حسین منظر آپ نے دیکھا ۔

تماشائے ڈل کن کے ہنگام شام
دہد شعلہ دا آشیاں زیرِ آب
بشوید ذتن تاغبارِ سفر
زند غوطہ در آبِ ڈل آفتاب

شام کے وقت ڈل کا تماشا تو کیجیے( کیوں کہ اس وقت) ڈل شعلہ کو پانی کی تہہ میں آشیاں دیتا ہے ۔ بدن سے سفر کی گرد دھو ڈالنے کی غرض سے سورج جھیل ڈل میں غوطہ زن ہوتا ہے)
یہ نظارہ اقبال نے70سال قبل کیا اور اس کا نقشہ کھینچا۔۔۔لیکن اب نہ ڈل اس قدر شفاف ہے کہ سورج کا عکس اس کی تہہ میں اُترا نظر آئے اور نہ کشمیر بہشت بریں کا عکس ہے ۔
اقبال ساقی نامے میں کشمیر کے حسین نظاروں کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہتے ہیں

تو گوئی کہ یزداں بہشت بریں دا
نہاد است در دامن کوہارے
کہ تاد حمتش آدمی زاد گاں دا
ذہا سازو از محنت انتظادے

( یہ قدرتی منظر دیکھ کر)یوں لگتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے بہشت بریں کو نیچے لا کر پہاڑ کے دامن میں رکھ دیا ہے ( یہ مناظر بے حد دل کش اور روح افزا ہیں) تاکہ اس ذات اقدس کی رحمت انسانوں کو انتظارکی محنت اور اذیت سے نجات دلا دے ۔ یعنی اصل بہشت تو قیامت کے بعد ہی ملے گی لیکن خدا کی رحمت نے انسان کے لیے اسے زمین پر رکھ دیا ہے تاکہ وہ ( انسان) یہیں اس میں گھومے پھرے اور زندگی کا لطف اٹھائے ۔
اقبال سے 3سو سال پہلے مغل بادشاہ جہانگیر نے بھی اس جنت نشاں کو دیکھ کر بے ساختہ کہا تھا :

گر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
( اگر زمین پر کوئی بہشت ہے تو وہ یہ ہی ہے ،وہ یہ ہی ہے ، وہ یہ ہی ہے )

جنت نشاں کشمیر آج کس حال میں ہے دنیا اسے دنیا کا حسین ترین قید خانہ قرار دے رہی ہے ۔ جہاں بھارت آزادی کے پروانوں کو نادا اور یوٹا جیسے ظالمانہ اور بے رحمانہ قوانین کا نشانہ بنا رہا ہے ۔ پیلٹ گنوں سے اندھے اور معذور کر رہا ہے۔
ایک طویل عرصے تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ سرینگر کی رہائشی ایک خاتون کی بی بی سی کے نمائندے سے گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے ۔
خاتون کہتی ہیں’’ کرفیو کے دنوں میں ہم کیا کرتے ہیں؟
ہم ایسے دنوں میں اور قریب آ جاتے ہیں ۔ یہ سب ہمارے لیے کوئی نئی بات تو نہیں ہے ۔ ہم ظلم اورمحکومیت کے سائیتلے جینا جانتے ہیں ۔ ہمیں اپنے بھوکوں کو کھانا کھلانا آتا ہے ۔ ہم اپنے زخمیوں کے جسموں اور دلوں پرمرہم لگانا جانتے ہیں ۔ ہمارے بازو اپنے جوان بچوں کی لاشیں اٹھانا جانتے ہیں ۔ ‘‘
ہم پروپیگنڈے کا مطلب بھی جانتے ہیں جب کرفیو اٹھتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حالات بحالی کی جانب بڑھ رہے ہیں کچھ دن خاموشی رہے تو کہتے ہیں کہ کشمیر میں حالات اب معمول پر ہیں ۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم پر امن جلوس آزادی کے لیے نکال سکتے ہیں؟؟ کیا اپنے تعلیمی اداروں میں پلے کارڈ اٹھا کرآزادی کے لیے نعرے لگا سکتے ہیں؟؟ کیا ہم کھلے عام انڈین کو ایک قابض حکومت کہہ کر اس کی فوج کی واپسی کامطالبہ کر سکتے ہیں؟؟ کیا ہم آزادی کے ریفرنڈم میں ووٹ ڈال سکتے ہیں سچ تو یہ ہے کہ ایسا کچھ بھی کرنے نہیں دیا جائے گا۔۔۔اصل میں کرفیو تو 70سال سے کشمیر میں نافذ ہے ۔7 لاکھ بھارتی فوجیں کشمیر میں موجود ہیں ۔
کشمیر کے حل کے لیے اقوام متحدہ میں خود بھارت نے درخواست کی تھی ۔ 5فروری1949ء میں اقوام متحدہ نے اس درخواست کے نتیجے میں استصواب رائے کی قرار اد منظور کی تھی ۔
7عشرے گزر گئے ۔ بھارت نے وعدہ وفا نہ کیا بلکہ کشمیریوں پر ظلم کے ہتھکنڈوں سے قابو پانے کی کوششیں کیں ،کشمیریوں کی کئی نسلیں آزادی کے لیے قربانیاں دیتی چلی گئیں ۔ ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری قتل کیے گئے یا گرفتار کر کے غائب کر دیے گئے ۔ جن کی بیویاں بیوگی کی زندگی گزار رہی ہیں ۔ تازہ ظلم یہ ہے کہ آج کشمیر کی ایک نسل کو پیلٹگنوں کے ذریعے اندھا بنانے کی کوششیں کی گئی ہیں ۔
8جولائی2016ء برہان وانی کو کشمیر کے جنگلات میں شہید کر دیا گیا ۔ اس کے جنازے میں لاکھوں کشمیریوں کی شرکت نے بھارتی حکومت کو بوکھلا دیا ۔ ظلم اور بربریت کا ہر ہتھکنڈا استعمال کیا گیا ۔ لیکن کشمیریوں کے دل میںآزادی کی لو بڑھتی چلی گئی ۔
کشمیری نوجوان بھارت سے آج جتنا بد ظن ہے پچھلے 70سالوں میں کبھی نہ تھا ۔ کشمیری کمزور ہوتے ہیں نہ مایوس ہوتے ہیں انہیں کشمیر کی آزادی پر پورا یقین ہے ۔
افسوس ہے تو پاکستان کے حکمرانوں پر وہ وقت کے ساتھ کمزور سے کمزورکشمیری پالیسی اپناتے چلے گئے ۔ اس پالیسی کے نتیجے میں بھارت نے بارڈر پر سیکڑوں کلو میٹر خار دار باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا ۔ حالانکہ یہ بارڈر اقوام متحدہ کے نزدیک متنازعہ ہے۔ پھر بگلہار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم کے علاوہ کئی ڈیم بنا کر پاکستان کو صحرا بنانے کی تیاریاں کر لیں ۔ اب ایک نیا ارادہ سندھ طاس معاہدہ توڑنے کاکر رہا ہے ۔ اس دوران پاکستانی وزیر اعظم نے مودی سے سوائے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے کچھ نہیں کیا ۔
ان کے لیے کشمیر کی آزادی سے زیادہ بھارت سے دوستی اہم ہے۔