April 26th, 2024 (1445شوال17)

معراج مصطفیﷺ

(مفتی محمد طاہر )

معراج آپ کا امتیاز ہے تمام انبیا ء کو معراج زمین پر اور آپ کو معراج کے لیے آسمانوں پر لے جایا گیا ،جہاں آپ کئی چیزوں کا خود مشاہدہ کیا ۔ جنت، دوزخ ، حوروں کو دیکھا ۔۔۔۔وغیرہ ۔ معراج کب اور کون سے مہینے میں ہوئی اس میں ہمارے علماء اور مؤ ر خین کا زبر دست اختلاف ہے ، لیکن اصح قول اور جسے ہمارے اکابرین نے تسلیم کیا ہے وہ ۲۷ رجب المرجب ہے ۔ آپ نے دین اسلام کی خاطربہت ساری تکالیف برداشت کیں ۔ دراصل ان تکالیف کے برداشت کرنے پر انعام کے طور پر آپ کو معراج عطا کی گئی ، جیسا کہ سورۂ نحل کے اختتام پر صبر کی فضیلت بیان کی گئی اور اللہ نے صابرین اوراہل تقویٰ کے لیے اپنی معیت اور قرب کا وعدہ بھی فرمایا کہ، اللہ متقی اور نیکوکاروں کے ساتھ ہے ۔‘‘ اس لیے سورہ بنی اسرائیل کا آغاز واقعہ معراج سے کیا گیا کہ جو مکہ میں دس سال ہو شر با مصائب پر صبر جمیل کے بعد پیش آیا ۔ گویا مسلسل دس سالہ صبر کے بعد حق تعالیٰ نے ایسی عزت وکرامت سے نوازہ کہ جس نے دس سالہ مصائب اور آلام کو درخواست وسکون سے بدل دیا ۔

اللہ نے آپ کو اسراء ومعراج کی کرامت وعزت سے سرفراز اور ایک رات میں نہیں بلکہ رات کے ایک حصے میں سارے آسمانوں کی سیر کرادی اور بہت بڑی بڑی نشانیوں کا بھی مشاہدہ کروادیا ، اور صبرِ جمیل پر جس معیت سراپا خیر و برکت کا وعدہ فرمایا گیا تھا ، پورا کر دکھایا، اور اس خلافِ عادت واقعے کو آپ کی نبوت ورسالت کی دلیل فرمایا ۔ درحقیقت اللہ نے مسجدِ حرام اور مسجدِ اقصیٰ کی سیر کراکے اہل مکہ کو متنبہ کیا کہ اب عن قریب دونوں مساجد کی ولایت رسولِ خدا اور اس کے اصحاب کی جانب منتقل ہونے والی ہے جسے اہل مکہ اُس وقت تو سمجھ نہ سکے بلکہ مذاق اڑایا اور جادو گر کہا ۔ لیکن ہوا وہی جو اللہ کو کرنا تھا ۔ دراصل یہ معراج اس وقت کا ایفاء ہے جو گزشتہ سورۃ کے آخر میں اللہ کی جانب سے کیا گیا تھا ۔

معراج روحانی تھی یا جسمانی :

اس معراج کے واقعے کے مشاہدات آخر میں تحریر کرتا ہوں ، پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ معراج جسمانی تھی یعنی آپ جسم سمیت آسمانوں پر گئے یا روحانی اور خواب میں معراج ہوئی ؟ معراج جسمانی تھی ۔ پہلی دلیل کہ سورہ بنی اسرائیل کا آغاز ہی سمجھ دار کے لیے کافی ہے کہ اللہ نے اس سورۃ کا آغاز کا لفظ ’’سبحان ‘‘سے فرمایا جس کا مقصد ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے بندے کو آسمانوں کی رات کے ایک حصے میں سیر کرائی ہے وہ اسباب وغیرہ کا محتاج نہیں ، وہ ان چیز وں سے پاک ہے ۔ اور جب وہ اسباب وغیرہ کا محتاج نہیں تو اس کے لیے اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں آسمان پر لے جانا ‘ لے آنا کون سی بڑی بات ہے ! اس سورہ میں اللہ رب العزت نے واقعہ معراج انتہائی اختصار کے ساتھ بیان فرمایا ہے ، اس سے زیادہ تفصیل سورۂ نجم میں ہے یعنی جس قدر اللہ نے جہاں مناسب سمجھا بیان فرمادیا ۔ لیکن اس اختیار سے آگے آنے والی تفصیل کا انکار لازم نہیں آتا ۔ اُس وقت چوں کہ مساجد فقط دوہی تھیں زمین پر ایک مسجد اقصیٰ اور دوسری مسجدِ حرام ۔ علماء کی اصطلاح میں مسجد حرام سے مسجدِ اقصی تک کی سیر اسری اور وہاں سے آسمانوں اور سدرۃالمنتہیٰ کی سیر کو معراج کہتے ہیں ۔ اور کبھی دونوں کو اسریٰ اور دونوں کو معراج بھی کہا جاتا ہے ۔ دوسری دلیل کہ معراج جسمانی تھی وہ یہ کہ اللہ نے قرآن میں ’’ اسریٰ بعبدہ ‘‘ فرمایا ’’عبد ‘‘ جسم اور روح دونوں کو کہا جاتا ہے ، جیسا کہ اللہ رب العزت نے قرآن میں فرمایا ہے کہ ’’ تو نے ابو جہل کو دیکھا ہے کہ وہ خاص بندے کو روکتا ہے ۔ جب وہ نماز پڑھتا ہے ‘‘ ۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ عبد وہاں بولا جاتا ہے جہاں روح اور جسم دونوں مراد ہوں ، ورنہ کیا ابوجہل فقط روح کو بھی نماز پڑھنے سے روک سکتا تھا ؟ تیسری دلیل یہ ہے کہ سورہ نجم میں ’’مازاع البصر‘‘ کا لفظ لایا گیا ، اس سے بھی معلوم ہوا کہ مشاہدہ بصری تھا خوابی نہیں ۔ نیز اللہ نے اس واقعے کو سورہ نجم میں آیات عظمیٰ سے ہوتا ہے ۔ چوتھی دلیل یہ کہ جب آُ نے یہ واقعہ لوگوں کے سامنے بیان فرمایا تو کافر وں نے اس واقعہ کو مشکل سمجھ کر س کا انکار کیا ، اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے یہ واقعہ خواب کا نہیں حقیقت کا بیان فرمایاَ اگر خواب کا بیان فرماتے تو اس کی تکذیب کون کرتا ؟ کیوں کہ خواب میں تو ہر انسان عجیب چیز دیکھ سکتا ہے ۔ پھر کیا عرب کے لوگ اس قدربے وقوف اور نادان تھے کہ خواب میں بیت المقدس جانے کی مشکل جانتے ؟ پانچویں دلیل یہ ہے کہ معراج جسمانی اور حالتِ بیداری میں تھی تبھی تو جب آپ نے معراج کے دوران بیت المقدس جانے کا ذکر فرمایا تو کفار نے آپ سے بیت المقدس کی نشانیاں پوچھیں ۔ خواب کی بات ہوتی تو بحث میں پڑنے اور نشانیاں پوچھنے کی ضرورت ہے نہ تھی ۔چھٹی دلیل یہ ہے کہ جب آپ نے یہ واقعہ بیان فرمایا تو لوگ صدیق اکبرؓ کے پاس آئے اور کہا کہ تیرا دوست یوں کہتا ہے کہ ........اگر یہ واقعہ خواب ہوتا تو صدیق اکبرؓ کے پاس آنے کی کفارکو کیا ضرورت پڑی تھی ؟

الغرض اس واقعے کے بیان پر بعض لوگوں کا مرتد ہوجانا‘ ابو جہل و ہمنواکی جانب سے آپ کا مذاق اڑانا اور اس واقعے کی تصدیق پر ابو بکر کو ’’ صدیق ‘‘ کا دیا جاتا ‘قریش کی جانب سے بیت المقدس کی نشانیاں معلوم کرنا .......یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی جانب سے معراج عین بیداری اور روح و جسم دونوں کے ساتھ ہونے کا دعویٰ تھا ۔جس معراج کی ابو بکرؓ تصدیق اور ابو جہل نے تکذیب کی وہ معراج جسمانی اور عین بیداری کی حالت میں تھی ۔ اب جو اس معراج کے جسمانی اور بیداری میں ہونے کا انکار کرے اسے خود فیصلہ کرلینا چاہیے کہ کس گروہ سے ہے ......ابوجہل نے یا صدیق اکبرؓ کے ؟

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور عبداللہ بن عباسؓ دونوں اس بات پر متفق تھے کہ معراج جسمانی اور عین بیداری میں ہوئی ہے اختلاف صرف بات پر تھا کہ شبِ معراج میں آپ نے اللہ کا دیدار کیا یا نہیں ؟ عبد اللہ بن عباسؓ اس رات کے قائل تھے کہ آپ نے اپنی آنکھوں سے اللہ کو دیکھا ۔ اور ابن مسودؓ اس بات کے منکر تھے اور ان کے ساتھ اُم المومنین حضرت عائشہ بھی اس بات کا انکار کرتی تھیں ۔ معلوم ہو ا کہ ابن مسعودؓ امی عائشہ کا اختلاف دیگر صحابہ سے دیدارِ الہی پر تھا، ورنہ معراج جسمانی پر تو سب متفق تھے اور اگر یہ واقعہ خواب ہوتا تو اختلاف کی کوئی وجہ نہ رہتی ، اس لیے کہ خواب میں اللہ کا دیداررہا الاجماع جائز ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ امی عائشہؓ کی جانب یہ منسوب کرنا کہ وہ فرماتی ہیں کہ معراج والی رات آپ کا جسم میرے پاس سے غائب نہیں ہوا ‘‘ یہ حدیث محدثین کے یہاں ثابت نہیںِ ، اس کی سند میں انتطاع ہے ۔ اس کا رادی مجہول ہے ۔ مزید یہ کہ تنویر میں لکھا ہے کہ یہ حدیث موضوع ہے کسی صحیح حدیث کو دور کرنے لے لیے اس کووضع کیا گیا ہے علاوہ ازین واقعہ معراج ہجرت سے تین یا پانچ سال پہلے کا ہے ،اُس وقت اگر عائشہ صدیقہؓ پیدا ہو بھی چکی تھیں تو سنِ شعور کو نہ پہنچی تھیں اور حضرت کے نکاح میں نہ آئی تھیں ‘ تو جو واقعہ ہی ان سے پہلے گزرچکا ہو اس کے بارے میں وہ کیسے کہہ سکتی ہیں کہ : جسم غائب نہیں ہوا ۔

مولانہ ادریس کا ندھلوی نے اس روایت کو موقف اور غلط لکھا ہے۔ معراج جسمانی تھی یا روحانی اسے سمجھنے کے لئے آسان پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کے سفر معراج کا آغاز و انجام ام ہانی کے گھر سے ہوا۔اس بات پر سب متفق ہیں اور وہ اس مشاہدے کی خوداری بھی تو ایسی صورت میں ترجیح ام ہانی کی ہی روایت کو دی جائے گی۔ اور اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ جب آپ کو ام ہانی نے نہ پایا تو وہ پریشان ہوگئیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ روح مع الجسد ہی معراج پر گئے تھے تب ہی تو آپ کا جسد گھر میں نہ پا کر ام ہانی پریشان ہو گئیں۔

بہرحال ان سارے دلائل سے اب یہ کہنے کی کوئی وجہ باقی رہتی کہ معراج روحانی تھی۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیئے کہ معراج کا جتنا حصہ قرآن میں مذکور ہے اس کا انکار تو صریح کفر ہے، باقی جو واقعات احادیثِ متواتر سے ثابت ہے اس کے انکار کو بھی علماء نے کفر ہی لکھا ہے۔ واقعہ معراج 25 صحابہ کرام سے معقول ہے جن کے اسمائے گرامی یہ ہیں: حضرت عمر بن خطاب ، علی مرتضیٰ، ابن مسعود ، ابو ذر غفاری، مالک بن صعصہ، ابو ہریرہ، ابو سعید، ابن عباس ، راشد بن اوس، ابی بن کعب، عبد الرحمٰن بن قرظ، ابو لیلے، عبداللہ بن عمر ، جابر بن عبداللہ، حذیفہ بن ایمان، بریدہ، ابو ایوب انصاری ، ابو امامہ، سمرہ بن جندب، ابوالحمرا، صہیب الرومی ، ام ہانی ، ام المومنین عائشہ، اسماء بنت ابی بکر رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ یہ نام ذکر کرنے کے بعد ابن کثیر نے لکھا ہے کہ واقعہ اسراء کی احادیث پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے صرف ملحد اور زندیق لوگوں نے اس کو نہیں مانا۔

بعض شبہات کا جواب:

جسمانی معراج کے منکرین کہتے ہیں کہ اتنی لمبی مسافت آسمان و زمین کی کیسے طے ہوئی ؟یا پھر کر ہ ناروز مہریر سے کیسے گزر ہوگا؟یا پھر اہلِ یورپ کے خیال کے مطابق آسمان کا تو وجود ہی نہیںیہ جو انہیں نظر آتا ہے ،سروں کے اوپر یہ حدِ نگاہ ہے بس ،تو ایک آسمان سے دوسرے آسمان تک کا سفر کیا مطلب؟تو ان باتوں کا جواب انتہائی آسان یہ ہے کا کہ علماء تسلیم کرتے ہیں کہ سرعتِ رفتا رکی کوئی حد نہیں تیز سے تیز تر رفتار کی خلقت ابھی بھی ہو سکتی ہے جیسے آج سے کئی سو سال پہلے یہ بات ماننے میں نہ آتی تھی کہ کراچی سے جدہ صرف تین گھنٹے میں سفر طے ہوجائے گا ۔اس زمانے میں چار پانچ ماہ لگ جایا کرتے تھے ،مگر آج ہوائی جہاز ایجاد کر کے سائنس نے اس سوال کا جواب انتہائی سہل کردیا کہ جس خالق کی مخلوق ایسی سرعت والی چیزیں تخلیق کر سکتی ہے تو کیا وہ خالق پلک جھپکتے میں اب اپنے محبوب کو اتنی لمبی سیر نہیں کراسکتا ؟پھر کرہ زمہریرہ سے گزر کا مسئلہ تو اور بھی آسان ہے کہ آج کا جہازوں میں ایسے آلاتلگا دیے گئے ہیں کہ وہ جب اڑ کر ایسی جگہ سے گزرتے ہیں کہ جہاں اگر کچا گوشت رکھا جائے تو لمحے میں بھن جائے تو جہازمیں لگے ٹھنڈے آلات حرکت میں آجاتے ہیں جو جہاز کو گرمی کی شدت سے بچاتے ہیں اور جب ایسی جگہ سے گزر ہوتا ہے جہاں ا گر گرم پانی رکھ دیا جائے تو لمحہ بھر میں برف جم جائے تو جہازوں میں لگے وہ آلات گرمی میں تبدیل ہوکر سواروں کی اس ٹھنڈک سے حفاظت کرتے ہیں ۔یہ تو مخلوق کی بنائی ہوئی اشیاء کا حال ہے تو خلق کے لیے کیا مشکل ہے کہ اس نے اپنے محبوب کو گرم جگہوں سے ٹھنڈک اور ٹھنڈی جگہوں سے گرمی عطا کی ہو پھر وہاں سے گزاراہو؟باقی یہ سوال کہ اتنی لمبی مسافت کیسے طے کی ؟اس کا جواب دیکھ لیں کہ روشنی اور بجلی کی چمک لمحہ بھر میں کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہے !پاکستان میں بجلی پاور ہاؤس سے نکلنے کے بعد کتنے سکینڈوں میں اس پورے علاقے میں پہنچ جاتی ہے۔ پھر بادل کی گرج چمک کو دیکھیں ک۰ہ لاکھوں میل اوپر وہ گرجتا چمکتا ہے اس کی یہ گرج چمک کتنی دیر زمین پر پہنچ جاتی ہے۔۔۔فقط ایک سیکنڈ میں بارش کے قطرے ،سورج کی کرنیں ،ہوا کی ٹھنڈک یا سورج کی تپش زمینتک پہنچ جاتی ہے۔ان سب چیزوں نے واقعہ معراج پر ہونے والی اشکال کا حل کردیا ہے ۔رہا تعجب معراج پر تو وہ تو معجزے کا حصہ ہی ہوتی ہے۔وہ معجزہ ہی کیا جس میں تعجب نہ ہو!

معراج کی ابتدا و انتہا:

آپ ام ہانی کے گھر آرام فرما رہے تھے ،ایک روایت میں آپ خطیم میں آرام فرما تھے ۔ان دونوں میں تطبیق یوں ہوگی کہ ام ہانی کا گھر جو کہ شعب ابی طالب کے پاس تھا،آپ نے وہا رہنے کی وجہ سے گھر فرمادیا پھر اوپر سے چھت کھول گئی ۔اس میں یہ حکمت تھی کہ آپ کو شروع سے ہی معلوم ہو جائے کہ معاملہ خلافِعادت پیش آنے والا ہے پھر آپ کا قلب مبارک چاک کیا گیا زم زم کے پانی سے دھو کر ایمان و حکمت سے بھر دیا گیا پھر آپ کے لیے ایک سواری بنام ’’براق ‘‘ جو گدھے سے بڑی اور خچر سے چھوٹی تھی ،لائی گئی ،اس پر آپ کو سوار کیا گیا ،اس کی برق رفتاری کا یہ عالم تھا کہ اس کا قدم حدِنگاہ پر پڑتا تھا ۔آپ کا گزر مدینہ سے ہوا وہاں جبرئیل ؑ نے نماز پڑھنے کو کہا ۔وہاں نماز پڑھی ۔پھر ایک سفید رنگ کی زمین پر گزر ہوا وہاں نماز پڑھو اکر جبریلؑ نے بتایا کہ یہ مدین ہے پھر بیت الحم میں نماز پڑھو اکر بتایا کہ یہ عیسیٰؑ کی جائے پیدائش ہے ۔پھر یک بوڑھی عورت کا گزر ہوا ،وہاں جبریلؑ نے نہ رکنے دیا ،پھر ایک بوڑھے کا گزر ہوا ،اس کے ساتھ بھی وہی معاملہ کیا گیا۔پھر ایک جماعت کا گزر ہوا ،انہوں نے سلام کیا ،انکو جواب دلوایا گیا ،پھر جبرئیل ؑ نے بتایا کہ بڑھیا وہ دنیا تھی اس کی اتنی عمر رہ گئی اور بوڑھا ابلیس تھا اگرآپ اس کا جواب دیتے تو آپ کی امت دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتی اور سلام والے موسیٰ اور ابراھیم ؑ تھے۔پھر ایکایسی قوم کا گزر ہوا جو ایک ہی دن میں بو لیتی اورکاٹ لیتی تھی پھر ویسے ہی ہو جاتا جیسے کاٹنے سے قبل تھا تو بتایا گیا کہ یہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ہیں ان کی نیکیاں سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہیں ۔آگے ایک قوم کا گزر ہوا جن کے سر پتھر سے کچلے جاتے تھے پھر ٹھیک ہوجاتے پھر کچلے جاتے تھے ،بتایا گیا کہ یہ نماز سے روگردانی کرنے والے ہیں۔ ایک قوم کی شرم گاہ آگے اور پیچھے چیتھڑے لپٹے ہوئے تھے اور وہ موشیوں کی طرح چر رہے تھے اور جہنم کے پتے کھا رہے تھے ،بتایا گیا کہ یہ زکوۃ نہیں دیتے تھے ۔ایک ایسی قوم کا گزر ہوا جن کے آگے پکا ہوا بھنا ہوا گوشت رکھا ہوا تھا ،وہ نیں کھا رہے تھے بلکہ دوسری طرف کچا سڑا ہو ابد بو دار گوشت کھا رہے تھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس حلال پاک بیویاں تھیں مگر یہ لوگ ناپاک عورتوں کے ساتھ شب باشی کرتے تھے ۔اسی طرح کی عورتیں بھی دکھائیں گئیں۔ایک ایسا شخص دکھایا گیا گس کے پاس ایک گٹھڑی تھی جس میں وہ لکڑیاں لاد رہا تھا وہ اس کو اٹھا نہیں سکتا تھا لیکن اور بھی لادے جارہا تھا۔بتایا گیا کہ یہ وہ شخص ہے جس کے ذمے لوگوں کی امانتیں ہیں دینے پر قادر نہیں ۔پھر ایک قوم کا گزر ہوا جن کی زبانیں آبنی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھیں۔ بتایا گیا کہ یہ گمراہی میں ڈالنے وا لے وعظین ہیں۔پھر ایک ایسے پتھر پر گزر ہوا جس میں سے ایک بیل نکلتا ہے پھر وہ اسی میں جانا چاہتا ہے لیکن جا نہیں پاتا فرمایا گیا کہ یہ وہ شخص ہے جو ایک بڑی بات منہ سے نکلتا ہے اور وہ اس پر نادم ہوتا ہے ۔پھر جنت اور دوزخ کی سیر کرائی گئیکچھ لوگ دکھائے گےء جن کے پیٹ کمروں کے برابر تھے ،وہ اٹھ نہیں سکتے تھے ۔بتایا گیا کہ یہ سود خور ہیں۔کچھ ایسی عورتیں بھی دکھائی گئیں کہ پستانوں سے بندھی ہوئی لٹک رہی تھیں بتایا گیا کہ یہ زانیہ عورتیں ہیں ۔اور ایک قوم کا گزر ہوا جنکے پہلو کا گوشت کاٹ کر انہیں کھلایا جاتا ہے ،بتیا گا کہ یہ چغل خور ہیں۔

بیت المقدس آمد: حصرت انسؓ کی روایت ہے کہ آپ بیت المقدس جبریلؑ نے اسی حلقے کے ساتھ براق کو باندھا جس کے ساتھ ماضی میں ابنیاء ماضی میں اپنی سواریاں باندھا کرتے تھے ۔پھر اندر گئے حوروں سے ملاقات کروائی گئی اتنے میں مؤذن نے اذان کہی سب لوگ منتظر تھے کہ امام کون بنے گا؟تو جبریلؑ آپ کو آگے کیا۔پھر بتایا گیا کہ یہ سب انبیاء تھے ۔اس نماز کو حضرت تھانوی نے تحتیۃ المسجد لکھا ہے۔ پھر وہا یکچھ انبیاء نے خطاب کیا اور رسول کو وہاں سے باہر نکالنے پر شراب اور دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے دودھ پیا۔

آسمانوں کا سفر:پھر آسمانوں کا سفر شروع ہوا۔ ہر آسمان پر بھی نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں ،بخاری کی روایت ہے کہ آپ نت ارشاد فرمایا:پھر مجھے سدرۃالمتہیٰ کی طرف بلند کیا گیا اس کے بیر مقام ہجر کے مٹکوں کے برابر تھے ،اس کے پتے ہاتھی کے کان کے برابر تھے وہاں نہریں ہیں دو اندر جاتی اور دو باہت کو آتی ہیں،پوچھنے پر جبریلؑ نے بتایا کہ جو اندر جارہی ہیں یہ جنت کی دو نہریں ہیں اور جو باہر کو آرہی ہیںیہ نیل اور فرات ہیں۔ایک روایت میں ہے کہ آسما کی بلائی سطح پر گئے ،وہاں ایک نہر پر پہنچے جہاں یا قوت ،موتی زبر جد کے پیالے رکھے ہوئے تھے اس پر سبز لطیف پرندے بھی تھے جبریلؑ نے کہا :یہ’’کوثر ‘‘ ہے جو آپ کے رب نے آپ کو دی ہے اس کے اندر سونے اور چاندی کے برتن رکھے ہوئے تھے اور وہ قوت وزمرد کے سنگریزوں پر چلتی ہے۔اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید تھا ،میں نے اس میں سے کچھ پیا تو وہ شہد سے زیادہ میٹھا اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھا۔پھر آگے لے جایا گیا آپ خود فرماتے ہیں :میں وہاں پہنچا کہ جہاں میں نے قلموں کے چلنے کی آواز جو لکھتے وقت پیدا ہوتی ہے سنی،سو مجھ پر اللہ نے پچاس نمازیں فرض کیں پھر موسیٰ ؑ کی مشاورت سے کم کرواتے کرواتے پانچ رہ نگئیں اور اعزاز یہ ملا کہ جو ان پانچ کو پڑھے گا اسے ثواب پچاس کا ملے گا۔اس لیے کہ اللہ کا فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا۔انب عمرؓ کی رویت ہے کہ غسلِ جنابت سات کے بجائے ایک ،پیشاب والا کپڑا سات کے بجائے ایک بار دھونے کا حکم بھی معراج میں ہو ا ۔اور آپ نے اسی سفر میں جبریلؑ کو اصل حالت میں دیکھا ۔ کہ ان کے چھ سو بازو تھے اور انکے پر سے مختلف رنگ کے موتی اور یاقوت جھڑرہے تھے۔

معراج سے واپسی پر کفارکے سوالات اور ان کا انکار:واپسی پر جب رسول نے کفار کو واقہ بتا یا تو انہوں نے تعجب سے کہا کہ ’’اے محمد اس کی کوئی نشانی ہے جس سے ہم کو یقین آجائے ؟کیونکہ ہم نے ایسی بات کبھی نہیں سنی‘‘۔ آپ نے فرمایا :’’نشانی اس کی یہ ہے کہ میں فلاں وادی میں فلاں قبیلے کے قافلے پر گزر رہا تھا اور ان کا ایک اونٹ بھاگ گیا تھا تو میں نے انکو بتلایا تھا ۔اس وقت تو میں شام کو جارہا تھا یعنی سفرِاسراء کا آغاز تھا ۔پھر میں واپس آیا ،یہاں تک کہ جب ضجنان میں فلاں قبیلے کے قافلے پر پہنچا میں نے لوگوں کو سویا ہوا پایا اور ان کا ایک برتن تھا جس میں پانی تھا اور اس کو ڈھانک رکھا تھا میں نے ڈھکنا اتار کر اس میں سے پانی پیا پھر اسی طرح ڈھک دیا، اور اس کی یہ بھی نشانی ہے کہ وہ قافلہ اب آرہا ہے ،اس کے آگے خاکستری رنگ کا اونٹ ہے اس پر دو بورے لدے ہوئے ہیں ایک کالا ،دوسرا دھاری دار اور یہ قافلہ بدھ کو یہاں پہنچے گا ‘‘خیر وہ لوگ یہ باتیں سن کر اس جانب بھگے ،بلاآخر دونوں قافلے انہیں ملے ۔ایک جس کا برتن کا مسئلہ تھا اونٹ بھاگا تھا ۔اس قافلے سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہوا تھا ۔دوسرا قافلہ جس کے لیے فرما یا کہ اس طرح بورے لدے ہوئے آرہے ہیں ۔تو روایات میں آتا ہے کہ بدھ کی شام ہو گئی مگر وہ ظاہر نہ تھے تو آپ نے اللہ سے دعا کی،

سورج کو اللہ نے روک دیا یہاں تک کہ وہ قافلہ آگیا اور ویسا ہی اس قافلے کو پایا جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا مگر ان کے نصیب میں ہدایت نہ تھی افسوس کہ انہوں نے پھر کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔پھر انہوں نے پوچھا :اچھا بتاؤ بیت المقدس گئے؟فرمایا رسول نے :ہاں تو منکرین معراج نے انتہائی بے تکا سوال کردیا کہ بتاؤ بیت المقدس کی کھڑکیاں دروازے فلاں فلاں چیزیں کتنی ہیں ؟رسول نے فرمایا کہ مجھے اس سوال سے بے حد تکلیف پہنچی ۔ظاہ ہے کہ کوئی آدمی کہی جائے تو وہ کھڑکیاں اور دروازے نہیں گنتا ،کام کر کے واپس آنا ہوتا ہے ۔مگر رب کی قدرت کہ آپ نے فقط گردن جھکائی اور رب العلمین نے بیت المقدس اٹھا کر سامنے کر دیا اور فرمایا کہ اب پوچھو کیا پوچھنا ہے ۔مگر ہائے افسوس سب کچھ بتلانے کے بعد بھی منکرین نے وہی جواب دیا جو گزر چکا ۔

واقعہ معراج کے متعلق ایک غیر مسلم کی شہادت:

تفسیر ابن کثیر والے نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ نے شاہ روم قیصر کے پاس اپنا جسأ مبارک دے کر ایک صحابی کو بھیجا۔ یہ لمبا واقعہ صحیح البخاری وغیرہ میں مرکوز ہے۔ اس کا آخری حصہ معراج کے واقعہ سے تعلق رکھتا ہے تو اسی کو لکھتا ہوں کہ شاہ روم ہر قل نے جمعۂ مبارک پڑھنے کے بعد آنحضرت کے حالات کی تحقیق کے لئے عرب کے تاجروں کو جو اس وقت اس کے ملک میں آئے تھے بلوایا۔ ابو سفیان اپنے ہمنواؤں کے ساتھ حاضر ہوا۔ ابو سفیان سے کئی سوالات کئے جو صحیح البخاری وغیرہ میں مذکور ہیں۔ ابو سفیان کا کہنا ہے کہ میری دلی خواہش تھی کہ اس وقت میں ایسی بات کہہ دوں جس سے رسول پاک کا بے حیثیت ہونا ظاہر ہو جائے کچھ نہ کہہ سکنے کے باوجود جاتے جاتے معراج کا واقعہ ابو سفیان نے اس نیت سے بیان کر دیا کہ اس سے بادشاہ خود سمجھ جائے گا کہ یہ واقعہ جھوٹا ہے۔ بیت المقدس کا سب سے بڑا عالم جو اس وقت شاہ روم ہرقل کے سرہانے کھڑا تھا، اس نے یہ واقعہ سنا تو کہا کہ میں اس رات سے واقف ہوں۔بادشاہ نے حیرانی سے اس سے پوچھا: وہ کیسے؟ اس نے جواب دیا کہ میری عادت ہے کہ جب تک میں بیت المقدس کے تمام دروازے بند نہ کر دوں ، سوتا نہیں ہوں، لیکن اس رات سب دروازے تو میں نے بند کر دئے لیکن ایک دروازہ بند نہ ہو سکا۔ بڑی کوششیں کی گئیں، کاریگر آگئے، سب نے زور لگایا، لیکن دروازہ بند نہ ہو سکا تو مشورہ ہوا کہ چھوڑو صبح دیکھیں گے۔ صبح جب میں آیا تو اس دروازے کے پاس چٹان مین سوراخ بھی تھا جس سے کوئی سواری باندھی گئی تھی، میں نے اپنے ساتھیو ں کو : آج رات کوئی نبی یہاں آیا تھا اسی لئے رات دروازہ بند نہ ہوسکا۔ پھر اس نے بیان کیا کہ آپ نے ہماری مسجد میں نماز بھی پڑھی ہے۔