March 29th, 2024 (1445رمضان19)

علامہ اقبال اور حُب رسولؐ

تحریر: ڈاکٹر ممتاز عمر

مسلمانوں میں موجود عشقِ محمد ؐوہ جذبہ ہے جو اُن کی والہانہ عقیدت و مر مٹنے کے دعوے کی بدولت انہیں دوسری اقوام سے ممتاز کرتا ہے۔ یہ سرشاری محض گفتار کی حد تک نہیں بلکہ اپنے عمل سے بارہا سپردگی کی اس منزل کو پا جاتی ہے جہاں اپنی ہستی ہیچ معلوم ہوتی ہے۔

نبی آخری الزماںؐ اخلاق کے اس اعلیٰ مرتبے پر فائز رہے جس کا اعتراف قرآن کریم میں ملتا ہے اور اسی بناء پر آپ کے ذِکر کو بلند کرنے کا اللہ ربّ العالمین نے خود ذمہ لیا اور جس کے عملی ثبوت میں ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیا کے کسی نہ کسی گوشے میں ہر وقت اذان کی صدا بلند ہوتی ہے جس میں آپ کی نبوت کی شہادت دی جارہی ہے۔ اقبال جیسا شاعر کیوں کر عشق محمد سے دور رہ سکتا تھا۔ انہوں نے تو اپنی شاعری کو آفتابِ نبوت کی ضیاء پاشی کا مرہونِ منت قرار دیا ہے۔

مثل بو قید ہے غنچے میں‘ پریشان ہو جا

رخت بردوش ہے ہوائے چمنستان ہو جا

ہے تنک مایہ‘ تو ذرّے سے بیاباں ہو جا

نغمہ موج سے ہنگامہ طوفاں ہو جا

قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے

دہر میں اسم محمدؐ سے اُجالا کر دے

اقبال نے مغربی تہذیب و تمدن کو محض ساحل پر کھڑے ہو کر نہیں دیکھا بلکہ وہ غوطہ زن ہو کر تہہ تک گئے اور اس کے بعد ان میں جو استحکام بیدار ہوا وہ ان کے پختہ العقیدہ ہونے کا بین ثبوت ہے۔ بلکہ بقول سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس شخص کا یہ حال تھا کہ

’’مغربی تعلیم و تہذیب کے سمندر میں قدم رکھتے وقت وہ جتنا مسلمان تھا اس کے منجدھار میں پہنچ کر اس سے زیادہ مسلمان پایا گیا جتنا اس کی گہرائیوں میں اُترتا گیا اتنا ہی زیادہ مسلمان ہوتا گیا یہاں تک کہ اس کی تہہ میں جب پہنچا تو دُنیا نے دیکھا کہ وہ قرآن میں گم ہوچکا ہے اور قرآن سے الگ اس کا کوئی فکری وجود باقی نہیں رہا۔‘‘

یہیں تک نہیں وہ احادیث کے بارے میں بھی یقین کی اس انتہا پر پہنچے ہوئے تھے کہ جو بعض علماء کو بھی حاصل نہیں جب کسی نے ان کے سامنے اس حدیث کا تذکرہ کیا کہ:۔

ایک مرتبہ حضورنبی اکرمؐ ،سیدناصدیق اکبرؓ، عمر فاروقؓ، اور سیدنا عثمان غنیؓ جبل اُحد پر کھڑے تھے تو وہ لرزنے لگا۔ رسول اللہ نے فرمایا اُحد کیوں لرزتا ہے، تجھ پر ایک رسولؐ ایک صدیق اور دو شہید کھڑے ہیں جس کے بعد وہ ساکت ہوگیا‘‘۔

سوالی حیرت اور استعجاب کی حالت میں ان کی طرف دیکھنے لگا جس پر علامہ اقبال گویا ہوئے اور اس شخص سے کہا کہ اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ میں اس حدیث کو سچ سمجھتا ہوں کیوں کہ حقیقت یہی ہے کہ نبی کے قدموں تلے مادے کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی لرز اُٹھتے ہیں یہ کوئی فرضی بات نہیں درحقیقت ایسا ہی ہوتا ہے۔

نگاہِ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر

وہی قرآن وہی فرقان وہی یاسین وہی طاہا

علامہ اقبال عشق رسول میں اس قدر ڈوبے تھے جس کا انکشاف ان کی موت کے بعد لوگوں کو ہوا۔ وہ سادہ زندگی گزارتے تھے ان کے بارے میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے مولانا مودودیؒ رقم طراز ہیں۔

’’پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے ایک قانونی مشورہ کے لیے اقبال، سر فضل حسین مرحوم اور ایک دو اور مشہور قانون دان اصحاب کو اپنے ہاں بلایا اور اپنی شان دار کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔ رات کو جس وقت اقبال اپنے کمرے میں آرام کرنے کے لیے گئے تو ہر طرف عیش و تنعم کے سامان دیکھ کر اور اپنے نیچے نرم اور قیمتی بستر پا کر معاً ان کے دل میں خیال آیا کہ جس رسول پاکؐ کی جوتیوں کے صدقے میں آج ہم کو یہ مرتبے نصیب ہوئے ہیں۔ اس نے بوریے پر سو سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی اور بستر پر لیٹنا ان کے لیے ناممکن ہوگیا۔ اُٹھے ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور مسلسل رونا شروع کردیا۔ جب ذرا دل کو قرار ہوا تو اپنے ملازم کو بلا کر اپنا بستر کھلوادیا اور ایک چار پائی اس غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے غسل خانے میں سوتے رہے‘‘۔

یہ وفات سے کچھ برس پہلے کا واقعہ ہے جب باہر کی دنیا اس کو سوٹ بوٹ میں دیکھا کرتی تھی کسی کو خبر نہ تھی کہ اس سوٹ کے اندر جو شخص چھپا ہے اس کی اصلی حیثیت کیا ہے۔

جب بن گیا تصویر یہ تسلیم و رضا کی

بخشی گئی جاگیر اسے ارض و سما کی

جاگیر میں پرواز کی قدرت بھی عطا کی

ہمسایہ جبرئیل امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں

علامہ اقبال نے گہرے شعور کے ساتھ قرآن کریم اور سیرت سرورِ عالمؐ کا مطالعہ کیا اور اس میں ڈوب کر اس یقین کو حاصل کیا کہ محمد عربی کی زندگی جامع ہے تمام کمالات ظاہر و باطن کی، اور سرچشمہ ہے تمام مظاہر حقیقت و مجاز کا۔ جب محبتِ رسول کی اس منزل کو پا گئے تو ان کا کلام پیغامِ مصطفی سے مزین ایک معطر گلدستے کی مانند بن گیا۔ ان کے نزدیک؂

بہ مصطفی برساں خویش راکہ دین ہمہ اوست

اگر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی است

اقبال نے اطاعت و فرمانبرداری کو دین کا جز و لازم سمجھ کر اس یقین کے ساتھ کہ اللہ کو پانے کے لیے حُب رسولؐ شرطِ اوّل ہے اپنی زندگی کا یہی مقصد بنالیا۔ اور ان کے اشعار میں جابجا سپردگی کی وہ کیفیت درآئی جس سے ان کے راسخ العقیدہ اور غلام مصطفی ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

حُب رسول کے حوالے سے ان کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ ذکر رسولؐ ہوتا اور ان کی طبیعت میں سوز و گداز درآتا اور اکثر تو وہ آبدیدہ ہو جاتے کیوں کہ عشقِ رسولؐ سے انہوں نے وہ سرمدی روشنی حاصل کی تھی جو انہیں اور ان کے کلام کو لازوال بنا گئی۔ اس کے لیے انہوں نے کامل سپردگی کی وہ منزل حاصل کی جو اپنی خواہشات اور ذات کی نفی کے بعد پیدا ہوتی ہے اور جسے حاصل کیے بغیر عشق رسولؐ کا دعویٰ بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ اقبال کا حضور اکرمؐ سے محبت و عقیدت کا والہانہ انداز اپنی جگہ لیکن غلامی رسول کے تقاضوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے حضورؐ کا نام نامی لیا جانا یا ان کے واقعات کا اظہار ان کی شخصیت پر اس قدر اثر انداز ہوتا تھا کہ وہ ملول و افسردہ سر جھکائے نمدیدہ ہو جایا کرتے تھے۔ بقول مصنف ’’روزگار فقیر‘‘ فقیر سید وحید الدین:۔

’’اقبال کی شاعری کا خلاصہ جوہر اور لب و لباب عشق رسولؐ اور اطاعت رسولؐ ہے۔ ان کا دل عشقِ رسولؐ نے گداز کررکھا تھا زندگی کے آخری زمانے میں یہ کیفیت اس انتہا کو پہنچ گئی تھی کہ ہچکی بند ھ جاتی۔ آواز بھرا جاتی تھی اور کئی کئی منٹ سکوت اختیار کرلیتے تھے تاکہ اپنے جذبات پر قابو پاسکیں‘‘۔

علامہ اقبال نے روضہ رسولؐ پر حاضری دی اور اس چپے چپے کی خاک چھانی جہاں دین مبین کی اشاعت کی غرض سے نبی محترمؐ کی زندگی کے آخری دس سال گزرے تھے۔ روضہ رسول پر باریابی کے بعد ان کا حضور اکرمؐ سے ایک زندہ تعلق قائم ہوا اور اسی احساس کو جگا کر وہ عشق رسولؐ میں ڈوب کر اشعار کہتے تھے۔