April 18th, 2024 (1445شوال10)

حیات اقبال کے چند گوشے

عبد الخالق بٹ

ڈاکٹر علامہ اقبال کی فکری رفعت اور شاعرانہ عظمت کا ایک عالم معترف ہے،دنیاوی اعزازات اور شہرت کے بامِ عروج پر پہنچنے کے باوجود علامہ اقبال کی سادگی، بے نفسی اور توکل کے پایہء استقلال میں کوئی لغزش پیدا نہیں ہوئی بلکہ گزرنے والے ماہ وصال نے علامہ اقبال کی ان صفات عالیہ میں اضافہ ہی ہوتے دیکھا۔مگر علامہ اقبال کے اپنے مزاج کی وجہ سے کم ہی لوگ اس سادہ و وجع دار اقبال سے واقف ہو سکے۔اقبال کی زندگی ایک دردِدل رکھنے والے سادے اور سچے مسلمان کی زندگی تھی اس دعوے کے اثبات میں حیات اقبال کے چند گوشوں کا چند گعشوں کا تذکرہ پیشِ خدمت ہے:
یہ ۱۹۲۹  کا ذکر ہے جب سقہ بچہ افغانستان میں امیر امان اللہ خان کا تختہ الٹ کر کابل پر قابض ہو گیا تھا۔ اس صورتحال میں پیرس میں متعین پٹھان سفیر جنرل نادر خان افغانستان واپس پلٹے تاکہ افغانستان کو سقہ بچہ کی چیرہ دستیوں سے بچایا جا سکے۔اس سلسلے میں جنرل نادر خان  جب پشاور جاتے ہوئے لاہور سے گزرے تو علامہ اقبال خصوصی طور پر ان سے ملاقات کے لئے لاہور اسٹیشن پہنچے اور رسمی گفتگو کے بعد جنرل نادر خان کو ایک جانب لے گئے اور اپنی حیثیت کے مطابق انہیں ایک خطیر رقم تھماتے ہوئے فرمایا یہ میری جمع پونجی ہے اسے اپنی اس مہم کے لئے بطور چندہ قبول فرمائیں’’جنرل نادر خان نے علامہ اقبال کے بے حد اسرار کے باوجود بصد شکریہ رقم لینے سے معذرت کرتے ہوئے فرمایا کہ’’اگر مجھے رقم کی ضرورت ہوئی تو میں یہ رقم منگوا لوں کافی الحال آپ اسے اپنے پاس رکھیں‘‘

خاکی و نوری نہاد ہندہ مولا صفات

ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز

علامہ اقبال جائز و نا جائز کے معملات میں بہت محتاط تھے ۔ وکیلوں کے پاس عام طور پر جو موکل تحفے تحائف لاتے ہیں جو مختامنہ کے علاوہ ہوتے ہیں، علامہ اقبال کو ان تحائف کے قبول کرنے میں تامل تھا۔چناچہ انہوں نے اس سلسلے میں سید سلیمان ندوی سے رہنمائی چاہیئے کہ’’ ان کا قبول کرنا جائز بھی ہے کہ نہیں‘‘۔ انکم ٹیکس کے محکمہ میں موجود علامہ اقبال کی فائل اس بات کی گواہ ہے کہ آپ محدود آمدنی کے پاوجود انکم ٹیکس باقاعدگی اور دیانتداری سے ادا کرتے تھے۔
علامہ اقبال مال کے معاملے میں ’’تھوڑے کو بہت جان کر‘‘اس پر فانع رہنے والوں میں سے تھے۔ اسی کے ساتھ آپ کا معمول تھا کہ پانچ سو روپے ماہانہ خرچ کے بقدر مقدمات مل جانے پر مزید مقدمات نہیں لیتے تھے اور اس سلسلے میں ۱۰ تاریخ آخری تھی۔ اس کے علاوہ آپ کا ایک اور اصول یہ تھا کہ آپ جھوٹے اور کمزور مقدمات بالکل نہیں لیتے تھے۔
آپ کے عدالتی امور میں منشی طاہر الدین کی گواہی ہے کہ ایک موقع پر ۱۰ تاریخ کے بعد کچھ لوگ بغرض مقدمات آئے، میں نے علامہ کو مطلع کیا تو آپ نے فرمایا’’ کیا ماہانہ خرچ میں کوئی کسر رہ گئی ہے؟‘‘میرے انکار پر کہا کہ’’ انہیں کہیں کہ کوئی اور وکیل لے لیں‘‘میں نے ملاقات کے متنمٰی افراد کو آگاہ کیا تاہم وہ مصر تھے کہ بس ایک بار مکنے دیں۔علامہ اقبال نے ان کے پیہم اسرار پر کہا کہ انہیں بھیج دیں۔ پہلے موکل کی فائل دیکھی مقدمہ کمزوز پایا لہٰذا اس سے معذرت کر لی مگر اس کا اصرار تھا کہ میں منہ مانگی قیمت دینے کو تیار ہوں پر مقدمہ آپ نے ہی لڑنا ہے۔علامہ اقبال نے جو یہ سنا تو کہ ’ میں فیس کی پروا نہیں کرتا آپ تشریف لے جا سکتے ہیں‘‘۔
دوسرے موکل کا کہنا تھا کہ دراصل جائیداد کا مقدمہ ہے اور ہم صرف مخالفین کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ علامہ اقبال نے جواب دیا ’’جھوٹے مقدمے تو میں زندگی بھر نہیں لوں گا آپ کیا سمجھتے ہیں‘‘۔موکل نے علامہ اقبال کا مزاج برہم ہوتے دیکھا تو بولا’’جتنے پیسے خرچ ہوں ہم کرنے کو تیار ہیں‘‘اب تو جیسے علامہ اقبال کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا بولے’’جھوٹے مقدمے کی وکالت تو میں ایک لاکھ روپے میں بھی نہیں کر سکتا برائے مہربانی آپ تشریف لے جائیں۔
ان افراد کے چلے جانے پر علامہ منشی طاہر الدین سے مخاطب ہوئے ’’یہ آج آپ کن نا معقول لوگوں کو پکڑ لائے لا حولہ ولا اقوۃ یہ شرافت ہے‘‘۔

اے طاہر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی ہے
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

لو اب بہاولپور، وائسرائے کے نامزد کردہ پرطانوی نمائندے سے سخت نا خوش تھے اس کی تبدیلی کے لئے انہوں نے ہزار جتن کئے یہاں تک کہ خود بھی وائسرائے سے بات کی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ ایسے میں کسی نے انہیں ڈاکٹر اقبال کی خدمات حاصل کرنے کا مشورہ دیا۔علامہ اقبال نے فیس طہ ہونے کے بعد دلی کا قصہ کیا اور دلائل سے وائسرائے کو قائل کر لیا کہ نواب بہاول پور کی حسب منشاء پرطانوی نمائندہ تبدیل کر دیا جائے۔ دلّی سے واپسی کے چند روز بعد علامہ کو نواب بہاول پور کا تار آیا، جو علامہ کے پاس بیٹھے تھے وہ علامہ کے دیرینہ دوست چوہدری محمد حسین نے وصول کیا۔اور آپ کو آگاہ کیا کہ نواب صاحب بہاول پور نے آپ کا شکریہ ادا کیا ہے اور آپ کو فوراً  بہاول پورآنے کا کہا ہے‘‘ علامہ اقبال لمحہ بھر خاموشی کے بعد گویا ہوئے’’ کیا نواب صاحب نے مجھے اپنا ملازم سمجھ لیا ہے کہ ان کے بلانے پر فوراً چل پڑوں‘‘چوہدری محمد حسین کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے’’تو پھر کیا جواب دوں نواب صاحب کو؟‘‘
’’لکھ دیجئے مجھے فرصت نہیں‘‘
اگر علامہ اقبال نواب صاحب کے بلاوے پر بہاول پور چلے جاتے تو بیش قیمت انعامات ملنے کا امکان تھا۔
۱۹۳۵ء کا سال علامہ اقبال کے لئے کئی اعتبار سے آزمائشوں کا سال تھا۔ اس سال آپ کی رفیقِ حیات والدہ جاوید سردار بیگم انتقال کر گئیں، دوسری جانب خود اقبال کو مختلف عوارض نے گھیر لیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ آپ کو وکالت بھی ترک کرنی پڑی نتیجتاً معاشی معملات جو کہ پہلے بھی کبی مثالی نہیں تھے ،بری طرح متاثر ہوئے۔
اس صورتحال میں آپ کے بہت سے احباب اور بہی خواہوں نے دست تعاون دراز کیا۔ ان میں سب سے نمایاں نام سر سید احمد خان کے پوتے سر سید راس ’’ مسعوہ‘‘ کا ہےجنہوں نے تو اب بھوپال سے آپ کے لئے تا حیات پانچ سو روپے ماہانہ وظیفہ مقرر کروایا، تاہم علامہ اقبال نے یہ وظیفہ مشروط طور پر قبول فرمایا اور وہ یہ کہ اس کے عوض آپ نے جدید چیلینجز کی روشنی میں اسلامی فقہ پر ایک کتاب لکھنے کا بیڑہ اٹھایا۔اسی عرصے میں صدر اعظم ریاست حیدرآباد سر اکبر حیدری نے اقبال کی علالت کے پیش نظر پیشکش کی کہ آپ سال میں ایک دفعہ عثمانیہ یونیورسٹی لیکچر کے لئے آجایا کریں آپ کو اس کا معاضہ سالانہ دس ہزار روپے دیا جائے گا۔مگر اس مرد و درویش نے یہ کہ کر معذرت کر لی کہ ’’میں اسلامی فقہ پر ایک کتاب لکھنے کے بارے میں سوچ رہا ہوں ۔ اگر میں یہ معاہدہ منظور کر لوں تو میں ذہنی طور پر مصروف ہو جاؤں گا اور کتاب مکمل نہ کر سکوں گا ، اس لئے یہ معاہدہ مجھے منظور نہیں۔‘‘

کیا میں نے ان خاکداں سے کنارہ
جہاں رزق کا نام ہے آب و دانہ

علامہ اقبال سے سچی محبت کا تقاضہ ہے کہ ان کی فکر ہی نہیں بلکہ ان کے عمل کو مشعلِ راہ بنایا جائے