March 29th, 2024 (1445رمضان19)

قیام پاکستان بیسویں صدی کا معجزہ

شاہنواز فاروقی

پاکستان اسلام کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ تحریک پاکستان کے دوران کلمہ طیبہ پورے بر صغیر کی فضا میں گونج رہا تھا اور مسلمانوں کو ان کی تاریخ اور تہذیب سے مربوط کر رہا یھا۔ مسلمانوں کو لگ رہا تھا کہ ان کی تاریخ اور تہذیب پاکستان کے عنوان سے ایک بار پھر نئی توانائی کے ساتھ زندہ ہونے والی ہے، ان کے صدیوں پرانے خواب پورے ہونے والے ہیں۔لیکن معجزات کے منکر ہر زمانے میں موجود رہے ہیں۔ بیسویں اور اکیسویں صدی میں بھی معجزات کے منکرین موجود ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان کے مطالبے کی بنیاد اسلام نہیں تھا۔ وہ اس سلسلے میں قائد اعظم کی 11 اگست1947 ء کی تقریر کا حوالہ دیتے ہین جس مین قائداعظم نے کہا تھا کہ پاکستان مین جس طرح مسلمان مسجد جانے میں آزاد ہونگے اسی طرح ہندو مندر اور عیسائی گرجا گھر جانے میں پوری طرح آزاد ہوں گے۔

تجزیہ کیا جائے تو قائد اعظم کا یہ فرمان اسلام کی روح کے عین مطابق ہے۔ اسلام انفرادی اوت اجتماعی زندگی کے دائرے میں جبر کا مخالف ہے اور تمام انسانوں کو عقیدے کی آزادی دیتا ہے۔ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی اور کسی ہندو کو زپردستی مسلمان نہیں بنایا۔ مسلمانوں نے اسپین پر چھ سو سال حکومت کی اور کسی عیسائی کو جبر کر کے مسلمان نہیں کیا۔چناچہ جو لوگ قائد اعظم کی اس تقریرکو سیکولر یا لبرل معنی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسلام کے ساتھ شدید زیادتی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اور قائد اعظم کے ساتھ بھی انصاف نہیں کرتے اہم بات یہ ہے کہ قائداعظم کی ایسی درجنوں تقریریں موجود ہیں جن میں انہوں نے اسلام کے تناظر میں دو قومی نظریے کی تشریح کی ہے۔مثلاً ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ پاکستان تو اسی روز بن گیا تھا جس دن پہلے مسلمان نے بر صغیر میں قدم رکھا۔ ایک اور تقریر میں انہوں نے اسلامی اور ہندو تہذیب کا موازنہ کرتے ہوئے لوٹے تک کی مثال دی کہا کہ مسلمان کے لوٹے میں ٹینٹو ہوتا ہے اور ہندو کے لوٹے میں ٹینٹو نہیں ہوتا۔ لیکن اسلام اور پاکستان کے باہمی تعلق کو چار ٹھوس شہادتوں کی روشنی میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

اس سلسلے میں سب سے اہم شہادت خود دو قومی نظریہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد جغرافیے پر نہیں تھی، اقتصادیات پر نہیں تھی۔۔۔۔دو قومی نظریے کی بنیاد صرف اسلام پر تھی۔ مسلمانوں کی تہذیب الگ تھی تو اسی بنیاد پر۔ مسلمانوں کی تاریخ جدا تھی تو اسی وجہ سے۔ مسلمانوں کے ہیروز انفرادات کے حامل تھی تو اسی حوالے سے۔

بعض لوگ تحریک پاکستان کے ’’جمہوری‘‘ ہونے کا حوالہ دیتے ہیں تو یہ بھی غلط ہے۔ مسلمان جمہوریت کے اصول کو مان لیتے تو پاکستان کے قیام کا مطالبہ ہی نہیں ابھرتا۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو تحریک پاکستان کے مخصوص حالات میں مسلمانوں کے لئے سب سے بڑا خوف تھی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو تحریک پاکستان کو اس کی مقبولیت کی وجہ سے جمہوری نہیں ’’عوامی‘‘ کہنا چاہیے۔ ایسی عوامی تحریک جس کی جڑیں اسلام کی تہذیب و تاریخ میں پیوست تھیں۔اقبال نے کہا ہے:

بازو ترا اسلام کی قوت سے قوی ہے

اسلام ترا دیس ہے تو مصطفوی ہے

تحریک پاکستان اور دو قومی نظریہ اقبال کے اس شعر کی عملی تفسیر تھے۔

ُبرصغیر کے مسلما نو ں کی تا ریخ کایہ پہلوبڑی اہمیت کا حا مل ہے کہ ان کی تا ریخ میں جتنی بڑی تحریکیں چلی ہیں وہ اپنی نہاد میں مذہبی تھیں۔ٹیپواگر چہ سلطان تھا مگرا س کی شخصیت میں مجاہدکا جلا ل وجما ل تھا ۔ اس نے انگریزوں کے خلا ف تن تنہا جس طرح دادِشجا عت دی وہ مذہبی جوش وجذبے اور مذہبی شعورکے بغیرممکن ہی نہیں تھی۔

1857ء کی جنگِ آزا دی کاغالب رنگ بھی مذہبی تھا ۔اس کی قیا دت بیشترجگہو ں پر جہا دسے متا ثر افرادکے ہا تھو ں میں تھی ۔یہ ٹھیک ہے کہ اس جدوجہد میں ہندوبھی شریک ہو ئے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جنگ میں ہندوؤں کی شرکت علا متی ہے ۔ یہ جدوجہد اوّل وآخرمسلمانوں کی جدوجہد تھی ۔ اس کا سب سے بڑا ثبو ت یہ کہ جنگِ آزادی کے اختتام پر انگریزوں کے انتقا م کا انشا نہ صرف مسلما ن بنے،یا یہ کہ انگریزوں کے انتقا م کا نشا نہ بننے وا لو ں کی عظیم اکثریت مسلمان تھی۔سوال یہ ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کی تا ریخ کا اصل اور غا لب رنگ اگر مذہبی تھا تو تحریکِ پا کستا ن اس کے رنگ سے کیسے بے نیا زہو سکتی تھی؟

دنیا میں سیکولرازم اور لبرلازم کی بھی ایک تاریخ ہے ۔دنیا میں جہاں بھی سیکولر فکرابھری ہے ،مذہب کورد کرکے ابھری ہے اور برصغیر کے مسلمانوں میں ایساسا نحہ کبھی وقوع پزیر نہیں ہوا ۔ چناچہ تحریک پاکستا ن اور پا کستان کے قا ئدین کوسیکولراور لبرلرنگ میں بیان یا paintکیاہی نہیں جاسکتا۔برضغیرکے مسلمانوں میں سیکولرازماور لبرلازم کی کوئی فکری بنیاداورفکری تا ریخ ہی نہیں ہے۔

شائستہ اکرام اللہ سہروردی نے اپنی کتاب’’پردے سے پارلیمنٹ تک‘‘میں کئی اہم با تیں لکھی ہیں ،مثلاّانہوں نے ایک با ت یہ لکھی ہے کہ ان کا خاندان انگریزوں سے قریبی را بطے میں اور انگریزوں کی تہذیب کے زیراثر تھا ۔اس کے با وجودجب انہیں انگری اسکول میں دا خل کرایاگیاتو ان کے خا ندان وا لو ں نے اس کی سخت مخالفت کی۔شائستہ اکرا م اللہ نے ایک با ت یہ لکھی ہے کہ وہ اگر چہ کیمبرج سے تعلیم حا صل کر کے آئی تھیں مگران کی شا دی سوفصدوالدین کی طے کر دہ تھی اور ان کی ذہن میں پسند کی شا دی کا تصورتک نہیں تھا ۔ سوال یہ ہے کہ اسے قدامت پسند معا شرے میں کو ئی ایسی تحریک چل ہی کیسے سکتی تھے جس کی بنیا د مذہب پر نہ ہو ؟

قیا م پا کستا ن کے بعد مسلم کش فسادات میں مسلمانوں کا جس بڑے پیما نے پر قتل عام ہو ااس کی تا ریخ میں کو ئی مثال نہیں ملتی ۔اس قتل عا م میں شہید ہو نے والو ں کی تعدادلا کھوں میں ہے ۔ ایک کروڑ کے لگ بھگ لو گ ایسے تھے جنہوں نے گھر با ر چھوڑ کر پا کستا ن کے لیے ہجرت کی ۔عام طورپر اتنے بڑے واقعا ت کے گہرے میں نفسیا تی اور جذبا تی اثرات ہو تی ہیں ۔اور قومیں کئی کئی دہائیوں تک معمو ل کے مطا بق زندگی بسر نہیں نہیں کر با تیں یا ’’نا رمل ‘‘نہیں ہو با تیں ۔ لیکن چونکہ پاکستا ن قوم نے مذہب کی قوت کے ذریعے اتنے بڑے بڑے وا قعات کو بھی جذب کر لیا اور پا کستا نی معا شرہ دیکھتے ہی دیکھتے نا رمل ہو گیا ۔