March 29th, 2024 (1445رمضان19)

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا لائحہ عمل

 یہ تقریر مولانا محترم نے پاکستان کے پہلے انتخابات کے موقعے پر نومبر۱۹۷۰ء میں کی تھی۔

سیّدابوالاعلیٰ مودودی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جماعت اسلامی، پاکستان میں اس مقصد کے لیے کام کررہی ہے کہ یہاں معاشرے اور ریاست کی تعمیر دیانت اور انصاف کے ان اصولوں پر کی جائے، جو اسلام نے ہم کو دیے ہیں۔ اس کے پیشِ نظر پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنانا ہے:

  • جو خلافت ِ راشدہؓ کے نمونے پر کام کرے۔ ظلم، استحصال اور اخلاقی بے راہ روی کی ہرشکل کو مٹائے اور زندگی کے ہرپہلو میں عدل قائم کردے۔
  •  جو ایک خادم خلق ریاست ہو، ہر شہری کے لیے بنیادی ضروریاتِ زندگی کی فراہمی کی ضمانت دے۔ تمام جائز ذرائع سے ملک کی دولت بڑھائے اور اس دولت کی منصفانہ تقسیم کا انتظام کرے۔
  •  جو صحیح معنوں میں ایک جمہوری ریاست ہو۔ عوام اپنی آزاد مرضی سے جن لوگوں کو اس کا اقتدار سونپنا چاہیں، وہی انتخابات کے ذریعے سے برسرِاقتدار آئیں اور جنھیں اقتدار سے ہٹانا چاہیں، ان کو انتخابات کے ذریعے سے بآسانی ہٹاسکیں۔

انھی مقاصد کے لیے جماعت عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔

ملک کو اس وقت جو مسائل درپیش ہیں ان کے بارے میں جماعت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ پاکستان مسلمانوں کی قربانیوں سے قائم ہوا ہے اور یہ قربانیاں انھوں نے اس غرض کے لیے دی تھیں کہ یہاں وہ اسلامی احکام اور اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرسکیں۔ اس لیے یہاں کسی نظریاتی کشمکش کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات ہمیشہ کے لیے طے شدہ سمجھی جانی چاہیے کہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے۔

پاکستان کا قیام اس وجہ سے ممکن ہوا تھا کہ مسلمانوں نے نسل، علاقے، زبان اور طبقات کے تمام تعصبات کو دل سے نکال کر ،محض مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس کے قیام کے لیے متحدہ جدوجہد کی تھی۔ اسی اتحاد کی بدولت وہ علاقے مل کر ایک ملک بن گئے جن کے درمیان نہ زبان ایک تھی، نہ رہن سہن کا طریقہ ایک تھا اور نہ کوئی جغرافی اتصال پایا جاتا تھا۔ آج بھی یہی اتحاد کامل ملک کی وحدت و سالمیت کے لیے واحد ضمانت ہے۔

ملک کی آبادی کے مختلف عناصر میں یگانگت کے احساس کو برقرار رکھنے اور نشوونما دینے کے لیے یہ قطعی ناگزیر ہے کہ اس اسلام پر عمل کیا جائے، جس کے نام پر یہ ملک وجود میں آیا ہے، اور سیاسی، معاشرتی اور معاشی حیثیت سے مکمل انصاف قائم کیا جائے، جس سے ملک کے تمام علاقے اور باشندگانِ ملک کے تمام گروہ اور طبقے اپنے حقوق کے معاملے میں پوری طرح مطمئن ہوں۔

ملک کو جس آئینی بحران کاسامنا ہے، اس کام کو مکمل اور آسان بنانے کے لیے ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی نئے سرے سے کوئی آئین بنانے کی کوشش نہ کرے، بلکہ ۱۹۵۶ء کے آئینِ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں چار ضروری ترمیمات کرنے کے بعد اس کو ملک کا آئین قرار دے دے، تاکہ اقتدار جلدی عوام کے نمایندوں کو منتقل ہوجائے اور ایک جمہوری حکومت ملک میں کام کرنا شروع کر دے۔ باقی جو تغیر و تبدل بھی اس آئین میں کرنا مطلوب ہو، وہ بعد میں کیا جاسکتا ہے۔ وہ چار ترمیمیں جو ۱۹۵۶ءکے آئین میں ہم کرنا چاہتے ہیں: آبادی کی بنیاد پر نمایندگی، ون یونٹ کی تنسیخ، مغربی پاکستان کے سرحدی علاقوں کو پاکستان میں پوری طرح ضم کرلینے اور ملک کی سالمیت کو محفوظ رکھتے ہوئے صوبوں کو مکمل علاقائی خودمختاری دینے کے بارے میں ہیں۔

(یاد رہے، دسمبر ۱۹۷۰ء کے انتخابات میں تشکیل پانے والی اسمبلی کو ’دستورساز اسمبلی‘ کہہ کر، بانیانِ پاکستان کے طے شدہ اصولوں کو متنازع بنایا جارہا تھا۔ جماعت اسلامی پاکستان کا موقف تھا کہ طے شدہ اُمور کو متنازع بناکر دوبارہ زیربحث لایا گیا تو ملک کی یک جہتی برقرار رکھنا مشکل ہوگا۔اسی لیے ۱۹۵۶ء کے متفقہ دستور کو بحال کرکے مذکورہ بالا چار فوری ترامیم کی طرف قوم اور قیادت کو متوجہ کیا گیا تھا، لیکن کسی نے توجہ نہ دی اور منتخب اسمبلی نہ صرف دستور بنانے میں ناکام رہی بلکہ ایک سال کے اندر ملک بھی دولخت ہوگیا۔ [ ....یہاں مشرقی پاکستان کی معاشی پس ماندگی دُور کرنے کے لیے ایک عملی اور مفصل لائحہ عمل  پیش کیا گیا تھا، جسے حذف کیا جارہا ہے]۔( ادارہ)

٭ ہم نے ملک کے قانونی نظا م کی اصلاح کے لیے بہت سی تجاویز پیش کی ہیں، جن میں خاص طور پر چار چیزوں کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے:

1.ایک یہ کہ اسلام کے ان تمام احکام کو قانونی حیثیت دینا، جو ایک اسلامی مملکت میں رائج ہونے چاہییں اور خاص طور پر ان اخلاقی بُرائیوں کو ممنوع قرار دینا، جنھیں اسلام ازروے قانون روکنا چاہتا ہے۔

2.دوسرے، عورتوں کو شریعت کے عطا کردہ حقوق دلوانے کے لیے قانون بنانا۔

3.تیسرے، شخصی آزادی اور اظہار راے کی آزادی پر ناراو پابندیوں کو ختم کرنا۔ 4

.چوتھے انصاف کو آسان اور سستا بنانا۔

اسلامی تعلیمات کا فروغ:

مسلمانوں کوا سلامی زندگی بسر کرنے کے قابل بنانے کے لیے ہمارا پروگرام یہ ہے کہ تمام ذرائع نشروابلاغ اور ذرائع تعلیم سے کام لے کر مسلم عوام میں اسلامی عقائد اور تعلیمات کا ضروری علم پھیلایا جائے۔ مساجد کو مسلم معاشرے میں مرکزی حیثیت دی جائے، اور ان کے لیے تربیت یافتہ امام اور خطیب تیار کیے جائیں۔’اوقاف‘ کا صحیح انتظام کیا جائے۔ مسلمانوں کو دینی فرائض کی ادایگی کے لیے ترغیب بھی دی جائے اور تمام ممکن سہولتیں بھی بہم پہنچائی جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے بحیثیت مجموعی ملک کی اخلاقی اصلاح کے لیے بھی بڑے پیمانے پر کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ معاشرے کو بُرائیوں سے پاک کیا جائے۔ ان اسباب کو رفع کیا جائے جن سے جرائم اور بداخلاقیوں کو فروغ نصیب ہوتا ہے، اور عوام میں اتنا اخلاقی شعور پیدا کیا جائے کہ وہ شہریوں کی حیثیت سے خود اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو محسوس کرنے لگیں۔

 اسلامی نظامِ تعلیم :

معاشرے کی تعمیر میں ہم تعلیم کو بنیادی اہمیت دیتے ہیں اور اس کی اصلاح کے لیے [ہمارے] مفصل پروگرام کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں:

٭ ملک میں اس وقت جو کئی کئی تعلیمی نظام رائج ہیں، ان کو بہ تدریج ختم کر کے ایک ہی نظامِ تعلیم رائج کیا جائے گا ، جس میں تعلیم صرف علوم و فنون پڑھانے تک محدود نہ ہوگی، بلکہ ہرشعبے میں لازمی طور پر اخلاقی تربیت بھی شامل ہوگی، تاکہ معاشرے اور ریاست کے لیے خداترس اور فرض شناس کارکن تیار ہوسکیں۔

٭ کم سے کم مدت میں ملک سے ناخواندگی کو دُور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ابتدائی تعلیم لازمی اور مفت اور ثانوی تعلیم مفت کر دی جائے گی، اور تعلیم کو سستا کیا جائے گا، تاکہ کوئی باصلاحیت نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم نہ رہ جائے۔

٭ استادوں کے لیے معقول معاوضے، بہتر شرائط کے ساتھ مقرر کیے جائیں گے۔ ان کی تربیت کے لیے بہتر انتظامات کیے جائیں گے، تاکہ وہ نہ صرف اچھے معلّم ہوں بلکہ شاگردوں کے لیے بھی اخلاق کا اچھا نمونہ بن سکیں۔ اور ان کے تقرر میں ان کی علمی اسناد ہی کا خیال نہیں رکھا جائے گا بلکہ یہ بھی دیکھا جائے گا، کہ وہ اپنے افکار اور سیرت و کردار کے لحاظ سے ہماری نئی نسلوں کو تعلیم دینے کے اہل ہیں۔

٭ تعلیمی اداروں میں آزاد فضا پیدا کی جائے گی اور یونی ورسٹیوں کو قومی تعلیمی پالیسی کے حدود کے اندر پوری طرح خودمختارانہ حیثیت دی جائے گی۔

٭ قومی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنایا جائے گا اور عربی زبان ایک لازمی مضمون کی حیثیت سے پڑھائی جائے گی۔

٭ تعلیمی اداروں میں فوجی تربیت کا اہتمام کیا جائے گا، تاکہ نوجوان ملک کے دفاع کے لیے تیار ہوسکیں۔

 انتظامیہ کی تربیت:

[ہم نے] نظم و نسق کی اصلاح کو بھی خاص اہمیت دی ہے، کیوں کہ ملک کی حالت کو بہتر بنانے کے لیے کوئی اچھے سے اچھا پروگرام بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو چلانے کے لیے ایک دیانت دار، فرض شناس اور عمدہ اہلیت رکھنے والی انتظامیہ موجود نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے جو تدابیر ہم نے تجویز کی ہیں ان میں سے چند نمایاں تدبیریں یہ ہیں:

٭ کوئی سرکاری ملازم جو اپنی جائز مالی حیثیت سے زیادہ بلند معیارِ زندگی اختیار کرے یا جایداد پیدا کرے، اس کا بلاتاخیر محاسبہ کیا جائے۔

٭ ایک ایسا اعلیٰ اختیارات رکھنے والا محکمہ قائم کیا جائے جو سرکاری افسروں کے ظلم اور اختیارات کے بے جا استعمال کی شکایات سنے اور ان کے فوری تدارک کا اہتمام کرے۔

٭ جن اداروں میں سرکاری ملازمتوں کے لیے کارکنو ں کی تربیت کی جاتی ہے، ان میں اخلاقی و دینی تربیت لازمی طور پر شامل کی جائے، تاکہ اہلیت کے ساتھ ساتھ حکومت کے افسروں میں دیانت داری اور فرض شناسی پیدا ہو۔

٭ نظم و نسق پر کسی ایک سروس کی اجارہ داری قائم نہ رہنے دی جائے اور حکومت کے مخصوص فنی شعبوں کی سربراہی پر انھی شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مقرر کیا جائے۔

ملک کے معاشی نظام کی اصلاح کے لیے ہمارا پروگرام چار بڑے بڑے عنوانات پر مشتمل ہے: زراعت، صنعت و تجارت، مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازموں کے حقوق اور عام معاشی اصلاحات۔

 زرعی اصلاحات:

زراعت کے معاملے میں جو اہم اصلاح ہم نے تجویز کی ہے،   وہ یہ ہے کہ: جاگیرداریوں ، خواہ وہ نئی ہوں یا پرانی، ان کو قطعی ختم کر دیا جائے۔ اور جہاں تک ان زرعی املاک کا تعلق ہے جو [انگریزی اقتدار سے] پہلے سے لوگوں کی ملکیت میں چلی آرہی ہیں،  وہ اگر ایک خاص حد سے زائد ہوں تو زائد حصے کو منصفانہ شرح پر خرید لیا جائے۔ یہ حد مغربی پاکستان کے زرخیز علاقوں میں ۱۰۰اور ۲۰۰؍ایکڑ کے درمیان ہوگی۔ کم پیداواری صلاحیت کی زمینوں کے لیے اسی معیار کے لیے مختلف حدیں مقرر کی جائیں گی۔ اس طریقے سے جو زمینیں حاصل ہوں گی، انھیں غیرمالک کاشت کاروں اور اقتصادی حد سے کم زمین کے مالکوں کے ہاتھ آسان اقساط پر فروخت کر دیا جائے گا اور یہی طریقہ سرکاری املاک اور نئے بیراجوں کے ذریعے سے قابلِ کاشت ہونے والی زمینوں کے معاملے میں بھی اختیار کیا جائے گا۔ ہرممکن کوشش کی جائے گی کہ زیادہ سے زیادہ کسانوں کو گزارے کے قابل زمین حاصل ہوجائے۔

پچھلی ناہمواریوں کو دُور کرنے کے بعد ہم کلیتہً شرعی قوانین پر ہی اعتماد کریں گے کہ ان کے نفاذ کی وجہ سے آیندہ کوئی زمین داری ناجائز یا مشتبہ طریقوں سے پیدا نہ ہوسکے گی۔ اسی طرح جب بٹائی اور ٹھیکے کے بارے میں شرعی احکام کی سختی کے ساتھ پابندی کرائی جائے گی اور تمام ناجائز طریقوں کو بند کر دیا جائے گا تو کوئی زمین داری ظلم کی شکل اختیار نہ کرسکے گی۔

۱۰؍ ایکڑ تک اراضی کے مالکوں کو مال گزاری سے مستثنیٰ کر دیا جائے گا۔ ہمارے نزدیک یہ انصاف نہیں ہے کہ انکم ٹیکس کے معاملے میں تو ایک حد مقرر کر دی جائے اور گزارہ سے زمین   کم رکھنے والوں پر بھی ٹیکس لگا دیا جائے۔ مال گزاری کی تشخیص کے معاملے میں بھی ہم انکم ٹیکس کا  یہ اصول نافذ کرنا چاہتے ہیں کہ کم آمدنی رکھنے والوں پر نسبتاً کم اور زیادہ آمدنی والوں پر نسبتاً زیادہ مالیہ عائد کیا جائے۔

اس امر کا پورا انتظام کیا جائے گا کہ کاشت کاروں کو ان کی پیدا کردہ اجناس کی معقول قیمت ملے اور ان کے حصے کا فائدہ بیچ کے لوگ نہ لے اُڑیں، خصوصاً تجارتی فصلوں کے معاملے میں ہربے جااستحصال کا سدباب کیا جائے گا۔

دیہی علاقوں میں ایسی صنعتوں کو رواج دینے کی کوشش کی جائے گی، جن سے بے روزگاری بھی دُور ہو اور زراعت پیشہ آبادی کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوسکے۔

صنعت  و تجارت کا فروغ:

صنعت و تجارت کے معاملے میں دولت کا جو بے تحاشا ارتکاز ہوا ہے، اس کو توڑنے اور مرتکز شدہ دولت کو پھیلانے اور آیندہ ارتکاز کو روکنے [اور] معاشی زندگی [کو] اس بیماری سے پوری طرح نجات [دلانے کے لیے] چند اہم تجاویز یہ ہیں:

٭ سود، سٹہ، جوا اور دولت حاصل کرنے کے تمام ان طریقوں کو قانوناً ممنوع قرار دے دیا جائے، جن کو شریعت نے حرام کیا ہے۔ بینکنگ اور انشورنس کے پورے نظام کو اسلامی اداروں کے مطابق تبدیل کیا جائے۔ ناجائز اور حرام طریقوں سے جو دولت چند ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے، اس کا سختی کے ساتھ محاسبہ کیا جائے اور اسے واپس لینے کے لیے مناسب قانونی اور انتظامی تدابیر کی جائیں۔ کمپنیوں کی ملکیت میں ایک شخص یا خاندان کے لیے زیادہ سے زیادہ حصوں کی ایک حد مقرر کر دی جائے اور اس سے زائد حصص کو عام فروخت کے لیے کھول دیا جائے۔

٭ مینیجنگ ایجنسی کا طریقہ بند کر دیا جائے۔ بنکوں ، انشورنس کمپنیوں، بازار حصص اور سرکاری مالیاتی اداروں پر سے سرمایہ داروں کا تسلط ختم کر دیا جائے۔ صنعتوں، اجارہ داریوں اور کاروباری جتھہ بندیوں کو توڑا جائے۔ قرض دینے کی پالیسی تبدیل کی جائے، تاکہ چھوٹے اور نئے سرمایہ کاروں کو بھی قرض مل سکیں۔ بونس اسکیم پر نظرثانی کی جائے اور درآمدی اور برآمدی تجارت کے لیے لائسنسوں کے اجرا کا طریقہ بھی بدلا جائے اور اس امر کا انتظام کیا جائے کہ صنعت کار اور بڑے تاجر ایک معقول حد سے زیادہ منافع نہ کما سکیں۔

٭ہم قومی ملکیت کے نظام کو بطورِ اصول اختیار کرنا صحیح نہیں سمجھتے، البتہ جن صنعتوں کو حکومت کے انتظام میں قائم کرنا یا چلانا فی الواقع ضروری ہو، ان کے بارے میں عوام کی نمایندہ اسمبلی اس طریقے پر عمل کرنے کا فیصلہ کرسکتی ہے، اور ایسا کوئی فیصلہ کرتے ہوئے یہ اطمینان کرلینا ضروری ہے کہ ان صنعتوں کا انتظام بیوروکریسی کی معروف خرابیوں کا شکار نہ ہونے پائے۔

 مزدوروں اور ملازمین کے حقوق:

مزدوروں اور کم تنخواہ پانے والے ملازمین [کی حالت دیکھیں تو] ملک میں معاوضوں کا فرق اس وقت ایک سو سے بھی زیادہ ہے۔ اسے گھٹاکر ہم ایک اور بیس پر، پھر بتدریج کم کرکے ایک اور دس کی نسبت پر لانا چاہتے ہیں۔ کم سے کم معاوضہ ہمارے نزدیک [اِس وقت] مصارف زندگی کے لحاظ سے ۱۵۰اور ۲۰۰کے درمیان ہونا چاہیے اور قیمتوں کے اُتار چڑھائو کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر وقتاً فوقتاً نظرثانی ہوتی رہنی چاہیے۔ کم تنخواہ پانے والے ملازمین کو مکان، علاج اور بچوں کی تعلیم کے لیے مناسب سہولتیں ملنی چاہییں اور مزدوروں کو نقد بونس کے علاوہ بونس شیئرز کے ذریعے سے صنعتوں کی ملکیت میں حصہ دار بھی بنایا جانا چاہیے۔ [ہم نے] یہ مقصد بنیادی طور پر پیش نظر رکھا ہے کہ ہماری معیشت میں صنعت کار اور محنت کار کے درمیان طبقاتی نزاع برپا ہونے کے امکانات باقی نہ رہیں اور اس کی جگہ انصاف کے اصولوں پر تعاون کا خوش گوار تعلق قائم ہو۔

 نظامِ زکوٰۃ کا نفاذ:

ملک کی عام معاشی حالت کو درست کرنے کے لیے زکوٰۃ کی تنظیم کو ہم نے اپنے پروگرام میں سب سے مقدّم رکھا ہے۔ جس کے ذریعے سے یہ اہتمام کیا جائے گا کہ پورے ملک میں کوئی شخص اپنی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہنے پائے۔ اس فنڈ میں   نہ صرف جمع شدہ رقوم، تجارتی اَموال، زرعی پیداوار اور مویشیوں وغیرہ پر فرض زکوٰۃ وصول کی جائے گی بلکہ عام خیراتی رقوم اور فی سبیل اللہ اعانتیں بھی جمع کی جائیں گی، اور ان سے بوڑھوں، اپاہجوں، معذوروں اور یتیم و غریب بچوں کی کفالت کی جائے گی۔ بے روزگاروں کو روزگار ملنے تک وظائف دیے جائیں گے، غریبوں کا علاج کیا جائے گا۔ ضرورت مند اور مستحق لوگوں کو قرضِ حسنہ دیا جائے گا اور ایسے لوگوں کی مدد کی جائے گی، جو تھوڑے سرمایے سے اپنے پائوں پر کھڑے ہوسکتے ہوں۔

اس کے علاوہ [ہم نے] یہ بھی تجویز کیا ہے کہ بالواسطہ ٹیکسوں کو کم اور بلاواسطہ ٹیکسوں کو بڑھایا جائے گا تاکہ عوام پر سے ٹیکس کا بار کم ہوسکے۔ بیرونی قرضوں اور بیرونی سرمایے پر ملک کے انحصار کو ختم کرنے اور سابق قرضوں سے نجات پانے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ سرکاری خزانے کا مال بے جا مصارف پر صرف کرنے کا سدباب کیا جائے گا۔ اور رفاہِ عامہ کے کاموں اور ان تجارتی کاموں سے حکومت کے انتظام میں چل رہے ہیں ، بے جا نفع اندوزی کو روک دیا جائے گا۔

٭ قومی صحت کے لیے ہمارا پروگرام آٹھ تجاویز پر مشتمل ہے، جن میں: سستی قیمت پر دوائوں کی فراہمی، علاج کے مصارف میں تخفیف، شفاخانوں اور دایہ گھروں کی توسیع، وبائی اور متعدی امراض کی روک تھام، شفاخانوں کے عملے کی اخلاقی اصلاح، غذا اور دوائوں میں آمیزش کا سدباب اور وسیع پیمانے پر حفظانِ صحت کے انتظامات شامل ہیں۔ یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ملک میں علاج کی سہولتوں کو عام کرنے کے لیے یونانی طب اور ہومیوپیتھی کے شفاخانے سرکاری سطح پر قائم کیے جائیں۔

٭ ہم نے اسلامی فرقوں کو اس بات کی ضمانت دی ہے کہ انھیں حدودِ قانون کے اندر پوری مذہبی آزادی حاصل ہوگی۔ اپنے پیرووں کو اپنے مذہب کی تعلیم دینے کا پورا حق حاصل ہوگا۔ ان کے شخصی معاملات کے فیصلے ان کی اپنی فقہ کے مطابق کیے جائیں گے، اور وہ اپنے خیالات کی اشاعت آزادی کے ساتھ کرسکیں گے۔

٭غیرمسلم اقلیتوں کو بھی ہم نے اسی طرح تمام شہری اور قانونی حقوق اور مذہب اور عبادت، تہذیب و ثقافت اور پرسنل لا کے تحفظ کی ضمانت دی ہے۔

٭ [اپنی] خارجہ پالیسی کے اصول و مقاصد بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیے ہیں: ہم ایک مسلمان قوم ہیں۔ دنیا میں ہمارا قومی وصف نمایاں ہونا چاہیے کہ ہم راست باز اور عہدوپیمان کے پابند ہیں۔ حق وانصاف کے حامی اور ظلم و زیادتی کے مخالف ہیں۔ ہم بین الاقوامی امن چاہتے ہیں، مگر بین الاقوامی عدل کے بغیر دنیا میں امن کا قیام ہمارے نزدیک ممکن نہیں ہے۔ سامراجیت اور استعمار خواہ مغربی ہو یا مشرقی، ہماری نگاہ میں یکساں قابلِ مذمت ہے اور ہماری ہمدردی ہمیشہ ان مظلوم قوموں کے ساتھ ہوگی جو اس کی شکار ہو۔ خصوصاً مسلمان جہاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہیں ہم ان کی لازماً حمایت کریں گے، کیونکہ یہ ہماری انسانیت کا تقاضا بھی ہے اور ہمارے دین کا تقاضا بھی ہے۔

ہم دُنیا کی تمام قوموں کے ساتھ دوستی چاہتے ہیں، مگر کسی ایسی دوستی کے قائل نہیں ہیں، جس سے ہمارے نظریۂ حیات یا ہماری آزادی پر آنچ آتی ہو۔ ہماری خارجہ پالیسی آزاد ہوگی۔  دنیا کی بڑی قوموں کے بلاکوں کی کش مکش سے ہم اپنے ملک کو بالکل الگ رکھیں گے۔ کشمیر اور ہندستانی مسلمانوں کے ساتھ ظلم وہ بنیادی مسائل ہیں، جنھیں انصاف کے ساتھ حل کیے بغیر ہمارے نزدیک پاکستان اور بھارت کے تعلقات درست نہیں ہوسکتے۔ مسلم ممالک کے ساتھ ہم قریب ترین برادرانہ تعلقات رکھنا اور بڑھانا چاہتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش یہ ہوگی کہ اپنے مشترک مفادات کے لیے ان کے درمیان گہرا تعاون ہو۔

٭مرکز یا صوبوں میں جہاں بھی جماعت اسلامی کی پارلیمانی پارٹی کو اکثریت حاصل ہوگی، وہ حکومت کی باگ ڈور سنبھال کر ایمان داری کے ساتھ اپنے منشور پر عمل کرنے کی کوشش کرے گی، اور اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو حکومت چھوڑ دے گی۔ دوسری کسی پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت وہ صرف اس صورت میں بنائے گی، جب کہ اسے یہ توقع ہو کہ اس حکومت میں اپنے اصول اور مقاصد کے مطابق کام کرنا اس کے لیے ممکن ہوگا۔ بصورتِ دیگر وہ حزبِ اختلاف کی حیثیت سے کام کرے گی۔ لیکن، جماعت اسلامی کبھی اختلاف براے اختلاف کی قائل نہیں رہی ہے۔ حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو، جماعت اس کے صحیح کاموں میں اس کا ساتھ دے گی اور غلط کاموں کی بہرحال مخالفت کرے گی۔

یہ ہے جماعت اسلامی کے منشور کا خلاصہ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہم قومی زندگی کے ہرپہلو کی اصلاح کا ایک جامع پروگرام [پیش کر رہے] ہیں۔ کسی ایک پہلو پر ہم نے اتنا زور نہیں دیا ہے کہ دوسرے پہلوئوں کو نظرانداز کر دیا ہو ___ پاکستان پائندہ باد!