May 3rd, 2024 (1445شوال24)

بین السطور

افشاں نوید

دوسری خبروں کی طرح ایک خبر تھی جس پر سے ہم خاموشی سے گزر گئے کہ ’’اسلام آباد کے اسکولوں میں منشیات کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے‘‘۔ اُسی ہفتے ایک اور خبر آئی کہ ساتویں کلاس کے بچے نے ٹیچر کے عشق میں خودکشی کر لی۔ ’’بری بات ہے، ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔ ہم نے زیر لب کہا اور اخبار کا صفحہ پلٹ دیا۔ اب اخبار کا کام تو خبریں دینا ہی ہے۔ اور چینل کا کام ریٹنگ بڑھانے کے لیے نئی نئی خبروں کو تلاش کرنا۔ وہ تو خدا بھلا کرے جج صاحب کا کہ چھٹی پر چلے گئے بیمار ہوکر، ورنہ صفحۂ اول پر تو پاناما کی خبروں کے سوا کوئی خبر مشکل سے ہی جگہ پاتی تھی۔
اب ہمیں کیا پڑی ہے کہ منشیات کی خبر پر رکیں، ٹھیریں، سوچیں۔ خودکشی کی خبر کے اس سے تانے بانے جوڑیں، یا طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے اسباب پر غور کریں کہ ان چیزوں کے ڈانڈے کہاں جاکر ملتے ہیں۔۔۔؟ دل کو روئیں کہ جگر کو پیٹیں۔۔۔ یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پاتا ہم سے۔۔۔!!
اور تو اور، تعلیم کا تیزاب پہلے ہی خودی کو پگھلا چکا ہے۔ شرمین عبید چنائے پاکستانی عورت کا جھلسا ہوا چہرہ ’’سیونگ فیس‘‘ کے نام پر ساری دنیا کو دکھا کر آسکر کے ریڈکارپٹ سے گزر کر ایوارڈ وصول کرتی ہیں۔ سارا زمانہ داد دیتا ہے انہیں کہ کیا خوبصورت عکاسی کی مسلمان پاکستانی عورت کے جھلسے ہوئے چہرے کی۔۔۔!! لیکن تعلیم کا تیزاب جس طرح سماج کو جھلسا رہا ہے اس پر کون ڈاکومینٹری بنائے، اور وہ ڈاکومینٹری کس سے داد پائے! کس ریڈ کارپٹ پر اس کا استقبال کیا جائے گا۔۔۔؟ نہ صلہ، نہ ستائش تو ایسے کارِ دارد کا فائدہ ہی کیا۔۔۔؟
ہماری تو خواہش تھی کہ پاکستان کا سافٹ امیج دنیا کے سامنے پیش کریں تاکہ نائن الیون کا داغ کچھ تو دھل جائے۔ اگر تعلیمی اداروں میں ’’فن‘‘ اور ’’تفریح‘‘ کے نام پر قوم کے بچے کچھ ہلا گلا کرلیتے ہیں تو کسی کو کیا ضرورت ہے ان کا ناک میں دم کرنے کی! غربت کی ماری قوم، مہنگائی، لوڈشیڈنگ اور ڈپریشن کی ستائی ہوئی نسلیں اگر تعلیمی اداروں میں چھوٹے موٹے فیشن گالا، میوزیکل کنسرٹ یا انٹرٹینمنٹ کے نام پر کچھ جی بہلا لیں تو خوامخواہ کیوں اخلاقیات کے درس دے کر رنگ میں بھنگ ڈالیں۔۔۔؟ کل کلاں ذمہ داریاں پڑیں گی خاندانوں کی، معاش کی تو خود سدھر جائیں گے۔ یہی تو وقت ہے موج میلے کرنے کا۔۔۔! اب وہ زمانہ گیا جب بزم ادب کے تحت مباحثے ہوتے تھے، مشاعرے ہوتے، بیت بازی ہوتی۔ اب وقت کی رفتار بہت تیز ہے۔ یہ نئی نسل کب تک پرانی اقدار کے قلاوے اپنی گردن میں ڈالے رہے! ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔
یہ کہاں کی منطق ہے کہ آپ اساتذہ سے توقعات باندھیں کہ وہ اخلاقیات میں بھی ماسٹرز کرکے آئیں اور بچوں کو کلاس روم یا اسمبلی میں اخلاقیات کے لیکچر دیں۔ گھر میں والدین پھر کیا کریں گے؟ یہ اخلاقیات وغیرہ گھر کی چہار دیواری کے ’’ایشوز‘‘ ہیں، تعلیمی اداروں میں اساتذہ اپنے نصاب کو ختم کرانے آتے ہیں۔۔۔ اور پھر اساتذہ کے اپنے اخلاقیات کو ناپنے کے پیمانے کیا ہیں۔۔۔ اساتذہ کو کون سا اخلاقیات کا درس کس یونیورسٹی میں پڑھایا گیا ہے جو وہ اپنے تعلیمی اداروں میں طالب علموں کو پڑھائیں گے۔۔۔! آپ کے دماغ میں اتنی سی بات کیوں نہیں آتی کہ ہمیں ترقی یافتہ قوموں کے شانہ بشانہ چلنا ہے، اس لیے ٹیچرز کی قابلیت کو ناپنے کا پیمانہ درست بنایا گیا ہے کہ ان کو انگلش بولنے میں کتنی مہارت ہے۔ جب استاد انگلش بولے گا تب ہی تو طلبہ و طالبات بھی منہ ٹیڑھا کرکرکے بولنے کی پریکٹس کریں گے۔ اب استادوں کو سندھی اور پنجابی تو سکھانے کے لیے رکھا نہیں جا سکتا۔ اور اردو۔۔۔ تو وہ تو بے چارے اردو میڈیم والے متوسط اور غریب گھروں کے بچے ہی بولتے ہیں۔۔۔ بلکہ گفتگو سے ہی اصل میں ’’کلاس‘‘ کا فرق ناپا جاتا ہے۔ جو بچہ اپنی ماں کے ساتھ فر فر انگلش بول رہا ہو تو ہرکس و ناکس پر دھاک بیٹھتی ہے کہ کس قدر ’’ویل آف‘‘ فیملی سے تعلق ہے۔ اب جو والدین اسکولوں کی فیسیں پچیس ہزار سے پچاس ہزار تک ادا کررہے ہیں ان کے پاس یہ دیکھنے کی فرصت کہاں ہے کہ بچے سے کیا چھن رہا ہے؟ وہ تو اس بات پر نازاں رہتے ہیں کہ بچہ فر فر انگلش بولتا ہے۔ دوستوں میں کیا گھر میں بھی اب اردو کے الفاظ پر زبان اٹک اٹک جاتی ہے۔ کامیابی کا ہما تو انہی سروں پر آکر بیٹھے گا۔۔۔ آپ کہتے ہیں کہ ہر زبان اپنا کلچر بھی ساتھ لاتی ہے۔ سندھی اجرک ٹوپی کا دن منا کر ہم نے دنیا کو دکھا دیا کہ ہم کتنا پیار کرتے ہیں اپنے کلچر سے۔ آپ کہتے ہیں کہ ’’الحاد‘‘ بھی ساتھ چلا آئے گا، تو ہماری نئی نسل تو اتنے مشکل لفظوں کا مطلب ویسے بھی نہیں جانتی۔ یاد ہے چند برس قبل انٹرنیٹ کیفے زد میں آگئے تھے۔ ان میں قابلِ اعتراض بھی تھا بہت کچھ، لہٰذا ان پر چھاپے پڑنے لگے اور بند ہونے لگے۔ اب ہر اک کا موبائل ’’مکمل کیفے‘‘ ہے۔ مغرب کی تہذیب کا لاکھ شیرازہ بکھر چکا ہے مگر وہاں مخرب اخلاق سائیٹس پر کنٹرول کیا جاتا ہے، بندشیں لگائی جاتی ہیں، جبکہ ہمارے ملک میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں کسی طرح کی کوئی اسکروٹنی نہیں ہوتی۔ جس بچے کے ہاتھ میں موبائل ہے وہ ایک ایسی خطرناک دنیا میں پہنچ جاتا ہے جس کا والدین کو علم بھی نہیں ہوتا۔ اب مغرب کی اپنی اقدار ہیں، ان کے بھرے ہوئے پیٹ ہیں، پُرسہولت طرزِ زندگی ہے۔ یہاں تو دو کروڑ بچے اسکول اس لیے نہیں جاتے کہ ان کے پاس بستہ نہیں ہے۔ ہمارا دیس تو اسٹریٹ چلڈرن کی تعداد کے حساب سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اب آپ خود سوچیں، سڑکوں پر پھرتے آوارہ بچے، اسکولوں کی عمروں کے بچے جو کچرا چُن رہے ہیں، جو ورکشاپوں میں گاڑیوں کے نیچے لیٹ لیٹ کر نٹ کھول رہے ہیں، ایک ’’چھوٹے‘‘ کی آواز پر دامن پر سے خاک اور چہرے اور ہاتھوں پر سے کالک ہٹاتے ہوئے ’’جی ماسٹر جی‘‘ کہتے ہوئے اپنے ارمانوں کا خون کررہے ہیں، اگر بے چارے موبائل پر جی بہلا لیتے ہیں تو جانے دیں، ان سے یہ تفریح تو نہ چھینیں۔۔۔! اب اسکول والوں کو کیا پڑی ہے کہ موبائل کے استعمال پر پابندیاں لگائیں، یا مؤثر پالیسیاں بنائیں، یا بچوں کو بری سائیٹس کے نقصانات بتائیں، ان کے اخلاقی زوال کی فکر کریں۔۔۔! ان کو اس چیز کی تنخواہ کوئی الگ سے تو نہیں ملتی کہ اب وہ والدین والی ذمہ داریاں بھی پوری کریں۔۔۔! اب اگر اسکولوں میں ڈرگز کا استعمال سامنے آیا تو آپ کے کان کیوں کھڑے ہوگئے؟ کیا آپ کو خبر نہیں کہ پارلیمنٹ کے لاجز سے، راہداریوں سے ’’خاص مشروبات‘‘ کی بوتلیں برآمد ہوتی ہیں۔۔۔ آپ طلبہ و طالبات سے اخلاقیات کی بہت امیدیں باندھے بیٹھے ہیں، پچھلے ہفتے آپ کی قومی اسمبلی میں جو کچھ ہوا۔۔۔ لاتیں، مُکے، گھونسے، گالیاں، دھکے۔۔۔ آپ ہی بتائیں کیا وہ ’’اچھے بچوں‘‘ والی باتیں تھیں۔۔۔؟ ان کو کیوں نہیں بتایا گیا بچپن میں کہ اچھے بچے ایسے نہیں کرتے۔۔۔!! شاید آپ بھول رہے ہیں کہ مچھلی ہمیشہ سر سے ہی سڑا کرتی ہے۔ اسلام آباد کے بڑے گھرانوں کے بچے ہیں۔ گھروں میں بھی ’’خاص مشروب‘‘ کی مخالفت نہیں ہوگی تو اسکول میں کیوں جھجکیں! آپ کے تو وزیر کہتے ہیں کہ شراب کی دکانیں اقلیتوں کے لیے کھلی ہیں۔ جبکہ اقلیت کہتی ہے کہ ان کے مذہب میں تو اس ناپارسا مشروب کی اجازت ہی نہیں۔۔۔ آپ کی تو اسمبلی شراب پر پابندی کا بل نامنظور کردیتی ہے۔ پھر بچوں بالوں نے دل بہلانے کو شغل کرلیا تو کیا قیامت آگئی۔۔۔؟ اب ان بچوں نے کوئی اسکولوں میں ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے۔۔۔‘‘ تو پڑھی نہیں ہے کہ ان کے لاشعور میں بس گیا ہو کہ ’’نیک جو راہ ہو اسی راہ پہ چلانا مجھ کو‘‘۔۔۔ سو نیکی کا تصور تو وجدان کا حصہ ہی نہیں ہے۔ گناہ سے کراہت کا درس تو نہ گھر میں ہے نہ تعلیمی ادارے میں۔۔۔ ہاں کیریکٹر بلڈنگ کی بات ہے، سوشل ویلیوز کی بات ہے، ٹائم مینجمنٹ کی بات ہے، اسکلز ڈیولپمنٹ کی بات ہے۔۔۔ یہ نئی نئی اصلاحیں ہیں جو بہت بھلی لگتی ہیں۔ کیونکہ اب ویلیوز وہی باقی رہیں گی جن کی مارکیٹ میں طلب ہے، مہارتیں وہی درکار ہوں گی جو اپنے پیشے میں کامیابی کی ضمانت ہوں، اور ٹائم مینجمنٹ اکثر کو یہ گر سکھاتی ہے کہ آپ کا وقت آپ کی ملکیت ہے، اس کو اپنی ذاتی تسکین کے لیے استعمال کریں۔ دن کے جوبیس گھنٹے کی پلاننگ یہ ہو کہ آپ اپنے اہداف سے کتنا قریب ہورہے ہیں۔ آپ کو خودغرض ہونا چاہیے اپنا وقت دوسروں پر خرچ کرنے کے معاملے میں۔ منتخب لوگوں سے مطلب کے تعلقات رکھے جائیں۔ دوسروں پر وقت ضائع نہ کیا جائے چاہے وہ دوسرے آپ کے والدین ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔!! کامیابی کے اس سفر اور ان مہارتوں کے حصول میں اکثر و بیشتر اخلاقیات کا چیپٹر خارج ہی کردیا جاتا ہے۔ ’’فرم کا منافع‘‘ ایک ایسی چیز ہے جس کے لیے کوئی بھی قربانی دی جا سکتی ہے۔
ہم اکیسویں صدی کے تقاضوں سے واقف قوم ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں جب ملک میں انگلش اسکولوں کی بنیاد رکھی گئی تو کسی کے تصور میں بھی نہ ہوگا کہ اکیسویں صدی میں ہم اس حال میں داخل ہوں گے کہ سرکاری اسکول قصۂ پارینہ بن چکے ہوں گے، اور سرکاری اسکولوں کے میدانوں میں یا تو شادیوں کے شامیانے لگ رہے ہوں گے یا گائے، بھینسیں بندھ رہی ہوں گی۔ پچھلے سال جب سرکاری اسکولوں پر چھاپے پڑے تو پچاس فیصد سے زیادہ اسکول گھوسٹ نکلے، جن کے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں لے رہے تھے اور اسکولوں میں سیوریج کے پانی کی گزرگاہیں تھیں یا جانور چارے نوش فرما رہے تھے۔ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ویسے بھی غریب غرباء ہی ہوتے ہوں گے، کیا ہوا بے چاروں پر سے اگر غربت کا بوجھ کچھ کم کردیا! کوئی دوسری جاب ڈھونڈ لی ہوگی یا دکان وغیرہ پر بیٹھنے لگے ہوں گے کہ ایک طرف تو نوکری پکی ہے ہی۔ ہم تو کہتے ہیں جیو اور جینے دو۔۔۔
ہم خوامخواہ ہی رونا روتے ہیں بے روزگاری کا۔ اس وقت ملک میں تعلیم ایک منافع بخش کاروبار ہے۔ ایک اسکول کی برانچ ڈھنگ کی لانچ کردیں، پھر دیکھیں برانچوں پہ برانچیں کھلتی چلی جاتی ہیں۔ ہمارے عزیزوں میں ایک بھائی نے اسکول کھولا تو دوسرے چاروں بھائیوں نے بہترین سرکاری ملازمتوں کو چھوڑ دیا کہ اسکول سے اتنا منافع ہے کہ بچت کا گراف تو بڑھ ہی رہا ہے، طرزِ زندگی بھی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اس سروے میں کہ تعلیم کس ملک میں سب سے منافع بخش کاروبار ہے، شاید پاکستان ہی پہلے نمبر پر ہوگا۔
ہماری بیٹی جو سرکاری یونیورسٹی میں میڈیکل کے فائنل میں تھی اس نے چھٹی کرلی، ہم نے وجہ دریافت aکی تو بولی ’’الوداع ویک‘‘ چل رہا ہے، آخری سال کے طلبہ وطالبات وہ خرافات مچاتے ہیں کہ توبہ۔ لڑکے فلمی اداکاروں کے گیٹ اپ کرکے آتے ہیں اور لڑکیاں مرد اداکاروں کے روپ دھارتی ہیں۔ گٹار، طبلے کیا کیا ساتھ لاتے ہیں۔ جو مستی چاہے کرتے ہیں۔ زنخوں کے گیٹ اپ کرتے ہیں۔ یہ جو قوم کی مسیحائی کے درجے پر فائز ہونے جا رہے ہیں ان حرکتوں سے اپنے تعلیمی ادارے کو الوداع کہتے ہیں۔ ٹیچرز ان کے ساتھ سیلفیاں بنواتے ہیں۔ وہ تفریح ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ کسی اخلاقی حدود کا پاس نہیں رکھا جاتا، اس لیے کہ ’’تفریح کی کوئی حدود نہیں ہوتیں‘‘۔ یہ ان تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے جہاں درسِ قرآن پر پابندی ہے۔ کسی بڑے اصلاحی لیکچر کے لیے لیکچر روم استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ خود وائس چانسلر سرکلر جاری کرتے ہیں کہ کسی کو مذہبی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی تعلیمی ادارے میں۔ وہاں سوسائٹیوں کو اجازت ہے کہ وہ تفریح کے نام پر سرگرمیاں کریں، یا تین چار اداروں کے گروپ آپس میں مل کر تعلیمی ادارے کے باہر جو چاہیں سرگرمیاں مخلوط انداز میں ترتیب دیں، ان پر کوئی پابندی نہیں۔ اب وائس چانسلر جیسی صاحبِ علم و فضل شخصیت سے بھلا ہم کیسے شکوہ کرسکتے ہیں کہ پابند چیزوں کو آزادی، اور آزادیوں کو پابند کرنے کا حکم جاری کریں! ان کا حسنِ کرشمہ ساز ان کی شخصیت کے علی الرغم طالب علموں کے ’’مفاد‘‘ میں ہی سوچتا ہوگا۔۔۔!! ہاں ہمیں تو شکوہ آپ سے ہے کہ منیرؔ کی طرح اکتائے ہوئے رہنا آپ نے اپنی عادت ہی بنالی ہے۔ نظام تعلیم، تیزاب، خودی، نسلوں کا بگاڑ، منشیات کی تباہ کاریاں، عظیم خسارہ، نظریہ پاکستان سے غداری وغیرہ پرانے عنوانات ہیں۔ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہورہا ہے۔ آئیے سی پیک منصوبے، اورنج ٹرین، میٹرو بس سروس کی بات کرتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں قوموں کی تقدیریں ان کی نسلوں سے نہیں ان منصوبوں سے مشروط ہیں۔ اسلام آباد کے اسکولوں میں منشیات کا استعمال بڑھنے پر آپ کی آنکھیں کیوں نم ہوگئیں؟ کون سی تعلیم کی وزارت ہے آپ کے پاس؟ جن کے پاس وزارتیں ہیں وہ تو اپنی آف شور کمپنیوں کو مستحکم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ کیا کہیں آپ سے۔۔۔ آپ تو خوامخواہ ہی۔۔۔ آپ سے تو محسنؔ نقوی ٹھیک ہی کہہ کر گئے ہیں کہ:
ذرا سی بات پہ محسنؔ بھگو لیتے ہو تم آنکھیں
سنو! ایسا نہیں کرتے زمانہ بیچ کھائے گا