May 3rd, 2024 (1445شوال24)

سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار

اسماء سید عبدالقادر
اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات بڑی خوب صورت اور حسین بنائی، لہلہاتے چمن زار، اٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر۔ روشن سورج چمکتا ہوا چاند جھلمل جھلمل کرتے ستارے۔ نیلا آسمان یہ دن اور رات۔ ہر چیز گواہی دے رہی ہے کہ اس کائنات کا بنانے والا خالق بھی کس قدر بے مثال ہے۔ ہم بہ حیثیت اشرف مخلوق کے اس کائنات چھوٹے سے سیارے زمین پر رہتے ہیں۔ انسان کو تمام مخلوقات کو علم کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے ۔اس کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتو ں سے نوازہ گیا، خالق کو اپنے بندے پر بڑا ناز ہے۔ وہ کہتا ہے کہ: ’’میں نے اس کو اپنے ہاتھ سے بنایا‘‘ ساتھ ہی انسان کو دنیا میں ایک بڑی ذمے داری دے کر بھیجا گیا۔ وہ خلیفتہ الارض ہے۔ اور اس کا کام اس دنیا میں قانون الٰہی کے مطابق زندگی بسر کرنا اور اللہ کی حاکمیت کو اس زمین پر قابو کرنا ہے۔ اللہ نے انسان کو سیدھی راہ دکھانے کے لیے انبیاء علیہ السلام کو معلم بنا کر بھیجا تا کہ اس کا انسان راستہ بھٹکنے نہ پائے۔
لیکن آج دنیا کے تمام خطوں میں مسلمان رسوائی کا شکار ہے۔ اس کی وجہ ہم نے اپنا دین چھوڑا۔ اپنی ثقافت سے منہ پھیر کر غیروں کی ثقافت کو اپنا کے ہم نے اپنا منصب بھلا دیا۔ اسلام دین فطرت و سلامتی کا مذہب ہے۔ اسلام کا ہر پہلو روشن اور واضح ہے۔ خصوصاََ نوجوان طبقے کا اسلامی معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ہونا چاہیے۔ آج غیروں کی ثقافت کواپنا کر اسلام کے سنہری اصولوں کو بھلا کر اپنا آپ کو بھول گیا۔
پاکستان جو دو قومی نظریۂ کے تحت میں وجود میں آیا۔ لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر یہ وطن حاصل کیا گیا ہے۔ لا الہ الا اللہ ہی اس وطن کی بنیاد تھا۔ یہ سن کر ہی مردہ اور سوختہ جسموں میں جان پڑگئی۔ دنیا کی بہت بڑی ہجرت ہوئی۔ لوگ اسلامی نظام کو اس زمین پر قائم کرنے کے لیے مشکلات کا بحر بیکراں پار کر کے پیارے وطن میں داخل ہوئے۔ افسوس 68سال گزرنے کے باوجود ہم منزل تک نہ پہنچ سکے بلکہ منزل کو بھلا دیا گیا۔ آج ہماری نوجوان طبقہ دو قومی نظریہ سے یہ واقف ہی نہیں۔ نہ والدین نے کچھ بتایا۔ اور نہ ہی نصاب میں کوئی مضمون ہے اور نہ ہی اساتذہ رہنمائی کرتے ہیں۔ استاد کا درجہ تو والد سے بھی بڑا ہے۔ نسلوں کی تربیت انہی کے ذمے ہے۔ لیکن وہ غفلت کا شکار ہے۔
ہم نے اپنی ثقافت کو پس پشت ڈال کر غیروں کی رسموں اور ثقافت کواپنا لیا۔
عیسوی سال کے آغاز پر مغرب کی تمام بے ہودگیاں اپنائی جاتی ہیں۔ جشن کے نام پر ایسی حرکتیں کی جاتی ہیں جو نہ اسلامی معاشرے کا چلن ہے نہ ہی کوئی ثواب پہنچتا ہے۔ بجائے اس کے کہ نفل نماز پڑھی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اگلے سال کو آسان اور محفوظ بنائے، لیکن وہ طبقہ اسلام جن کے حلق سے نیچے ہی نہیں اُترتا۔ وہ اسلام کو کیا جانیں ان کی دنیا اور اس کی آسائشیں بڑی دلفریب لگتی ہیں۔ اور واقع یہ ایک جان لیوا فریب ہی تو ہے کس کی لہروں میں ڈوب کر واپس نکلنا مشکل ہے۔
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا تمام بیہود گیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ حالاں کہ میڈیا کے کرتا دھرنا مسلمان ہی ہیں ۔لیکن شاید یہ نام کی حد تک ہی مسلمان ہے۔ نوجوان نسل کو بگاڑنے میں ان کا بہت ہاتھ ہے۔
سال نو کا پہلا مہینہ اختیام پزیر ہوگیا۔ اب فروری ویلنٹائن ڈے منایا جائے گا یہ بھی یہودیوں اور عیسائیوں کا تہوار ہے۔ یہ مادر پدر آزاد معاشرے ہونے کے باوجود وہاں کا سنجیدہ طبقہ اس بیہودگی کوقطعاََ پسند نہیں کرتا۔ کچھ ملکوں نے اس پر پابندی لگادی ہے۔ لیکن ہمارے وطن نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس کو بہت شوق سے مناتے ہیں اور خصوصاََ ٹی وی کے کرتا دھرتا اس شوق سے اس کا اہتمام کرتے ہیں کہ ان کے مسلمان ہونے کا شک ہوتا ہے۔(معذرت کے ساتھ) وہ بچیاں جن کو ہمارے مذہب نے گھر کی ملکہ بنایا۔ جنت ان کے قدموں کے نیچے ہے اور نسلوں کی پرورش اور تربیت کی ذمے داری بھی ان کے سپرد ہے۔ بیہودہ لباس زیب تن کیے ہوئے ایسی ایسی حرکتیں کرتی ہوئی مردوں کی پہلو میں بیٹھی ہوئی نظر آتی ہیں کہ شرم آتی ہے، کیا کریں بچیاریاں وہ خود اچھی تربیت اور اسلامی احکامات سے نابلد ہیں۔ اس بے ہودگی کو زندگی کا حاصل اور بڑا کارنامہ سمجھتی ہیں۔ حالاں کہ نبی اکرم ﷺ کا اسوۂ حسنہ، قرآن کے احکامات، امہات المومنینؓ اور صحابیاتؓ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن کی تقلید اور پیروی ہماری دنیا کی زندگی اور آخرت کی کامیابی اور فلاح ہے۔ آخر جس ربّ نے زندگی جیسی نعمت سے نوازا۔ بہترین وسائل مہیا کیے۔ کیا وہ ہمیں نہیں دیکھ رہا کہ ہم اس کے احکامات کی سر کشی میں کس قدر آگے بڑھ چکے ہیں۔ سرکشی میں کس قدر آگے بڑھ چکے ہیں۔ سرکشی اور نافرمانی میں لتھڑی زندگی کے لمحے کا حساب بھی تو وہ لے گا۔ ہم کو تو اس کا ہر لمحہ شکرگزار ہونا چاہیے کہ اس نے ہم کو امت مسلمہ میں شامل کیا۔
بسنت، ہولی، دیوالی تو ہندوؤں کے تہوار ہیں۔ وہ قوم جو ہماری دشمن ہے۔ اس کے تہوار منانے کو بھی ہم عار نہیں سمجھتے بلکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والا نوجوان طبقہ ہولی پر ایک دوسرے پر رنگ پھینک کر خوشیاں مناتے ہیں۔ ان والدین کے لیے لمحہ فکر ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کی اسلامی طریقے پر تربیت کیوں نہیں کی؟ ان کو مسلم ثقافت سے کیوں آشنا نہیں کیا؟ وہ اساتذہ کہاں ہیں جن کے ذمے نسلوں کی تربیت کی ذمے داری، ان کا مستقبل اور پیارے وطن پاکستان کا مستقبل اور شناخت ہے۔ اندرا گاندھی کی بہو سونیا گاندھی نے کہا تھا۔ ہم نے اپنی ثقافت کے ذریعے پاکستان کو فتح کر لیا ہے۔ اب ہم کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت نہیں۔
نوجوانو آپ تو ملت کا سرمایہ ہیں قوم کا مستقبل ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شناخت ہیں۔ محسن انسانیت ﷺ کی تعلیمات کا مذاق اپنے عمل سے مت اڑایئے۔ ورنہ یوم آخرت آپﷺ کے حضور شرمندگی اٹھانی ہوگی اور کفر کرنے والوں میں شمار ہوگا۔ چند لمحوں کی تفریح کی خاطر اپنے ربّ اور پیارے نبیﷺ کو ناراض کرنا کہاں کی دانش مندی ہے۔ زندگی جو ہم کو دی گئی ہے وہ امتحان گاہ ہے۔ مہلت عمل ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن حکیم کی صورت زندگی کو پورا نصاب ہمیں دے دیا ہے۔ اسی میں سوال اور اسی میں جواب بھی موجود ہیں۔ یہ ہمارا امتحانی پرچہ ہے۔ اسی کی تیاری کرنی ہے۔ نتیجہ آخرت میں اعمال نامہ کی شکل میں ملے گا۔ رحمٰن و رحیم کسی پر ظلم کرنے والا نہیں۔ در و دیوار، زمین، ہاتھ پاؤں یہاں تک کہ جلد بھی گواہی دے گی کہ ہم دنیا میں کیا کرتے رہے۔
زندگی کو فضول کاموں میں ضائع کرنا خسارے کا سودا ہے۔ جس کی کڑی سزا ہے۔ نیک عمل کی بہترین جزا بھی ملے گی۔ اس وقت انسان اپنا برا انجام دیکھ کر کہے گا۔ کاش میں مٹی ہوتا اور مجھے حساب نہ دینا پڑتا۔ مسلم و مومن بندے بنیں جنت جن کے انتظار میں ہے۔