May 3rd, 2024 (1445شوال24)

’’ہم کہنہ مشق بھکاری‘‘

اسریٰ غوری

سرخ گلاب تو سارا سال ہی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بکتے نظر آتے ہیں ہر سگنل پرکھڑے لڑکے بچے ہر آنے والی گاڑی میں دوڑ کر جاتے اور گاڑی میں موجود صاحب یا صاحبہ کو اپنے ہاتھ میں موجود پھولوں کا خرایدار بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے۔

مگر یہ کیسا گلاب ہے؟ یہ کیسا سرخ رنگ ہے، جسے دیکھ کر ہی کراہیت آنے لگتی ہے۔

ہر جانب دل کی شکل کے سرخ غباروں کی بہتات ساتھ سفید ٹیڈی بئیر۔

ہوٹلوں میں سرخ رنگ کی سجاوٹ کے ساتھ کمروں کی بکنگ کے ڈبل کرایے........

پچھلے سال کی ایک رپورٹ میرے سامنے ہے اور جسے لکھتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں۔

اعداد و شمارہیں یا ’’عزتوں کے جنازے‘‘ پڑھیے اگر آپ میں ہمت ہے  تو سر اٹھا اردگرد نظر دوڑائیے کہیں ان میں کوئی اپنا تو نہیں ......!!

پورے سال میں حمل روکنے والی ادویات سب سے زیادہ 14 فروری کو فروخت ہوئیں‘‘۔

14 فروری کو کسی سستے اور مہنگے ہوٹل میں کمرہ خالی نہیں تھا۔

400 غیر شادی شدہ جوڑوں کی ویڈیوز ایک ویب سائٹ نے 22کروڑ میں خریدیں۔

آہ......!! یہ کیا فتنہ ہے جس نے ہماری روایات و اقدار پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ہم اپنی نسلوں کو اس وار سے بچاتے بچاتے بھی پور پور زخمی ہوئے جارہے ہیں۔

یہاں معاملہ صرف لبرلز کا نہیں جن کو لنڈے کے کپڑوں سے لیکر ان کی ہر گندی روایت کو قبول کر کے ویسے ہی فخر ہونے لگا ہے جیسے کوئی ٹھیلہ لگانے والا باہر کسی بڑے برانڈ کا (لنڈے کا) کوٹ پہن کر اکڑ کر چلتا نظر آئے، اپنی تئیں وہ یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھیں گے کہ وہ اتنا مہنگا کوٹ افورڈ کرسکتا ہے۔ جب کہ اسے دیکھنے والا ایک نظر میں یہ بھانپ جاتا ہے کہ یہ لنڈے کی مہربانی ہے۔

یہی حال ان لبرلز کا ہے کہ یہ مسلمانوں کی ہر روایت اور اقدارکو یہ کہہ کر ٹھکرا دینے والے کے بھائی ان کی اور ہماری جغرافیائی سرحدوں سے لیکر معاشرتی اقدار تک سب کچھ الگ ہے تو پھر ہم ان کو کیوں اپنائیں۔ ہاں مگر یہی لبرلز مغرب کی ننگی تہذیب کے اک اک جز کو اپناتے ہوئے ذرا نہیں شرماتے نہ انہیں اس وقت کوئی سرحدی یا معاشرتی حدیں اس سے روک پاتی ہیں ....... مگر دکھ یہی نہیں کہ یہاں تو اچھے اچھے گھرانوں کے بچے یہ کہتے نظر آتے ہیں۔

کیا ہوگیا اگر ایک پھول اپنی دوست کو دے دیا،

اس تہوار کے بہت سے تاریخی پس منظر بیان کیے جاتے ہیں مگر ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جو حیاء سے عاری نہ ہو اور نوجوان نسل کو بے راہ روی کے ترغیب نہ دیتا ہو مگر ہماری نوجوان نسل جو اپنی عید کا پورا دن سونے میں گزارتی ہیں مگر اس تہوار کو وہ بہت ہی اہتمام کے ساتھ مناتی ہے۔

آج ہر اسکول، کالج، یونیورسٹیوں میں منایا جانے والا بے غیرتی کا یہ تہوار ایک مسلم معاشرے کے لیے زہر قاتل کی طرح ہے اور نوجوان نسل ہی کیا اب تو معصوم ذہنوں کو بھی پرا گندہ کرنے میں کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اسکول جو ماں کی گود کے بعد بچے کی تربیت اور شخصیت سازی کی اہم ترین جگہ ثابت ہوا کرتے تھے۔ استاد جن کو روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے کہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہوتا ہے کہ وہ بچے کو ہر برائی سے روکیں۔ اور اس میں اچھائیاں پیدا کریں مگر یہ کیا .......آج کے استاد نے صرف اپنا اولین مقصد چھوڑ دیا۔ ہوتا تو بھی اتنا نقصان نہیں ہوتا مگر اس نے تو اپنی راہ ہی بدل لی اور راہوں کے بدلنے کا کفارہ من حیث القوم دینا پڑرہا ہے جن قوموں کی تقلید میں ہم اپنا دین، ایمان، غیرت، حیا سب داؤ پر لگا دیتے ہیں وہ پھر بھی ہمیں قبول نہیں کرتی۔

مجھے میرے دعوے عشق نے نہ صنم دیا نہ خدا دیا

مائیں پریشان کہتی نظر آتیں کہ کیا کریں کہاں لیکر جائیں، بچوں کو کیسے بچائیں اور کہاں کہاں بچائیں۔ میرا بچہ تیسری جماعت میں پڑھتا ہے اور عام سا اسکول ہے مگر ویلنٹائن سے ایک دن پہلے اسکول سے آکر کہنے لگا ’’امی کل مجھے لال شرٹ پہن کر جانی ہے اور ایک پھول لے کر جانا ہے ‘‘۔ بولیں میں نے حیرانی سے پوچھا کس لیے بیٹا؟ ’’امی ہماری ٹیچر نے کہا ہے کل کلاس میں وہ ویلنٹائن ڈے منائیں گے۔ تو وہ کپل بنائیں گی اور مجھے اپنی کپل کو پھول دینا ہے‘‘۔ وہ خاتون تو اپنا دکھ بیان کر گئیں مگر مجھے لگا کہ ہم ایک ایسی گہری کھائی میں گر رہے ہیں جس کی پستی کا ابھی اس وقت شاید کسی کو اندازہ نہیں یا کرنا نہیں چاہتے مگر جب آنکھ کھلے گی تو وقت گزر چکا ہوگا۔

ہمارا نام نہاد آزاد میڈیا ہے جہاں ہر چینل پر بیٹھے غیرت سے عاری جوڑے ہوں جو ایک طرف خاندانی نظام کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں تودوسری طرف آنے والی نسل کو اخلاقی بانجھ پن کا شکار کر رہے ہیں یا وہ خوغرض سرمایہ دار ہوں جو اپنا کثیر سرمایہ بے حیائی کی ترویج کے لیے اس تہوار پر لگاتے ہیں جن کی بدولت بڑے شاپنگ مالز سے لیکر گلی محلے کی دکانوں میں بھی ویلنٹائن کے کارڈز ہوں، دل بنے غبارے ہوں یا پھول ہر طرف سرخ رنگ کی بہتات نظر آتی ہے اور ہر ایک کے لیے اس کو منانا اتنا آسان کردیا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ہر ایک کے دروازے تک پہنچا دیا تو بےجا نہ ہوگا جس نے پورے کے پورے معاشرے کو بے حیا بنادیا۔

دنیا کے کسی ملک میں اتنی کوریج اور اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کہ ہمارے ملک میں کیوں ہم تو وہ کہنہ مشق بھکاری ہیں کہ جو غیروں کی اندھی تقلید میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس کی حقیقت کیا ہے اگر اسی پر ایک نظر ڈال لیتے تو شاید حیا اور شرم یہ سب منانے سے روک دیتی۔

اس تہوار کے منانے والے اللہ کے نبی ﷺ کی اس تنبیہ کو یادرکھیں۔

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے انہی میں سے ہے۔ (ترمذی، مسنداحمد، سنن ابوداؤد)

چوں کہ شیطان کا پہلا وار ہی انسان کی حیا پر کیا گیا تھا اور اسی لیے ربّ نے خود نبی آدم کو تنبیہ کی تھی کہ: اے اولاد آدم! شیطان تم کو کسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکلوا دیا ایسی حالت میں ان کا لباس بھی اتروا دیا تا کہ وہ ان کو ان کی شرم گاہیں دکھائے۔ وہ اور اس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تم ان کو نہیں دیکھتے ہو۔ ہم نے شیطانوں کو ان ہی کا دوست بنایا ہے جو ایمان نہیں لاتے۔ (سورۃ الاعراف)

فرمانِ نبوی ﷺ ہے:’’جب تم حیا نہ کرو تو جو جی چاہے کرو‘‘۔ (بخاری )اس لیے کہ حیا ایمان کی ایک شاخ قرار دی گئی اور حیا اور ایمان دونوں کو لازم  و ملزوم قرار دے دیا گیا اور واضح کردیا گیا کہ جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی چلا جاتا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ حیا ہی وہ فرق ہے جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتی ہے اور جب حیا نہ رہے تو انسان کو حیوان بنتے دیر نہیں لگتی اور رشتوں کا تقدس و احترام سب جاتا رہتا ہے۔

نام نہاد روشن خیال لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ محبت کا دن ہے اور اسے ضرور منانا چاہیے تو ان کے لیے ایک اہم خبر ہے کہ اسلام کی تو بنیاد ہی محبت و اخوت پر ہے اس میں تو سال کا ہر دن محبتوں سے لبریز ہوتا ہے۔ ہاں بس فرق اتنا ہے کہ اسلام جائز رشتوں، جائز طریقوں سے محبت کا حکم دیتا ہے اور ہر لمحہ کے لیے دیتا ہے سال میں صرف ایک دن کے لیے نہیں۔

ہاں کچھ حدیں ہیں اللہ نے خود متعین کی ہیں اور یہ کرنٹ وائیرز کی طرح ہیں جن کو چھونے کو ہی منع نہیں کیا گیا بلکہ ان کے قریب سے بھی گزرنے سے روک دیا گیا اور وعید سنا دی گئی ہے:

ارشاد ربانی ہے: ’’اور جو لوگ اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اہلِ ایمان میں بے حیائی پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے۔(النور:۱۹)

یہی وہ حدود ہیں جن کو توڑنے کے نتیجے میں ربّ نے ہم سے پہلے کی قوموں کے بارے میں ارشاد فرمایا: ’’اور آخر کار اس دنیا میں بھی ان پر پھٹکار پڑی اور قیامت کے روز بھی۔ سنو!عاد نے اپنے ربّ سے کفر کیا، سنو! دور پھینک دیے گئے عاد، ہود کی قوم کے لوگ جن لوگوں نے ظلم کیا تھا ان کو ایک سخت دھماکے نے ایسا پکڑا کہ وہ اپنی بستیوں میں بے حس و حرکت پڑے کے پڑے رہ گئے گویا وہ کبھی وہاں رہے بسے ہی نہ تھے۔ سنو!مدین والے بھی دور پھینک دیے گئے جس طرح ثمود پھینکے گئے تھے۔(سورہ ہود)

یاد رکھیے!!

جو قومیں اپنی اخلاقی اقدار کی حفاظت نہیں کرنا جانتی اور اغیار کی ہر گندی روایت کو اپنانے میں کوئی عار نہیں محسوس کرتی وہاں کی نئی نسلیں پھر محمد بن قاسم جیسے بیٹے اور فاظمہ بنت عبداللہ جیسی بیٹیاں نہیں بلکہ ..... وہ قومیں معصوم کچی عمروں میں خود کشیاں کرنے والے نوروز اور فاطمہ پیدا کرتی ہیں۔ یا پھر ان کی عزتوں کے جنازے پورن سائٹ کی زینت بنتے ہیں ...........!!

آپ کو ان میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!!