May 3rd, 2024 (1445شوال24)

حیا، جزوایمان

اسماء سید عبدالغفار

اسلام دین فطرت ہے۔ اللہ نے اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے نبی اکرمﷺ کومبعوث فرمایا اور آپ پر قرآن نازل کیا۔ جو نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری انسانیت کے لیے رہنما و ہدایت ہے۔ قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ نے بندوں کے لیے معاشرت، معیثت، سیاست کے تمام قوانین بتا دیے تا کہ اس کا بندہ صراط مستقیم سے بھٹکنے نہ پائے۔ اطیعو اللہ واطیعو الرسول ہی ہمارا راستہ ہے جس میں نہ کوئی کجی ہے اور نہ ٹیرھ۔

نبی اکرم ﷺ نے تمام احکامات پر عمل کر کے بتا دیئے اور ایک اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی جس میں اللہ کا ہر حکم نافد کردیا گیا۔ نبی اکرمﷺ کی احادیث وہ روشن راستہ ہیں جن پر چل کر ہی ہم دین و دنیا کی فلاح حاصل کرسکتے ہیں۔ پیارے نبیﷺ سے حیا کے بارے میں بھی بہت سی احادیث روایت کی گئی ہیں۔

۱) حیا جزوایمان ہے۔

۲) ایمان کی ستر شاخیں ہیں جس میں ایک حیا ہے۔

۳) جب تم میں حیا نہ ہو تو تمہارا جو جی چاہے کرو۔

۴) جس میں حیا نہیں اس میں ایمان نہیں۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ آج یہ حدیث ’’جب تم میں حیا نہ ہو تو تمہارا جو جی چاہے کرو‘‘ ثبت ہوجاتی ہے۔ حیا کا سب سے زیادہ حق دار اللہ ہے۔’’اگر ہم اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تو ہم کو دیکھتا ہی ہے۔ ہمارا رب جس کو نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ہم نگران ہے۔ وہ اپنے ہر بندے کے کام اور شغل کو خوب اچھی طرح جانتا ہے۔ ہمارا کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ حیا کا قانون ہماری زندگی کے لمحہ لمحہ پر محیط ہے۔

اگر کوئی شخص تجارت کرتا ہے تو پیش نظر یہ بات ہونی چاہیے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے جب یہ خیال دل میں ہوگا تو وہ بد دیانتی نہ کرسکے گا۔ بُرے مال کو اچھا بتا کر فروخت نہ کرے گا۔ کیوں کہ یہ بد دیانتی اور دھوکہ ہے خریدار تو نہیں جانتا لیکن تاجر خود اپنے عمل کو جانتا ہے اللہ اس کو دیکھ رہا ہے۔

اسی طرح جھوٹ کا معاملہ ہے اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا ’’مومن سب کچھ ہوسکتا ہے جھوٹا نہیں ہوسکتا‘‘ ہمارے معاشرے میں جھوٹ نے اس قدر پنجے گاڑ دیے ہیں کہ بولنے والے کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ اس کو اللہ دیکھ رہا ہے جس سے حیا کرنی چاہیے۔

ہمارے وطن میں اسلام کا نفاذ اب تک کیوں نہ ہوسکا؟ حکمران یکے بعد دیگرے آتے ہیں ان کو نہ اسلام سے محبت اور نہ دین کے علم سے واقف ہیں اللہ کی خشیت اور خوف دل میں ہے نہ جواب دہی کا ڈر۔ وہ صرف پاکستان کے غریب عوام کا مال بٹورنے کے لیے آتے ہیں۔ اقتدار کی ہوس ان کو یہ سوچنے کا موقع نہیں دیتی کہ رعایا کا بوجھ ان کے کاندھوں پر ہے۔ ۔صحابہ کرامؓ میں جب بھی کسی کو گورنر بنایا جاتا تھا وہ کانپتے تھے کہ رعایا کے بارے میں ہم سے سخت پوچھ ہوگی۔ سیدنا عمر فاروقؓ جب امیر المومنین تھے آپؓ فرماتے تھے اگر سمندر کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مرگیا تو عمرؓ کو جواب دینا ہوگا۔ یہ تھا وہ خوف خدا اور جواب دہی کا ڈر۔ ہمارے حکمران اربوں روپے اپنی جیبوں میں بھر رہے ہیں۔ اس بات سے حیا نہیں آتی کہ اگر عوام نہ دیکھ رہے ہوں تو اللہ جو بصیر بالعباد ہے دیکھ ہی رہا ہے۔ تعلیم کا بھی یہی حال ہے استاد کا درجہ باپ سے بھی بڑا ہے۔ کیوں کہ معصوم بچوں کی تعلیم و تربیت استاد کی ذمہ داری ہے۔ آج اساتذہ نے اپنے منصب بھلا دیا۔ نئی نسل کے مستقبل کے ذمے دار اساتذہ ہی تو ہیں۔ محکمہ تعلیم میں بھی کرپشن، رشوت، بددیانتی، اقراباء پرروی عروج پر ہے۔ ٹیوشن سینٹرز کی بھرمار اس با ت کا ثبوت ہے کہ اسکولوں میں بچوں کو صحیح طریقہ سے پڑھایا نہیں جارہا۔ نصاب بنانے والے اسلامی اور معاشرتی علوم کا نصاب بھی صحیح نہیں بناتے۔ اسلامیات سے ان سورتوں کو جن میں جہاد کا حکم ہے۔ نصاب سے نکال دیا گیا۔ ہمارے بچوں کو نظریہ پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں پتا اور نہ یہ معلوم ہے کہ پاکستان دنیا کے نقشے پر کیوں وجود میں آیا ہے۔ نہ ہی پاکستان کے رہنماؤں کے بارے میں کوئی مضمون نہ لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بارے میں کوئی سبق۔ جعلی ڈگریوں کا حصول بھی آسان ہوگیا۔ لاکھوں روپے خرچ کریں ڈگری ہاتھ میں۔ کیا ایسے افراد علم کی ابجد سے بھی واقف ہیں جو دوسروں کو تعلیم دے سکیں۔ ان خود غرض لوگوں نے وطن کے مستقبل کوداؤ پر لگا دیا ہے۔ نہ اللہ سے خوف آتا ہے نہ ہی حیا۔

فرقہ پرستی، رشوت ستانی، قتل وغارت گری، جھوٹ، بددیانتی، مال و دولت کی خاطر خاندانوں کا ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونا دہشت گردی، انتہا پسندی ہماری عاقبت نا اندیشی اور مال و زر کی ہوس میں ہمارے وطن میں درآئیں۔ یہ سب قرآن کے احکامات۔ اللہ بندگی، رسول اکرم ﷺ کی پیروی سے روگردانی کا نتیجہ ہے۔

پاکستان کے گھمبیر مسائل میں فحاشی وعریانی بھی کوہ ہمالیہ جیسا مسئلہ ہے۔ سورۂ احزاب اور سورہ نورمیں پردے کے کھلے احکامات ہیں۔ لیکن اللہ کے احکامات کو ہم نے پس پشت ڈال دیا۔ جس کی وجہ سے بے حیائی و بے پردگی کا طوفان بلا خیز ہماری پیاری بیٹیوں کی عزت اور عصمت کو پامال کررہا ہے۔ آج نوجوان لڑکیوں اور عورتیں بغیر آستین کی قمیص اور جینز پہن کر آزادانہ گھومتی ہیں۔ نہ کوئی روکنے والا ہے نہ ہی ان میں شرم و حیا ہے۔ عورت کا تو مطلب ہی پردہ (چھپی ہوئی چیز) ہے۔ خصوصاََ الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا نے بھی فحاشی وعریانی کو بہت رواج دے دیا ہے۔ مرد کو تو اللہ نے عورت کا محافظ بنایا ہے۔ اور ایک درجہ فضیلت مرد کو عورت پر حاصل ہے وہ کیوں نہیں اپنی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتا۔ باپ ہو یا شوہر یا بھائی سب اپنے گھر کی خواتین کو بے پردہ لے کر گھومنے پھرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے۔ اشتہارات میں جن میں مردوں ہی کی چیزوں کے ہوں عورت ہی کی تصویر چھپتی ہے فیشن اور ثقافت کے نام پرعورت کو بے لباس کیا جارہا ہے۔ ہماری شادیوں کی محفلوں ہوں یا کوئی اور تقریب مخلوط محفلوں کی وجہ سے خواتین کے اپنے آپ کو حد سے زیادہ سجانا اور سنوارنا شروع کردیا ہے۔ نتیجے میں بیوٹی پارلر میں ہزاروں روپے کا میک اپ چند گھنٹوں کی تفریح کے لیے کروایا جاتا ہے۔ باریک سے باریک لباس زیب تن کیا جاتا ہے۔ عورتیں باریک لباس پہن کر بہت خوش ہوتی ہیں ۔ جب کہ اس کے بارے میں بڑی سخت وعید ہے۔ آپﷺنے فرمایا ’’ایسے لباس پہنے والی عورتیں برہنہ ہوتی ہیں۔ ایسے لباس پہننے والی عورت آخرت میں ........... یہ نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی خوشبو سونگھ سکیں گی۔ آپﷺ نے فرمایا ’’ ایسے عورتوں پر لعنت بھیجو کیوں کہ وہ لعنتی ہیں‘‘ دین دار مرد اور دین دارعورتیں بے حیائی کو قطعاََ ناپسند کرتے ہیں کیوں کہ اس سے معاشرہ میں بدکاری، فحاشی پھیلتی ہے اور پورا معاشرہ ابری کا شکار ہوتا ہے اور اسلامی تہذیب وتمدن وہ شرم و حیا جو اسلامی معاشرے کی بنیاد ہے اس کو قعر مذلت میں دھکیل دیا گیا ہے۔ حیرت تو یہ ہے کہ غیر مسلم ملکوں میں نیک سیرت عورتیں عبایا اور حجاب پہنتی ہیں چاہے ان کے ساتھ غیر مسلم معاشرہ کوئی بھی سلوک کرے۔ تقریباََ سو ڈیڑھ سو سال پہلے اکبر الہٰ آبادی نے بے پردہ عورتوں ک دیکھ کر کہا تھا ۔؂

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں

اکبر زمین میں غیرت قومی سے گڑ گا

پو چھا جو ان سے آپ کا پردہ ، وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پر مردوں کی پڑ گیا

قرآن کہتا ہے کہ عورتیں باہر نکلیں تو اپنی چادروں کے پلّو چہرے پر ڈال لیا کریں کہ پہچان لی جائیں مومنات ہیں۔ شیطان کا تو پہلا حربہ ہی فحاشی، عریانی پر اکسانا ہے۔ اس نے اپنا جال پھیلا رکھا ہے۔ افسوس کے مسلمان خواتین اس جال کے حصار میں پھنستی جارہی ہیں۔ ہم تو اللہ وحدہ لاشریک کے ماننے والے ہیں ہم کیوں ہندو، یہود اور نصاریٰ کے نقش و قدم پر چل رہے ہیں۔ ہم نے اپنے بہترین تہذیب کو چھوڑ کرغیروں کی تہذیب اپنا لی۔ اسی کو اختیار کرنا اپنی شان سمجھتے ہیں۔ علامہ اقبال ؒ نے فرمایا:

وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ییں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

پیاری بیٹیاں اور بہنیں گھروں میں کام کرتے ہوئے ڈوپٹہ اتار کر الگ رکھ دیتی ہیں۔ کوئی دیکھے نہ دیکھے اللہ تو دیکھتا ہی ہے اور سب سے زیادہ حیا کاحقدار اللہ ہے۔