May 3rd, 2024 (1445شوال24)

آخر حرج ہی کیا ہے!

ہماری حالت کوّا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا، والی ہے۔ مغرب کی تقلید میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ ہر وہ کام کرنا ہے جو انگریز کررہا ہے، چاہے وہ ہمارے دین اور معاشرتی اقدار کو تار تار کردے۔ آج سے دو دن کے بعد 14 فروری کو نجانے کتنی تعداد میں، مغربی تہذیب کے دیوانے یہاں ویلنٹائن ڈے منانے کے لیے اسلام کے بنیادی شعار شرم و حیا کے برخلاف اپنے آپ کو مارڈن اور روشن خیال ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔ دو دن قبل میں نے مری میں واقع ایک اہم ہوٹل فون کیا تو معلوم ہوا کہ ویلنٹائنز ڈے کی وجہ سے ہوٹل مکمل بُک ہے اور ویک اینڈ کے لیے وہاں کوئی گنجائش نہیں۔اس موقع پر سرخ پھولوں، سرخ ریپرز میں لپٹے چاکلیٹس و دیگر تحفوں اور شراب کا کاروبار خوب چمکتا ہے۔عمومی طور پر ایسے بے ہودہ مغربی رواجوں پر اعتراض کرنے والوں سے کہا جاتا ہے کہ بھئی آپ کو کیا اعتراض اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو پھول پیش کردے اور محبت کا اظہار کرے، یہاں پاکستان میں تو ویسے ہی خوشیاں منانے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ اس بے ہودگی کے حق میں کچھ یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ہرج ہی کیا ہے اگر کوئی ایسا کرلے۔ اس تہوار کے وکیل تو اپنے آپ کو ٹھیک ثابت کرنے کے لیے سرخ پھول اور آئی لوّ یو کو والدین، بہن بھائیوں، بیوی بچوں کے ساتھ محبت سے جوڑنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ بڑے بڑے ہوٹلوں میں جاکر دیکھیں کتنے لوگ اپنے ماں باپ کو اس موقع پر ویلنٹائنز ڈے منانے ساتھ لے کر آتے ہیں۔اپنے اپنے شہروں کی اہم مارکیٹوں میں جاکر دیکھیں کہ ویلنٹائنز ڈے کے موقع پر کتنے بھائی اپنے بہنوں کے ساتھ وہاں اس مغربی تہوار کو منانے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ چاہے دلیل جو مرضی ہو، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس تہوار کے ھق میں بولنے والے کیا یہ برداشت کریں گے کہ ان کی بیٹیوں اور بہنوں کو بازاروں میں، ہوٹلوں میں یا محلّے میں سے گزرتے کوئی لُچا، لفنگا، لوفر سرخ پھول تھمادے اور آئی لوّ یو کہے۔ ایسے میں وہ کیا کہیں گے کہ آخر ہرج ہی کیا ہے۔ دوسروں کی بہنوں اور بیٹیوں کے لیے تو ہمارے معیار ہی مختلف ہوتے ہیں۔ اُن کو پھول پیش کریں، اظہارِ محبت کریں، اُن کی زندگیوں کو تباہ و بربادکرکے رکھ دیں کوئی مسئلہ نہیں مگر جب اپنی بہن اور بیٹی کا مسئلہ ہو تو غیرت جاگ اٹھتی ہے۔ ہاں اگرچہ یہاں ایک محدود طبقہ ضرور ہے جن پر مغربی تہذیب کی بے شرمی کارنگ اس قدر خوب چڑھ چکا ہے کہا اُن کے لیے عزت غیرت اپنے معنی کھو چکے ہیں۔ مگر اس تہوار کو منانے والوں کی بڑی تعداد اپنے لیے وہ پسند نہیں کریں گے جو وہ دوسروں کی بہنوں بیٹیوں کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں اکثریت کی خاموشی اور حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے بے ہودگی کا یہ کاروبار اس حد تک فروغ پا چکا ہے کہ اخبارات میں ویلنٹائنز ڈے کے لیے اشتہار دیے جاتے ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔ چند دن قبل ایک اخباری اشتہار سوشل میڈیا میں پڑھنے کو ملا جس کا عنوان ’’لڑکے لڑکیوں سے دوستی‘‘ تھا اور جس کے مضمون میں یہ لکھا تھا ’’ہزاروں پاکستانی ماڈرن حسین لڑکے لڑکیوں سے دوستی، تصویریں، موبائل نمبر، ویلنٹائنز پارٹنر حاصل کریں اور ان لمحات کو خوشگوار بنائیں‘‘۔ اشتہار دینے والی خاتون نے اپنا نام مس صائمہ ظاہر کرنے کے ساتھ ساتھ موبائل نمبر بھی دیا۔یعنی بغیر کسی لگی لپٹی، کس دیدہ دلیری کے ساتھ جوان مردوں اور عورتوں کو کھلے عام گناہ کی دعوت دی جاتی ہے اور اخبار یہ اشتہارات بلا سوچے سمجھے شائع بھی کرتے ہیں اور جب یہ اشتہارات شائع ہوتے ہیں تو کسی کو بولنے کی توفیق نہیں ہوتی۔اس قسم کے دھندے کو مسلمانوں کے معاشرے میں کسی طرح بھی برداشت نہیں کیا جاسکتا مگر ہم بحیثیت قوم کچھ ایسے بے حس ہوچکے کہ یہاں جو مرضی ہوجائے ہم نے بولنا ہے اورنہ ہی احتجاج کرنا ہے۔ورنہ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ایسے غلیظ اشتہارات پڑھ کر نجانے ہمارے کتنے بچے بے راہ روی کے لیے بچھائے گئے اس جال میں پھنستے ہوں گے۔ نجانے ہم میں سے کتنوں کو خبر بھی نہ ہو گی مگر ہمارے بچے اور بچیاں اس بیہودہ تہوار کے نام پر اپنی زندگیاں تباہ کررہے ہوں گے۔اس حالات میں حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے بے ہودگیوں کو ہوٹلوں، بازاروں اور میڈیا کے ذریعے معاشرے میں پھیلنے سے سختی سے روکنے کے اقدامات کرے۔لیکن ہماری حکومتیں تو اپنی اس ذمہ داری سے مکمل غافل ہیں اور اس کی مثال یہ ہے کہ کتنے سالوں سے ویلنٹائنز ڈے یہاں منایا جاتا ہے مگر نہ کبھی میڈیا کے خلاف کوئی کاروائی ہوئی نہ ہی بڑے بڑے ہوٹلوں پر چھاپے مارے گئے اور نہ ہی مس صائمہ جیسے کرداروں کو گرفتار کرکے سزا دی گئی۔ اس کام کے لیے بڑے شہروں کی مخصوص مارکیٹوں میں بھی لڑکے لڑکیوں کو کھلی چھٹی دی جاتی ہے کہ جیسے چاہیں انجوائے کرلیں۔ حکومت کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیاں، پارلیمنٹ، عدلیہ اور عمومی طور پر معاشرے نے بھی ایسے تہواروں کو روکنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا، کوئی حکم سادر نہیں کیا اور نہ ہی قانون سازی کی۔ صرف جماعت اسلامی کی کواتین کی طرف سے اس موقع پر ہر سال کچھ نہ کچھ کام کیا جاتا ہے وگرنہ عمومی طور ہم سب اس جرم میں اپنی خاموشی کی وجہ سے برابر کے شریک ہیں۔ ہم میں سے بہت سے سوچتے ہوں گے کہ چلیں کوئی مسئلہ نہیں، کون سا میرے بچے اس تہوار کو منا رہے ہیں مگر کسے خبر وہ چھپ کر ایسا بھی کر رہے ہوں۔اگر آج نہیں تو کل، کیا وہ یا ان کے بچے ایسا نہیں کریں گے۔ ایسے میں، ہم میں سے ہر ایک کی یہ ذمہ داری ہے کہ اسلام کی تعلیمات کے سراسر خلاف ایسے مغربی تہواروں کی کھلے عام مذمت بھی کریں اور ہر وہ پر امن طریقہ اپنائیں جس سے پاکستان کے معاشرہ کو ایسی بے ہود گیوں سے پاک کیا جاسکے اور جس کے ذریعے مغربی تہذیب کی خرافات کے سنگین نتائج سے معاشرہ کو آگاہی حاصل ہوسکے۔

بشکریہ جنگ