May 3rd, 2024 (1445شوال24)

ہماری تہذیب اور دور حاضر

ثوبیہ اجمل

18جنوری کو برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ مسلم خواتین کو اگر برطانیہ میں رہنا ہے تو اپنی انگریزی ٹھیک کرنی ہوگی۔ اڑھائی سال بعد ان کا ٹیسٹ لیا جائے گا تاکہ اس با ت کو یقینی بنایا جائے کہ انہوں نے انگلش پر مناسب عبور حاصل کر لیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جن خواتین کی انگلش سیکھنے کی صلاحیت بہتر نہیں ہوتی ان کو اس ملک میں رہنے کی کوئی ضمانت نہیں جو لوگ ان کے ملک میں آرہے ہیں ان کی کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جنہیں انہیں پورا کرنا ہوگا۔ خبر کے بعد ایک بات کا شدت کا احساس ہورہا ہے کہ ہرملک کو اپنی ثقافت کی کس قدر فکر لاحق ہے۔ اگرچے ڈیوڈ کیمرون کے ان جملوں کا مقصد معاشرے میں صنفی امتیاز اور رجعت پسندانہ سوچ کو ختم کرنے کے حوالے سے تھا۔

مذکورہ خبر اپنی جگہ تاہم اپنی تہذیب و تمدن کی بات کریں تو جیسے ہمیں یاد ہی نہیں رہا کہ ہم کون ہیں۔ اور اب کیا ہونے جارہا ہیں۔ تہذیب وثقافت کسی بھی معاشرے کا اہم اثاثہ ہوا کرتے ہیں۔ معاشرے اسی تہذیب وتمدن کی بنیاد پر اپنے حال اور مستقبل کو سنوارتے ہیں۔ ایک مہذب معاشرہ کبھی کبھی پابندیاں عائد نہیں کرتا، تاہم دور حاضر میں ہمارے پاک و صاف معاشرے کو گھٹن زدہ ماحول تصور کیا جارہا ہے۔

لوگوں نے تہذیب وتمدن کو شاید رقص وموسیقی اور مختلف رنگوں کا لباس پہننا ہی سمجھ لیا ہے۔ چند رسموں کو ہم تہذیب کا نام دیتے ہیں جو ہم نے کچھ انگریزوں اور زیادہ تر ہندوؤں سے سیکھی ہیں، جب کہ ہمارے دین اسلام نے جو تہذیب کا درس ہمیں دیا ہے اس میں تو دین و دنیا دونوں ہی کا امتزاج ملتا ہے۔ آج کے دور میں ہم ان طور طریقوں کو بھول چکے ہیں جو کبھی ہمارے بزرگوں کا خاصہ ہوا کرتی تھیں کیسے بچوں کی تربیت کا اہتمام گھروں میں کیا جاتا تھا۔ ان کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اور کھانے پینے سب ہی پر بزرگوں کی نظر ہوا کرتی تھی۔  اگر وہ کسی کو کچھ غلط کرتا ہوا دیکھ لیتے تو فوراََ اس کی اصلاح کردیتے تھے، مگر آج کل کے والدین کے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔

ہم نے مغربی معاشروں کو ترقی کرتے ہوئے دیکھا اور وہاں پھیلی ہوئی بے حیائی سے بھی سبھی واقف ہیں۔ یہ ترقی یقیناََ انہوں نے بہت محنت سے حاصل کی ہوگی لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم شب و روزمحنت نہیں کرسکتے تو سوچا کہ بے حیائی اور بے باکی میں ان کے ہم پلہ ہوجائیں۔ اس سلسلے میں آزاد الیکڑونک میڈیا نے بھی لوگوں کو خوب راہ دکھائی ہے جس کی وجہ سے بے حیائی ہمارے معاشرے میں تیزی سے سرایت کرچکی ہے۔ تاہم اس کی روک تھام کے لیے آج کل کے حکمرانوں نے بھی کوئی اقدام نہیں کیا۔ جیسا کہ ماضی میں ایک چینل کے ہوتے ہوئے پھر بھی حدود و قیود کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اب تو سب مادر پدر آزاد ہی ہیں۔ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کررکھی ہے۔ جس سے ہمارے معاشرے میں پچھلے دوتین سال میں بہت تبدیلی آئی ہے جسے خوش آئند ہر گز نہیں کہا جا سکتا۔ جن کے نتائج بھی کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے ہیں۔

ایک طرف ہم ہیں کہ مغرب کی طرف جانے کی کوشش کررہے ہیں دوسری طرف یورپ ہے جو ہم مسلمانوں کو اپنے معاشرے، اپنی زبان اور اپنے رنگ ڈھنگ میں رنگنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ یہ وہ مغرب ہے کہ جس کے بارے میں شاعر نے خبردار کیا ہے کہ:

یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج

مغرب کی راہ طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

آج ہمارے لیے سب سے اہم اپنی شناخت کو بحال رکھنا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ اس وقت ضروری یہ نہیں کہ ہمارا اسٹیٹس اور معیار مغربی ثقافت سے کم ہو رہا ہے بلکہ ضروری یہ ہے کہ ہماری تربیت اور اپنائیت جس سے مغرب محروم ہے وہ ہمیں اپنی تہذیب و تمدن میں ہی ملے گی۔ وہ خوشبو جسے ہم ایک عرصے سے بھولتے آرہے ہیں وہ ہمیں اپنی ہی ثقافت سے ملے گی۔

نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے پاکستان والو

تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں

ہمیں چاہیے کہ ہمیں دین اسلام نے جو تہذیب سکھائی ہے اسے جاننے اور اپنانے کی کوشش کریں اسی میں ہماری دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔