April 26th, 2024 (1445شوال17)

تدفین

غسلِ میت اور کفن کے مسائل:

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
’’جس نے میت کو غسل دیا اور اس میں امانت کو ادا کیا اور اس وقت کی کیفیت کو کسی سے بیان نہیں کیا، تو وہ شخص اپنے گناہوں سے ایسے نکلے گا جیسے آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا۔ مردے کے قریب وہ ہو جو اس کا زیادہ قریبی ہو۔ اگر اس کا علم نہ ہو اور اس کا پتہ نہ ہو تو جسے تم پرہیزگار اور امانت دار سمجھتے ہو وہ غسل دے۔
(بہیقی ، مسنداحمد عائشہ)
’’رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے‘‘
جس نے میت کو کفن دیا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کے باریک اور موٹے ریشم کا لباس پہنائے گا۔
*میت کا عیب نظر آئے تو پردہ پوشی کرے۔
*میت میں اچھی علامت نظر آئے تو ظاہر کرنا مستحب ہے۔
*قریبی رشتہ دار اگر صحیح طریقہ کار کا علم رکھتا ہو تو غسل کفن دے ورنہ جو صحیح طریقہ کار کا علم رکھنے والا ہو وہ دے۔
غسل کی جگہ کی تیاری ۔
*پردہ کا اہتمام کر لیا جائے۔ دو بڑے شاپر غسل گاہ میں لٹکا دیئے جائیں۔
۱۔ ضائع کرنے والی اشیاء کا۔
۲۔ لباس اور چادریں ڈالنے کے لیے کیونکہ یہ ترکہ ہے۔
*پانی کی نکاسی کا انتظام کرلیا جائے۔ دوعدد بالٹیاں اور ڈونگا پانی کے لیے رکھ لئے جائیں۔
*صابن، چکنی مٹی کے ڈھیلے استنجے کے لیے۔ کافور، روئی اور قینچی رکھ لی جائے۔
*چادر استعمال شدہ گہرے رنگ کی چادریں۔
۱۔میت اٹھانے کے لیے۔
۲۔غسل کے وقت میت پر ڈالنے کے لیے۔
۳۔غسل کے بعد گیلی چادرکی جگہ سوکھی چادر بدلنے کے لیے۔
*غسل کا تختہ فنائل والے یا سادے پانی سے تین یا پانچ بار حسب ضرورت دھو کر پاک کر لیا جائے۔
*غسل کے تختے کو اگر ممکن ہو تو اس طرح رکھیں کے میت کا دایاں حصّہ قبلہ رخ ہو۔
*بیری یا ٹیسو کے پھولوں کا پانی تیار کر لیا جائے اگر نہ ملے تو نیم کے پتے کا پانی جوش کر لیا جائے۔

غسل میت کا طریقہ۔

خواتین کے لیے۔
*میت کو محرم مرد خواتین میت کے نیچے بچھی ہوئی چادر کی مدد سے اٹھا کر تختہ پر لٹا دیں ۔
*میت کے اوپر کی چادر کے اندر ہاتھ ڈال کر قمیض اس طرح کاٹی جائے کہ آسانی سے نکل جائے۔
*شلوار اگر ڈھیلی ہے تو آہستگی سے اتار لی جائے۔ ورنہ وہ بھی کاٹ کر نکالی جائے۔
*کپڑے اور چادر نکالنے سے پہلے میت پر گہرے رنگ کی استعمال شدہ چادر گردن سے پنڈلیوں تک ڈال دی جائے تا کہ گیلی ہونے پر جسم کے خدوخال نظر نہ آئیں۔
*قمیض شلوار اور چادریں بڑے شاپر میں ڈال دی جائیں، کیونکہ یہ ترکہ ہیں۔
*زیور اتار کر وارثین کو دے دیے جائیں کیونکہ یہ بھی ترکہ ہیں۔
*دانت اور لینس آسانی سے نکل سکتے ہوں تو نکال لئے جائیں ورنہ ایسے ہی رہنے دیا جائے۔
*غسل کا پانی نیم گرم ہو، زیادہ گرم نہ ہو۔
*میت کو تھوڑا سا اوپرکی جا نب اٹھا کر کندھوں کے سہارے بیٹھنے کی طرح اٹھائیں اور پیٹ کو آہستہ آہستہ اوپر سے نیچے کی جانب سہلائیں، ہلکا سا دباؤ دے کر خارج ہونے والی گندگی کو خوب پانی بہا کر صاف کریں۔
*بائیں جانب بیٹھ کر بائیں ہاتھ میں دستانہ کپڑے کا یا پلاسٹک کا (ڈسپوزیبل) پہن کر نجاست صاف کردی جائے۔ اس کے بعد وافر پانی بہا دیا جائے۔
*مٹی کے ڈھیلوں کی مدد سے تین یا پانچ دفعہ استنجا کرا دیا جائے۔ میت کے ستر پر نظر ڈالے بغیر استنجا کرایا جائے۔ اور میت کے ستر کو بغیر دستانے کے نہ چھوا جائے۔ پھر یہ دستانہ ضائع اشیاء کے شاپر میں ڈالا جائے۔
*میت کو غسل کرایا جائے سب سے پہلے دونوں ہاتھ گٹوں تک دھلائے جائیں غسل کا سارا عمل زندہ انسان کی مانند ہو گا صرف ہاتھ دوسروں کے استعمال ہوتے ہیں۔
*گیلی روئی ہونٹوں اور دانتوں پر تین دفعہ پھیرے جائے ہر دفعہ نئی روئی لی جائے اور ضائع شدہ روئی ضائع اشیاء کے شاپر میں ڈال دی جائے۔
*گیلی روئی کی مدد سے ناک کے نتھنے تین تین دفعہ صاف کئے جائیں۔ پہلے دائیاں نتھناں پھر بایاں نتھناں صاف کیا جائے ہر دفعہ نئی روئی لی جائے استعمال شدہ روئی ضائع شدہ اشیاء کے شاپر میں ڈال دی جائے۔
*اگر ناپاکی کی حالت میں وفات ہوئی ہے تو منہ اور ناک میں تھوڑا پانی داخل کر کے روئی کی مدد سے جذب کر لیا جائے تاکہ پانی اندر نہ جا سکے۔

*میت کا منہ تین دفعہ دھلایا جائے اگر مرد ہے تو انگلیاں داڑھی میں پھیر کر پانی جڑوں تک پہنچایا جائے۔
*پھر دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھلائے جائیں۔ ( پہلے دایاں پھر بایاں)
*سر کا مسح کرایا جائے ۔
*دونوں پاؤں ٹخنے تک دھلائے جائیں۔
*سر کو صابن یا شیمپو یا مٹی سے دھلایا جائے۔ بالوں میں انگلیاں پھیر کر پانی جڑوں تک پہنچایا جائے ۔
*میت کا دایاں حصہ سامنے کا دوسرا دستانہ پہن کر پہلے اچھی طرح صابن سے دھلایا جائے پانی بائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔
*دائیں حصے کے مانند بایاں حصہ دھلایا جائے۔ اگر کچھ نجاست خارج ہوئی ہے تو اُس کو صاف کر کے تمام جسم پر بھی اچھی طرح پانی بہایا جائے اس عمل سے وضو پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ (بحوالہ احکام میت مولانا ڈاکڑعبدالحی صدیقی عارفیؒ)
*بیری کے پتوں کا پانی طاق بار (یعنی ایک بار یا تین بار یا پانچ بار) بہایا جائے سر سے پیر تک لیکن خیال رہے منہ ناک کان روئی سے بند رکھے جائیں تاکہ پانی اندر داخل نہ ہو سکے۔
*آخر میں تھوڑے پانی میں کافر ملا کر بہایا جانا مسنون ہے ۔
*اب گیلی چادر کو سوکھی چادر سے تبدیل کردیا جائے اس طرح کے ستر پر نظر نہ پڑے۔
*اب ایک چادر میت کو بائیں کروٹ دلا کر دائیں طرف سے داخل کی جائے اور اسی چادر کی مدد سے میت کو اٹھایا جائے۔
کفن کی تفصیل
(خواتین کے لئے)
*تین پٹیاں: تقریباً پانچ انچ چوڑائی یہ کمر سر اور پاؤں پر باندھی جاتی ہے۔
*لفافہ: بڑی چادر جو میت کے قد سے ایک گز لمبی ہو عرض پونے دو گز۔
*یہ دوسری بڑی چادر ہے جو میت کے قدسے دو ہاتھ بڑی ہو عرض پونے دو گز۔
کرتی (کفنی )اس کی لمبائی میت کے کندھے سے پنڈلیوں تک ہو۔ اس کا گلا T کی شکل میں کاٹ لیا جائے تا کہ سر با آسانی گزر سکے۔
سینہ بند: اسکی لمبائی بغل سے پنڈلیوں تک ہو، چوڑائی ۲/۱،۱ گز پونے دو گز تک ہو۔
سر بند: (اسکارف) چوکور رومال کی شکل کر کے پہنایا جائے نرم کپڑا ہو تو اچھا ہے۔
مردوں کے لیے:
*تین پٹیاں: تقریباً پانچ انچ چوڑائی یہ کمر سر اور پاؤں پر باندھی جاتی ہے۔
*لفافہ
*ازار
*کرتی
کفنانے کا طریقہ:
پٹیاں صاف جگہ یا بوریے (چٹائی ) پر سر اور پیروں کی جانب رکھ دی جائیں۔ ۱۔کمر ۲ سر ۳ پیروں کی جانب ر کھ دی جائیں ۔۱ کمر ۲۔سر ۳۔پیروں کی جانب پٹیوں کے اوپر لفافہ بڑی چادر بچھالی جائے۔ لفافے کے اوپر ازار بچھا لیاجائے (دونوں چادروں کا عرض پونے گز سے کم نہ ہو)
*سر بند بچھائیں۔
*کفنی یا کرتی سر بند کے اوپر بچھائیں ۔
*سینہ بند یا تہہ بند پہ کپڑا بغل سے پنڈلی تک ہو۔ اگر سینہ بند اور تہہ بند الگ الگ آجائیں تو ان دونوں کو مضبوط سلائی کرالی جائے کہ ایک کپڑا بن جائے۔
*میت کو اس پر لٹا دیا جائے۔
*نیچے کی چادر نکالی جائے ناک کان منہ سے روئی ہٹالی جائے۔ بچا ہوا کافور سب جوڑوں پر لگا دیا جائے۔
*اوپر کی چادر میں اندر ہاتھ ڈال کر سینہ بند لپٹا جائے پہلے بایاں پلہ پھر دایاں پلہ لپیٹا جائے۔ میت کے ہاتھ باہر رکھے جائیں۔
*اب کفنی کا گلا میت کے سر گزار کر آگے پھیلا کر اوپر کی چادر اتار لی جائے۔
*بالوں کو تکونے رومال میں دو حصے کر کے لپیٹا جائے کہ چہرے پر رومال کی گرفت ہو جائے دونوں کونے کرتی کے گریبان میں اس طرح رکھے جائیں کہ دایاں حصہ بائیں اور بایاں حصہ دائیں طرف۔
*اب ازار کو سعنہ بند کی نرح لپیٹ دیا جائے۔
*اب لفافہ کو بھی اسی طرح لپیٹ دیا جائے۔
*ایک پٹی کمر پر دوسری پاؤں پر تیسری سے سر کی طرف مٹھا باندھ دیا جائے۔