March 29th, 2024 (1445رمضان19)

دعوت فکر.

بابا الف

جس طرح جمہوریت کے زخموں کا علاج مزید جمہوریت ہے اسی طرح حکومت بھی حماقت کا سدباب مزید حماقت میں تلاش کررہی ہے۔ انتخابی قوانین بل 2017میں قادیانیوں کو غیر مسلم ماننے کے حلف نامے میں ترمیم کرکے اسے اقرار نامہ ٹھیرانے کی کوشش کی۔ اس پر عوام کی طرف سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ حکومت پر بے پناہ لعن طعن کی گئی۔ یہ معاملہ بارے خدا سرد ہوا ہی تھا کہ کیپٹن صفدر نے قومی اسمبلی میں قادیانیوں سے متعلق تقریر کرکے معاملے کو پھر تازہ کردیا۔ اس کے ردعمل میں پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ میدان میں آگئے۔ آپ نے کیپٹن صفدر کے انداز خطابت کو غیر ضروری قرار دیا۔ ساتھ ہی قادیانیوں سے اظہار یکجہتی بھی کر بیٹھے۔ یہ امت کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ انہوں نے قراردیا: ’’پاکستان کے علماء قادیانیوں کو غیر مسلم نہیں سمجھتے کیوں کہ قادیانی نماز پڑھتے ہیں روزے رکھتے ہیں۔ ان کی مسجدیں ہیں جہاں وہ اذان دیتے ہیں۔ وہ خود کو غیر مسلم نہیں سمجھتے۔ ان کے خلاف فتوے ایک علیحدہ مسئلہ ہیں۔ اس موضوع پر نظرثانی اور مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ جس وقت رانا ثناء اللہ یہ الفاظ ادا کررہے تھے وہ قادیانیوں کی برسوں کی ایک خواہش کی تکمیل کررہے تھے۔ قادیانیوں کی ایک پرانی کوشش ہے کہ انہیں احمدیہ مسلم جماعت کے نام سے جانا جائے۔ انہیں احمدی مسلمان پکارا جائے۔ ان کی عبادت گاہ ’’مرزاڑا‘‘ کے لیے مسجد کا لفظ استعمال کیا جائے لیکن امت مسلمہ کے اجتماعی ضمیر نے کبھی نہ ان کی نمازوں کو نمازیں، نہ ان کے روزوں کو روزے اور نہ ان کے مرزاڑوں کو مساجد تسلیم کیا۔ یہ سب کام تو منافق بھی کرتے تھے۔ جس وقت اللہ سبحانہ وتعالی نے منافقین کے بارے میں یہ کہا کہ وہ جہنم کے بدترین درجوں میں جائیں گے تو وہ نمازیں بھی پڑھتے تھے روزے بھی رکھتے تھے اور اپنا ظاہر اسلام پر ہی کرتے تھے لیکن اندروں وہ کفر پر قائم تھے۔ قادیانی منافقین سے بھی بدتر ہیں۔ قادیانی مسلمانوں میں یہودیت کی فطرت پر استوار ایک ایسی تحریک ہے جو مسلمانوں میں سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لیے ان کی وحدت میں نقب لگاتی ہے۔ مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے کے لیے معاشرتی طور پر ان کے دائرے میں رہنے پر اصرار کرتی ہے لیکن مسلمانوں کے ہر عقیدے سے انحراف کرنا اور مسلمانوں اور دین اسلام سے وابستہ ہر دینی شخصیت کو شدید مغلظات سے نوازنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ کاملیت قرآن سے لے کر رسالت مآب ؐ کی ناموس تک، شرافت انبیاء سے لے کر صحابہ کرام تک وہ سب کو اس گھناؤنے انداز میں پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں کو اس طرح کافر، سور اور کتیوں کی اولادیں قرار دیتے ہیں کہ ان کے منہ پر تھوکنا ہر مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے۔

جنرل ضیاء الحق سے ڈاکٹر عبدالسلام نے ملاقات کی اور انہیں آرڈیننس مجریہ 1984 کی بابت قادیانیوں کی تشویش سے آگاہ کیا۔ ضیاء الحق اٹھے، الماری سے ایک کتاب نکالی اور ڈاکٹر عبدالسلام سے کہا ’’یہ قادیانی قرآن ’تذکرہ۔ مجموع وحی مقدس والہامات‘ ہے‘‘۔ ایک نشان زدہ صفحہ کھولتے ہوئے صدر ضیاء الحق نے کہا ’’دیکھیے اس میں کس طرح قرآن میں تحریف کی گئی ہے‘‘۔ نشان زدہ صفحہ پر لکھا تھا: ’انا انزلنا قریب من القادیان‘‘ یقیناًہم نے قرآن کو قادیان کے قریب نازل کیا (تذکرہ مجموع وحی مقدس والہامات طبع چہارم ص 59، از: مرزا غلام قادیانی) اس میں مزید لکھا تھا ’’یہ تمام قرآن مرزا قادیانی پر دوبارہ نازل ہوا۔‘‘ ڈاکٹر عبدالسلام کے پاس ان دلائل کا کوئی جواب نہیں تھا۔ یہی نہیں مرزا قادیانی نے قرآن مجید کی تفسیر میں بھی اس قدر فحش گوئی اور حیا باختگی کا مظاہرہ کیا ہے کہ اس کی گندی شخصیت صاف جھلکتی نظر آتی ہے۔ سورۃ المومنون کی ابتدائی آیات کی تفسیر ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 188 تا 190 اور 193 تا 196 مندرجہ روحانی خزائن جلد21 از مرزا قادیانی مطالعہ کیجیے اس قدر فحش گوئی اور غلاظت ہے کہ یہاں ہم لکھنے سے بھی قاصر ہیں۔ آپ ازخود مطالعہ کرکے دیکھ لیجیے۔ چند لائنیں جو قدرے ہلکی ہیں ملاحظہ فرمائیے ’’قد افلح المومنون۔۔۔ خاشعون: پس جب کہ انسان نماز اور یادالٰہی میں خشوع کی حالت اختیارکرتا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لیے مستعد بناتا ہے سو نطفہ میں اور روحانی وجود کے پہلے مرحلے میں جو حالت خشوع ہے صرف فرق یہ ہے کہ نطفہ رحم کی کشش کا محتاج ہوتا ہے اور یہ رحیم کی کشش کی طرف احتیاج رکھتا ہے۔‘‘ اس فاترالعقل، مخبوط الحواس اور جعلساز شعبدہ باز مرزا قادیانی کی مسخرانہ بیان بازی انبیا کے باب میں بھی ضلالت کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق نظر آتی ہیں۔ کشتی نوح صفحہ68,69 میں لکھا ہے: ’’پہلے میں خود مریم بنا رہا اور مریمیت کی صفات کے ساتھ نشونما پاتا رہا اور جب دو برس گزر گئے تو عیسیٰ کی روح میرے پیٹ میں پھونکی گئی اور استعاراً میں حاملہ ہوگیا اور پھر دس ماہ لیکن اس سے کم مدت میں مجھے الہام سے عیسیٰ بنادیا گیا۔‘‘
رانا ثناء اللہ نے دبے لفظوں میں کہا کہ قادیانیوں کا صرف ایک بات میں اختلاف ہے۔ ایک بات میں نہیں ہر بات میں اختلاف ہے اور وہ ایک بات جس کی طرف رانا ثناء اللہ اشارہ کررہے ہیں معمولی بات نہیں مسلمانوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ نبوت کا جھوٹا دعویٰ اور ختم نبوت کا انکار اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کو خلافت سنبھالے ابھی چند ہی روز ہوئے تھے، ان پر کوئی دباؤ تھا اور نہ کہیں سے کوئی مطالبہ لیکن اس کے باوجود آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ جھوٹے مدعی نبوت مسیلمہ کذاب اور اس کے جھوٹے پیروکاروں کا خاتمہ کیا اس لیے کہ سیدنا صدیق اکبر ختم نبوت کی فضیلت اور اہمیت جانتے تھے۔ اللہ کی آخری کتاب میں جہاں میرے آقا سید المرسلین رسالت مآب محمد کریمؐ کا ذکر ہے وہاں لفظوں کے موتی اور بیان کی رفعت اور ہی طرح کی ہے۔ اتنے پیار اور وارفتگی سے آپؐ کا نام لیا گیا ہے کہ اس سے بہتر اسلوب ممکن ہی نہیں لیکن مرزا کے گستاخ قلم سے آپ ؐ کے متعلق وہ دلخراش عبارتیں لکھی گئیں وہ ملعون تحریریں رقم کی گئیں کہ یہ وہ اندوہناک داستان ہے جس کے بیان کرنے کی ہمت بھی ہم اپنے اندر نہیں پاتے۔ دل پر پتھر رکھ کر چند تحریریں ملاحظہ فرمائیے: ’’میں آدم ؑ ہوں، میں نوحؑ ہوں، میں ابراہیم ؑ ہوں، میں اسحاق ؑ ہوں، میں یعقوبؑ ہوں، میں اسمعیل ؑ ہوں، میں موسیؑ ہوں، میں داؤد ؑ ہوں، میں عیسیٰ ؑ ابن مریم ہوں، میں محمد ہوں (تتمہ حقیقت الوحی ص521، مندرجہ روحانی خزائن جلد22 ص 521 از: مرزا قادیانی)‘‘۔ خدا تعالیٰ نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا ہے اور آپؐ کا بروز مجھے قرار دیا ہے (تتمہ حقیقت الوحی ص67 مندرجہ روحانی خزائن جلد 22ص 502 از: مرزا قادیانی)۔ مبارک وہ جس نے مجھے پہچانا۔ میں خدا کی سب راہوں میں سے آخری راہ ہوں اور میں اس کے سب نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے۔ کیوں کہ میرے بغیر سب تاریکی ہے (کشتی نوح ص56 مندرجہ روحانی خزائن جلد 19ص 61 از: مرزا قادیانی)
امت مسلمہ نے مسیلمہ کذاب سے لے کر آج تک ہر مدعی نبوت کو عالی مرتبت محمد کریمؐ کی امت سے خارج قرار دیا ہے۔ رانا ثناء اللہ اس موضوع پر غور اور مزید نظر ثانی کی ضرورت نہیں۔ قادیانیوں سے تمام معاملات ملت سے خارج اور دین کو ترک کرنے والوں کے انداز میں کیے جائیں گے۔ ایک ایسا شخص جو سیدنا موسی ؑ کے بعد اگر سیدنا عیسیٰ ابن مریم ؑ کو نبی تسلیم کرے تو اسے فوراً اہل یہود سے خارج اور عیسائیوں میں شامل سمجھا جائے گا۔ اس قانون کو کل بھی بین الاقوامی حیثیت حاصل تھی اور آج بھی حاصل ہے۔ پھر رسالت مآب ؐ کے بعد مرزا قادیانی کو نبی اور خاتم الانبیا تسلیم کرنے والے کو کیسے مسلمان مانا جاسکتا ہے۔