March 28th, 2024 (1445رمضان18)

عورت ‘چراغ خانہ سے شمع محفل تک

فریحہ مبارک

تہذیب واخلاقیات کا تعلق صرف مسلم معاشرے سے نہیں ہے دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو تہذیب واخلاق اور اس کا محورحیا اس کی اقدارمیں تصوراتی یا آئیڈیل سمجھے جاتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہندوستان میں مخرب اخلاق فلموں کی صنعت نے ابھی اپنے قدم نہیں جمائے تھے اورگھرکی دہلیزکے اندرتو کجا سینما ہالوں میں بھی کھلے عام اس کی پذیرائی نہیں تھی لیکن پھریوں ہواکہ تقسیم ہندکہ فوراً بعد بھارت نے جہاں دوسرے شعبوں میں ترقی کی وہیں دومیدانوں میں خوب ترقی کی‘ ایک شراب خانوں کی بہتات اور دوسرا فحش اور عریاں فلم انڈسٹری‘ اس وقت کانگریس نے شراب خانوں کے خلاف بھرپورتحریک چلائی جس کے نتیجے میں ممبئی میں اس پرپابندی بھی عائدہوگئی لیکن آج کے بھارت میں شراب خانے بھی وافرتعداد میں موجود ہیں اورگھرگھرچلتی بالی وڈ فلمی دنیا کے کرشماتی مناظربھی جنہوں نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے کر نہ صرف عورتوں کے خلاف جرائم میں خوفناک حدتک اضافہ کردیاہے بلکہ ہندوستانی عورت جو بیشک باپردہ نہیں تھی لیکن شرم وحیا اس کا بنیادی وصف اور فخرتھا اس پربھی کاری ضرب لگائی ہے۔ آج عورت کو چراغ خانہ سے شمع محفل بنانے کا سب سے زیادہ خواہشمند مغربی سرمایہ دارانہ نظام ہے‘ سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت زیادہ سے زیادہ مصنوعات کی تیاری اور فروخت ہے اور اس کے لیے انسان کو خواہشات کا غلام بناناہے ۔کھانے‘ پینے پہننے سجانے کی خواہش اور مال بیچنے کے لیے خواہش نفسانی کو ابھارنا سب سے کارگرکاروباری حربہ قرارپایا اوروہ حربہ اشتہارات کی دنیا میں حسن داد اسے بھرپورایک ماڈل گرل ہے۔ کمیونسٹ ممالک میں سے روس میں جب سوشلزم تھا تو کسی اخباریا رسالے میں اشتہارات سرے سے نہیں ہوتے تھے۔ نہ ہی عریاں تصاویرتھیں اور نہ ہی کوئی فحش فلم تھی اس طرح انہوں نے نہ صرف اشتہارات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مصنوعی طلب اور اسراف سے افراد معاشرہ کو محفوظ رکھا بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے آلہ کارجنس زدگی سے بھی خود کو کافی حدتک محفوظ رکھا لیکن جب روسی سرحدیں مغربی سرمایہ دارانہ نظام کے لیے کھلیں تو اس کے ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت عورت کی حیا کو رخصت کرنا پڑا اس کے ساتھ ہی روس میں عصمت فروشی بھی ایک کاروبارکی صورت اختیارکرگئی۔ چین کی عورت لپ اسٹک کا استعمال نہیں کرتی تھی اورقدرتی نسوانی حسن کو سراہاجاتاتھا لیکن مغربی سرمایہ دارانہ نظام کی آمد کے ساتھ ہی ان کا حسن بھی بیوٹی پارلرزکا محتاج ہوگیا بیوٹی کی پوری دکان کی ایک ایک پروڈکٹ کی فروخت کے لیے توکجا موبائل کارڈموٹرسائیکل‘ بلیڈ ریزرکے لیے عورت کا استعمال اب عورت کا استحصال تصور نہیں کیاجاتا جہاں گاڑی سے زیادہ ماڈل عورتوں کی عشوہ طرازیوں اورنشیب وفرازکی نمائش کی جاتی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں بھی بغیرکسی روک تھام کے انڈین چینلزکی بھرمارنے گھرکی دہلیز عبورکرکے بیڈرومزاورکامن رومزمیں مرکزی مقام حاصل کرلیاہے اس سیلاب بلا خیزسے ہرخاندان پریشان ضرورہے لیکن بندباندھنے کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی اس وقت صورتحال یہ ہے کہ معاشرہ اس کے اثرات سے مجروح ہورہاہے۔ معاشرے میں عورتوں اوربچوں کے خلاف جرائم کی شرح اوربدلتی اقداراس کی کھلی نشاندہی کررہی ہیں۔ آج ہمارے ٹین ایجزکے ہیروز‘ لڑکیوں اورخواتین کے موضوعات گفتگوبالخصوص دیہی علاقوں کی اہم تفریح ان چینلزکے گردگھوم رہی ہے۔جاگیردارانہ معاشرے میں لوگ عیش وعشرت کے لیے اپنے گھروں سے نکل کر آبادیوں سے دورایک الگ دنیا یعنی طوائفوں کے کوٹھوں پرجایاکرتے تھے۔ لیکن گھروں کی دنیا میں ان بازاروں یا عورتوں کانام لینا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اوریوں یہ برائی محدود پیمانے پرتھی معاشرے میں عام نہیں تھی لیکن اب کوٹھوں اورطوائفوں کے مناظراورکہانیاں گھروں میں آویزاں متحرک اسکرین پر سازوآوازکے کھلے ڈائیلاگ کے ساتھ ہرآنکھ اورہرکان میں اپنا جادوجگارہے ہیں کیا یہ عورت کا استحصال نہیں ہے؟ ہماری تہذیبی اقدارسرمایہ داری نظام کے آگے ریت کی دیوارثابت ہورہی ہے۔ ہم سنتے ہیں کہ فلاں فلم نے ایک دن میں اتنے کروڑکا بزنس کیا‘ فلاں ہیروز‘ ہیروئن اتنا معاوضہ لیتاہے یہ بزنس ہے لیکن اس کے اثرات کی کیا قیمت معاشروں کو اداکرنی پڑرہی ہے پاکستانی‘ ہندوستانی‘ روسی‘ چینی وغیرہ معاشرے اس سے آگاہ ہوتے جارہے ہیں جب نیویارک اورماسکو میں کوئی سیکس کلرسینکڑوں عورتوں کو ہوس کا نشانہ بناکر ان کا بہیمانہ قتل کرڈالتاہے یا ہندوستان یا پاکستان کے مضافاتی علاقے میں جھاڑیوں سے آٹھ یا دس دن پرانی ہوس کا شکار تعفن زدہ لاش معاشرے کے ضمیرپرتازیانے برساتی ہے اور نوحہ کناں وسراپا سوال بن جاتی ہے‘ کہ ہم نے کتنے کروڑ کے بزنس کا تاوان اداکیاہے؟ ہم نے اپنی اقدارکو کس قیمت پر رہن رکھ دیاہے جس کا سود کتنی نسلیں اداکرتی رہیں گی۔ فیصلے کی گھڑی آن پہنچی ہے ۔ 8 مارچ عالمی یوم خواتین ایک بارپھر دنیا کے ہرمعاشرے کے دروازے پر دستک دے رہاہے کہ اس ملک کی سرحدیں اس کے گھر‘بیڈروم اور کامن روم کی سرحدیں جدید دنیا کے سٹیلائٹ تحفوں کے بداثرات سے کس حدتک محفوظ ہیں۔؟