April 19th, 2024 (1445شوال10)

عورت کے حقوق

سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اہم سوال عورت کے حقوق کیا ہیں؟ ان حقوق کے تعیین میں اسلام نے تین باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا ہے، ایک یہ کہ مرد کو جو حاکمانہ اختیارات محض خاندان کے نظم کی خاطر دیے گئے ہیں اُن سے ناجائز فائدہ اٹھا کر وہ ظلم نہ کرسکے اور ایسا نہ کہ تابع ومتبوع کا تعلق عملاََ لونڈی اور آقا کا تعلق بن جائے۔ دوسرے یہ کہ عورت کو ایسے تمام موقع بہم پہنچائے جائیں جن سے فائدہ اٹھا کر وہ نظام معاشرت کی حدود میں اپنی فطری صلاحیتوں کو زیادہ سے زیادہ ترقی دے سکے اور تعمیرِ تمدن میں اپنے حصے کا کام بہتر سے بہتر انجام دے سکے۔
تیسرے یہ کہ عورت کے لیے ترقی اور کامیابی کے بلند سے بلند درجوں تک پہنچنا ممکن ہو، مگر اس کی ترقی اور کامیابی جو کچھ بھی ہو عورت ہونے کی حیثیت سے ہو۔ مرد بننا نہ تو اس کا حق ہے، نہ مردانہ زندگی کے لیے اس کو تیار کرنا اس کے لیے تمدن کے لیے مفید ہے، اور نہ مردانہ زندگی میں وہ کامیاب ہوسکتی ہے۔
مذکورہ بالا تینوں امور کی پوری پوری رعایت ملحوظ رکھ کر اسلام نے عورت کو جیسے وسیع تمدنی و معا شی حقوق دیے ہیں، اور عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں، اور ان کے حقوق و مراتب کی حفاظت کے لئے اپنی اخلاقی اور قانونی ہدایت میں جیسی پائیدار ضمانتیں مہیا کی ہیں، ان کی نظیر دنیا کے کسی قدیم وجدید نظم معاشرت میں نہیں ملتی۔
معاشی حقوق:

سب سے اہم اور ضروری چیز جس کی بدولت تمدن میں انسان کی منزلت قائم ہوتی ہے اور جس کے ذریعے سے وہ اپنی منزلت کو برقرار رکھتا ہے، وہ اس کی معاشی حیثیت کی مضبوطی ہے۔ اسلام کے سوا تمام مذہب نے عورت کو معاشی حیثیت سے کمزورکیا ہے اور یہی معاشی بے بسی معاشرت میں عورت کی غلامی کا سب سے بڑا سبب بنی ہے۔ یورپ نے اس حالت کو بدلنا چاہا مگر اس طرح کہ عورت کو ایک کمانے والا فرد بنا دیا ہے۔ یہ ایک دوسری عظیم تر خرابی کا باعث بن گیا۔ اسلام بیچ کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ وہ عورت کو وراثت کے نہایت وسیع حقوق دیتا ہے۔ باپ سے،  شوہر سے، اولاد سے اور قریبی رشتہ داروں سے اس کو وراثت ملتی ہے۔ نیز شوہر سے اس کو مہر بھی ملتا ہے اور ان تمام ذرائع سے جو کچھ مال اس کو پہنچتا ہے اس میں ملکیت اور قبض و تصرف کے پورے حقوق اسے دیے گئے ہیں، جن میں مداخلت کرنے کا اختیار نہ اس کے باپ کو حاصل ہے، نہ شوہر کو، نہ کسی اور کو۔ مزید برآں اگر وہ کسی تجارت میں روپیہ لگا کر، یا  خود محنت کرکے کچھ کمائے تو اس کی مالک بھی کلیتہ ٔ وہی ہے۔ اور ان سب کے باوجود اس کا نفقہ ہرحال میں اس کے شوہر پر واجب ہے۔ بیوی خواہ کتنی ہی مالدارہو۔ اس کا شوہر اس کے نفقے سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح اسلام میں عورت کی معاشی حیثیت اتنی مستحکم ہوگئی کہ بسا اوقات وہ مرد سے زیادہ بہتر حالت میں ہوتی ہے۔
تمدنی حقوق:

اسلام میں عورت کو جومعاشرتی و تمدنی حقوق دیے گئے ہیں ان میں سے چند اہم حقوق درج ذیل ہیں:
1۔ عورت کو شوہر کے انتخاب کا پورا حق دیا گیا ہے۔ اس کی مرضی کے خلاف یا اس کی رضامندی کے بغیر کوئی شخص اس کا نکاح نہیں کرسکتا۔ اور اگر وہ خود اپنی مرضی سے کسی مسلم کے ساتھ نکاح کرلے تو کوئی اسے روک نہیں سکتا۔ البتہ اگر اس کی نظرِ انتخاب کسی ایسے شخص پر پڑے جو اسکے خاندان کے مرتبے سے گرا ہوا ہو تو صرف اس صورت میں اس کے اولیا کو اعتراض کا حق حاصل ہے۔
2۔ ایک ناپسندیدہ ، ظالم یا نا کارہ شوہر کے مقابلے میں عورت کو خلع اور فسخ و تفریق کے وسیع حقوق دیے گئے ہیں۔
3۔ شوہر کو بیوی پر جو اختیارات اسلام نے عطا کیے ہیں، ان کے استعمال میں حُسنِ سلوک اور فیاضانہ برتاؤ کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ’’عورتوں کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کرو‘‘ (النساء:19:4) اور ’’آپس کے تعلقات میں فیاضی کو نہ بھول جاؤ‘‘(البقرۃ ۔ 237:2) ۔ نبی ﷺ کا ارشاد ہے ’’تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ لطف و مہربانی کا سلوک کرنے والے ہیں‘‘۔ یہ محض اخلاقی ہدایات ہی نہیں ہیں۔ اگر شوہر اپنے اختیارات کے استعمال میں ظلم سے کام لے تو عورت کو قانون سے مدد لینے کا حق بھی حاصل ہے۔
4۔ بیوہ اور مطلقہ عورتوں، اور ایسی تمام عورتوں کو جن کے نکاح ازروئے قانون فسخ کیے گئے ہوں ، یا جن کو حکمِ تفریق کے ذریعے شوہر سے جدا کیا گیا ہو، نکاح ثانی کا غیر مشروط حق دیا گیا ہے۔ اور اس امر کی تصریح کردی گئی ہے کہ ا ن پر شوہرِ سابق یا اسکے کسی رشتہ دار کا کوئی حق باقی نہیں۔  یہ وہ حق ہے جو آج تک یورپ اور امریکہ کے بیشتر ممالک میں بھی عورت کو نہیں ملا ہے۔
5۔ دیوانی اور فوجداری کے قوانین میں عورت اور مرد کے درمیان کامل مساوات قائم کی گئی ہے۔ جان ومال اور عزت اور تحفظ میں اسلامی قانون عورت اور مرد کے درمیان کسی قسم کا امتیازنہیں رکھتا ۔
عورتوں کی تعلیم:
عورتوں کو دینی اور دنیوی علوم سیکھنے کی نہ صرف اجازت دی گئی ہے، بلکہ ان کی تعلیم و تربیت کو اسی قدر ضروری قرار دیا گیا ہے جس قدر مردوں کی تعلیم وتربیت ضروری ہے۔ نبی ﷺ سے دین و اخلاق کی تعلیم جس طرح مرد حاصل کرتے تھے اسی طرح عورتیں بھی حاصل کرتی تھیں۔ آپﷺ نے ان کے لیے اوقات متعین فرما دیے تھے جن میں وہ آپ ﷺ سے علم حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوتی تھیں۔ آپﷺ کی ازواج مطہراتؓ اور خصوصاََ حضرت عائشہ صدیقہؓ صرف عورتوں کی، بلکہ مردوں کی بھی معلّمہ تھیں اور بڑے بڑے صحابہ و تابعین ان سے حدیث، تفسیر اور فقہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ اشراف تو درکنار، نبی ﷺ نے لونڈیوں تک کو علم اور ادب سکھانے کا حکم دیا تھا۔ چنانچہ حضورﷺ کا ارشاد ہے کہ: جس شخص کے پاس کوئی لونڈی ہو اور وہ اس کو خوب تعلیم دے اور عمدہ تہذیب و شائستگی سکھائے، پھر اس کو آزاد کرکے اس سے شادی کرلے اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔
پس جہاں تک نفسِ تعلیم و تربیت کا تعلق ہے اسلام نے عورت اور مرد کے درمیان کوئی امتیاز نہیں رکھا ہے۔ البتہ نوعیت میں فرق ضرور ہے۔ اسلامی نقطہ نظرسے عورت کی صحیح تعلیم و تربیت وہ ہے جو اس کو ایک بہترین بیوی، بہترین ماں اور بہترین گھر والی بنائے۔ اس کا دائرہٓ عمل گھر ہے۔ اس لیے خصوصیت ساتھ اس کو اُن علوم کی تعلیم دی جانی چاہیے جو اس دائرے میں اسے زیادہ مفید بنا سکتے ہوں۔ مزید برآں وہ علوم بھی اس کے لیے ضروری ہیں جو انسان کو انسان بنانے والے، اس کے اخلاق کو سنوارنے والے اور اس کی نظر کو وسیع کرنے والے ہیں۔ ایسے علوم اور ایسی تربیت سے آراستہ ہونا ہر مسلمان عورت کے لیے لازم ہے۔اس کے بعداگر عورت غیر معمولی عقلی و ذہنی استعداد رکھتی ہو اور ان علوم کے علاوہ دوسرے علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کرنا چاہیے تو اسلام اس کی راہ میں مزاحم نہیں ہے، بشرطیکہ وہ ان حدود سے تجاوز نہ کرے جو شریعت نے عورتوں کے لیے مقرر کی ہیں۔