April 16th, 2024 (1445شوال7)

بھارت‘ اسرائیل تعلقات میں گرمجوشی

متین فکری

اسرائیل کے ساتھ بھارت کے سفارتی تعلقات کو ربع صدی ہو رہی ہے یہ تعلقات کانگریس کے دور میں قائم کیے گئے تھے لیکن ان کا چرچا نہیں کیا گیا اور ان تعلقات کو بھی لوپروفائل میں رکھا گیا یعنی ابتدا میں اسرائیل کا ممبئی میں صرف قونصل خانہ قائم کیا گیا تھا اور اسے بھی خفیہ رکھا گیا تھا تا کہ عرب ممالک ناراض نہ ہوں۔ بھارت دکھاوے کے لیے فلسطین کاز کی بھی حمایت کرتا رہا ہے۔ جب پنڈت نہرو زندہ تھے تو انہوں نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھا رکھا تھا، اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف جو قرار دادیں منظور ہوئیں ان میں بھی بھارت نے عربوں کا ساتھ دیا۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی عرب دوستی کا ملمع اُترتا گیا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آتے گئے۔ جب سے بی جے پی کی حکومت آئی ہے اور نریندر مودی وزیراعظم بنے ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ کھلم کھلا دوستی کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 1992ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کا حجم صرف بیس کروڑ ڈالر تھا جو گزشتہ سال بڑھ کر ساڑھے چار ارب ڈالر ہوگیا ہے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان سب سے اہم تعاون عسکری شعبے میں ہورہا ہے، بھارت اسرائیل کے جدید ہتھیاروں اور میزائل ٹیکنالوجی کا اہم خریدار ہے، وہ پیلٹ گنیں بھی اسرائیل سے خرید رہا ہے جن کے ذریعے وہ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی لہر کو دبانے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ علاقے میں نوجوان مظاہرین پر پیلٹ گنوں کے بے دریغ استعمال سے اب تک ہزاروں نوجوان اور بچے بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ واضح رہے کہ خود اسرائیل فلسطینی مظاہرین کے خلاف پیلٹ گن استعمال کرنے سے گریزاں ہے کیوں کہ اسے خدشہ ہے کہ عرب ملکوں کے علاوہ یورپ اور امریکا میں بھی اس کا شدید ردعمل ہوگا اور وہ غیر معمولی دباؤ میں آجائے گا اس کے برعکس بھارت کو کسی کا خوف نہیں ہے، وہ مقبوضہ کشمیر میں پیلٹ گن آزادی سے استعمال کررہا ہے۔ کشمیری نوجوانوں کی بینائی سے محرومی کی خبریں بھی عالمی میڈیا میں آچکی ہیں لیکن پاکستان کے سوا کسی اور ملک نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار نہیں کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان ہی مظلوم کشمیریوں کا وکیل ہے اسے بھارت کی اس سفاکی کو عالمی سطح پر اُٹھانا چاہیے تھا لیکن افسوس وہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکا۔
بھارت اور اسرائیل دونوں کو اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں میں مزاحمتی تحریکوں کا سامنا ہے۔ بھارت اب تک مقبوضہ کشمیر میں اپنے تمام تر ظالمانہ ہتھکنڈوں کے باوجود مزاحمت کی تحریک کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ حزب المجاہدین کے نوجوان برھان وانی کی شہادت نے تو اس تحریک میں نیا جوش ولولہ پیدا کردیا ہے، یہی صورت حال مقبوضہ فلسطین کی بھی ہے اور اسرائیل کو فلسطینی نوجوانوں کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے دونوں ملک ان تحریکوں کو دبانے کے لیے ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرتے رہتے ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے وہاں یہودی بستیاں تعمیر کررہا ہے جب کہ بھارت بھی یہی تجربہ مقبوضہ کشمیر میں دہرانا چاہتا ہے، وہ مقبوضہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے کشمیری پنڈتوں کے لیے الگ بستیاں تعمیر کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے لیکن خود کشمیری پنڈت اس منصوبے میں مزاحم ہیں وہ کشمیری مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتے ہیں۔ دو ملکوں کی دوستی کوئی قابل اعتراض بات نہیں ہے اگر اسرائیل اور بھارت اپنے دوستانہ تعلقات کو مستحکم بنارہے ہیں اور مختلف شعبوں میں تعاون کو وسعت دے رہے ہیں تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں پہنچتا۔ لیکن اگر اس تعاون سے پاکستان کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوں تو یقیناًپاکستان کو اس پر تشویش ہونی چاہیے۔ ماضی میں ایسا ہو چکا ہے، اسرائیل نے بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اس کے طیارے بھارت کے ہوائی مستقر پر پہنچ چکے تھے کہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے پاکستان کو خبر کردی۔ پاکستان نے بلا تاخیر دونوں ملکوں کو وارننگ دی کہ اگر انہوں نے کوئی احمقانہ حرکت کی تو اس کے ردعمل میں ان کا بہت کچھ تباہ ہوجائے گا۔ اس طرح بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
اب بھارتی وزیراعظم اس سال موسم گرما میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے ہیں جس کے لیے ابھی سے تیاری شروع کردی گئی ہے۔ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے حال ہی میں تل ابیب کا دورہ کیا ہے اور اسرائیلی وزیراعظم سے ان کے بھارتی ہم منصب کے آئندہ دورے میں زیر بحث آنے والے موضوعات پر بات چیت کی ہے، یہ امر قابل ذِکر ہے کہ بھارت کے صدر پرناب مکھر جی اکتوبر 2015ء میں اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں اس کے جواب میں اسرائیلی صدر گزشتہ سال بھارت آئے تھے جب کہ اسرائیلی وزیراعظم بھی بہت عرصے پہلے بھارت کا دورہ کرچکے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کے موجودہ وزیراعظم نیتن یاہو اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے درمیان اچھی مفاہمت پائی جاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ٹیلی فون پر تبادلہ خیال کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان کو بھارت اور اسرائیل کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر نظر رکھنا ہوگی کہ یہ تعلقات خطے کے امن پر بھی اثر انداز ہوسکتے ہیں۔