April 23rd, 2024 (1445شوال14)

مغربی ’’ہیروز‘‘ اور مغربی ’’اسلام‘‘

عمر ابراہیم

دو مقدمات ہیں ........ایک عمادالدین سید کا، دوسرا برینڈن اسٹینٹن کا۔ ایک مصری طالب علم ہے،دوسرا امریکی بلاگر ہے ۔دونوں سے ایک جذبات کا اظہار کیا۔ ایک سابیانہ،ایک سے احساسات سامنے ائے۔مگر ایک سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا، امریکہ سے نکالا گیا۔دوسرا سوشل میڈیا ہیرو بن گیا۔ دونوں نے سچ کہا، مگر ایک کاسچ سزاوار ٹھیرا،دوسرے کے سچ پر دادوتحسین کے ڈونگرے برسائے گئے۔ایک سے عمل دو انتہائی مختلف عمل سا منے آئے۔ایک سے سچ پر دو انتہائی مختلیف روئے پیدا ہوئے۔ایسا کیوں ہوا؟یہ فرق کیسا آیا؟یہ عمادالدین برینڈن اسٹینٹن کے کردار یا ساکھ کا مسئلہ ہے؟یا دونوں کی نیت اورعمل کا فرق ہے؟ نسلوں اور قومیتوں کا اختلاف ہے؟ یا نہیں.........دونوں کی نیت ، احساس ،اور تاثر میں کچھ کھوٹ نہیں ۔مسئلہ ہے اسلام اورکے مسلمانوں کے ،، جملہ حقوق،، کا،۔ مغرب یہ :جملہ حقوق:چھین لینا چاہتا ہے۔کیوں اور کیسے؟جاننا ہوگا

۳۲ سالہ مصری طالب علم عمادالدین سیدنے فیس بک پر ایک مضمون لکھا کہ اسے اس، شخص ،کے قتل پر عمر قید دی جائے بخوشی قبول ہوگی، یقیناََ اس حرکت پر دنیا اس کی شکر گزارہوگی

عمادالدین ستمبر ۵۱۰۲ء لاس اینجلس کی یونیورسل ایئر اکیڈمیمیں زیر تعلیم تھا۔جہاں سیکرٹ سروس ایجنٹس نے عماد الدین سید سے پوچھ گچھ کی ،اورکسی عسکری گروہ سے وابستگی جوٖڑنے کی بھر پور تگ ودور کی۔ فروری کو سیکرٹ سروس والے پھر عماد کے گھر دھمکے،زاتی اشیاء کی جانج پڑتال کی ،گاڑی اور لیپ ٹاپ کا معائنہ کیا۔پھر اکیڈمی کی منتظم سے کہہ دیا گیا کہ عمادالدین کاوزیر ختم کر دیا گیا ہے۔اسے اب امریکہ چھوڑ نا ہوگا ۔ فروری کو عمادالدین اکیڈمی میں طلب کیا گیا، جہاں پہلے سے موجود سیکرٹ ایجنسی اور امیگر یشن عملہ نے اسے دھر لیا ۔ الزام یہ لگایا کہ امریکہ میں داخلے کی شرائط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ عماد کی وکیل بانی بشریٰ نے اس واقعہ کو زیادتی قرار دیا،قانون کے منافی ٹھیریا۔ بلاخر عماد الدین سید کو امریکہ چھوڑنے پر ہی آمادہ ہونا پڑا۔

مقبول فیس بک پیج ہیومنز ایف نیویارک کے خالق معروف صحافی اور بلا گر برینڈ اسٹیشن نے ری پبلکن صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرپ کو کھلا خط لکبا، یہ خط سوشل میدیا پر وائرل ہوگیا ۔گیا رہ لاکھ سے زائد مرتبہ شیئر کیا گیا ۔بائیں لاکھ سے بار لائیک کیا گیا ۔ اس خط سے برینڈن اسٹیشن کا پیچ لاکھوں

یہاں تحقیقاتی ادارے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ کی تحقیق کا زکر برمحل ہوگا۔ یہ تحقیق کہتی ہے کہ اگر امریکی ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گیا، تو یہ دنیا کو درپیش دس بڑے خطرات میں سے ایک خطرہ ہوسکتا ہے۔ یہ عالمی معیثت میں بے چینی اور امریکہ میں سیاسی اور سیکورٹی کے خطرات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔مزکورہکردار،واقعات، اور تحقیقات یہاں ہر گز ڈونلڈ ٹرمپ کی کردار کشی یا عماد الدین سید کی تعریف و تو صیف میں نہیں۔ یہاں یہ موضوع ہے وہ ردعمل،جو انتہائی مخالف سمتوں میں جاتا نظر آیا۔ایک نوجوان نے اسلام دشمن جزبات کی مزمت کی ،تو آزادی اظہار رائے ،تعلیم کی آزادی اور ہر حق سے محرام کردیا گیا ۔نیو یارک ٹائمز کے رپورٹر روٹھ لا فیرا نے برینڈن اسٹیشن کی تحسین میں طویل مضمون باندھا۔اس خط کو فیس بک کی تاریخ میں سب سے زیادہ شیئر کی جانے والی پوسٹ میں شامل کیا۔’یاہو‘ کی گلوبل اینکر پرسن نے ینڈن استیشن کا خصوصی انٹرویو کیا۔غرض برینڈن اسٹیشن امریکی میڈیا اور سوشل ویب سائٹس پر ہیرو بن کر سامنے آیا۔مگر عماد الدین کے احساسات قابل مزمت قرار پائے۔ پھر وہی سوال سامنے آگیا کہ کیوں؟ کچھ ایسے ہی دیگر مغربی ہیرو ہیروئنز آئے دن نظر آتے ہیں۔ مسلمان پناہ گزیں خیموں میں ہمدردی کا ڈراما رچاتی انجلینا جولی اور شیکرا نمایاں مثالیں ہیں بعص مواقع پر یوپ فرانس تک مسلمانوں کے دفاع میں ہیرو لگنے لگتے ہیں۔فیس بک مالک مارک زکر برگ کی حال ہی  میں مسلمانوں کے مسیحا بن کر سامنےآئے تھے۔ یہ سب دانستہ نا دانستہ ہیروز مغرب میں بہت  محبوب ہیں۔ہلیری کلنٹن ہیں جو ڈیموکرہٹ صدارتی امیدوار ہیں،ہلیری کلنٹن صدارتی امیدوار ہیں،ڈونلڈ ٹرپ کی مخالفت میں مسلمانوں سے بڑی محبت ضتارہی ہیں۔ یہ ہیروز اور ہیومنسٹ کہلاتے ہیں۔ کیوں؟

یوں کہ اسلامی تہزیب کی علمی اور عکسری شکست ممکن نہیں۔ واحد صورت یہی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے جملہ حقوق غصب کر لیے جائیں۔ اسلام جو کچھ  ہو، مغرب کی ہائی پراڈکٹ ہو۔ مسلمانوں کا کوئی ہیرو ہو، تو وہ مغرب کی پراڈکٹ ہو۔ کوئی غیر منظور شدہ شخص ڈونلڈ ٹرپ کے  خلف ہیرو بن ہی نہیں سکتا، البتہ بارک اوباما اور ہلیری  کلنٹن مسلمانوں کے ہمدرد اور ہیرو بن سکتے  ہیں۔ جبکہ مسلمان بستیوں پر بمباری ان سب ہی کی مستقل پالیسی ہے۔ یہ سب اسلام دشمنی میں ایک ہیں، کوئی کسی سے کم نہیں۔

مغرب کو اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کا غیر منظور شدہ ترجمان یا ہیرو ہر گز قبول نہیں وہ چاہتے ہیں اسلام مغرب کی ہائی پراڈکٹ ہی واحد صورت میں باقی رہ جائے۔وہ چاہتے ہیں اسلام اور مسلمان اپنے حقوق اور اپنے مسیحا کے لیے مغرب سے ہی رجوع کریں۔ انہیں عماد الدین سید کی صورت قبول نہیں، انہیں برینڈن اسٹیشن بہر صورت منظور ہے۔ سارا تصادم نظریاتی قیادت کا ہے اس سے دس برداری مغرب کو منظور نہیں۔ یہی اسلامی تہزیب سے ہو نہیں سکتا چاہے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند ہی کیوں نہ رکھ دیا جائے۔ اسلام انسان کی امانت سے کنارہ کش نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ حق پوری طرح چھانہ جائے اور باطل یکسر مٹ نہ جائے۔