March 29th, 2024 (1445رمضان19)

برائی کا جواب

ایک چونٹا بڑا محبتی اور شریف تھا۔ ہر وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف رہتا۔ کبھی اپنے بل کی مرمت کررہا ہے تو کبھی مند میں اناج کادانہ اٹھائے چلاآرہا ہے۔ کاہلی کو گناہ سمجھتا اور ہرکام بڑی محبت سے کرتا تھا۔
وہ وقت کی بھی بڑی قدرکرتا تھا۔ کسی کام سے باہر نکلتا تو کسی سے بے مقصد بات نہ کرتا وہ جانتا تھا کہ عقل مند زیادہ نہیں بولتے۔ راستے میں اگر کوئی جان پہچان والا چونٹا مل گیا تو دور ہی سے سلام دعا کرلی اور اپنی راہ پکڑی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دردمنددل کا مالک بھی تھا۔ اگر راہ میں کوئی مصیبت زدہ مل جاتا تو اپنا کام چھوڑ کر اس کی مدد کرتا تھا۔ وہ اپنے بڑوں کی عزت کرتا اور چھوٹوں سے بھی شفقت سے پیش آتا تھا۔
اس چیونٹے کے بل کے قریب ہی گندے پانی کاایک جوہڑتھا۔شریر اور گندے بچے گھنٹوں اس میلے کیچلے پانی میں نہاتے رہتے تھے۔ گندے پانی میں بہت سے جراثیم ہوتے ہیں جو ان کی کھال میں چپک کر پھوڑے پھنسی پیداکردیتے ہیں۔ ان بچوں کے علاوہ بہت سی بھینسیں بھی سارا دن پانی میں بیٹھی رہتی تھی۔
چیونٹا بڑا پریشان تھا۔ بھینسیں سارا دن پھرتی رہتی تھی۔ چیونٹے کو خطرہ تھا کہ کہیں وہ یا اس کا کوئی بچہ بھینسوں کے پاؤں تلے نہ کچل جائے۔ اب وہ زیادہ تر گھر میں ہی رہتا تھا۔ اگر کبھی کسی ضروری کام سے باہر جاتا بھی تھا تو اپنے بیوی بچوں کو سختی سے کہہ جاتا تھا کہ وہ باہر نہ نکلیں۔
ایک دن چیونٹا بہت تھکاہوا تھا، اس لیے دوپہرکاکھانا کھا کر کچھ دیر لیٹ گیا۔ چارے کوسوئے سوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ اچانک کسی نے اسے جھنجوڑدیا۔ وہ چونک کر اٹھا تو دیکھا کہ اس کی بیوی چیونٹی کھڑی ہے۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھی۔ چیونٹے نے جب اس کی طرف دیکھا تو بولی: آپ مزے سے سو رہے ہیں اور گھر میں پانی بھرا جارہاہے۔
ہیں ․․․․․․․ کیا کہاپانی․․․․․ پانی کہاں سے آرہا ہے؟ چیونٹا بولا۔
میں کیا جانوں کہاں سے آرہاہے۔ آپ باہر جاکر دیکھیں اوراس پانی کو کسی طرح بند کریں، ورنہ ہمارا محنت سے جمع کیا ہوا غلہ ضائع ہوجائے گا۔ چیونٹی نے کہا۔
چیونٹا فوراََ باہر کی طرف بھاگا۔ باہر پہنچا تو اس نے دیکھا کہ اس کے بِل کے بالکل قریب جوہڑ میں ایک بھینس بیٹھی بار بار اپنی دم کو پانی مار رہی ہے۔ جس سے پانی کے چھینٹے اڑ اڑ کر چیونٹے کے بل میں داخل ہورہے ہیں۔ چیونٹے نے یہ منظردیکھا تو پریشان ہوگیا
اس طرح تو ہمارا خوراک کا ذخیرہ خراب ہوجائے گا۔ جاڑوں کے موسم میں بھوکے مرجائیں گے۔ چیونٹے نے یہ سوچا، پھر دوڑ کر بھینس کے قریب ایک پتھ پر چڑھ کر بولا: بی بھینس ! میری ایک بات سنو!
کیا ہے؟ وہ اکڑکر بولی۔
دیکھو بہن!میں ایک غریب اور کمزور ساچیونٹا ہوں۔ میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ تم جانتی ہوہم زیادہ گرمی برداشت نہیں کرسکتے، اس لیے مناسب موسموں میں برے وقت کے لیے اپنی خوراک ذخیرہ کرلیتے ہیں۔
تو پھر میں کیا کروں؟ بھینس روکھے پن سے بولی۔
اچھی بہن ! تم بار بار اپنی دم پانی میں مارہی ہو۔ اس سے میرے گھر میں پانی داخل ہورہاہے اور ہماری خوراک کاذخیرہ تباہ ہورہا ہے۔ خدا کے لیے مجھ پر اور میرے بچوں پر ترس کھاؤ اور اپنی دم پانی پر نہ مارو۔ میں تمام زندگی تمھارا احسان مندرہوں گا۔
وہ بہت بداخلاق بھینس تھی۔ اس پران باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ بڑے زور سے ذکرائی اور آنکھیں نکال کر بولی: جاجا حقیرچیونٹے میں اپنی مرضی کی مالک ہوں، جب تک چاہوں دم ہلاتی رہوں۔ تو مجھ پر حکم چلانے والا کون ہوتا ہے؟ دفع ہوجاؤ، ورنہ کچل کررکھ دوں گی۔
چیونٹے نے یہ سنا تو اس کی آنکھوں میں آنسو بھرآئے۔ وہ سمجھ گیا۔ اس ظالم بھینس سے مزید کچھ کہنا بے کار ہوگا۔ چنانچہ وہ سرجھکا کرلوٹ آیا۔ گھر میں بہت زیادہ پانی بھر چکا تھا۔ خوراک کا سارا ذخیرہ تباہ ہوچکا تھا اور چیونٹے کے بچے خوف سے چیخیں ماررہے تھے۔ اس نے بڑی مشکل سے انھیں پانی سے نکالا اور باہر لے آیا۔ پھر ایک حسرت بھری نظر اپنے گھر پر ڈالی اور کسی انجانی منزل کی طرف چل دیا۔ اب اس کے پاس نہ کھانے کو خوراک تھی اور نہ سرچھپانے کا ٹھکانا۔ وہ سخت پریشان تھا کہ کیا کرے کیا نہ کرے۔ چلتے چلتے وہ ایک ٹیلے کے پیچھے جانکلا۔ اس جگہ چیونٹے کے بہت سے دوست رہتے تھے۔ انھیں جب سارا حال معلوم ہوا تو سب نے چیونٹے سے کہا: پیارے بھائی! آپ ہمارے محسن ہیں۔ آپ نے ہر برے وقت پر ہماری مدد کی ہے۔ اب قدرت نے ہمیں موقع دیا ہے کہ ہم ان احسانوں کا بدلہ اتار سکیں۔
یہ کہہ کر بہت سے چیونٹے مل کر ایک مکان کی تعمیر میں لگ گئے۔ وہی کام جو چیونٹا کیلا کئی دنوں میں مکمل کرتا، اب گھنٹے بھر میں ہوگیا تھا۔ ان سب نے چیونٹے کے لیے بڑاسا مکان بنادیا۔ مکان کے بعد غذا کامسئلہ حل کرنے کے لیے سب چیونٹے اپنے اپنے گھر سے تھوڑاتھوڑا اناج لے آئے وہ غلے کاایک بڑا ڈھیربن گیا۔ اس طرح چیونٹے کے پاس اب ایک آرام دہ گھر اور ڈھیر ساغلہ تھا۔ اس نے سب کا شکریہ ادا کیا۔
ایک دن چیونٹا کسی کام سے جوہڑ کی طرف جارہا تھا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ وہی بھینس پانی سے الگ کھڑی رورہی تھی اور بار بار اپنے سرکو جھٹک رہی تھی، جیسے وہ سخت تکلیف میں ہو۔ چیونٹے نے اس تکلیف میں دیکھا تو بڑا ترس آیا۔ وہ آگے بڑھا اور بھینس سے خیریت دریافت کی۔ بھینس سخت شرمندہ تھی۔ وہ روتے ہوئے بولی: بھائی چیونٹے مجھے معاف کردو۔ میں نے تم پر ظلم کیا تھا۔ اب اس کی سز ا بھگت رہی ہوں۔
مگر تمہیں کیا تکلیف ہے؟ چیونٹا بے چینی سے بولا۔
بھینس نے بتایا: میں صبح بھوسا کھارہی تھی کہ ایک چھوٹا سا تنکا اڑ کر میری آنکھ میں چلاگیا۔ تب سے میری آنکھ میں تکلیف ہے۔ مجھے کسی پل چین نہیں آرہاہے۔ اور تنکا کسی طرح نکل بھی نہیں رہاہے۔
میں تمہاری مدد کرسکتا ہوں۔ چیونٹا بولا: تم اپنا سرزمین پر رکھو۔
بھینس نے جھٹ اپنا سرزمین پر رکھ دیا۔ اب چیونٹا اس پر چڑھ گیااور آنکھ کے قریب جاکر تھوڑی دیر میں وہ تنکا باہر نکال پھینکا ۔ تنکا نکلنے سے بھینس کو بے حد سکون ملا اور وہ احسان کے بوجھ تلے دب گئی۔
اس نے شکریہ ادا کیااوربولی: میں نے تم پر ظلم کیا، لیکن بھر بھی تم نے مجھ پر احسان کیا۔ آخر کیوں۔
چیونٹا بولا: سنو بہن! تمھاری بدی کے جواب میں اگر میں بھی بدی کرتا تو میرے اور تمہارے درمیان کیا فرق رہ جاتا۔ اگر تمام لوگ بدی کا جواب بدی سے ہی دینے لگیں تو دنیا سے نیکی بالکل ہی مٹ جائے گی۔ پھر اگر تمہیں اس خوشی کااحساس ہوجائے جوکسی کے ساتھ بھلائی کرنے سے ملتی ہے تو تم کو تمھارے سوال کا جواب خود ہی مل جائے گا۔
یہ سن کر بھینس نے وعدہ کیا کہ اب میں کسی کو نہیں ستاؤں گی اور سب کے ساتھ نیکی سے پیش آؤں گی