April 18th, 2024 (1445شوال9)

امام مودودی کا تصور”امامت صالحہ

پروفیسر محمد شکیل صدیقی

امام مودودیؒ اسلامی تاریخ کی جلیل القدر ہستیوں میں ایک ایسے منفرد و ممتاز مقام پر فائز نظر آتے ہیں جنہوں نے تصور دین اور تفہیم دین کو قرآن و سنت کی حقیقی روح کے مطابق دنیا کے تمام انسانوں بالخصوص مسلمانوں تک تمام کرنے کے لیے ایک عظیم الشان اور منظم تحریک برپا کی اور 23 اگست 1941ءکو لاہور میں تاسیسی اجتماع میں باقاعدہ جماعت اسلامی کے قیام کا اعلان فرمایا۔ 75 افراد، 132 روپے اور امام مودودی کے مختصر ذخیرہ_¿ لٹریچر سے جس تحریک کا آغاز ہوا تھا اس سے متاثر لاکھوں کروڑوں افراد دنیا کے تمام براعظموں میں امام مودودیؒ کے مشن ”امامت صالحہ“ جو اصل میں دین کا حقیقی مقصود و مطلوب ہی، کے قیام میں سرگرم عمل ہیں۔ ”امامت صالحہ“ کی اصطلاح امام مودودیؒ نے اپنے ایک تاریخی خطبے میں استعمال کی، یہ تاریخی خطبہ جماعت اسلامی کے پہلے اجتماع عام (اجتماع ارکان) منعقدہ دارالاسلام، پٹھان کوٹ پنجاب میں 19 تا 21 اپریل 1945ءکو منعقد ہوا جو جماعت اسلامی کے لٹریچر میں ”تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں“ کے عنوان سے روداد جماعت اسلامی (حصہ سوم) اور الگ کتابچے کی صورت میں بھی موجود ہی، یہ طویل خطبہ فی الحقیقت امام مودودیؒ کا اجتماع عام سے افتتاحی خطاب ہے جو ہر اعتبار سے بالخصوص موجودہ حالات میں انتہائی فکر انگیز اور اسلامی تحریک کے کارکنوں کے لیے تحرک اور تقویت کا ذریعہ ہے۔ ہم اسی خطبہ کی روشنی میں ”امامت صالحہ“ کے قیام کی اہمیت، مراحل اور لوازم کی نشاندہی کریں گے۔ امام مودودیؒ نے اپنے خطبہ کے آغاز میں ”امامت صالحہ“ کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے دو ٹوک اور واضح الفاظ میں فرمایا کہ: ”ہماری جدوجہد کا آخری مقصود ”انقلاب امامت“ ہے یعنی ہم جس انتہائی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت ختم ہوکر امامت صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی مقصد عظیم کے لیے سعی و جہد کو ہم دنیا و آخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں“۔ امام مودودیؒ کے ان ارشادات میں ”انقلاب“ اور مقصد انقلاب کو مرکزی اہمیت حاصل ہے اور یہ ایک اعلیٰ و ارفع نصب العین ہے۔ امام مودودیؒ کے افکار کی اساس ہی فی الحقیقت انقلاب ہے اور انقلاب میں بھی دنیا کی قیادت اور رہنمائی کی تبدیلی اصل محور و مرکز ہے جسے امام مودودیؒ نے ”زمام کار کی تبدیلی“ سے موسوم کیا۔ انہوں نے زمام کار اور اس کی تبدیلی کی اہمیت سے متعلق غفلت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”دراصل فساق و فجار کی قیادت ہی نوع انسانی کے مصائب کی جڑ ہے اور انسان کی بھلائی کا سارا انحصار صرف اس بات پر ہے کہ دنیا کے معاملات کی سربراہ کاری صالح لوگوں کے ہاتھوں میں ہو۔ آج دنیا میں جو فساد عظیم برپا ہی، جو ظلم و طغیان ہورہا ہی، انسانی اخلاق میں جو عالمگیر بگاڑ رونما ہی، انسانی تمدن و معیشت و سیاست کی رگ رگ میں جو زہر سرایت کرگئے ہیں زمین کے تمام وسائل اور انسانی علوم کی دریافت کردہ ساری قوتیں جس طرح انسان کی فلاح و بہبود کے بجائے اس کی تباہی کے لیے استعمال ہورہی ہیں، ان سب کی ذمہ داری اگر کسی چیز پر ہے تو وہ صرف یہی ہے کہ دنیا میں چاہے نیک لوگوں اور شریف انسانوں کی کمی نہ ہو مگر دنیا کے معاملات ان کے ہاتھ میں نہیں ہیں، بلکہ خدا سے پھرے ہوئے اور مادہ پرستی و بداخلاقی میں ڈوبے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ اب اگر کوئی شخص دنیا کی اصلاح چاہتا ہو اور فساد کو صلاح سی، اضطراب کو امن سی، بداخلاقیوں کو اخلاق صالحہ سے اور برائیوں کو اچھائیوں میںبدلنے کا خواہش مند ہو تو اس کے لیے محض نیکیوں کا وعظ اور خدا پرستی کی تلقین اور حسن اخلاق کی ترغیب ہی کافی نہیں ہے اس کا فرض ہے کہ نوع انسانی میں جتنے صالح عناصر اسے مل سکیں انہیں ملا کر وہ اجتماعی قوت بہم پہنچائے جس سے تمدن کی زمام کار فاسقوں سے چھینی جاسکے اور امامت کے نظام میں تغیر (تبدیلی) کیا جاسکے“۔ یہ اگرچہ نصف صدی سے زائد مدت(66 برس) قبل کی تحریر نہیں بلکہ تقریر ہے لیکن ”امامت صالحہ“ کی راہ میں حائل جس اصل رکاوٹ کی تشخیص اور نشاندہی کی ہے وہ 66 برس قبل کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ عصر حاضر کا بھی بنیادی مسئلہ ہی، بلاشبہ آج انسانیت کے مصائب و مسائل کی تمام ذمہ داری ان عناصر پر عائد ہوتی ہے جن کے ہاتھوں میں انسان کی سیاسی و تمدنی قیادت کی باگ ڈور ہی، یہ عناصر چاہے مسلم دنیا میں ہوں یا غیر مسلم دنیا میں ان کی نااہلیت صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ خدا اور خدائی نظام کے باغی اور سرکش ہیں۔ زمام کار کی تبدیلی سے متعلق امام مودودیؒ کی فکر و فلسفہ انتہائی بصیرت افروز اور جرا_¿ت مندانہ ہے یعنی یہ کہ زمام کار کی تبدیلی محض نیک تمناوں اور خواہشات اور لسانی ذکر و فکر سے ممکن ہے بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد اور اجتماعی قوت کو ضروری قرار دیا ہی، ان کے نزدیک امامت صالحہ کا قیام فاسقوں سے زمام کار چھینے بغیر ممکن نہیں ہے۔ زمام کار چھیننے کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ زمام کار کی تبدیلی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے رہنے یا تمناوں و خواہشات یا زبانی مطالبات سے نہیں آئے گی بلکہ اس کے لیے میدان عمل نکل کر ان کو للکارنا اور ان کا مقابلہ کرنا ہے جسے کشمکش یا مزاحمت کا نام دے سکتے ہیں۔ امام مودودیؒ نے امامت صالحہ کے قیام میں زمام کار کی تبدیلی کے لیے جس علمی و عقلی استدلال، اسلوب کا استعمال کیا ہے وہ انتہائی متاثر کن اور جذبوں کو مہمیز دینے والا ہے اس کا اندازہ ذیل میں اقتباس سے لگایا جاسکتا ہی، آپ فرماتے ہیں کہ: ”انسانی تمدن کی گاڑی اسی سمت پر سفر کرتی ہے جس سمت پر وہ لوگ جانا چاہتے ہیں، جن کے ہاتھ میں تمدن کی باگیں ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ زمین کے سارے ذرائع جن کے قابو میں ہوں، قوت و اقتدار کی باگیں جن کے ہاتھوں میں ہوں، عام انسانوں کی زندگی جن کے دامن سے وابستہ ہو، خیالات و افکار کو بنانے اور ڈھالنے کے وسائل جن کے قبضے میں ہوں‘ انفرادی سیرتوں کی تعمیر، اجتماعی نظام کی تشکیل اور اخلاق کا تعین جن کے اختیار میں ہو، ان کی راہ نمائی و فرماں روائی کے تحت رہتے ہوئے انسانیت بحیثیت مجموعی اس راہ پر چلنے سے کسی طرح باز نہیں رہ سکتی جس پر وہ چلانا چاہتے ہیں۔ یہ راہ نما و فرماں روا اگر خدا پرست اور صالح لوگ ہوں تو لامحالہ زندگی کا سارا نظام خدا پرستی اور خیر و صلاح پر چلے گا، برے لوگ بھی اچھا بننے پر مجبور ہوں گی، بھلائیوں کو نشوونما نصیب ہوگی اور برائیاں اگر مٹیں گی نہیں تو کم از کم پروان نہ چڑھ سکیں گی لیکن اگر راہ نما و قیادت اور فرماں روائی کا یہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں جو خدا سے برگشتہ اور فسق و فجور میں سرگشتہ ہوں تو آپ سے آپ سارا نظام زندگی خدا سے بغاوت اور بداخلاقی پر چلے گا۔ خیالات و نظریات، علوم و آداب، سیاست و معیشت، تہذیب و معاشرت، اخلاق و معاملات، عدل و قانون، سب کے سب بحیثیت مجموعی بگڑ جائیں گے۔ برائیاں خوب نشوونما پائیں گی، بھلائیوں کو زمین اپنے اندر جگہ دینے سے اور ہوا و پانی انہیں غذا دینے سے انکار کردیں گے اور خدا کی زمین ظلم و جبر سے لبریز رہے گی، ایسے نظام میں برائی کی راہ میں چلنا آسان اور بھلائی پر چلنا کیا معنی قائم رہنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ امام مودودیؒ امامت صالحہ کو دین کا حقیقی مقصود قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: ”اس چیز (امامت صالحہ کے قیام اور نظام حق کی اقامت) سے غفلت برتنے کے بعد کوئی عمل ایسا نہیں ہوسکتا جس سے انسان اللہ کی رضا کو پہنچ سکے“ گویا مجرد ایمان رضائے الٰہی کے لیے کافی نہیں اسی لیے اعمال صالحہ یعنی امامت صالحہ اور نظام حق کی اقامت رضائے الٰہی کے لیے مشروط ہی، امام مودودیؒ اس کی وضاحت اس طرح فرماتے ہیں کہ: ”غور کیجیی، آخر قرآن و حدیث میں التزام جماعت اور سمع و اطاعت پر اتنا زور کیوں دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص جماعت سے خروج اختیار کرے تو وہ واجب القتل ہی، خواہ وہ کلمہ توحید کا قائل اور نماز و روزے کا پابند ہی کیوں نہ ہو؟ کیا اس کی وجہ یہ اور صرف یہی نہیں ہے کہ امامت صالحہ اور نظام حق کا قیام و بقا دین کا حقیقی مقصود ہے اور اس مقصد کا حصول اجتماعی طاقت پر موقوف ہے لہٰذا جو شخص اجتماعی طاقت کو نقصان پہنچاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب کرتا ہے جس کی تلافی نہ نماز سے ہوسکتی ہے اور نہ اقرار توحید سی؟ پھر دیکھیے کہ آخر اس دین میں جہاد کو اتنی اہمیت کیوں دی گئی ہے کہ اس سے جی چرانے اور منہ موڑنے والوں پر قرآن مجید نفاق کا حکم لگاتا ہی؟ جہاد، نظام حق کی سعی ہی کا تو دوسرا نام ہے اور قرآن اسی جہاد کو وہ کسوٹی قرار دیتا ہے جس پر آدمی کا ایمان پرکھا جاتا ہے۔ اس حقیقت کو ذہن نشین کرنے کے لیے بالکل کافی ہے کہ اسلام کے نقطہ نظر سے امامت صالحہ کا قیام مرکزی اور مقصدی اہمیت رکھتا ہی، جو شخص اس دین پر ایمان لایا ہو اس کا کام صرف اتنے ہی پر ختم نہیں ہوجاتا کہ اپنی زندگی کو حتیٰ الامکان اسلام کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرے بلکہ عین اس کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی تمام سعی و جہد کو اس مقصد پر مرکوز کردے کہ زمام کار فساق و فجار کے ہاتھ سے نکل کر صالحین کے ہاتھ میں آئے اور وہ نظام حق قائم ہو جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق دنیا کے نظام کو درست کرے اور درست رکھی.... قرآن و حدیث کے مطالعہ سے جو کچھ بصیرت مجھے حاصل ہوئی ہے اس سے میں دین کا تقاضا یہی کچھ سمجھا ہوں، یہی میرے نزدیک کتاب الٰہی کا مطالبہ ہی، یہی انبیا کی سنت ہے اور میں اپنی اس رائے سے ہٹ نہیں سکتا جب تک کوئی خدا اور رسول کی سنت ہی سے مجھ پر ثابت نہ کردے کہ دین کا یہ تقاضا نہیں ہے“۔ دین میں امامت صالحہ کی مرکزیت و مقصدیت کے بارے میں امام مودودیؒ کے مذکورہ بالا افکار تصور دین اور تفہیم دین کی وہ تفسیر اور تشریح جو قرآن و سنت کے عین مطابق ہے اور اس بارے میں امام مودودیؒ کا اعتماد اور عزم بالجزم ہی تھا جس نے نہ صرف ایک منظم تحریک کو اٹھانے کے لیے جماعت اسلامی قائم کی بلکہ مسلمانوں کو برسوں اور صدیوں سے اسلام کی گم شدہ راہ سے نکال کر دین کی حقیقی شاہراہ پر ایک تحریک کی صورت میں گامزن کیا، امام مودودیؒ کے مذکورہ افکار کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ امامت صالحہ کا قیام التزام جماعت کے بغیر ممکن نہیں اور امامت صالحہ اور التزام جماعت ایمان، جہاد اور اعمال صالحہ کی بنیادی شرائط ہیں۔