April 19th, 2024 (1445شوال11)

دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ سید مودودیؒ

میاں طفیل محمد

حضرت عائشہ ؓ سے بڑھ کر حضور نبی کریمؐ کو جاننے اور پہچاننے والی شخصیت اور کون ہوسکتی تھی۔ ان سے لوگوں نے جب پوچھا کہ حضور نبی کریمؐ کیسے تھے تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا: حضورؐ چلتا پھرتا قرآن تھے، میں بھی مولانا مودودیؒ صاحب کے بارے میں یہی کہتا اور کہہ سکتا ہوں کہ مولانا مودودی مرحوم دعوت اسلامی کا چلتا پھرتا نمونہ تھے۔
میں نے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے ساتھ 35 سالہ رفاقت کے دوران ان کی کوئی بات اور کوئی حرکت، اسلام اور اسوہ رسولؐ سے ہٹی ہوئی نہیں دیکھی۔ میرا ان سے ایک ہی بات پر اختلاف تھا کہ وہ پان کھاتے تھے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ اسلام کے منافی تو نہیں ہے، میں اسے تمہارے لیے تو نہیں چھوڑوں گا، خداکے لیے جب ضرورت ہو گی تو چھوڑدوں گا۔ چناں چہ اکتو بر 1948 میں جب ہمیں گرفتار کیا گیا تو جیل کے پھاٹک کے باہر انہوں نے پان تھوکا، پھر پورے 20 ماہ جیل میں کبھی نہیں چکھا اور جب سینٹرل جیل ملتان سے ہم رہا ہوئے تو دفترجماعت اسلامی ملتان میں آتے ہی پان منگوا کر کھانا شروع کردیا۔
شہر لاہور میں مارچ 1953 میں جب ہم لوگوں کو گرفتا ر کر کے لاہور سینٹرل جیل میں لے جایا گیا تو مو لانا مودودی صاحب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب، ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب، سید نقی علی صاحب، چودھری محمد اکبر صاحب سیالکوٹی اور مجھے لاہور سینٹرل جیل کے دیوانی گھر وارڈمیں اور لاہور سے گرفتار شدہ دوسرے حضرات کو دوسرے وارڈوں میں رکھا گیا۔ لاہور سینٹرل جیل میں ہی قائم کردہ مار شل لا کورٹ میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب، سید نقی علی صاحب اور ملک نصر اللہ خاں عزیز صاحب پر مقدمہ چلایا گیا۔ مار شل لا کورٹ میں مولانا مودودی صاحب نے جو بیان دیا وہ انھوں نے مجھے ہی لکھوایاتھا اور یہی بیان عدالت میں مولانا محترم نے پیش کیا۔
11 مئی 1953 کو ہم لوگ دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلااور ایک درجن سے زاید فوجی اور جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے اور جہاں ہم نما ز پڑھ رہے تھے، وہاں قریب آکر کھڑے ہو گئے۔ ہم نے سلام پھیرنے کے بعد عرض کیا: فرمایئے،کیا حکم ہے؟ ایک فوجی افسر نے کہا: آپ لوگ نماز سے فارغ ہو لیں۔ چناں چہ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑ ے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا،پوچھا: مولانا مودودی صاحب کون ہیں ؟ حالاں کہ وہ جانتا تھا کہ مولانا مودودی صاحب کون ہیں، اس لیے کہ وہ تو عدالت میں کئی دن ان کے سامنے پیش ہوتے رہے تھے۔ بہر حال مولانا نے عرض کیا: میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں تواس نے کہا: آپ کو قادیانی مسئلہ تصنیف کر نے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے، آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں۔ مولانا نے بلا توقف فرمایا: مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے، زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں، اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچاسکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا: آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیممیں جو بیان دیا ہے، اس پر آپ کو سات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے۔
اس کے بعد اسی افسر نے پوچھا: نقی علی کون ہے؟ سید نقی علی کوبھی وہ خوب جانتا تھا کہ وہ بھی ان کی عدالت میں پیش ہوتے رہے تھے۔ بہر حال، سید نقی علی صاحب نے عرض کیا : میں ہوں نقی علی۔ اس افسر نے کہا: تمہیں قادیانی مسئلہ چھاپنے کے جرم میں نو سال قید بامشقت کی سزادی جاتی ہے۔ سید نقی علی صاحب نے بھی جواب دیا: آپ کا شکریہ!
اس کے بعد اس افسر نے پوچھا : نصراللہ خان عزیز کون ہے؟ ملک نصر اللہ خان صاحب نے جواب دیا: میں ہوں نصر اللہ خان عزیز۔ افسر نے کہا: آپ کو روزنامہ تسنیم میں مو لانا مودودی صاحب کا بیان شایع کرنے کے جرم میں تین سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے۔ ملک صاحب نے جواب دیا: آپ کا شکریہ۔
یہ حکم سنانے کے بعد یہ لوگ واپس چلے گئے اور وارڈ کا باہر کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ واقعہ یہ ہے کہ احکام سننے کے بعد ہم لوگوں پر بظاہر کوئی اثر ہی نہ ہوا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے تیز بلیڈ یا تیزدھار چھری سے ہاتھ کٹ جانے سے فوراً درد محسوس ہی نہیں ہوتا، اسی طرح مولانامودودی صاحب کی سزائے موت کا یہ حکم سننے کے بعد ہمیں کچھ محسوس ہی نہیں ہوا۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انہوں نے کہا: مولانا مودودی صاحب تیار ہوجائیں، وہ پھانسی گھر جائیں گے۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پا جامہ تنگ پاجامے سے بدل، جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے، سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتارکر سیاہ گرگابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہا یت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہوگئے۔
اس کے کوئی نصف گھنٹہ بعد پھر وارڈ ر آئے اور کہا:ملک نصر اللہ خاں عزیز اور سید نقی علی صاحب بھی چلیں۔ وہ سزا یافتہ قیدیوں کے بارک میں جائیں گے۔ چناں چہ وہ دونوں بھی مولا نا امین احسن اصلاحی صاحب، چودھری محمد اکبر صاحب کو اور مجھ سے گلے مل کر وارڈروں کے ساتھ چلے گئے۔ اس کے تھوڑی دیر بعد وارڈر مولانا مودودی صاحب کا جوتا، پاجامہ، قمیص اور ٹوپی لا کر ہمیں دے گئے کہ مولانا صاحب کو پھانسی گھر کے کپڑے پہنا دیے گئے ہیں، ان چیزوں کی اب ضرورت نہیں ہے، اس پر پہلی مرتبہ ہم لوگوں کو اندازہ ہوا کہ ہوکیا گیا ہے۔
اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب مولانامودودی صاحب کی قمیص، پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے، کبھی آنکھوں پر لگاتے اور بے تحاشا روتے ہوئے کہتے جاتے کہ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے۔ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا اور ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔ میرے دل میں کبھی تو یہ خیال آتا کہ اللہ تعالیٰ کبھی ان ظالموں کو مولانا کو پھانسی پر لٹکانے کا موقع نہیں دے گا، لیکن اگلے ہی لمحے خیال آتا جس خدا کے سامنے اس کے رسولؐ کے نواسے امام حسینؓ کو ظالموں نے تپتی ریت پر لٹا کرذبح کر دیا، اس کے ہاں بھلا مودودی کی کیا حیثیت ہے۔ جس خدا کی زمین پر رات دن لاکھوں کروڑوں نہایت حسین پھو ل کھلتے اور مُرجھا جاتے ہیں اور کوئی آنکھ ان کو دیکھنے والی بھی نہیں ہوتی، اسے ایک مودودی کی کیا پروا۔۔۔ اسی ادھیڑ بن میں ساری رات گزر گئی۔
اب مولانا امین احسن اصلاحی صاحب، مولانا مودودی صاحب کی قمیص، پاجامہ اور ٹوپی کبھی سینے، کبھی آنکھوں سے لگاتے اور کبھی اپنے سر پر رکھتے اور بے تحاشا روتے ہوئے کہتے جاتے کہ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ مولانا مودودی صاحب بہت بڑے آدمی ہیں، لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ خد ا کے ہاں مودودی صاحب کا اتنا بڑا مرتبہ اور مقام ہے۔ چودھری محمد اکبر صاحب بھی روتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر صحن میں چلے گئے اور میں بھی روتا ہوا صحن میں ایک طرف نکل گیا، ساری رات اسی طرح سے گزرگئی۔اگلی صبح ایک وارڈر نے آکر بتایا کہ مولانا مودودی صاحب تو عجیب آدمی ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ ان کو یہ اندازہ ہی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ وہ سیدھے پھانسی گھر گئے، وہاں کا لباس پہنا، جنگلے سے باہر پانی کے گھڑے سے وضو کیا، اطمینان سے عشا کی نماز پڑھی اور ٹاٹ پر لیٹ کر تھوڑی دیر بعد خراٹے مارنے لگے۔ حالاں کہ آس پاس پھانسی گھرکے دوسر ے قیدی چیخ و پکار میں مصروف تھے۔
مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہوگیا۔ انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہاکہ پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے۔ پاکستان ان کو انڈو نیشیا بھجوا دے۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ علیٰ ھذا القیاس بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا۔ اس احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کردیا کہ مولانا مودودی اور مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے ۔
ہم لوگوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے درخواست کی کہ ہمیں مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی اجازت دی جائے، چناں چہ ہمیں اس کی اجازت مل گئی تو ہم لوگ بی کلاس وارڈ میں جا کر مولانا سے ملے۔ مولانا کا سارا سامان گھر بھیج  دیا گیا تھا، اس لیے میں اپنا ایک ململ کا کرتہ، لٹھے کا پاجامہ اور بستر کی ایک چادر ساتھ لے گیا اورکھدر کے کرتے پاجامے کی جگہ یہ کپڑے ان کو پہنا دیے۔ مولانا مودودی صاحب کا پورا جسم گرمی اور کھدر کے موٹے کُرتے پاجامے کی وجہ سے گرمی دانوں سے بھرا پڑا تھا۔ اسی بی کلاس وارڈ میں مولانا عبد الستار خاں نیازی صاحب اور مولانا خلیل احمد صاحب خلف مولانا ابو الحسنات صاحب سے بھی ملا قات ہوئی۔ چند دن کے بعد سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو لاہور سنٹرل جیل سے میاں والی جیل میں منتقل کردیا گیا اور پھر کچھ دن کے بعد ہی انہیں اس جیل سے ڈسٹرکٹ جیل ملتان بھیج دیا گیا، جہاں انہیں ایک وارڈ کے کھلے میدان میں ٹین کے بنے ہوئے الگ گول کمرے میں رکھا گیا۔ کمرا جون، جولائی کی دھوپ میں تپ کر جہنم بن جاتا تھا، لیکن اس کے باوجود مولانا نے نہ کبھی کوئی شکایت کی اور نہ اس پر کوئی احتجاج فرمایا۔ اس سے اہل حکومت کو اور پریشانی ہوئی کہ ان کا کوئی حربہ بھی مولانامودودی صاحب کو ان سے فریاد کرنے پرمجبور کرنے کے لیے کام یاب نہیں ہو پاتا۔ ملتان ڈسٹرکٹ جیل میں دو مر تبہ میں نے مولانا مودودی صاحب سے ملاقات کی۔ وہ ان ساری تکا لیف کو نہایت خندہ پیشانی سے بر داشت کر رہے تھے اور کبھی ہم سے بھی انہوں نے اپنی کسی تکلیف یا پریشانی کا اظہار نہیں فرمایا۔
ملک غلام محمد گورنر جنرل کی حکومت مولانا مودودی صاحب کو 14 سال قید با مشقت کی سزا دے کر مطمئن ہوگئی کہ ان کی مولانا مودودی صاحب اوران کی اسلامی دستور کی تحریک سے جان چھوٹ گئی ہے اور اب وہ اپنا من مانا سیاسی نظامِ حکومت پاکستان پر مسلط کرسکیں گے، لیکن کارساز مابکارِ کارِم۔۔۔ہوا یہ کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں کی شہادت کے بعد خواجہ ناظم الدین ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ مولوی تمیز الدین خاں صاحب پہلی دستور ساز اسمبلی جو ملک کی پارلیمنٹ بھی تھی اس کے صدر تھے،‘ ان کا موقف یہ تھا کہ سلطنت بر طانیہ نے اقتدار مجلس دستور سازکو منتقل کرکے اسے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ پاکستان کے لیے دستور مملکت وضع کرکے اقتدار باشندگان پاکستان کو منتقل کرے، اس لیے اب جو دستور اور قانون بھی یہ مجلس دستور ساز کی حیثیت سے بنائے، اس کے لیے گورنر جنرل جو ملکہ بر طانیہ کا نمایندہ ہے، اس کی منظوری اور دستخطوں کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ مجلس دستور ساز کے صدر مولوی تمیز الدین خاں کی منظوری اوردستخطوں سے قانون اورملک کا دستور بن جائے گا، چناں چہ لاہور کے مار شل لا اٹھنے کے بعد جو انڈ منٹی ایکٹ مجلس نے پاس کیا تھا، اس پر گورنر جنرل ملک غلام محمد صاحب کے نہیں بلکہ مولوی تمیز الدین صاحب کے دستخط کرائے گئے تھے اور مار شل لا اٹھ جانے کے بعد اس کی کارروائیوں اور فیصلوں کو مستقل حیثیت دے دی گئی تھی، لیکن ملک غلام محمد صاحب گورنر جنرل کے مجلس دستور ساز اور پارلیمنٹ کو توڑنے کے حکم کے خلاف مولوی تمیزالدین صاحب کے مقدمے میں جسٹس محمد منیر صاحب چیف جسٹس سپریم کورٹ اور ان کے بنچ نے یہ فیصلہ دیا کہ پاکستا ن کی پارلیمنٹ خواہ پارلیمنٹ کی حیثیت سے یا مجلس دستور ساز کی حیثیت سے کوئی کارروائی کرے، اس کا کوئی فیصلہ گورنر جنرل کی منظوری کے بغیر قانونی صورت اختیار نہیں کرسکتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ مجلس کا پاس کردہ انڈمنٹی ایکٹ بے اثر اور کالعدم ہوگیا، کیوں کہ اس پر گورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے، اس لیے جماعت اسلامی نے مولانا مودودی صاحب کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کو رہا کرنے کا حکم دے دیا، چناں چہ مولانا مودودی صاحب 28 مئی 1955 کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآگئے۔
مولانا مودودی کو چا ر مرتبہ گرفتار کیا اور جیل بھیجا گیا ۔ پہلی مرتبہ 4 اکتوبر 1948کو جہاد کشمیر کے بارے میں جھوٹا الزام لگاکر اور اس بار مو لانا امین احسن اصلاحی صاحب کو اور مجھے بھی ان کے ساتھ گرفتار کر کے نیوسینٹرل جیل ملتان میں نظر بند رکھا گیا اور 20 ماہ بعد اس وقت رہا کیا گیا، جب ایک اور نظر بند ی کے سلسلے میں ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دے دیا کہ پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بندی میں دو مرتبہ ہی چھے چھے ماہ کی تو سیع ہو سکتی ہے، اس سے زیا دہ تو سیع نہیں ہوسکتی۔ ہم لوگ اس وقت اسی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت تیسری تو سیع کے تحت قید بھگت رہے تھے، اس لیے ہم لوگوں کو بھی حکومت کو رِہا کرنا پڑا۔ دوسری مرتبہ مولانا مودودی لاہورشہر کے مار شل لا کے تحت 28 مارچ 1953 کو گرفتار ہوئے تو ان کے ساتھ مولانا امین احسن اصلاحی صاحب اور میرے علاوہ جماعت کے قریباً 56 نمایاں ارکان بھی گرفتار کر لیے گئے۔ مولانا مودودی صاحب کو سزائے موت اور بعد ازاں اسے عمر قید میں تبدیل کردیا گیا اور وہ 26 ماہ بعد اس بنا پر رہا ہوئے کہ جس انڈ منٹی ایکٹ کے تحت مولانا کی سزا بر قرارتھی، وہی خلاف قانون پایاگیا۔ تیسری مرتبہ مولانا مودودی صاحب 4 جنوری 1964کو جماعت اسلامی خلافِ قانون قرار دیے جانے پر گرفتار ہوئے اور ان کے ساتھ جماعت کے ,56 55 کے قریبدوسرے سرکردہ ارکان جماعت بھی گرفتار ہوئے۔ پھر مولانا مودودی صاحب اور دوسرے سب نظر بند ساتھی9 ستمبر 1964 کو اس وقت رِہا ہوئے، جب کہ سپریم کورٹ پاکستان نے جماعت پر پابند ی کو منسوخ اور مولانا مودودی سمیت تمام نظربند ارکانِ جماعت کی رہائی کا حکم دے دیا۔
چوتھی مرتبہ مولانا مودودی صاحب 1967 میں اس لیے گرفتار اور نظر بند کیے گئے کہ عیدالفطر جمعہ یا جمعرات کو پڑ رہی تھی اور جنرل محمد ایوب خاں صاحب کو ان کے بعض درباریوں نے ڈرادیا تھا کہ عید جمعہ کے روز ہوئی تو دو خطبے ہوں گے، یعنی ایک عید کا اور دوسر ا جمعہ کا اور ایک دن میں دو خطبوں کا ہونا حکومت کے اقتدار کے لیے منحوس اور خطرہ بھی ہوسکتا ہے، چناں چہ جنرل محمد ایوب صاحب نے اپنے خوشامدی علما کے ذریعے چاند بدھ کی شام ہی کو دکھا دیا تاکہ عید جمعرات کی ہوجائے۔ مولانا مودودی اور تین چار اور بڑے علمائے کرام نے سرکاری چاند کوماننے سے انکار کردیا، اس پر جنرل محمد ایوب صاحب کی حکومت نے مولانا مودودی کو گرفتار کرکے راتوں رات لاہور سے لے جا کر بنوں میں نظر بند کردیا اور دو ماہ بعد انہیں رِہا کیا گیا۔