April 19th, 2024 (1445شوال10)

سید مودودی کے فکری جہاد کا ارتقاء

محمود عالم صدیقی

تحریکِ اسلامی کی فکری ابتدا مولانا محمد علی جوہر کی خواہش پر سید مودودیؒ نے مذاہب ِعالم کے تقابلی مطالعی، اسلام کے نظریہ جہاد اور اس کے قانونِ صلح و جنگ پر قرآنی احکامات کی روشنی میں ایک جامع کتاب ”الجہاد فی الاسلام“ تصنیف کی، جو ایک انقلابی کتاب ثابت ہوئی اور تحریکِ اسلامی کے آغاز کا سبب بنی۔ اس کی تصنیف و تالیف کا آغاز ”الجمعیتہ“ کے کالموں سے 1927ءسے شروع ہوکر 1930ءتک دارالمصنفین اعظم گڑھ سے اس کی اشاعت تک ہے۔ یہ دور اس لحاظ سے تاریخ ساز اہمیت کا حامل ہے کہ اس کتاب کو تحریر کرنے کے لیے سید مودودیؒ جس فکری ارتقا کی منازل سے گزرے وہ قرآن مجید کے پانچ سال کے گہرے مطالعے و تحقیق پر محیط ہی، جس کے بعد قومی جذبے نے فکری ارتقا کے بعد دینی جذبے کے تحت یہ تحریک پیدا کی کہ وہ فکری اور عملی جدوجہد کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوگئے اور اس کے لیے انھوں نے لائحہ عمل بھی تیار کرنا شروع کردیا۔ اگرچہ مسلمانوں کے ثقافتی اور ملّی وجود کے لیے یہ ایک کٹھن اور مشکل دور تھا۔ برطانوی عہد ِغلامی میں اس وقت الحاد‘ اشتراکیت‘ مغربی تہذیب و تعلیم‘ قادیانی فتنہ، ہندومت کی احیائی تحریکیں اور انکارِ حدیث جیسے فتنے سراٹھائے ہوئے تھے۔ ان سب مشکلات اور فتنوں کا ادراک کرتے ہوئے انھوں نے دین اسلام کے احیاءکے لیے اپنی زندگی کے شب و روز وقف کردیے۔ انھوں نے الجمعیتہ سے علیحدگی اختیار کرکے صرف قرآن کے مطالعے اور تحقیق پر وقت صرف کیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ صحافت کی دنیا کو صرف اور صرف دین حق کی خدمت کا ذریعہ بناگا۔ اور تحریک ِاسلامی کے آغاز کے لیے فکری اور عملی اقدامات شروع کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور ترجمان القرآن کے ذریعے فکری دعوت دینی شروع کردی۔ ”ترجمان القرآن“ ستمبر 1932ءسے ابومحمد مصلح صاحب شائع کررہے تھے جو مولانا ابوالکلام آزادؒ مرحوم کے عقیدت مندوں میں سے تھے اور ان کی دعوت سے متاثر تھے۔ مولانا آزاد نے تو بوجوہ یہ دعوت چھوڑدی تھی مگر ابومحمد مصلح نے اس دعوت ِدین کو اپنے انداز میں اپنائے رکھا اور تبلیغ اور ترویجِ دین کے لیے ادارہ عالمگیر تحریک قرآن کی بنیاد رکھی، اور ترجمان القرآن کا مقصد قرآن کی تعلیمات کو فروغ دینا اور حکومت الٰہی کے لیے روئے زمین پر آسمانی قوانین کا نفاذ، اور نفاذ کے لیے مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت تیار کرنا تھا جس کا اوڑھنا بچھونا قرآن اور اس کی تعلیمات ہوں۔ سید مودودیؒ کا مضمون اصول سیاست واخلاق‘ قانون کے عنوان سے ترجمان القرآن میں قسط وار شائع ہوا تھا۔ بعد میں جناب ابو محمد مصلح صاحب نے اس جریدے کی ادارت سید مودودیؒ کے حوالے کردی۔ اس طرح ترجمان القرآن کے ایک نئے دور کا آغاز محرم الحرام 1332ھ بمطابق مارچ1933ءسے ہوا اور اس مجلے نے مسلمانوں میں بیداری‘ اسلامی نظریے کی اشاعت، اس کے عملی نفاذ کے لیے اسلامی تحریک برپا کرنے اور فکری جہاد کا آغاز کردیا۔ 2۔ ”ترجمان القرآن“ کے مقاصد مولانا مودودیؒ نے ”ترجمان القرآن“ کا ایک اہم مقصد یہ بیان کیا تھا کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کو اس کے ذریعے قرآن سمجھنے میں مدد دی جائے گی۔ مولانا کا ابتدائی تجربہ بڑا کٹھن اور صبر آزما تھا۔ وہ سال بھر دن رات ایک کرکے لوگوں کو قرآن کی طرف بلاتے اور جمود و غفلت کے ماروں کو جھنجوڑتے رہی، مولانا کو توقع تھی کہ مسلمان علم قرآن کے پیاسے ہیں، لیکن ایک سال کے تجربے نے انھیں یہ باور کرایا کہ مسلمانوں کے لیے قرآن کے نام میں اتنی کشش نہیں ہے جتنی فلم اسٹاروں کی تصویروں اور ان کے ناموں میں ہے۔ لیکن اس تکلیف دہ تجربے کے باوجود انھوں نے ہمت نہیں ہاری اور صبر و استقلال کے ساتھ بنجر زمین پر ہل چلاتے رہے اور مسلمانوں کی بے حسی دور کرتے رہے۔ انھیں یقین تھا کہ اللہ مسلمانوں کے دل پھیرے گا۔ 3۔دعوت کے مرحلی پہلا سال عسرکے ساتھ گزرا جبکہ دوسرے سال میں یسر کی صورت دکھائی دی، اور تیسرے سال کے آغاز میں یسرکے آثار نمایاں ہوئے۔ سید مودودیؒ نے ”ترجمان القرآن“ غیر تجارتی بنیادوں پر نکالا تھا، ان کے پاس جو جمع پونجی تھی وہ سب اس پر لگاچکے تھے تاکہ دعوت ِدین کو پھیلانے کا یہ واحد ذریعہ جاری و ساری رہے۔ تیسرے سال کے آخر میں ترجمان القرآن کی کل اشاعت چھ سو تھی اور اس تعداد کا نصف سرکارِ آصفیہ خرید لیتی تھی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ قلیل اشاعت کی وجہ سے محدود خریداری تھی لیکن ایک ایک پرچہ ہزاروں ہاتھوں میں پہنچے اور پڑھا جائے اور ہمارا پیغام زیادہ سے زیادہ آدمیوں تک پہنچے۔ چوتھے سال کے ساتھ دعوت کے سفر کا پہلا مرحلہ 1937ءمیں ختم ہوگیا۔ تحریک ِاسلامی کے دوسرے فکری مرحلے کے آغاز کی واضح صورت 1938ءیا 1939ءمیں تشکیل پذیر ہوئی۔ اس مرحلے میں انھوں نے مسلمانوں کے ذہنوں میں بنیادی طور پر یہ بات بٹھانے کی کوشش کی کہ کسی کافرانہ اور فاسقانہ نظامِ زندگی کے تحت محض عقائد اور عبادات کے بل پر نظام زندگی پنپ نہیں سکتا بلکہ اس کا قائم رہنا بھی محال ہی، اور اس کے تسلط کو مٹاکر جب تک اسلام کے ہمہ گیر اور جامع نظام حیات کے نفاذ کے لیے عملی جدوجہد نہ کی جائے گی اُس وقت تک کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہوسکے گا۔ انھوں نے اس دور میں مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا موازنہ‘ مسئلہ جبر و قدر‘ اسلام کا نظریہ قومیت‘ قرآن و حدیث‘ رسالت حقوق الزوجین‘ اسلام اور ضبط ِولادت‘ رسالہ دینیات‘ سود اور پردے کے موضوعات پر بنیادی لٹریچر تیارکیا۔ الجہاد فی الاسلام اور اس کے بعد ترجمان القرآن میں مولانا مودودیؒ کے اسلام پر فکر انگیز مقالات نے حکیم الامت علامہ اقبالؒ کو اتنا متاثر کیا کہ انھوں نے انھیں خط لکھ کر حیدرآباد سے پنجاب بلایا اور ان کی تحریک پر وہاں اسلام کے احیاءکے لیے کام کرنے کے لیے گورداسپور میں مدینے کی طرز پر ایک مثالی اسلامی بستی اور اسلامی فقہ کی تدوین کے لیے ادارہ دارالاسلام کا قیام عمل میں آیا۔ ذیل میں جو واقعہ بیان کیا جارہا ہے اس وقت ”ترجمان القرآن“برطانوی عہد میں اپنے فکری جہاد اور دعوت کے ساتویں سال میں داخل ہوچکا تھا۔ 4۔آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بیباکی مولانا مودودیؒ اپنے رفقائے کار سمیت 26جنوری 1939ءکو علامہ اقبالؒ کے ایما پر دارالاسلام پٹھان کوٹ ضلع گورداسپور سے لاہور منتقل ہوگئی، جہاں چودھری نیاز علی خاں نے اپنی ساٹھ ایکڑ زمین اسلامی تحریک کے لیے وقف کی تھی اور مولانا مودودیؒ کو دعوت دی کہ وہ وہاں منتقل ہوکر دین کا کام کریں۔ لیکن ان کی سوچ مولانا مودودی ؒ کی اسلامی انقلابی سوچ سے ہم آہنگ نہ ہوسکی۔ چودھری نیاز علی خاں اسلامی تحریک کو فقہ اسلامی کی تدوین تک محدود رکھنا چاہتے تھے۔ ایسے عالم میں دارالاسلام کو اسلامی تعلیمات پر استوار کرنی، شرعی قضا اور احتساب کے محکمے قائم کرنے اور انگریزی حکومت سے متصادم نظام عدل کے نفاذ سے چودھری صاحب اور دیگر ٹرسٹیوں کو اس میں مضمر خطرات کا اندیشہ لاحق تھا۔ چودھری صاحب کوئی درمیانی راہ نکالنا چاہتے تھے کہ سید مودودیؒ کام بے شک وہی کریں (اقامت دین کا کام) جو کرنا چاہتے ہیں لیکن اس دستورالعمل کا اعلان نہ کریں۔ جبکہ سید مودودیؒ نے عمر بھر کبھی اپنے نصب العین کو مصلحتوں کا شکار نہیں ہونے دیا تھا۔ انھوں نے اللہ کے دین کے نفاذ کے لیے اپنے آرام‘ مفاد اور جمے ہوئے کاروبار کو چھوڑ کر ہجرت اختیار کرکے پنجاب کے اس دورافتادہ گاں میں سکونت اختیار کی تھی تاکہ یہاں پہلی اسلامی ریاست مدینتہ النبی کی نہج پر اسلامی ریاست قائم کرکے اقامت دین کے احیاءکی راہ ہموار کی جائے اور ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو معاشرے میں دین الٰہی کے نفاذ کے لیے خود کو مکمل طور پر وقف کردے۔ جہاں اورنگ آباد دکن کے مقابلے میں بجلی‘ پانی‘ ایندھن اور دیگر سہولتیں موجود نہ تھیں۔ موم بتی‘ لالٹین‘ دئیے کی روشنی میں اور کنویں کے ذریعے خود پانی نکالنے اور خود لکڑیاںچیرکر ایندھن اور آگ جلانے کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ دارالاسلام کے سات ٹرسٹیوں میں مولانا مودودی کو چھوڑ کر چار ٹرسٹی یا تو حاضر اعلیٰ سرکاری ملازم تھے یا حکومت کے خطاب یافتہ اور اپنے علاقے کے رئیس تھے۔ انگریزی اقتدار کے زوال کے آثار ابھی ہویدا نہیں ہوئے تھے۔ لاہور منتقلی کے وقت”ترجمان القرآن“ برطانوی عہد میں اپنے فکری جہاد اور دعوت کے ساتویں سال میں داخل ہوچکا تھا اور دارالاسلام سے منتقل ہوکر اس کے دفاتر لاہور آچکے تھے۔ 5۔ برطانوی عہد کا ایک تاریخی واقعہ دوسری جنگ عظیم کا آغاز یکم ستمبر 1939ءکو ہوا۔ حکومت ِپنجاب نے ضروری انتظامات اور پیش بندیاں پہلے ہی سے کررکھی تھیں۔ جنگ کے متعلق ضروری شہری امور کی دیکھ بھال اور ان پر احکام صادر کرنے کے لیے سرجان اینڈرسن کا بطور جائنٹ چیف سیکریٹری‘ حکومت پنجاب تقرر کردیا گیا۔ یکم ستمبر 1939ءہی سے حکومت نے پنجاب پریس پر کڑی سنسرشپ لگادی۔ سنسرشپ کی نگرانی کے فرائض ہوم سیکریٹری میکڈانلڈ بحیثیت پراونشل پریس ایڈوائزر کے ذمے تھے۔ خان بہادر چودھری محمد حسین‘آفیسر انچارج پریس برانچ کا تقرر بحیثیت اسسٹنٹ پراونشل پریس ایڈوائزرلاہور ہوا اور میاں عبدالحمید (سابق ایڈیٹر پاکستان ریویو) کا تقرر بحیثیت سنسر نمبر ایک ہوا۔ چند دنوں بعد حکومت نے فیصلہ کیا کہ سنسرشپ کا نام بدل کر پریس ایڈوائزری سسٹم رکھ دیا جائے۔ دراصل نام کی تبدیلی سے کام کی نوعیت اور غرض وغایت میں سرمو فرق نہیں تھا۔ اخبارات کے ایڈیٹرز‘ پرنٹرز اور پبلشرز کو حکم دیا گیا تھا کہ جنگ کے متعلق ہر نوع کی خبریں‘ مقالے‘ شذرے اور نظمیں وغیرہ چھاپنے سے قبل پریس برانچ میں حکومتِ پنجاب کے اسسٹنٹ پراونشل پریس ایڈوائزر سے پاس کرائی جائیں۔ انگلستان کے وزیراعظم نیول چیمبرلین نے یکم ستمبر 1939ءکو حکومت ِجرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا جس میں جنگ کی تمام ذمہ داری ہٹلر کی حکومت پر عائد کرکے اپنی حکومت کی بریت اور معصومیت ثابت کرنے کے لیے زمین و آسمان کے قلابے ملادیئے تھے اور دنیا کو یہ یقین دلانے کی بھرپور کوشش کی تھی کہ اس معاملے میں حکومت ِانگلستان ہر لحاظ سے بے قصور ہے۔ امن پسندی ہمیشہ سے انگلستان کی خارجہ پالیسی رہی ہے‘ اور درحقیقت امنِ عالم کی حفاظت اس کی پالیسی کا مرکزی ستون رہا ہے۔ 6۔ مولانا مودودیؒ کا تاریخی مقالہ اس اعلان کو موضوعِ بحث بناکر سیدابوالاعلیٰ مودودی صاحب نے ایک معرکتہ الآرا طویل تنقیدی مقالہ پریس برانچ کو سنسر کے لیے بھیجا۔ اس میں انھوں نے وزیراعظم چیمبرلین کے اعلانِ جنگ پر شدید حملے کیے تھے اور اس کی دھجیاں بکھیر دی تھیں۔ انہوں نے تاریخی واقعات کے حوالے دے کر ثابت کیا تھا کہ دنیا میں انگلستان ہی امنِ عالم کا سب سے بڑا دشمن ہی، وہWar Mongar، جنگجو اور بدنامAggressor، لٹھ باز‘ ظلم کی ابتدا کرنے والا ہے۔ اس نے ایشیا اور افریقہ کی کئی پُرامن‘ غریب‘ نہتی قوموں کو بزور شمشیر محکوم بنایا‘ ان کو اپنا دستِ نگر‘ دریوزہ گر اور جاہل رکھا‘ ان پر اپنی تہذیب ٹھونسی۔ ان کا اور ان کے معدنی اور دیگر وسائل کا صدیوں استحصال کیا اور وہاں کے عوام کو مظلومیت اور بے بسی کی انتہا کی قابلِ رحم تصویر بناکر رکھ دیا۔ اس مقالے میں چیمبرلین کو ہدف ِملامت بناتے ہوئے آپ نے چیمبرلین اور ہٹلر کی ملاقات کا بھی ذکر کیا جو میونخ پیکٹ کی صورت میں منتج ہوئی جس سے ہٹلر نے شہ پاکر ڈنیزگ پر یلغار کی اور اس پر قبضہ جمالیا۔ حکومت ِجرمنی کا یہ جارحانہ حملہ دوسری جنگ ِعظیم کا پیش خیمہ بنا۔ قصہ مختصر یہ کہ جب اس مقالے کا انگریزی میں مکمل ترجمہ سرجان اینڈرسن کو پیش کیا گیا تو اس نے اس پر نوٹ لکھا کہ مولانا مودودی کا آرٹیکل برائی”ترجمان القرآن“ نہایت قابلِ اعتراض ہی، یہ تمام کا تمام سنسر کردیا جائے۔ چودھری محمد حسین نائب صوبائی پریس ایڈوائزر کو ہدایت کی گئی کہ مولانا مودودی کو پریس برانچ میں بلاکر سخت وارننگ دیں اور ان سے تحریری معافی نامہ لے لیں، بصورت ِدیگر حکومت انھیں نظربند کرنے میں حق بجانب ہوگی۔ اس پر مولانا کو ایک حکم نامے کے ذریعے پریس برانچ میں بلایا گیا۔ وہ تشریف لائے۔ میاں عبدالحمید جو اس واقعے کے چشم دید گواہ اور راوی بھی ہیں، لکھتے ہیں کہ ”کمرے میں صرف میں اور چودھری صاحب تھے۔ اتنے میں مولانا نے السلام علیکم کہا۔ میں تو کھڑا ہی تھا، چودھری صاحب بھی تعظیماً اٹھ کھڑے ہوئے۔ مولانا نے بند گلے والی سیاہ رنگ کی اچکن پہنی ہوئی تھی۔ سفید ہندوستانی طرز کا پاجامہ اور سرِ مبارک پر نئی ٹوپی تھی۔ ان کی ریشِ مبارک میں ایک بھی سفید بال نہ تھا۔ وہ چودھری صاحب کے دائیں جانب تشریف فرما ہوئے‘ میں بائیں جانب کھڑا تھا۔ گفتگو کا آغاز چودھری صاحب نے کیا۔ ان کا لہجہ افسرانہ اور قدرے تلخ تھا۔ کہنے لگی: ”آپ کا مضمون برائے سنسر سخت قابلِ اعتراض ہے‘ اس کے چھاپنے کی ممانعت کردی گئی ہے۔ آپ نے برٹش پرائم منسٹر چیمبرلین‘ برٹش گورنمنٹ اور انگلستان کو پانی پی پی کر کوسا ہے۔ انھیں امنِ عالم کا دشمن نمبر ایک قرار دیا ہے۔ مجھے حکومت نے ہدایت کی ہے کہ آپ کو سخت وارننگ دوں۔ علاوہ ازیں آپ سے تحریری معافی لوں اور اس امر کی یقین دہانی کہ آئندہ آپ اس قسم کے مضامین نہیں لکھیں گے“۔ میں دیکھ رہا تھا کہ چودھری صاحب کے یہ فقرے مولانا کو بہت گراں گزر رہے ہیں، ان کا خون کھولنے لگا ہے‘ وہ سخت مضطرب ہورہے ہیں۔ ان کے بدترین دشمنوں کے خلاف بھی میں نے ان کی کئی تقریریں سنی ہیں جن میں انھوں نے نہایت سنجیدگی‘ متانت اور بردباری سے ان کے بے بنیاد الزامات کا جواب دیا اور کبھی برہم نہ ہوئے‘ لیکن اس موقع پر انتہائی برہم ہوکر انھوں نے جواب دیا: ”چودھری صاحب حکومت نے اچھا کیا کہ میرے آرٹیکل کے چھپنے پر پابندی لگادی۔ جب آرٹیکل سنسر کردیا تو مجھے بلانے اور تنبیہ کرنے کا کوئی جواز نہ تھا۔ اگر میں اسے سنسر کرائے بغیر چھاپ دیتا تو آپ میرے خلاف کارروائی کرنے میں حق بجانب تھے۔ میں نے تو اس آرٹیکل میں حقائق اور تاریخی شواہد کے خلاف کوئی بات نہیں کہی۔ سچ یہ ہے کہ یورپ کے نامور مورخین اور محققین تو رہے ایک طرف‘ خود انگریز حقیقت پسند اور راست باز‘ غیر جانب دار مورخین نے مجھ سے کہیں پہلے یہی کچھ کہا ہے جو میں نے کہا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ میرا مواخذہ اور احتساب کرنے پر اتر آئے ہیں۔ میں تو اپنے آرٹیکل کو ہرگز قابلِ اعتراض اور قابلِ گرفت تسلیم نہیں کرتا۔ میں نے تو تاریخِ اسلام اور تاریخی واقعات کو پیش نظر رکھ کر اظہارِ خیال کیا ہے۔ چودھری صاحب! آپ بفضلِ ربی مسلمان ہیں۔ ایمان اور انصاف کے تقاضوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ایک دن تو آپ کو اللہ کے سامنے پیش ہوکر اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔ اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے اور دل میں ایمان کی رمق باقی ہے تو آپ نشان دہی کریں کہ میرے آرٹیکل میں کون سا فقرہ یا ”اسٹیٹ منٹ“ غلط، مبالغہ آمیز یا خلاف ِواقعہ ہے۔ بحیثیت مسلمان آپ کا یہ مذہبی اور اخلاقی فرض تھا کہ آپ اپنے افسروں کو حقائق سے آگاہ کرتے‘ نہ کہ ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے۔ اور رہی بات مجھے وارننگ دینے کی، تو میں اسے پرکاہ بھی اہمیت نہیں دیتا۔ میں نے قرآن کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا ہے اور نہ چھوڑوں گا۔ جہاں تک آپ کی حکومت کا تقاضا ہے کہ میں اس آرٹیکل کے لیے معافی مانگوں‘ تو کان کھول کر سن لیں‘ آپ ابوالاعلیٰ مودودی کوکہہ رہے ہیں کہ وہ تحریری معافی مانگے۔“ آپ نے یہی فقرہ پھر دوہرایا: ”آپ مجھے کہتے ہیں کہ میں معافی مانگوں۔ یہ ناممکن ہے۔آپ کی حکومت مجھے تختہ دار پر لٹکادی، عمر قید کردے ‘ نظربندکردے‘ میں کبھی معانی نہ مانگوں گا“۔ مولانا بڑے جوش میں تھے۔ چودھری صاحب سکتے میں آگئے۔ خامو ش ہوگئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا‘ان کے پا تلے سے زمین نکل گئی ہے۔ کچھ سوچ کر دھیمے لہجے میں بولی: ”مولانا صاحب تحریری نہ سہی زبانی اپنے اس آرٹیکل کے لیے معذرت ہی کرلیں“۔ مولانا نے فرمایا: ”چودھری صاحب! آپ کی حکومت اور آپ نے جو قدم بھی میرے خلاف اٹھانا ہے‘ میں اس کے لیے ہر وقت تیار ہوں“۔ یہ ان کا آخری فقرہ تھا۔ اس کے بعد کہا: ”چودھری صاحب السلام علیکم‘ خدا حافظ“۔ مولانا کے رخصت ہونے کے بعد جناب میاں فقیر محمد مرحوم‘ سپرنٹنڈنٹ پریس برانچ بھی چودھری صاحب کے کمرے میں داخل ہوئے۔ چودھری صاحب (جو دفتر میں ہمیشہ پنجابی میں گفتگو کیا کرتے تھے ہمیں مخاطب کرکے کہنے لگی:”بھئی اے ڈا ڈاکٹر‘ اپنی ہٹ دا پکا مولوی اے‘ معافی چھڈ کے معذرت وی کرن واسطے تیار نہیں ہویا۔ میں تاں ایدا سخت رویہ دیکھ کے حیران ہی رہ گیا“۔ چودھری صاحب نے مجھے حکم دیا: ”عبدالحمید سنسرشپ تمھارا موضوع ہے۔ انٹرویو کے متعلق فوراً نوٹ لکھ لا“۔ میں نے حکم کی تعمیل کی۔ چودھری صاحب نے اپنے نوٹ کے ساتھ ”کیس“ افسرانِ بالا کو بھیج دیا۔ انھوں نے احکام صادر کیے کہ ”کیس“ فائل کردو۔ ”اس تاریخی واقعے کے بعد میرے دل میں سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے متعلق ان کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ احترام پیدا ہوا“۔ ( تحریک اسلامی کی تاریخ ”جہدِ مسلسل“ کے ایک باب سے ماخوذ