March 29th, 2024 (1445رمضان19)

گرمی میں روزے کی فضیلت

امام ابن رجب حنبلیؒ لطائف المعارف سے انتخاب

انگریزی سے ترجمہ: مسلم سجاد

موسمِ گرم میں جن عبادات کا اجر کئی گناہ بڑھ جاتا ہے،ان میں روزے بھی ہیں، اور یہ اس پیاس کی وجہ سے ہے جس سے انسان دن کی گرمی میں گزرتا ہے۔ اسی لیے حضرت معاذ بن جبلؓ نے بسترِ مرگ پر اس تاسف کا اظہار کیا کہ اب وہ دن میں نصف النہار کی اس پیاس سے نہیں گزریں گے جس سے اوّلین دور کے مسلمان گزرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ابوبکرؓ گرمیوں میں روزے رکھتے تھے اور سردیوں میں نہیں رکھتے تھے، اور حضرت عمرؓ نے بسترِ مرگ پر اپنے بیٹے عبداللہ کو نصیحت کی کہ ایمان کے خصائص حاصل کرنے کی کوشش کرو۔ اور جس پہلی خاصیت کا انھوں نے ذکر کیا وہ شدید گرمی میں روزہ رکھنا تھا۔ اور القاسم بن محمد روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہؓ گرمی میں روزے رکھتی تھیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا چیز ان کو یہ کرنے پر اُبھارتی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ موت سے پہلے ان ایام سے فائدہ اٹھانا چاہتی تھیں۔ بعض متقی خواتین روزے رکھنے کے لیے  شزید ترین گرمی کے دنوں کا انتخاب کرتی تھیں۔ کہتی تھیں اگر قیمت کم ہے تو ہر کوئی خریدے گا۔ مطلب یہ تھا کہ وہ یہ اعمال اس لیے کرنا چاہتی تھیں کہ انہیں انجام دینے میں جو سختی برداشت کرنا پڑتی تھی، چند ہی لوگ اس کو برداشت کرنے کے اہل تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خواتین بلند آرزوئیں رکھتی تھیں۔

اور ابو موسیٰ کریم ایک کشتی پر سوار تھے، انھوں نے کسی کو پکارتے سنا :’’اے مسافرو! کھڑے ہوجاؤ‘‘ اور یہ اس نے تین دفعہ پکارا۔ ابو موسیٰ نے اس سے کہا: ’’ہم کیسے کھڑے ہوسکتے ہیں؟ تم دیکھ نہیں رہے کہ ہم کہاں ہیں‘‘ پکارنے والے نے کہا:’’میں آپ کو ایسا ضابطہ نہ بتاؤں جسے اللہ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔ جو شخص بھی کسی گرم دن اللہ کی خاطر اپنے کو پیاسا رکھے، اس کا اللہ پر یہ حق ہے کہ وہ آخرت کے دن اس کی پیاس مٹائے‘‘۔ اس کے بعد ابو موسیٰ ان دونوں کی تلا ش کرتے تھے جو اتنے گرم ہوتے تھے کہ آدمی محسوس کرتا کہ (ہانڈی میں) پکایا جارہا ہے اور وہ ان دنوں میں روزہ رکھتے۔

کعب کہتے ہیں کہ اللہ نے موسٰیؑ سے کہا: ’’میں نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ جو میری خاطر اپنے کو پیاسا رکھے گا، میں یومِ آخرت اس کی پیاس بجھاؤں گا‘‘۔ دوسرے کہتے ہیں کہ تورات میں لکھا ہے کہ: ’’خوش خبری ہے اس شخص کے لیے جو اس عظیم دن میں اپنے کو بھوکا رکھتا ہے۔ جب اس کی بھوک کو مٹایا جائے گا۔ اور خوشخبری ہے اس کے لیے جو اس عظیم دن کی توقع میں اپنے آپ کو پیاسا رکھتا ہے جب اس کی پیاس مٹا دی جائے گی۔

الحسن کہتے ہیں: جنت کی ایک حور اپنے اللہ کے اس ولی سے جو جنت میں شہد کے دریا کے کنارے اس کے ساتھ لیٹا ہوا ہے، باتیں کررہی ہے۔ وہ اسے میٹھے مشروب کا گلاس پیش کرتی ہے اور پوچھتی ہے: تم جانتے ہو کہ اللہ  نے میری شادی تمھارے ساتھ کیوں کی؟ اس نے تمھیں گرمی کے ایک طویل دن میں دن کے وسط میں پیاسا دیکھا۔ فرشتوں کو بلایا اور کہا: دیکھو میرے بندے کو۔ اس نے اپنی بیوی، اپنی خوشی، اپنی خوراک اور اپنا پانی اس چیز کی خواہش میں چھوڑ دیا ہے جو میرے پاس اس کے لیے ہے۔ گواہ رہو کہ میں نے اس کو معاف کردیا ہے۔اس نے تمھاری مجھ سے شادی کی ہے۔

اور جب امیہ بن عبدالقیس بصرہ سے شام گئے تو معاویہ نے ان سے  پوچھا کہ انھیں کس چیز کی ضرورت ہے؟ ابتدا میں انھوں نے انکار کیا اور آخر میں ان سے کہا: بس میں تم سے یہ چاہتا ہوں کہ مجھے بصرہ کی گرمی واپس کردو روزہ رکھنا کچھ مشکل ہو، اس لیے کہ تمہاری سر زمین پر بہت آسان ہے۔

حجاج مکہ اور مدینہ کے بیچ میں سفر کررہا تھا۔ اس نے اپنا کھانا کھولا اور ایک بدو کو دعوت دی کہ اسکے ساتھ کھائے، بدو نے کہا:مجھے ایسے ایک نے دعوت دی جو تم سے بہتر ہے اور میں نے اسکی دعوت قبول کرلی ہے۔ اس نے پوچھا: وہ کون ہے؟اس نے جواب دیا:اللہ

اللہ نے مجھے روزہ رکھنے کی دعوت دی اور میں نے روزہ رکھ لیا۔ حجاج نے پوچھا: اس شدید گرمی کے دن آدمی نے جواب دیا: ہاں!میں نے ایک دن اس سے بھی زیادہ گرمی کے دن کی وجہ سے روزہ رکھا ہے۔ حجاج نے کہا: آج کھانا کھا لو، کل روزہ رکھ لینا۔ اس آدمی نے جواب دیا صرف اس صورت میں کہ اگر تم ضمانت دو کہ میں کل زندہ ہوں گا۔ حجاج نے کہا: یہ میرے ہاتھوں میں نہیں ہے۔

اس آدمی نے کہا: تم مجھے کوئی ایسا کام کرنے کے لیے کس طرح کہتے ہو، جب کہ مستقبل کی بات پر تمھارا اختیار نہیں ہے! اور ابن عمر ایک دفعہ کچھ ساتھیوں کے ساتھ مکہ گئے۔ انھوں نے ایک گڈریے کو دیکھا جس کو انھوں نے اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ اس نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ ابن عمر نے کہا: تم آج کی جیسی گرمی میں روزے رکھے ہوئے ہو جب کہ تم ان درختوں اور بھیڑوں کے درمیان ہو۔ اس نے کہا: میں اپنے باقی ماندہ دنوں سے فائدہ اٹھا رہا ہوں۔ ابن عمر اس کے جواب سے متاثر ہوئے اور پوچھا: تم اپنی ایک بھیڑ ہمیں بیچو گے؟ جب تم روزہ افطار کرو گے تو تمہیں اس کے گوشت سے کھانا کھلائیں گے اور تمہیں اس کی قیمت بھی دیں گے۔ اس نے کہا: یہ میری نہیں ہے میرے مالک کی ہے۔ ابن عمر نے پوچھا: اگر تم اپنے مالک کو یہ بتاؤ کہ اسے بھیڑئیے نے کھا لیا تو وہ کیا کہے گا؟

اس نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا دی اور کہا: اللہ کے بارے میں کیا کہتے ہو؟

ابن عمر گڈریے کے کہے ہوئے الفاظ بار بار دُہراتے رہے۔ جب وہ شہر پہنچے تو اس کے مالک سے ملے اور اسے اور اس کی بھیڑ کو خرید لیا۔ پھر انہوں نے اسے آزاد کردیا اور اس کی بھیڑ اس کو تحفہ میں دے دی۔

اور روح بن ذنب ایک بہت گرم دن مکہ و مدینہ کے درمیان سفر کررہے تھے۔ پہاڑ پر رہنے والا گڈریا ان کے پاس آیا۔

انھوں نے کہا: اے گڈریے! آؤ میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔ گڈریے نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ روح نے کہا: تم اس گرمی میں روزے سے ہو؟ گڈریے نے جواب دیا: کیا میں اپنے دنوں کو ایسے ہی جانے دوں ؟ تو روح نے اسے کہا: اے گڈریے!تم نے اپنے دنوں کو دانش مندی سے استعمال کیا ہے جب روح بن ذنب نے تو ضائع کردیے۔

ابن عمر اضافی دنوں کے بھی روزے رکھتے تھے، یہاں تک کہ وہ بے ہوش ہوجاتے تھے لیکن اس کی وجہ سے روزہ افطار نہیں کرتے تھے۔ امام احمد روزہ رکھتے تھے یہاں تک کہ بے ہوش ہونے کے قریب ہوجاتے تھے۔ ان سے شدید گرمی کے دنوں میں روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا: اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ایک تولیے کو گیلا کیا جائے تا کہ ٹھنڈا کرنے کے لیے اپنے اوپرنچوڑ لیا جائے۔ رسول اللہ جب روزہ رکھتے تھے تو اپنے سر پر پانی ڈالتے تھے۔ ابو درداؓ کہتے تھے: شدید گرم دنوں میں روزے رکھو یومِ آخرت کے لیے،اور رات کی تاریکی میں قبر کی تاریکی کی پیش بندی کرتے ہوئے دو رکعت پڑھو۔ صحیحین کی حدیث میں جو ان سے روایت ہے، کہا گیا ہے: تم نے ہم کو رسول اللہ کے بعض اسفار میں ان کے ساتھ دیکھا ہے۔ شدید گرمی کے دنوں میں کوئی آدمی گرمی کی وجہ سے اپنے سامنے ہاتھ کرلیا کرتا تھا اور سوائے اللہ کے رسول اور عبد اللہ بن رواحہؓ کے کوئی روزے سے نہ ہوتا تھا۔ مسلم کی روایت میں کہا گیا ہے کہ ابودرداؓ نے کہا: یہ رمضان کا مہینہ ہوتا تھا۔

جو لوگ گرمی میں اللہ کے روزہ رکھتے ہیں، اور شدید پیاس کے باوجود صبر کرتے ہیں، اللہ نے جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ان کے لیے متعین کردیا ہے۔ اس دروازے کا نام ریّان ہے اور جو اس دروازے میں داخل ہوگا مشروب پیے گا، کبھی پیاسا نہ ہوگا۔ اور جب صبر کرنے والے اس میں سے گزر جائیں گے تو ان کے بعد اس کو تالا لگا دیا جائے گا۔