March 29th, 2024 (1445رمضان19)

روزہ:فضیلت اور احکام

حافظ محمد ادریس

ماہ رمضان ہم پر ساے فگن ہوا چاہتا ہے۔ یہ ماہ مبارک ازاول تا آخر ہی خیر ہے۔ اس کا پہلا عشرہ رحمت ،دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ دوزخ کی آگ سے خلاصی کی نوید لے کر آتا ہے۔نبی اکرم ماہِ شعبان ہی میں استقبال رمضان کے لیے کمر ہمت باندھ لیا کرتے تھے۔آپ عام دنوں میں بھی نیکی کے کاموں میں مشغول رہتے مگر رمضان میں بہت زیادہ عبادت الٰہی کا اہتمام فرماتے۔ ہمیں بھی ماہ شعبان کے آتے ہی اپنے تمام امورومعاملات کو اس نقطۂ نظر سے منضبط کر لینا چاہییں کہ رمضان المبارک کی ایک ایک گھڑی ہمارے لیے مفید اور بابرکت ثابت ہو۔

روزے کی فرضیت:

روزے کی فرضیت کا حکم ہجرت کے ڈیڑھ سال بعد مدینہ منورہ میں وحی کے ذریعے نبی اکرم پر نازل ہوا۔’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے ، جس طرح تم سے پہلے انبیا کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔توقع ہے کے ان سے تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔چند مقررہ دنوں کے روزے ہیں۔اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں(پھر نہ رکھیں ) تو وہ فدیہ دے دیں۔ایک روزہ کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے اور جو اپنی خوشی سے کچھ زیادہ بھلائی کرے،تو یہ اسی کے لیے بہتر ہے۔ لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزے رکھو‘‘۔(سورۃالبقرہ،آیت نمبر 184,183)

یہ حکم ۲ھ کا ہے۔ اس سے اگلی آیت نمبر ۱۸۵ میں،جو ایک سال بعد نازل ہوئی، حکم دے دیا گیا کہ روزے میں چھوٹ محض معذورو دائمی مریض لوگوں کے لیے ہے۔ تندرست و توانا لوگوں کو روزہ ہی رکھنا ہوگا۔’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں لہذا اب سے جو شخض اس مہینے کو پائے ،اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو ، تو وہ دوسرے دنوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔ اس لیے یہ طریقہ تمھیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر گزار بنو‘‘۔ (سورۃ البقرۃ،آیت نمبر 185 )

تقویٰ کا میعار:

روزہ دین اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ عربی زبان میں روزے کو صوم کہا جاتا ہے،جس کی جمع صیام ہے۔ مندرجہ بالا آیات کے مطابق روزے کی فرضیت کی اصلی فرضیت کی اصلی غایت اہل ایمان کے دلوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ بلا شبہ روزہ اس کا بہترین ذریعہ ہے ۔ نبی رحمت کی حدیث کے مطابق ’’ تقویٰ کا منبع دل ہے‘‘ اور روزے کی حالت میں واقعتاََ دل کی کیفیت بدل جاتی ہے۔ شدید بھوک اور پیاس کے باوجود مکمل تنہائی میں بھی کوئی روزہ دار کسی مشروب کا ایک قطرہ یا کسی غذا کا ایک ذرہ بھی اپنے حلق سے نیچے نہیں جانے دیتا۔ یہی تصور بندے اور ربّ کے درمیان وہ تعلق قائم کرتا ہے، جسے تقویٰ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

روزے کو حدیث میں ڈھال بھی قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ڈھال دشمن کے مقابلے میں اپنے دفاع کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ نفس امارہ، فسق و فجور سے بھرا ہوا ماحول اور شیطان لعین ہر وقت انسان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ان سب کا مقابلہ کرنے کے لیے ماہِ رمضان کے روزے مسلسل تربیت کا موثر کورس ہیں۔ اس تربیت کے اثرات اگر باقی گیارہ مہینوں میں نظر آئیں تو سمجھ لیجیے کہ روزہ اللہ کے ہاں مقبول ہوگیا ہے اور روزہ دار سرخرو ہے۔ خدا نخواستہ اگر ایسا نہ ہوتو روزہ محض بھوک پیاس بن کر رہ جاتا ہے۔ ایسے روزے سے روزہ دار کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

موسمِ بہار:

ماہِ رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنا دامن خیرو برکت سے بھر لیں ۔ ماہ رمضان کی آمد کے باوجود جن لوگوں کو نیکی کی جانب قدم بڑھانے کی توفیق نہیں ملتی، ان کی بدنصیبی اس سے عیاں ہے کہ جبریل امین نے ان کے حق میں تباہی وبربادی کی دعا فرمائی اور اللہ کے رسول نے اس پر آمین کہا۔ اس مہینے کے فضائل بے شمار ہیں ۔ حدیث میں فرمایا گیا کہ اس مہینے میں نفل عبادت کا اجرفرض کے برابر اور فرض کا اجرستر گناہ بڑھا کر دیا جاتا ہے۔ رمضان کو صبر کا مہینہ قراردیا گیا ہے اور صبر کا بدلہ جنت بتایا گیا ہے۔ روزہ محض معدے کا نہیں ہوتا بلکہ پورے اعضاوجوارح، آنکھ، کان، ناک، زبان، ہاتھ،پاؤں، دل و دماغ، فکرو سوچ ہر چیز کو محیط ہوتا ہے ،نبی کریم نے فرمایا کہ جو لوگ جھوٹی باتیں اور غلط کام ترک نہیں کرتے اللہ کو ان کی بھوک اور پیاس کی کوئی حاجت نہیں۔

روزہ اور جہاد:

ماہِ رمضان ہر سال آتا ہے اور ایک پیغام دے کر چلاجاتا ہے۔ ماہ رمضان کے دوران جہاد اور مجاہدین سے وابستگی، ایمان کا اعلٰی درجہ ہے۔ جس سال روزے فرض ہوئے، اس سال ماہِ رمضان ہی میں کفر واسلام کا پہلا معرکہ بدر کے میدان میں برپا ہو، جسے قرآن نے یوم الفرقان کہا ہے۔

تاریخ اسلام جہاد اور شہادت سے .مزّین ہے ۔ پہلی شہادت تو مکہ میں ایک صحابیہ سیّدہ سمیّہؓ کے حصے میں آئی،پھر اس فہرست میں ایک ہی روزہ یعنی یومِ بدر(۱۷ رمضان المبارک ۲ھ)کو چودہ عظیم المرتبت شہدا کا اضافہ ہو۔ وہ دن اور آج کا دن اس فہرست میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ جہاد جاری ہے اور قیامت کے دن تک جاری رہے گا ۔ جہاد کے خلاف آج داخلی وخارجی ہرمحاذ پر انتہائی گھناؤنی سازشوں کا جال بچھادیا گیا ہے مگر ہمیں بطور مسلمان اللہ اور اسکے رسول کا یہ حکم ہے کہ ہم ان سازشوں کا مقابلہ کریں اور جہاد میں حصہ لیں۔ جو شخص خود عملاً جہاد میں جہاد میں شریک نہ ہوسکے وہ کسی مجاہد کو زادِ جہاد فراہم کردے یا اس کے پیچھے اس کی اہلِ وعیال کی خبر گیری میں لگ جائے یا شہدا کے خاندانوں کا کفیل بن جائے تو وہ بھی عملاً جہاد میں شریک شمار ہوتا ہے ۔ایسے شخص کا اجر حدیث پاک میں مجاہدین کے برابر قراردیا گیا ہے۔

شہدا اور ان کے پس ماند گان کا اسلام میں بڑا مقام ہے ۔ شہید پوری امت کا محسن ہوتا ہے ۔ حضور پاک کا اسوہٗ حسنہ یہ تھا کہ شہدا کے خاندانوں سے خصوصی محبت و تعلق قائم رکھتے تھے ۔ ماہِ رمضان میں ہر نیک کام اور انفاق فی سبیل اللہ کا اجر کئی گنا بڑھ جاتا ہے ۔ اس مہینے میں نیکی اور انفاق میں سبقت کرنی چاہیے ۔ مقدار جتنی بھی ہو، اخلاص کے ساتھ پیش کی جائے تو اللہ کے ہاں بڑے درجات حاصل ہوتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ اس رمضان میں اور آئندہ ہمیشہ کے لیے حسب استطا عت زیادہ سے زیادہ انفاق فی سبیل اللہ کو اپنا وتیرہ بنالیں ۔

رویت ہلال:

ماہِ رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام ضروری ہے۔ چاند نظر آئے تو رات کو قیام یعنی تراویح اور اگلے روز صیام یعنی روزہ شروع ہوجاتے ہے ۔ ہر ماہ نیا چاند نظر آنے پر جو دعا ہمیں سکھائی گئی ہے، جامع ترمذی کے مطابق اس کے الفاظ یوں ہے ’’اللّہ اَکَبر اللھمَّ اَھِلّہ عَلَٰیناَبِالَاُمُن وّاَلِایُمَانِ وّالسّلَامَتہِ وّالتُوقِیقِ لِ مَاتُحِبُّ وَتَرضی۔رَبنّاورَبکَّ اللہ۔۱ سب سے بڑا ہے، اے اللہ اس چاند کو ہمارے لیے ہلال امن وایمان ، سلامتی اور اسلام بنا کر طلوع فرما ہمیں ان کاموں کی توفیق دے جو تجھے پسند اور محبوب ہیں۔اے چاند، ہمارا اور تیرہ پروردگار اللہ ہے‘‘۔