March 29th, 2024 (1445رمضان19)

رمضان اور قرآن

مہر الدین افضل

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسرہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں ‘‘( البقرہ۱۸۵)

ہر مسلمان کے لیے یہ بات باعثِ فخر ہے کہ ہمارے پاس اللہ کا کلام ، جیسا کہ وہ نازل ہوا تھا ، محفوظ ہے۔ اپنوں سے زیادہ اور غیروں نے اس جستجومیں زندگیاں لگائیں ۔ افراد ہی نے نہیں اداروں نے بھی تحقیق کی ، لیکن ایک حرف ،ا یک حرکت کا فرق بھی نہ پا سکے ۔

آج آسمانی کتاب ہونے کا دعویٰ تو کئی کتابوں کے بارے میں کیا جاتا ہے اور اس بات کاامکان بھی ہے ۔ مسند احمد کی ایک روایت کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء میں سے تین سو پندرہ صاحبِ کتاب تھے، لیکن اُن میں صرف توریت ، انجیل ، اور زبور کی تصدیق قرآن وحدیث سے ہوتی ہے اور اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ یہ کتابیں اپنے پیش کرنے والوں کے دنیا سے رخصت ہونے کے کافی عرصے بعد مرتب کی گیءں ۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہے کہ انجیل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی سوا نح عمری کی شکل میں موجود ہے ،اور توریت کے نام سے جو کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف منسوب ہے اُس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد پیش آئیں ۔

قرآن مجید کی حفاظت:

جب کبھی رسول پر قرآن کی کوئی آیت یا رسورہ نازل ہوتی تو آپ سب سے پہلے اسے صحابہ کے سامنے تلاوت فرماتے ، پھر اس کو صحابیات کی مخصوص مجلس میں بھی سناتے ۔

لکھوانااور حفظ کرنا بالکل ابتدائی زمانے سے شروع ہوگیاتھا۔ پہلی وحی کے موقع پر حضرت جبریل علیہ السلام نے استنجا ، وضو، نماز کا طریقہ بھی سکھایا ۔ چنانچہ آپ نماز میں قرآن پڑھتے اورجو مسلمان ہوتا اور وہ بھی نماز کی پاپندی کرتا ، اور نماز کے لیے ظاہر ہے قرآن کو حفظ کرنا ضروری ہوتا ۔ آپوحی کے نزول کے بعد قرآن لکھواتے تھے اور لکھنے والے سے کہتے تھے : جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھ کر سناؤ ۔

ابتداء میں آپ ہی قرآن پڑھاتے تھے ، پھر بعض صحابہ کو اجازت دی گئی ۔ اس طرح مستند استاد سے قرآن مجید پڑھنے اور یاد کرنے کا سلسلہ شروع ہوا جو الحمداللہ آج تک جاری ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ بہت مشہور ہے ۔ جناب خباب بن الارتؓ کے پاس سورہ طہٰ تحریر ی شکل میں موجود تھی جو آپؓ حضرت عمرؓ کی بہن اور اُن کے شوہر کو پڑھارہے تھے ۔ گویا اس واقعہ میں مستند استاد اور تحریر کی سند ملتی ہے۔

آخر ی اور انتہائی ضروری کام یہ تھا کہ لوگوں کے پاس موجود قرآنی نسخوں کی نظر ثانی ہوتی رہے ۔ لوگوں کے ذاتی نسخوں کی صلاح اور نظر ثانی کا ذکر بھی ہجرت کے بعد سے ملتا ہے ۔ روایت ہے کہ رسول اللہ رمضان شریف کے مہینے میں دن کے وقت قرآن مجید کو جتنااُس سال تک نازل ہواتھا باآوازِ بلند دوہرایا کرتے تھے ۔ صحابہ اپنے ذاتی نسخہ ساتھ لاتے اور مقابلہ کرتے جاتے ۔ یہ چیز عرضہ کہلاتی تھی ۔

آخری رمضان میں دو مرتبہ پڑھ کر سنایا ۔ اس طرح حضور اللہ قرآن مجیدمکمل اور محفوظ صورت میں امت کے سپرد کرکے گئے ۔

آپ کے وصال کے بعد خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کاتبین وحی صحابہ کی مدد سے قرآن مجید کا نسخہ ترتیب دیا اور پھر خلیفہ سوم حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی متعدد کا پیاں سلطنتِ اسلامی کے مراکزمیں بھجوائیں اور جن میں سے تین نسخے آج بھی موجود ہیں ۔

جہاں یہ بات قابلِ فخر ہے ہم نے قرآن کو سینوں میں بسا یا ہوا ہے ، پلکوں پر اٹھایا ہوا ہے اور کتابوں میں محفوظ کیاہو اہے ، وہیں یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ہم نے قرآن پر عمل کیا اور اسے تمام انسانوں تک پہنچایا ؟جن کے لیے قرآن مجید میں ہدایت اور رہنمائی کااہم پیغام موجود ہے .......یا ہم نے اپنی بے عملی کی بنیاد پراس کے اعتبار کو مجروح کیا ؟

اگر یہ سچ ہے تو ہمیں اس صورت حال کوتبدیل کرنے میں اپنا حصہ ڈالنا چاہیے .......اور یہ اُسی وقت ہو سکتا ہے جب ہم اسے سمجھ کر اور عمل کے ارادے سے پڑھیں .....علامہ اقبال کے والد نے ان سے کہا تھا کہ ’’تم قرآن مجید اس طرح پرھوجیسے یہ تم پر نازل ہورہا ہے ۔ ایساکرو گے تویہ تمھاری رگ وپے میں سرایت کر جائے گا .......‘‘اور اس کا طریقہ یہ بتایا کہ ’’ حضور کا اسوۂ حسنہ ہی ہر اعتبار سے ہمارے لیے حجت ، مثال اور نمونہ ہے ۔ اب جتنا بھی کوئی اس رنگ میں رنگتا چلاجائے گا اتنا ہی قرآن اس پر نازل ہوتا رہے گا ۔‘‘

اور اقبال نے اسے اسی طرح پڑھا اور اپنے تجربے کے بعد مرد مومن سے کہا :

تیرے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب

گرہ کشادہ ہے نہ رازی، نہ صاحبِ کشاف

سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس کے لیے تیار ہیں ؟ اگر جواب ہاں میں ہے تو پھر......

تلاوتِ قرآن تبدیل ہونے کے لیے :

اس مرتبہ تلاوت قرآن میں کئی مرتبہ ختم قرآن کر نے کے بجائے قرآن کریم کو ٹھیرٹھیر کر سمجھ کر پڑھیں ۔ کئی مرتبہ ناظرہ ختم کرنے سے ایک مرتبہ قرآن سمجھ کر اس کے ترجمے اور مفہوم کے ساتھ پڑھنا زیادہ فائدہ مند ہوگا .قرآن کریم کو اس طرح پڑھیں جیسے اللہ تعالیٰ آپ سے ہم کلام ہے ۔ جہاں نیکیوں اور اچھائیوں کا ذکر ہو ، وہاںیہ خواہش پیدا کریں کہ میں ان نیکیوں اور اچھائیوں کو اختیار کروں ۔ اور اللہ سے دعا کریں کہ و ہ آپ کو اس کی توفیق دے ۔ اور جہاں برائیوں اور گناہوں کا ذکر ہو وہاں یہ خواہش پیدا کریں کہ میں ان برائیوں اور گناہوں سے بچ جاؤ ں ۔ اور اللہ ان برائیوں اور گناہوں سے بچنے کی دعا کریں ۔

اچھے لوگوں کا ذکر ہو تو ان میں شامل ہونے کی خواہش کریں ۔ برے لوگوں کا ذکر ہو تو ان سے دور رہنے کی دعا کریں ۔

جنت کے ذکر پراس کی طلب پیدا کریں اور جہنم کے ذکر پر اس سے بچائے جانے کی دعا کریں ۔

اس طرح آپ قرآن کریم پڑھیں گے تو آپ کا جسم ڈھیلا پڑجائے گا ، کھال نرم ہو جائے گی ، رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور آنکھیں بھیگ جائیں گی ......کبھی بہنے لگیں گی اور کبھی آپ اپنی آواز پر قابو نہ پا سکیں گے ہچکیاں بندھ جائیں گی ۔

رونا آئے گا ، اللہ کے کلام کی ہیبت سے سب تڑپ اٹھیں گے اپنے گناہوں کو یاد کرکے .....بلک اٹھیں گے جنت اور جنت کی نعمتوں کے لیے ......اور تیار ہو جائیں گے اپنے آپ کو اور پورے جہاں کو بدلنے کے لیے ........اورایک نیا جہاں تعمیر کر نے کے لیے ۔ اور پھر قرآن آپ کے دل کی بہا ر ، سینے کانور ، غموں کا مد ا وا اور ہر پریشانی کاعلاج بن جائے گا ، انشا اللہ ۔

روزہ اور قرآن:

رسول اللہ نے فرمایا : ’’ روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا : اے میرے پروردگار میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پوری کرنے سے روک رکھا تھا ، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔ اور قرآن کہے گا : میں نے اس رات کے سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا ۔ پروردگار آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما۔چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس بندہ کے حق میں قبول فرمائی جائے گی ۔

عظمت والی رات:

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ ہم نے اس( قرآن )کو شبِ قدر میں نازل کیا ہے ۔ اور تم کیا جانو کہ شبِ قدر کیا ہے ؟ شبِ قدر ہزارمہینوں سے بہتر ہے ۔‘‘

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : ’’تم پر رمضان کا مہینہ آیا ہے جس میں للہ تعالیٰ نے تم پر روزے فرض کیے ہیں ۔ اس میں آسمان ( یعنی جنت ) کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں ، اور سرکش شیاطین باندھ دیئے جاتے ہیں ۔ اس میں اللہ کی طرف سے ایک ایسی رات ہے جو ہزاوں مہینوں سے زیادہ بہتر ہے ، جو اس رات کی بھلائی سے محروم رہا وہ بس محروم ہی رہ گیا ۔ (احمد ، نسائی)

حفظِ قرآن:

ہر مسلمان کو قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ یاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ۔ ہر روز ایک آیت کو اچھی طرح یاد کر لیا جائے تو اس بات کا امکان ہے تیزی سے گزرتے وقت کے ساتھ قرآن کریم کا کافی حصہ یاد ہو جائے گا ۔ رسول اللہ نے حضرت ابو ذر غفاریؓ کو وصیت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: قرآن کی تلاوت کو اپنے لیے لازم قرار دے لو ، زمین پر روشنی ملے گی اور آخرت کے سفر میں سامانِ سفر ثابت ہوگی ۔ اور آپ نے مزید فرمایا : اے ابوذراؓ اگر تم روزانہ ایک آیت اچھی طرح سیکھ لو تو یہ روزانہ سو رکعت نفل پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے .

اس رمضان میں روزانہ ایک آیت کے حساب سے سورہ الشّمس ، سورہ الزلزال ، سورہ تکاثر ، یا جو نصاب بھی آپ اپنے لیے منتخب کریں ، یاد کرنے کی کوشش کیجیے

قیام اللیل:

رات کو کھڑے ہو کر نماز کی حالت میں قرآن پڑھنے یاسننے سے دین کا صیح فہم حاصل ہوتا ہے اور اس پر ایمان پکا ہوتا ہے . اور اس کے مطابق اپنی سیرت و کردار کو ڈھالنے کی تڑپ پیدا ہو تی ہے ۔ اور چونکہ ہم قرآن کھڑے ہو کر پڑھ یا سن رہے ہوتے ہیں تو اس میں ........ ہم نے سنا اور اطاعت کی........کا عزم بھی شامل ہوتا ہے . اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں اس عزم پر عمل کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین