April 18th, 2024 (1445شوال9)

سیرت پاک ؐ کی جھلکیاں تفہیم القران کی روشنی میں

 سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اے لوگو! جن کو محمد رسول صلی اللہ وسلم کی بدولت راہ راست نصیب ہوئی ہے تم ان کی قدر پہچانو اور ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرو۔ تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ تم اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے، اس شخص نے تمہیں اٹھایا اور اس قابل بنایا کہ آج محسود خلائق بنے ہوئے ہو۔ تم وحشت اور حیوانیت میں مبتلا تھے، اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ کیا۔ کفر کی دنیا اسی لئے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم پر کیے ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی- اس لیے تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیر مجسم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ محبت تم اس سے رکھو، جتنی وہ اس سے نفرت کرتے ہیں، اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے گرویدہ ہوجاؤ، جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں، اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کی تعریف کرو، جتنے وہ اس کے بد خواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے خیر خواہ بنو اور اس کے حق میں وہی دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس کے لئے کر رہے ہیں کہ اے ربِ دو جہاں! جس طرح تیرے نبی نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں تو بھی ان پر بے حد و حساب رحم فرما، ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے بلند کر اور آخرت میں بھی انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔(جلد ۴، حاشیہ ۱۰۷ صفحہ ۱۲۴)

اس جامع فقرے(مجھے حکم دیا گیا ہے میں تمہارے درمیان انصاف کروں) کے کئی مطلب ہیں:

ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔میرا کام یہ نہیں کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب برتوں، میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے میں اس کا ساتھی ہوں، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔

دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر، بڑے اور چھوٹے، غریب اور امیر، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی دانست کے لیے بھی کوئی استثنا نہیں۔

تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مجبور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف قائم کروں اور اُن بے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کروں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔

ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظّمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے۔(ج ۴،ح ۲۸، ص۴۹۵۔۔۴۹۶)

جس سیاق و سباق میں آیت (لقد کان لکم فی رسول اللہِ اسوةُ حسنة) ارشاد ہوئی ہے اس کے لحاظ سے رسول پاک کے طرز عمل کو اس جگہ نمونے کے طور پر پیش کرنے سے مقصود اُن لوگوں کو سبق دینا تھا جنہوں نے جنگ احزاب کے موقع پر مفاد پرستی و عافیت کوشی سے کام لیا تھا۔ اُن سے فرمایا جارہا ہے کہ تم ایمان و اسلام اور اتباع رسول کے مدعی تھے۔ تم کو دیکھنا چاہئے تھا کہ جس رسول کے پیرووں میں تم شامل ہوئے ہو اُس کا اس موقع پر کیا رویہ تھا۔ اگر کسی گروہ کا لیڈر خود عافیت کوش ہو، خود آرام طلب ہو، خود اپنے ذاتی مفاد کی حفاظت کو مقدّم رکھتا ہو، خطرے کے وقت خود بھاگ نکلنے کی تیاریاں کر رہا ہو، پھر تو اس کے پیرووں کی طرف سے اِن کمزوریوں کا اظہار معقول ہوسکتا ہے مگر یہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ ہر مشقت جس کا آپ نے دوسروں سے مطالبہ کیا، اسے برداشت کرنے میں آپ خود سب کے ساتھ شریک تھے، بلکہ دوسروں سے بڑھ کر ہی آپ نے حصہ لیا۔ کوئی تکلیف ایسی نہ تھی جو دوسروں نے اٹھائی ہو اور آپ نے نہ اٹھائی ہو۔ خندق کھودنے والوں میں آپ خود شامل تھے۔ بھوک اور سردی کی تکلیفیں اٹھانے میں ایک ادنیٰ مسلمان کے ساتھ آپ کا حصہ بالکل برابر کا تھا۔ محاصرے کے دوران میں آپ ہر وقت محاذِ جنگ پر موجود رہے اور ایک لمحے کے لیے بھی دشمن کے مقابلے سے نہ ہٹے۔ بنی قریظہ کی غداری کے بعد جس خطرے میں سب مسلمانوں کے بال بچے مبتلا تھے اسی میں آپ کے بال بچے بھی مبتلا تھے۔ آپ نے اپنی حفاظت اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کے لئے کوئی خاص اہتمام نہ کیا جو دوسرے مسلمانوں کے لیے نہ ہو۔ جس مقصدِ عظیم کے لیے آپ دوسروں سے قربانیوں کا مطالبہ کررہے تھے اُس پر سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر آپ خود اپنا سب کچھ قربان کردینے کو تیار تھے۔ اس لیے جو کوئی بھی آپ کے اتباع کا مدعی تھا اسے یہ نمونہ دیکھ کر اس کی پیروی کرنی چاہئے تھی۔

یہ تو موقع و محل کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم ہے مگر اس کے الفاظ عام ہیں اور اس کے منشا کو صرف اسی معنی تک محدود رکھنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ صرف اسی لحاظ سے اُس کے رسول کی زندگی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے بلکہ مطلقاً اسے نمونہ قرار دیا گیا ہے لہٰذا اس آیت کا تقاضہ یہ ہے کہ مسلمان ہر معاملے میں آپ کی زندگی کو اپنے لیے نمونے کی زندگی سمجھیں اور اس کے مطابق اپنے سیرت و کردار کو ڈھالیں۔ (ج۴، ح ۳۴،ص۸۰- ۷۱)

شیطان کو سخت تشویش لاحق ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں کمینگی کا مقابلہ شرافت کے ساتھ اور بدی کا مقابلہ نیکی کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ایک ہی مرتبہ سہی حق کے لیے لڑنے والوں اور خصوصاً ان کے سربر آوردہ لوگوں اور سب سے بڑھ کر اُن کے رہنما سے کوئی ایسی غلطی کرا دے جس کی بنا پر عامتہ الناس سے یہ کہا جاسکے کہ دیکھیے صاحب، برائی یک طرفہ نہیں ہے، ایک طرف سے اگر گھٹیا حرکتیں کی جارہی ہیں تو دوسری طرف کے لوگ بھی کچھ بہت اونچے درجے کے انسان نہیں ہیں، فلاں رکیک حرکت تو آخر انہوں نے بھی کی ہے۔ عامتہ الناس میں یہ صلاحیت نہیں ہوتی کہ وہ ٹھیک انصاف کے ساتھ ایک طرف کی زیادتیوں اور دوسری طرف کی جوابی کاروائیوں کے درمیان موازنہ کرسکیں۔ وہ جب تک یہ دیکھتے رہتے ہیں کہ مخالفین ہر طرح کی ذلیل حرکتیں کر رہے ہیں مگر یہ لوگ شائستگی و شرافت اور نیکی و راست بازی کے راستے سے ذرا نہیں ہٹتے، اُس وقت تک وہ ان کا گہرا اثر قبول کرتے رہتے ہیں لیکن اگر کہیں ان کی طرف سے کوئی بے جا حرکت، یا ان کے مرتبے سے گری ہوئی حرکت سرزد ہوجائے خواہ وہ کسی بڑی زیادتی کے جواب ہی میں کیوں نہ ہو، تو ان کی نگاہ میں دونوں برابر ہوجاتے ہیں اور مخالفین کو بھی ایک سخت بات کا جواب ہزار گالیوں سے دینے کا بہانہ مل جاتا ہے۔

اس مقام کی بہترین تفسیر وہ واقعہ ہے جو امام احمد نے اپنی مسند میں حضرت ابو ہریرہؓ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بے تحاشا گالیاں دینے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ خاموشی کے ساتھ اس کی گالیاں سنتے رہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دیکھ کر مسکراتے رہے۔ آخر کار جناب صدیقؓ کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا اور انہوں نے بھی جواب میں ایک سخت بات کہہ دی۔ ان کی زبان سے وہ بات نکلتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر شدید انقباض طاری ہوا جو چہرۂ مبارک پر نمایاں ہونے لگا اور آپ فوراً اُٹھ کر تشریف لے گئے۔ حضرت ابوبکرؓ بھی اٹھ کر آپ کے پیچھے ہولیے اور راستے میں عرض کیا کہ یہ کیا ماجرا ہے، وہ مجھے گالیاں دیتا رہا اور آپ خاموش مسکراتے رہے مگر جب میں نے جواب دیا تو آپ ناراض ہوگئے؟ فرمایا:”جب تک تم خاموش تھے تو ایک فرشتہ تمہارے ساتھ رہا اور تمہاری طرف سے اس کو جواب دیتا رہا، مگر جب تم بول پڑے تو فرشتہ کی جگہ شیطان آگیا میں شیطان کے ساتھ تو نہیں بیٹھ سکتا تھا”(ج۴ ح ۴۰ ص ۴۵۹)۔