March 28th, 2024 (1445رمضان18)

بیت المقدس‘ امت مسلمہ اور امریکہ کی سیاسی و سفارتی دہشت گردی

تحریر: شاہنواز فاروقی

 

مسلمانوں کے قبلۂ اوّل بیت المقدس پر قبضے کی صہیونی اور امریکی سازش اس حد تک ناکام ہوگئی ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اُس قرارداد کو 9 کے مقابلے میں 128 ووٹوں سے منظور کرلیا ہے جس میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے اور امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرنے کی مخالفت کی گئی تھی۔ یہ بلاشبہ امریکہ اور اسرائیل کی سیاسی، سفارتی اور جمہوری شکست ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ اس شکست کی نوعیت علامتی ہے۔ اس لیے کہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کا عملی حقائق پر رتی برابر بھی اثر نہ ہوگا۔ مطلب یہ کہ امریکہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرتا رہے گا اور اُس کا سفارت خانہ آج نہیں تو دو سال بعد بیت المقدس منتقل ہوکر رہے گا۔ اس کی وجہ امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں کی ’’طاقت‘‘ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی ’’کمزوری‘‘ ہے۔ اسی کمزوری نے امریکہ، اسرائیل اور ان کے اتحادیوں و حمایتیوں کی طاقت کو بہت بڑھادیا ہے۔ لیکن امتِ مسلمہ کی کمزوری کیا ہے؟

امتِ مسلمہ کوئی ’’معمولی حقیقت‘‘ نہیں ہے۔ امتِ مسلمہ کے پاس 56 آزاد ریاستیں ہیں، دنیا کے تیل کے ذخائر کا 60 فیصد ہے، گیس کے ذخائر کا 70 فیصد ہے۔ امتِ مسلمہ کی آبادی ایک ارب 60 کروڑ ہے۔ عالمی تجارت کے حوالے سے دنیا کی اہم ترین گزرگاہیں امتِ مسلمہ کے پاس ہیں۔ امتِ مسلمہ ترقی یافتہ ممالک کی ایک بہت بڑی ’’منڈی‘‘ ہے۔ صرف امریکہ میں چند عرب ممالک کے ایک ہزار ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ رقم بینکوں میں رکھی ہوئی ہے، کچھ رقم امریکہ کے ٹریژری بونڈز میں لگی ہوئی ہے۔ امتِ مسلمہ کے پاس بڑی بڑی منظم فوجیں ہیں، ایٹمی صلاحیت ہے، دُور مار میزائلوں کی صلاحیت ہے۔ ان میزائلوں کو ترقی دی جائے تو پاکستان پانچ سال میں بین البراعظمی میزائل بناسکتا ہے۔ صرف سات عرب ممالک اگر امریکہ اور یورپ کی درآمدات پر ایک سال کے لیے پابندی لگادیں تو امریکہ اور یورپ کی معیشتیں بنیادوں سے ہل جائیں گی۔ لیکن اتنی طاقت اور شوکت کے باوجود امتِ مسلمہ بین الاقوامی زندگی کی شاہراہ پر پڑا ہوا ایک روڑا بنی ہوئی ہے۔ جو قوت اس شاہراہ سے گزرتی ہے وہ روڑے کو ایک ٹھوکر لگا جاتی ہے۔ امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل سے لڑنا تو دورکی بات ہے، امتِ مسلہ میانمر جیسے حقیر ملک سے بھی نہیں لڑسکتی۔ چنانچہ میانمر کی فوج اور بودھ انتہا پسندوں نے میانمر کے ہزاروں مظلوم مسلمانوں کو قتل کردیا، ہزاروں عورتوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں اور پانچ لاکھ مسلمانوں کو بنگلہ دیش میں دھکیل دیا گیا۔ ایک دو مسلم ملکوں نے میانمر کی صورتِ حال کے حوالے سے کچھ شور بھی مچایا، مگر اس شور میں بھی کوئی ’’جان‘‘ اور کوئی ’’شان‘‘ نہ تھی۔ ہم نے درجنوں بار دیکھا ہے کہ ایک کوّا مر جاتا ہے تو سیکڑوں کوّے جمع ہوکر وہ شور مچاتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ مگر میانمر کے مسلمانوں کی نسل کُشی پر تو کوّوں کی طرح شور بھی نہیں مچایا جاسکا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل تو دور کی بات ہے، امتِ مسلمہ کے لیے تو میانمر بھی ’’سپر پاور‘‘ ہے۔

اس صورتِ حال کی وجوہ ہیں۔ ایک وجہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ امریکہ اور یورپ کی غلام ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امتِ مسلمہ کا حکمران طبقہ مغرب کا آلۂ کار ہے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ امت مسلمہ مغرب کی بھی غلام ہے اور مغرب کے غلاموں کی بھی غلام ہے۔ امت مسلمہ کی کمزوری کی تیسری اور زیادہ بڑی وجہ حدیث شریف میں یہ بیان ہوئی ہے کہ امت موت سے نفرت اور دنیا سے محبت کرنے والی بن گئی ہے۔ یہ چیزیں بیت المقدس کے حوالے سے پیدا ہونے والی حالیہ صورتِ حال میں بھی پوری طرح نمایاں ہوکر سامنے آئیں۔

القدس کے حوالے سے استنبول میں اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا سربراہ اجلاس ہوا مگر اس میں مسلم اور عرب دنیا کے طاقتور ترین ملک کا نہ سربراہ آیا، نہ ولی عہد آیا، بلکہ سعودی عرب کا وزیر خارجہ بھی نہ آیا۔ اطلاعات کے مطابق کانفرنس میں سعودی عرب کی نمائندگی سعودی سفیر نے کی۔ عسکری اعتبار سے عرب دنیا کا دوسرا طاقت ور ترین ملک مصر تھا۔ مصر کے صدر اور آرمی چیف اور وزیر خارجہ نے بھی اس سربراہ کانفرنس میں شرکت کی زحمت نہ کی۔ یہ صورت حال اس امر کا اظہار تھی کہ سعودی عرب اور مصر زیربحث مسئلے پر امریکہ کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔ اتفاق سے القدس صرف سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ تاریخی اورمذہبی مسئلہ بھی ہے، مگر القدس کے مرتبے یا Status میں تبدیلی عرب حکمرانوں کے لیے اتنی اہم بات بھی ثابت نہ ہوئی کہ وہ کانفرنس میں شریک ہوکر امریکہ اور اسرائیل کی مذمت میں دو لفظ ہی کہہ لیتے۔ یہاں تک کہ سعودی عرب اور مصر نے سربراہ اجلاس میں اعلیٰ سطح پر عدم شرکت کے حوالے سے کوئی ’’معذرت‘‘ کیا، ’’وضاحت‘‘ جاری کرنے کی بھی زحمت نہ کی۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں 128 ووٹ حاصل کرنے والی قرارداد کا ہر طرف چرچا ہورہا ہے مگر مسلمانوں کی عظیم اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ اس قرارداد میں امریکہ کا نام ہی موجود نہیں۔ یعنی قرارداد ڈرافٹ کرنے والوں کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ کہیں کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے بیت المقدس لارہا ہے اور یہ عمل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ظاہر ہے یہ بات ساری دنیاکو معلوم ہے کہ قرارداد امریکہ کے اقدام کے خلاف تھی مگر بہرحال قرارداد میں امریکہ کا نام لکھنے کی جرأت کسی کو نہ ہوئی۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ قرارداد میں امریکہ کا نام لکھ دیا جاتا تو دنیا کیا، امتِ مسلمہ کے اکثر ملک قرارداد کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کردیتے، یا وہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے غیرحاضر ہوجاتے۔ ترکی اس وقت مسلم دنیا میں مسلمانوں کے حوالے سے آواز اٹھانے والا اہم ترین ملک ہے، اس سلسلے میں ترکی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، مگر ترکی نے بھی القدس کے حوالے سے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ حالانکہ جب ترکی کے فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیل نے حملہ کرنے کی جسارت کی تھی تو ترکی نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلیے تھے۔ القدس کا مسئلہ فریڈم فلوٹیلا پر حملے سے زیادہ بڑا ہے مگر ترکی نے اسرائیل یا امریکہ کو کوئی زیادہ بڑا پیغام دینا ضروری نہ سمجھا۔

جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو اُس نے جنرل اسمبلی کی قرارداد کے حوالے سے سیاسی اور سفارتی دہشت گردی کی انتہا کردی۔ قرارداد کی منظوری سے قبل امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پوری دنیا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ جو ملک قرارداد کی حمایت کرے گا وہ امریکہ کی معاشی امداد سے محروم ہوجائے گا۔ غور کیا جائے تو اس طرح کی دھمکیاں گلی محلے کی سطح کے غنڈے، بدمعاش اور اسمگلر وغیرہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فلاں تُو نے ہمارے خلاف پولیس میں شکایت کی یا عدالت میں گواہی دی تو ہم تیرا ناطقہ بند کردیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے تو اپنی حکومت کے کسی چھوٹے موٹے اہلکار کو دھمکیاں دینے کا کام سونپ دیتے، مگر امریکہ کے صدر نے اس بات کی زحمت کرنے کے بجائے خود سیاسی دہشت پھیلانے کا کام کیا۔ جنرل اسمبلی میں قرارداد منظور ہوگئی تو اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی آگے بڑھیں اور جس طرح بھارتی فلم شعلے میں گبر سنگھ نے ٹھاکر کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یاد رکھوں گا ٹھاکر میں تجھے یاد رکھوں گا‘‘ بالکل اسی طرح امریکہ کی سفیر نے کہا کہ امریکہ اس بات کو یاد رکھے گا کہ کس طرح ایک ’’خودمختار ملک‘‘ کے خلاف قرارداد منظور کی گئی۔ امریکہ کی سفیر نے یاد دلایا کہ یہ خودمختار ملک اقوام متحدہ کو سب سے زیادہ مالی وسائل مہیا کرنے والا ملک ہے۔ نکی ہیلی نے کہا کہ چونکہ امریکہ سب سے زیادہ مالی مدد کرنے والا ملک ہے اس لیے اُس کی یہ جائز خواہش ہے کہ اُس کی خیرسگالی کو تسلیم کیا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ نکی ہیلی نے کہا کہ یہ ہمارا فرض یا Obligation ہے کہ ہم اپنی ’’سرمایہ کاری‘‘ کے نتیجے کی توقع کریں، لیکن اگر ’’ہماری‘‘ سرمایہ کاری ناکام ہوگی تو پھر ہم اپنے وسائل زیادہ ’’منافع بخش‘‘ جگہوں پر صرف کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم قرارداد کی منظوری کے اس دن کو اس لیے یاد رکھیں گے کہ اس دن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہماری خودمختاری سے نمودار ہونے والے ایک فیصلے کے حوالے سے ہمیں ’’نشان زد‘‘ یا Singal outکیا گیا اور ہم پر حملہ کیا گیا۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی کے خیالات کو دیکھا جائے تو ان سے امریکہ ہی نہیں پوری مغربی دنیا کی مجرمانہ ذہنیت آشکار ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ مغربی دنیا انسان کی آزادی کی چیمپئن ہے۔ لیکن امریکہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرکے جو آزادی بروئے کار لارہا ہے وہی آزادی وہ اقوام متحدہ کے آزاد اراکین کو مہیا کرنے پر تیار نہیں۔ آخر جنرل اسمبلی میں جن ممالک نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف قرارداد منظور کی ہے انہوں نے امریکہ یا اسرائیل پر ایٹمی حملہ تو نہیں کردیا۔ انہوں نے امریکہ یا اسرائیل کو گالی بھی نہیں دی۔ انہوں نے صرف اپنی محدود سی آزادی استعمال کی۔ اتنی محدود آزادی کہ جس قرارداد کو منظور کیا گیا اس میں مجرم کا نام تک لکھا ہوا نہیں تھا۔ مگر اس کے باوجود صدرِ امریکہ اور ان کی سفیر دھمکی دے رہے ہیں کہ قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ’’آزاد ممالک‘‘ ہی نہیں خود اقوام متحدہ بھی اب امریکہ کی مالی امداد سے محروم کردی جائے گی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جو قرارداد منظور کی گئی اُس کی کوئی ’’اطلاقی اہمیت‘‘ نہیں، یعنی اس سے کچھ بھی ہونے والا نہیں۔ یہ حقیقت بھی راز نہیں کہ امریکہ ’’جمہوریت‘‘ کا بھی سب سے بڑا عَلم بردار ہے، مگر وہ اس بات پر اقوام متحدہ کے اراکین کو دھمکیاں دے رہا ہے کہ وہ جنرل اسمبلی میں کسی قرارداد کے حوالے سے اپنا ’’جمہوری حق‘‘ کیوں استعمال کررہے ہیں، اور اگر کررہے ہیں تو اس کے اور اسرائیل کے خلاف ایسا کیوں کررہے ہیں! تو کیا جمہوریت صرف وہ ہے جو امریکہ، یورپ، بھارت اور اسرائیل کا مفاد ہو؟ ایسا ہو تو پھر جمہوریت بڑی شاندار چیز ہے۔ انسان کی آزادی، روشن خیالی اس کے مہذب، تعلیم یافتہ اور ذمے دار ہونے کی علامت ہے، لیکن اگر یہ جمہوریت ایک بے ضرر اور تقریباً بے معنی قرارداد کے حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف بروئے کار آجائے تو پھر اس جمہوریت کو اختیار کرنے والے ممالک اس لائق ہیں کہ انہیں سیاسی وسفارتی دہشت گردی کا نشانہ بنایا جائے۔ واہ کیا ’’آزادی‘‘‘ ہے، کیا’’جمہوریت‘‘ ہے۔ امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے اقوام متحدہ کو مالی وسائل مہیا کرنے کے عمل کو امریکہ کی سرمایہ کاری یا “Investment”قرار دیا ہے۔ سرمایہ کاری ’’کاروبار‘‘ میں کی جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے لیے ’’اقوام متحدہ‘‘ ایک تجارتی یا ’’کاروباری ادارہ‘‘ ہے، اور امریکہ اس ادارے کو پیسے دیتا ہے تو اس لیے کہ اس ادارے کو خریدا جاسکے، اس کو اپنے انگوٹھے کے نیچے رکھا جاسکے، اس کو اپنے اشاروں پر نچایا جاسکے… اور بلاشبہ اقوام متحدہ اپنے قیام سے اب تک امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے اشاروں پر ناچ رہی ہے۔ اس ’’ناپاک ناچ‘‘ کو کبھی ’’سفارت کاری‘‘ کہا جاتا ہے، کبھی بین الاقوامی بندوبست یا International Order کہا جاتا ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ مغرب کی طاقت اور سرمائے کا رقص نہیں، ناچ ہے۔ انٹرنیشنل آرڈر نہیں، International Disorder ہے۔ یہ کتنی ہولناک بات ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پانچ بین الاقوامی غنڈوں یا Veto Power کے ہاتھ میں ہے۔ مگر پانچ غنڈوں کو کیا، دنیا کے ’’مظلوم ممالک‘‘ کو بھی سلامتی کونسل کی موجودگی غیرانسانی، غیر جمہوری یا غیر عقلی اور تہذیب سے عاری نظر نہیں آتی۔ چنانچہ کوئی نہیں کہتا کہ اقوام متحدہ تخلیق کرنے والا مغرب ظالم ہے، جابر ہے، قاہر ہے، انسان اور انسانیت کا دشمن ہے، جمہوریت کا دشمن ہے، تہذیب کی بنیادوں میں بارود بھرنے والا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ اقوام متحدہ کی تخلیق سے آج تک سلامتی کونسل کبھی انصاف کے لیے بروئے کار نہیں آئی، اس لیے کہ اس پر پانچ غنڈوں کا قبضہ ہے۔ رہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، تو اس کی حیثیت یہ ہے کہ وہاں صرف تقریروں کا مقابلہ ہوسکتا ہے، یا ایسی قرارداد منظور ہوسکتی ہے جس کا کسی بھی مظلوم کو کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ مگر امریکہ کے ظلم، انسان دشمنی، سفاکی اور انسانیت سوزی کا یہ عالم ہے کہ اسے یہ تک منظور نہیں کہ جنرل اسمبلی کوئی ایسی قرارداد منظور کرے جو اُس کے یا اُس کے بغل بچے اسرائیل کے خلاف ہو۔ ایسی قرارداد جس میں امریکہ کا نام تک موجود نہیں۔ ہم امریکہ اور مغربی ممالک کے اس طرزِعمل کو کئی بار شیطنت کا نام دے چکے ہیں۔ ایک صاحب نے ہم سے کہا کہ امریکہ یا مغرب کو شیطان قرار دینا ذرا سخت بات ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ آپ کا خیال سو فیصد غلط ہے، یہ سخت نہیں بلکہ نرم جملہ ہے۔ ہمیں اندیشہ ہے کہ کہیں شیطان اس جملے کی بنیاد پر خدا کے دربار میں ہمارے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ نہ کردے۔ وہ کہے گا کہ میں تو مغرب کا پاسنگ بھی نہیں ہوں۔ میں انسانوں بالخصوص مسلمانوں کا دشمن ہوں تو کھلا دشمن ہوں۔ میں کبھی خود کو مغرب کی طرح آزادی کا عَلم بردار، مہذب یا انسان دوست نہیں کہتا۔ نہ ہی میں نے خود کو کبھی جمہوری یا عقل پرست کہا ہے تو پھر شاہنواز فاروقی نے مغرب کی ضلالت کو میرے نام سے منسوب کرکے شیطنت کیوں کہا اور مجھے بدنام کیوں کیا؟ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس کے حوالے سے منظور ہونے والی قرارداد نے ایک بار پھر امریکہ کے ناپاک باطن اور اصل چہرے کو پوری دنیا کے سامنے نمایاں کردیا ہے۔

مسلم دنیا میں اس بات پر شادیانے بجائے جارہے ہیں کہ قرارداد کے حق میں 128 ووٹ پڑے ہیں۔ لیکن اس مسئلے کو بھی باریک بینی سے دیکھنے کی ضرورت ہے کہ اقوام متحدہ کے اراکین کی کُل تعداد 193 ہے۔ ان میں سے 128 نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ 9 اراکین نے قرارداد کے خلاف ووٹ ڈالا۔ ان 9 ممالک میں امریکہ اور اسرائیل شامل ہیں۔ 35 اراکین نے رائے شماری میں حصہ ہی نہیں لیا۔ ان ممالک میں جسٹن ٹروڈوکا کینیڈا اور پورے براعظم کا حامل آسٹریلیا شامل ہیں۔ 21 ممالک ایسے ہیں جو نہ قرارداد کے خلاف گئے نہ انہوں نے قرارداد کی حمایت کی، نہ وہ غیر حاضر قرار دیے گئے۔ 128 ممالک میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں۔ یہ ممالک تیل اور گیس کے سلسلے میں مشرق وسطیٰ پر انحصار کرتے ہیں اور مسلم دنیا ان کی برآمدی منڈی ہے۔ چونکہ یہ امریکہ کی طرح طاقتور نہیں اس لیے وہ القدس جیسے حساس مسئلے پر خوامخواہ مسلم دنیا میں اپنے خلاف ردعمل نہیں پیدا کرنا چاہتے۔ ورنہ برطانیہ کی وزیراعظم تھریسامے حال ہی میں کہہ چکی ہیں کہ انہیں اسرائیل کی تخلیق کے سلسلے میں برطانیہ کے کردار پر فخر ہے۔ مطلب یہ کہ یورپ کے یہ تین اہم ممالک بھی اصولی طور پر امریکہ اور اسرائیل ہی کے ساتھ ہیں، مگر ان کے ’’معاشی مفادات‘‘ اتنے بڑے اور اہم ہیں کہ ان کی وجہ سے انہوں نے ایک بے ضرر قرارداد کے حق میں ووٹ دے دیا۔