March 29th, 2024 (1445رمضان19)

اسرائیل القدس اور صدر ٹرمپ کا اسلام مخالف ایجنڈا

تحریر: مسعود ابدالی


امریکہ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے خلاف احتجاج اب کمزور پڑتا نظر آرہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کو مزاحمت کا پہلے سے اندازہ تھا لیکن مسلم دنیا میں عوامی ردعمل توقع سے بہت کم ہے، البتہ فلسطین کے شہروں خاص طور سے مشرقی یروشلم، رام اللہ، ہیبرون، نابلوس، جنین اور غزہ سمیت سارے فلسطین میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ مشرقی یروشلم کے مظاہروں میں مسلمان اور عیسائی، بلکہ کئی جگہوں پر یہودی بھی شریک ہیں۔ اسرائیلی فوج اور پولیس ان مظاہروں کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے رحم استعمال کررہی ہے جس سے درجنوں فلسطینی جاں بحق اور سیکڑوں لوگ زخمی ہیں۔ لاتعداد فلسطینی نوجوان غائب ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ مرنے والے نوجوانوں کی لاشیں سیکورٹی افسران نے غائب کردی ہیں۔ فلسطین سے باہر ترکی اور پاکستان سمیت ساری اسلامی دنیا میں مظاہرے ہوئے لیکن ان میں وہ شدت نہیں دیکھی گئی جس کا امریکیوں کو اندیشہ تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یوم پیدائش یعنی کرسمس کے موقع پر عیسائیوں نے بیت المقدس میں زبردست مظاہرہ کیا۔ خیال تھا کہ اس سال امریکہ کے نائب صدر مائیکل پینس کرسمس کے موقع پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مبینہ جائے پیدائش یعنی بیت اللحم میں کنیسۃ المھد یا Church of Nativityکی زیارت کریں گے، لیکن مظاہروں کی وجہ سے انھوں نے دورہ ملتوی کردیا۔ بیت اللحم میں جگہ جگہ احتجاجی بینر لگائے گئے ہیں جن پر القدس لنا (بیت المقدس ہمارا ہے) لکھا ہے۔ کرسمس ٹری کے سامنے روایتی پریڈ میں فلسسطینی پرچم لہرائے گئے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بیت اللحم کے امیرِ شہر (Mayor) اینٹن سلمان (Anton Salman) نے کہا کہ اِس سال کرسمس پر جشنِ عزم منایا جارہا ہے اور ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ فلسطینی بہتر زندگی کے حق دار، آزادی کے مستحق اور آزادی کے اہل ہیں۔ دنیا کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ یروشلم فلسطین کا دارالحکومت ہے۔
اس سے پہلے عالمی برادری کی جانب سے بھی صدر ٹرمپ کے اعلان کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا، اور صدر ٹرمپ کے اعلان کے دوسرے ہی دن سلامتی کونسل کے 8 ارکان نے صورت حال پر غور کے لیے کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ سیکریٹری جنرل انٹونیو گچیرس (Antonio Guterres) کے نام یہ مراسلہ اقوام متحدہ میں سوئیڈن کے نائب سفیر کارل کائو(Carl Skau) نے تحریر کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے یروشلم کو مخصوص قانونی اور سیاسی حیثیت دی گئی ہے جس کا احترام تمام ملکوں پر لازم ہے۔ سوئیڈن کے سفیر نے یاد دلایا کہ گزشتہ برس دسمبر میں سلامتی کونسل نے ایک قرارداد منظور کی تھی جس کے مطابق یروشلم کی 4 جون 1967ء والی ہیئت اور حیثیت میں کوئی تبدیلی قابلِ قبول نہیں ہوگی اِلاّ یہ کہ تمام فریق اس تبدیلی پر رضامند ہوں۔ اس مشترکہ مراسلے پر مصر، بولیویا، یوراگوئے اور سینیگال کے ساتھ امریکہ کے قریبی اتحادیوں فرانس، برطانیہ اور اٹلی کے دستخط بھی تھے۔ چنانچہ سلامتی کونسل کے سربراہ جاپان نے اجلاس طلب کرلیا۔ رائے شماری سے پہلے امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے اپنی حکومت کے مؤقف کی وضاحت ضروری نہیں سمجھی، اور یہی فرمانے پر اکتفا کیا کہ امریکہ ایک آزاد ملک ہے اور وہ میزبان ملک کی مرضی سے اپنا سفارت خانہ جہاں چاہے قائم کرسکتا ہے اور اس فیصلے کے لیے اسے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ رائے شماری کے دوران امریکہ کے قریبی اتحادیوں فرانس، برطانیہ، اٹلی، سوئیڈن اور جاپان نے امریکہ کے خلاف مذمتی قرارداد کی کھل کر حمایت کی اور 15 میں سے 14 ارکان نے مذمتی قرارداد کے حق میں ہاتھ بلند کردیئے۔ تاہم امریکہ نے اپنا ویٹو استعمال کرکے اس قرارداد کو ردی کردیا۔ رائے شماری کے بعد اپنے مؤقف کی وضاحت کے بجائے امریکی سفیر نے مذمتی قرارداد کو اپنے ملک کی توہین قرار دیتے ہوئے دھمکی دی کہ امریکہ اسے یاد رکھے گا۔ صاف لگتا تھا کہ موصوفہ کا روئے سخن مصر کی طرف ہے جسے امریکہ کی جانب سے اخوان المسلمون کو کچلنے کے لیے اربوں ڈالر فراہم کیے جارہے ہیں۔
سلامتی کونسل میں ناکامی پر ترکی اور یمن نے اسی مسودے کو اقوام متحدہ کے اجلاسِ عام یا جنرل اسمبلی میں پیش کردیا۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پہلے محترمہ نکی ہیلی نے تمام ارکان سے رابطہ کیا اور امریکی سرکار کے مؤقف کے حق میں دلیل کے بجائے بچوں کے انداز میں دھمکی دی کہ وہ امریکہ کی مخالفت کرنے والے ملکوں کے نام صدر ٹرمپ کو بتادیں گی۔ دوسرے دن واشنگٹن میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے امریکی صدر کا رویہ بے حد متکبرانہ تھا۔ انھوں نے اقوام متحدہ میں امریکہ کی مخالفت کرنے والے ملکوں کو احسان فراموش کہا۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ یہ ممالک ہم سے اربوں ڈالر کی امداد لیتے ہیں اور پھر اقوام متحدہ میں ہمار ے ہی خلاف ووٹ ڈالتے ہیں۔ انھوں نے اپنی سفیر نکی ہیلی کو ہدایت کی کہ ان تمام ملکوں کے نام نوٹ کرکے انھیں پیش کیے جائیں۔ صدر ٹرمپ نے دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ یہ ممالک ہماری مخالفت کا شوق پورا کرلیں، اچھا ہے ہمارے پیسے بچیں گے، یعنی ان ملکوں کی امداد روک دی جائے گی۔
اس اجلاس کی خاص بات یہ تھی کہ صدر ٹرمپ کی دھمکیوں سے ڈر کر کانگو، السلواڈور، جارجیا، کینیا، زمبیا اور برما سمیت 21 ممالک اجلاس سے غیر حاضر رہے۔ ڈر کر بھاگ جانے والے ممالک کی اس فہرست میں واحد مسلمان ملک ترکمانستان ہے۔ اجلاس میں پاکستان کی مستقل نمائندہ ڈاکٹر ملیحہ لودھی کی تقریر مدلل و دوٹوک تھی۔ شستہ انگریزی اور پُراعتماد لہجے میں انھوں نے کہا کہ بیت المقدس کے بارے میں امریکہ کا فیصلہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے پاکستان کے اس مؤقف کو دُہرایا کہ فلسطینیوں کی حمایت پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے اور بیت المقدس کی حیثیت بدلنے والا کوئی فیصلہ پاکستان کے لیے قبول نہیں۔ قرارداد کی حمایت میں تقریر کرنے والے تقریباً سارے ہی مندوبین نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 476کا حوالہ دیا۔ یہ قرارداد 30 جون 1980ء کو صفر کے مقابلے میں 14 ووٹوں سے منظور ہوئی تھی جس میں بہت صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ
؎”all legislative and administrative measures and actions taken by Israel, the occupying Power, which purport to alter the character and status of the Holy City of Jerusalem have no legal validity and constitute a flagrant violation of the Fourth Geneva Convention”.
(قبضہ مافیا (اسرائیل) کی طرف سے یروشلم کے مقدس شہر کی ہیئت و حیثیت تبدیل کرنے کے لیے جو قانونی اور انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، اور یہ جنیوا کنونشن کی صریح خلاف ورزی ہے۔)
دلچسپ بات یہ کہ امریکہ نے بھی اس قرارداد کی مخالفت نہیں کی تھی۔
حسبِ توقع ان دلائل کا جواب دینے کے بجائے نکی ہیلی مسلسل دھمکیاں دیتی رہیں۔ غرور سے چُور لہجے میں انھوں نے کہا کہ امریکہ اپنی مخالفت کرنے والوں کو نہیں بھولے گا اور ایک ایک کو دیکھ لیا جائے گا۔ نکی صاحبہ نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ امریکہ اس ادارے کو سب سے زیادہ امداد فراہم کرتا ہے۔گویا سلامتی کونسل کی طرح جنرل اسمبلی میں بھی امریکہ نے اپنے مؤقف کے حق میں کوئی دلیل نہیں دی۔ انھوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ رائے شماری کے نتائج کچھ بھی ہوں، امریکہ اپنے فیصلے پر قائم ہے۔
رائے شماری کے دوران سلامتی کونسل کے مستقل نمائندوں کے علاوہ امریکہ کے قریبی اتحادیوں جرمنی اور جاپان سمیت 128ملکوں نے قرارداد کی حمایت کی، اور صرف اسرائیل اور امریکہ سمیت 9 ممالک نے مخالفت میں ووٹ دیا۔ ہندوستان اور پاکستان آپس کی دشمنی کے باجود امریکہ کی مذمت پر متفق تھے۔ اسی طرح امریکہ کی حاشیہ بردار افغان حکومت بھی قرارداد کی حمایت سے باز نہ رہ سکی۔ افغان صدر کے لیے امریکہ کی مخالفت ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن سارے افغانستان میں صدر ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف سرکاری آئمہ کی قیادت میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ ان مظاہروں میں امریکہ کے خلاف نفرت انگیز نعرے لگائے گئے اور کئی جگہ مقررین نے نوجوانوں کو ’جہاد‘ کے لیے فلسطین جانے کی تلقین کی۔ کابل کی مرکزی عبدالرحمان مسجد کے امام نے صدر اشرف غنی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قبلہ اوّل کی آزادی کے لیے اپنے عسکری اثاثے استعمال کریں۔ مغرب کے عسکری تجزیہ نگاروں کاکہنا ہے کہ بیت المقدس کے مسئلے پر افغان عوام کے جذبات سے افغانستان میں تعینات امریکہ اور نیٹو کے فوجیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ طالبان نے سوشل میڈیا پر زبردست مہم چلا رکھی ہے اور انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف صدر ٹرمپ کی نفرت انگیز تقریروں کی ویڈیو اس کے فارسی، دری اور پشتو ترجمے کے ساتھ بڑے پیمانے پر پھیلائی جارہی ہے۔ امریکہ کی مذمت میں جنوبی کوریا، شمالی کوریا اور جاپان بھی متفق تھے۔ صرف گوئٹے مالا، ہنڈراس اور چند چھوٹے اور غیر اہم ممالک نے رائے شماری میں امریکہ اور اسرائیل کا ساتھ دیا۔ صدر ٹرمپ کی مسلم مخالف پالیسیوں کے پُرجوش حامی پولینڈ، چیکو سلواکیہ، ہنگری، رومانیہ اور جنوبی سوڈان نے غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح آسٹریلیا اور کینیڈا نے بھی رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ مسلمان ملکوں میں صرف بوسنیا غیر جانب دار رہا اور امریکہ کے بھرپور دبائو کے باوجود سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے بھی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
پاکستان کے اکثر سیاسی مبصرین اس بات پر حیران ہیں کہ عالمی تنہائی کے باوجود صدر ٹرمپ کسی قسم کے دبائو کا شکار نہیں۔ اس کی وجہ بڑی سادہ ہے، امریکہ میں اسرائیلی لابی اس قدر مضبوط ہے کہ ملک کے اندر کسی کو صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف بولنے کی ہمت نہیں۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے ایک نشست میں عرض کرچکے ہیں، امریکی کانگریس 22 برس پہلے اپنے سفارت خانے کو بیت المقدس منتقل کرنے کا فیصلہ کرچکی تھی اور اس ضمن میں امریکہ کے ایوانِ نمائندگان (قومی اسمبلی) اور سینیٹ نے 1995ء میں بھاری اکثریت سے ایک بل منظور کیا تھا جس کے مطابق امریکی سفارت خانے کو 1999ء تک یروشلم منتقل کیا جانا تھا، لیکن شدید ردعمل کے خوف سے اس فیصلے پر عمل درآمد مؤخر ہوتا رہا۔ صدر کلنٹن، صد بش اور صدر اوباما فیصلے پر عمل درآمد میں چھے چھے ماہ کی توسیع کرتے رہے، جسے امریکہ کی قانونی اصطلاح میں Waiverدینا کہتے ہیں۔ خود صدر ٹرمپ نے بھی اقتدار میں آکر ایک Waiver جاری کیا۔ لیکن اب مزید استثنیٰ کے بجائے انھوں نے امریکی کانگریس کے فیصلے پر علمدرآمد کا اعلان کردیا۔ صدر ٹرمپ کو اچھی طرح معلوم ہے کہ چاہے ساری دنیا خلاف ہوجائے، امریکہ میں اس فیصلے کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھ سکتی، حتیٰ کہ امریکی کانگریس کے دونوں مسلمان ارکان نے بھی اس مسئلے پر چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔
کرسمس سے ایک دن پہلے سلامتی کونسل نے شمالی کوریا کے خلاف سخت ترین پابندیوں کی ایک قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی جس کے بعد پیانگ یانگ کے لیے اپنی ضرورت کا ایندھن حاصل کرنا بھی ناممکن بنادیا گیا ہے۔ اس امریکی قرارداد کی روس اور چین نے بھی حمایت کی۔ اس کامیابی سے امریکہ کی تنہائی کا تاثر زائل ہورہا ہے۔ دوسری طرف گوئٹے مالا(Guatemala) نے بھی اپنا سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کرنے کا اعلان کیا ہے اور سفارتی مبصرین اسی قسم کے اعلان کی ہنڈوراس (Honduras) سے بھی توقع کررہے ہیں۔ ٹیکسوں میں چھوٹ کے بل کی منظوری نے ملکی سطح پر صدر ٹرمپ کو ایک بہت بڑی پارلیمانی فتح سے ہمکنار کیا ہے۔
اسرائیل کے ظلم و وحشت کے خلاف مہذب دنیا فلسطینیوں کے حق میں زبانی و اخلاقی ہمدردی سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔اس پس منظر میں صدر ٹرمپ کو اپنے مسلم مخالف ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں کسی مزاحمت کا سامنا نہیں اورعالمی تنہائی کامعاملہ بھی پس منظر میں جاتا نظر آرہاہے۔