April 18th, 2024 (1445شوال10)

مسجد اقصیٰ کی تاریخ اور یہودی سازشیں

 

تحریر: محمد عبد العزیز

اقصیٰ (بمعنی دور )عربی زبان کا لفظ ہے ،یہاں بطور اسم استعمال ہے۔ عالم اسلام کا بچہ بچہ اس نام اور اس کی عظمت و شان سے واقف ہے۔

10 ؁ نبوی میں (27ویں رجب شب دوشنبہ کو) اللہ تعالی کی جانب سے خاص اور منفرد سفرکی دعوت پر حضور کو مسجد حرام (مکہ مکرمہ، کعبۃ اللہ شریف) سے لے جایا گیا۔ اس سفر کی پہلی منزل مسجد اقصیٰ رہی، پھر ساتوں آسمانوں کی سیر، عالم برزخ کا مشاہدہ، عالم حشر کے سماں کا نظارہ کراتے ہوئے خالق کائنات سے بلا فصل ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس واقعہ (معراج) کی فوراً بلا تردد تصدیق پر نبی اکرم کے یار غار خلیفہ اول حضرت سیدناابو بکر رضی اللہ عنہٗ کو ’صدیق‘ کا لقب عطا ہوا۔

مسجد اقصیٰ کی عظمت:

روئے زمین پر مسجد حرام (خانہ کعبہ) کے بعد یہ دوسری قدیم ترین مسجد ہے، جہاں آج بھی الحمد للہ پنج وقتہ نماز با جماعت کے علاوہ جمعہ، عیدین اور تراویح، تہجد، اعتکاف اور درس و تدریس کا اہتمام ہےاور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ فلسطین کی پاک سر زمین انبیا کرام کامسکن رہاہے،اسی وجہ سے اسے سرزمین انبیا بھی کہا جاتاہے۔ اس کے چپے چپے پر انبیا کرام علیہم السلام کے نشانات موجود ہیں۔ گزشتہ قوموں کے آثار یہاں جا بجا بکھرے ہوئے ہیں۔ اس خطے کے کھنڈرات، یہاں کی اجڑی ہوئی بستیاں، وادیاں، پہاڑ اور دریا، غرض ہر شے اپنے دامن میں ایک مکمل تاریخ چھپائے ہوئے ہے۔ اس ارض مقدس کا مشہور اور قدیم شہر بیت المقدس ہے، اس کو ’القدس‘ بھی کہتے ہیں۔

اس شہر القدس میں ایک تاریخی عمارت ہے جو صدیوں سے مختلف قوموں کا قبلہ چلی آتی ہے، یہ مسجد اقصیٰ اور حرم شریف کے ناموں سے بھی مشہور ہے اور مسجد صخرہ (سنہری گنبد والی مسجد) بھی ہے۔ یہ شہر دو حصوں میں منقسم ہے ایک پرانا شہر ہے ، دوسرا نیا شہر ہے۔ پرانے شہر کے چاروں طرف اونچی دیواروں کا احاطہ ہے اور اسی شہر میں تمام مقدس مقامات پائے جاتے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کے اطراف1600 میٹر لمبی پتھر کی دیوار ہے، اس کے اندر9 دروازے ہیں، جو (1) باب رحمت (2) باب حطہ (3) باب فیصل (4) باب غواغہ (5) باب ناظر (6) باب حدید (7) باب قطانبین (8) باب سلسلہ (9) باب مغاربہ کے نام سے موسوم ہیں۔

گنبد صخرہ:۔

مشہور ماہر آثار قدیمہ دان برجیم کہتا ہے کہ سادہ انداز کی نہایت متوازن عمارت بلا شبہ اسلامی تعمیرات کا قابل فخر سرمایہ ہے۔ اس کی تعمیر پانچویں اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے 68 ؁ ھ مطابق 688؁ء میں شروع کروائی جو 4 برس بعد 72 ؁ھ مطابق 691 ؁ ء میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔

گنبد صخرہ کو (مسجد صخرہ بھی کہا جاتا ہے) حرم قدسی کی زمین سے 30 میٹر بلند ہے، یہ شہر کی سب سے بڑی نشانی ہے، یہ دو منزلہ عمارت ہے جو 8 کونوں والی ہے، ایک گوشے سے دوسرے گوشے کی دوری 20 میٹر اور اونچائی 15 میٹر ہے، نچلی منزل کے دیوار پر نہایت حسین سفید مرمر لگا ہوا ہے، جس پر فیروزے رنگ کے ٹائلز بھی ہیں، اور اس کے اندر سفید رنگ میں سورہ یٰسین تحریر ہے، ان 8 گوشوں میں رنگین شیشے کی کھڑکیاں ہیں جن کی تعداد 56 ہے۔

اسی صخرہ کے نیچے غار انبیا علیہما لسلام ہے، جہاں پہنچنے کے لیے11 سیڑھیاں ہیں، مسجد کے اندر 2پٹ والے 4دروازے ہیں۔ ان کے اندر سنگ مرمر سے بنے 16 ستون ہیں۔

مسجد اقصیٰ کی تعمیر:۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہٗ 14 ؁ھ مطابق636ء؁ میں اپنے دور خلافت میں فتح کے بعد یہاں تشریف لائے اور حضور کے سفر معراج کی منزل تلاش کی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اس جگہ کو صاف کیا اور وہاں مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور وہاں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہٗ کو اذان کا حکم دیا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز پڑھائی۔ یہاں سادہ مستطیل لکڑی کی مسجد تعمیر ہوئی۔

مسجد صخرہ (گنبدہ صخرہ) کی تعمیر کے بعد 72 ؁ھ مطابق 691؁ء میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے دوبارہ اس کی تعمیر کا آغاز کیا اور تکمیل ان کے فرزند ولید بن عبد الملک کے دور میں ہوئی، جس پر ولید کے دور حکمرانی کے 7 سال کے محاصل (ٹیکس) کی خطیر رقم اس تعمیر پر صرف ہوئی، مسجد اقصی کی لمبائی 80میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔ اور 23 مرمری اونچے ستونوں اور 49 چوکور چھوٹے ستونوں پر کھڑی یہ عمارت 705 ؁ء میں مکمل ہوئی۔ دروازوں پر سونے اور چاندی کی چادریں چڑھی ہوئی تھیں۔

مسجد کے 11 گیٹ ہیں جن میں سے 7شمال میں ہیں۔ 5بار اس کی تعمیر ہوئی۔ موجودہ تعمیر 1035؁ء کی ہے۔ یرو شلم شہر کی یہ سب سے بڑی مسجد ہے جس میں بہ یک وقت 50 ہزار مسلمان نمازپڑھ سکتے ہیں۔ 15 جولائی1099؁ء کو بیت المقدس پر عیسائی حملہ آوروں کا قبضہ ہوا۔

ہزارہا مسلمان مردوں، عورتوںاور بچوں کا قتل عام کیا گیا اور مسجد کو گرجا میں تبدیل کر دیا گیا۔ بعد میں اس کے کئی حصوں کو رہائش گاہوں کے طور پر استعمال کیاگیا۔ 12 اکتوبر 1187؁ء کو وہ عظیم الشان موقع آیا، جب مسجد اقصیٰ عیسائی قابضین سے واپس مل گئی۔ یہ عظیم کامیابی بطلِ جلیل سلطان صلاح الدین ایوبی کے شہر فتح کرنے پر حاصل ہوئی۔ سلطان نے عمارات اور مسجد میں تبدیلیوں کو ختم کیا۔ پھر مسجد اقصیٰ اصلی حالت پر لائی گئی۔ مسلمانوں نے مسلسل ایک ہفتے تک پانی اور عرق گلاب سے غسل دیا۔

عظیم الشان نادر منبر سلطان صلاح الدین غازی نے حلب میں تیار کراکے مسجد میں نصب کیا۔ 15اگست 1967؁ء بڑے کرب کا دن تھا جب ایک آسٹریلوی یہودی سیاح مائیکل روہن نے اسرائیلی حکومت کی ایما پر مسجد اقصیٰ میں آگ لگادی۔ تقریباً 4 گھنٹے تک یہ آگ بھڑکتی رہی جس سے جنوب مشرقی سمت کی چھت شہید ہوگئی اور سلطان کا وہ نادر یادگار منبر جل کر راکھ ہوگیا۔ سیاح روہن کو گرفتار کرکے معمولی سزا سنائی گئی۔

مسلم قبرستان:۔ مسجد صخرہ اور مسجد اقصیٰ کے قریب قبرستان ہے جس کی بڑی اہمیت ہے۔ مدینہ منورہ کے بعد یہاں دفن کیے جانے کو ترجیح دیاگیاہے۔ اس قبرستان کے دروازوں کو متنازع کہہ کر بند کر دیا گیا۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ ان ہی دروازوں سے مسیح علیہ السلام یروشلم میںداخل ہوں گے۔

جبل زیتون:۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالی آخرت میں یہاں دفن ہونے والوں کو بخش دے گا، اس لیے بھی یہ قبرستان ان کے لیے مقدس ہے، اسی قبرستان کے قریب یروشلم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے قیام کیا تھا۔

عیسائیوں کی کتاب انجیل کے مطابق یہاں کوہ موریا پر حضر ابراہیم علیہ السلام اللہ کے اس امتحان میں کامیاب ہوئے تھے کہ وہ اپنے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو اللہ کی راہ میںقربان کرنا چاہیے۔ یہودیوں کے مطابق یہ ان کی عظیم عبادت گاہ ہیکل سلیمانی کا دوسرا نام ہے۔

عیسائیوں کے یہاں مقدس مقامات بھی ہیں۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق عیسی علیہ السلام کو یہاں صلیب پر چڑھایا گیا تھا۔ یہودیوں کی کتاب تلمود کے مطابق یہی وہ مقام ہے جہاں کی مٹی سے آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ تعالی کے لیے قربانیاں پیش کی تھیں۔ یہاں مسیحا کی آمد پر مردوں کو بخشا جائے گا، یہاں ٹیلے کے ٹھیک نیچے مغربی دیوار ہے جس کو دیوار گریہ کہا جاتا ہے۔

یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار ان کی قدیم عبادت گاہ کا بچا ہوا حصہ ہے، اسی لیے ان کے لیے یہ عبادت کی سب سے مقدس جگہ ہے۔

یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ یہاں ہیکل سلیمانی تھا جسے586قبل مسیح بابل حکومت نے تباہ کردیا تھا۔ بعض مؤرخ کہتے ہیں یہاں دوسرا عبادت خانہ تھا جسے رومی فوج نے 70 ؁ء میں تباہ و تاراج کر دیا تھا۔

اس دیوار سے لگ کر یہودی اپنی مقدس عبادت گاہ کی تباہی کے غم میں گریہ کرتے ہیں۔ اسی لیے اس دیوار کو دیوار گِریہ کہتے ہیں۔دیوار گِریہ کو عربی میں ’’اَلْمَبْکٰی‘‘ انگریزی میںWailing Wall کہتے ہیں۔

(حرم کے وسط میں ایک چبوترے پر ایک مخروطی گنبد قبۃ الصخرہ ہے۔ حرم کے چاروں طرف حجرے ہیں۔ شمالی دیوار کے حجروں میں عربی یونیورسٹی تھی۔ جنوبی سمت مختصر عجائب گھر ہے، جس میں مختلف نوادرات ہیں۔ مغربی دیوار سے ملحق ایک حجرے میں شریف حسین شریف مکہ اور قریب میں مشہورمجاہدآزادی ہند مولانا محمد علی جوہر مدفون ہیں۔ اس مغربی دیوار کے بیرونی حصے کانام دیوار گریہ ہے، جس کا طول 60 فٹ ہے، دیوار کے نچلے حصے میں بادشاہ ہیروڈ کے زمانے کے بڑے بڑے پتھر نہایت خوبصورتی سے لگے ہوئے ہیں، اوپری حصے پر رومی طرز کے بڑے بڑے پتھر نصب ہیں۔ دیوار پر جدید طرز کی نقش و نگاری کی گئی ہے۔ اس دیوار کی اہمیت یہودیوں کی تاریخ اور دینی نسبت سے ہے۔ خاص طور پر یہودی مرد و زن مذہبی تہواروں کے علاوہ ہر سبت (ہفتہ واری) دیوار گریہ کی زیارت کرتے ہیں حالانکہ یہ دیوار حرم کی ہے اور حرم کی تعمیر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے عہد میں خود مسلمانوں نے کی تھی۔

بنی اسرائیل کے جلیل القدر نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو لے کر برسوں صحرائے سینا میں پھرتے رہے۔ اس زمانے میں انہوں نے اپنی قوم کے لیے ایک خیمہ عبادت کے لیے نصب کیاتھا۔ یہ خیمہ 45فٹ لمبا،5فٹ چوڑا اور 15 فٹ اونچا تھا۔

حضرت جالوت کے وقت یہ خیمہ ایسا ہی رہا، اس زمانے میں یہود اس کی طرف رخ کرکے عبادت کرتے تھے، گویا یہ خیمہ ان کا قبلہ تھا۔

48 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے خیمہ عبادت کو شہر بیت المقدس میں کوہ صہیون میں ایک جگہ مستقل طور پر نصب کردیا، اس جگہ کا نام ’بیت ایل‘ یعنی اللہ کا گھر پڑ گیا، یہاں اللہ تعالی حضرت دائود علیہ السلام سے ہمکلام ہوا۔

988قبل مسیح (طوفان نوح کے1048سال بعد) حضر ت دائود علیہ السلام کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس خیمہ عبادت کی جگہ ’ہیکل‘ کی مستقل عمارت بنوائی، ہیکل کی عمارت 20سال میں مکمل ہوئی۔ تورات کے بیان کے مطابق اس کام پر 70ہزار بار بردار 80ہزار سنگتراش 3ہزار 600 نگران کار مقرر کیے گئے تھے (کتاب تواریخ )۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہیکل کا طول 60 ہاتھ، عرض 20ہاتھ اور بلندی 20 ہاتھ تھی (تورات مقدس 2 تواریخ 3;:2)

حرم پہ کیا گزری:۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کے415سال بعد 500 سال قبل مسیح کا واقعہ ہے بابل کے بادشاہ بخت نصر نے بیت المقدس پر حملہ کیا۔ شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ تبرکات کو لوٹ لیا اورکتاب مقدس کو نذر آتش کردیا۔ ہیکل کو جلا کر راکھ کا ڈھیر کردیا۔

بخت نصر کے حملے کے بعد موسیٰ علیہ السلام کی یادگار، دائود علیہ السلام کی نشانی، حضرت سلیمان علیہ السلام کی تعمیر کردہ عمارت صفحہ ہستی سے یکسر نابود ہوگئی۔ 70 سال بعد خسرو ذو القرنین ( معائرس اعظم) شاہ ایران بابل پر فتحیاب ہوا، اس کی فتح مندی سے یہودیوں کو آزادی نصیب ہوئی اور ہیکل کی عمارت از سر نو تعمیر ہوئی۔98 سال بعد (68 1ق م) ایک بار پھر اس گھر پر تباہی چھائی۔ انطاکیہ کے یونانی بادشاہ اینوٹینس نے شہر پر قبضہ کرلیا اور ہیکل کو بت کدے میں تبدیل کردیا۔اس وقت کتاب مقدس کا واحد نسخہ بھی نذر آتش ہوگیا۔ اب یہودی لاوارث دین اور دنیا دونوں سے محروم ہوگئے۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں تشریف لائے۔ بیت المقدس سے 4 میل کے فاصلے پر قصبہ ناصریہ میں پیدائش ہوئی۔ شہر اور اطراف کے علاقے کو اپنی تبلیغ کا مرکز بنایا، یوں یہاں دوبارہ رونق آئی۔ یہ خوش آئند بات بھی بہت جلد ختم ہوگئی۔ 70 ؁ء میں رومی سپہ سالار طیطوس نے بیت المقدس پر ایک شدید حملہ کرکے ہیکل کو مسمار کردیا اور قتل عام کرایا، زندہ رہ جانے والوں کو جلا وطن کردیا اور شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں ہل چلادیا۔ تین صدی بعد حالات بدلے۔

312ء شہنشاہ روم قسطنطین اعظم نے عیسائی مذہب قبول کیا۔ اس سے بنی اسرائیل کو کچھ قوت ملی، لیکن یہ دور بھی تادیر قائم نہ رہا۔ 300 سال بعد رومۃ الکبریٰ کی سطوت پھر پارہ پارہ ہوگئی۔ ارض مقدس پر شہنشاہ ایران کا قبضہ ہوگیا۔

ساتویں صدی عیسوی میں ظہور الاسلام ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ کے دور خلافت 14ہجری 636ء ؁میں جنگ کے بغیر بیت المقدس مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔

حرم‘ اسلامی دور میں:۔ ہجرت کے 15 ہویں سال ہیکل کی آخری تباہی کے 569 سال بعد 636؁ء میں دنیا کی بے مثال فتح کے ذریعے مسلمانوں کے قبضے میں آیا، اسقف اعظم سفر ونیس نے شہر کی چابیاں خود امیر المؤمنین کو پیش کیں۔

اور جب نماز کا وقت آیا:۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے نماز ادا کرنے کے لیے جگہ دریافت کی، پادریوں نے ہیکل کی اجڑی ہوئی جگہ کا نشان بتایا، جہاں کھنڈر کے سوا کچھ نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں نماز ادا کی۔ اسی جگہ حرم کے ڈیڑھ ہزار فٹ لمبے اور ایک ہزار فٹ چوڑے احاطے کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس کے اندر زیتون اور سرو کے درخت لگائے، ایک حصے پر چھت ڈالی گئی۔ یہ جگہ نماز کے لیے مخصوص ہوگئی۔ یہ مسجد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہلائی۔ ساڑھے 13 سو سال سے مسجد عمر، حرم اور اس کی تمام متعلقہ عمارات مسلمانوں کے قبضے میں چلی آ رہی ہیں۔

جس زمانے میں فلسطین پر برطانیہ کا قبضہ اور اقتدار قائم ہوا تھا، اس وقت یہودیوں نے اس دیوار پر اپنا حق ملکیت قائم کرنے کی کوشش کی۔حالانکہ یہ دیوار حرم کی ہے۔

1929؁ء میں یہودیوں نے اقوام متحدہ میں دیوار گریہ پر اپنی ملکیت کا دعوی کیا۔

عالمی ادارے نے ایک کمیشن قائم کیا۔ فریقین نے کمیشن کے سامنے اپنے دلائل اور شواہد پیش کیے، جس نے مکمل چھان بین کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ قانونی اور تاریخی اعتبار سے ’دیوار گریہ‘ حرم کا ایک حصہ ہے، جس پر مسلمانوں کا قبضہ ہے، اور ان کے مالکان حقوق بالکل درست ہیں۔یہودیوں کو صرف اس قدر حق ہے کہ وہ اس کی زیارت کے لیے یہاں آسکتے ہیں۔

لیکن بعد میں برطانیہ اور مغربی اقوام کی سازش سے فلسطین میں یہ المناک صورت پیداہوئی کہ14,15 جولائی 1948 ؁ء کی درمیانی رات اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا گیا اور شہر بیت القدس کے کچھ حصے پر یہود کی اس نام نہاد حکومت کو قبضہ دیدیا گیا۔ یہ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی سازش ہےاور ایسی سازشوں کا سلسلہ مسلم امت کے خلاف جاری ہے، اللہ حفاظت فرمائے۔آمین

یہود کی تمام شرارتوں اور سازشوں کے باوجود انتہائی رواداری کے جھوٹے ثبوت دیے جاتے رہے۔ حتی کہ 1948؁ ء کی جنگ کے دوران بھی دیوار گریہ کی زیارت کے لیے زائرین کی خاطر عارضی جنگ بندی اور مکمل حفاظتی پہرے کے ساتھ یہود کے لیے وہاں زیارت و عبادات کے انتظامات کیے گئے۔

ہزاروں برس تک یہودی اللہ تعالی کے قہر و غضب کا نشانہ بنتے رہے۔ ہر قوم انہیں ٹھوکریں مارتی رہی، جس ملک میں رہنے گئے وہاں سے ذلیل و خوار کرکے نکالے گئے۔ پھر بھی مسلمان روا داری کا ثبوت دیتے رہے۔ مسلمان باوجود اقتدار کے دیوار گریہ کی زیارت کی اجازت دیتے رہے۔

لیکن مارچ 1983؁ء میں ایک دن اچانک چند سر پھرے دہشت گرد یہودیوں نے حرم شریف (بیت المقدس) پر زبر دستی قبضے کی کوشش کی تاہم بفضل تعالی یہود اس ناپاک سازش میں ناکام رہے۔ ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ حرم شریف کو نیست و نابود کرکے دیوار گریہ اور ہیکل سلیمانی کا احیا کیا جائے۔

گنبد صخرہ اور مسجد اقصیٰ:۔

فیصلہ کن جنگ کی تیاریوں کی غرض سے شاید یہ منصوبہ اپنا یا جارہا ہے، مسلمانوں کے قبلہ اول کو نشانہ بنا کر سارے عالم اسلام کو برباد کردیا جائے اس کے لیے ساری دنیا کے ذہنوں سے مسجد اقصی کے خاکے کو مٹا یا جا رہا ہے۔ غور فرمائیے گنبد صخرہ (زرد گنبد) کو ہی مسجد اقصیٰ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد سنہرے گنبد والی مسجد کو ہی مسجد اقصی سمجھ رہی ہے۔

یہودی سازش کا پہلو یہ ہے کہ جب یہودی اصل مسجد اقصی کو شہید کردیں گے تو عالم اسلام کا شدید رد عمل ناقابل برداشت رہے گا اور تمام اختلافات ختم کرکے عالم اسلام ایک ہوجائے گا، مسجد اقصیٰ کا نام لیا جائے گا اور سنہرے گنبد کو دکھایا جاتا رہے گا۔

عیسائیت اور یہودیت کے عظیم اور ناپاک اتحادنے آخری اور فیصلہ کن جنگ کا آغاز کردیا ہے۔

یہ حالات اس امت کے لیے کچھ نئے نہیں ہیں۔ قربِ قیامت میں پیش آنے والے حالات پہلے ہی بتائے جا چکے ہیں، اس وقت کا المیہ یہ ہے کہ اب تنہا امت کو ان حالات کا مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے۔ماضی میں کٹھن حالات کا مقابلہ دینی حمیت رکھنے والوں کے ساتھ کچھ خواص (یعنی حکمراں) بھی شامل رہے تھے۔

یہ ستم ظریفی بھی ملاحظہ ہو:۔

14/مئی 2007؁ء کے اسرائیلی روزنامے کی اطلاع کے مطابق مسجد اقصیٰ کے صحن میں یہودیوں کا داخلہ ان کے مذہب کی رو سے حرام تھا، کیونکہ قدس الاقداس کی جگہ کونسی ہے معلوم نہیں، داخلے سے یہ خطرہ ہے کہ پاؤں اس جگہ پڑجائیں گے اور وہ مقام روندا جائے گا، جس کی وجہ سے بے حرمتی ہوگی اور یہ حرام ہے لیکن اب اس حرمت کو جواز میں تبدیل کرنے کے لیے فتوی حاصل کیا گیا۔ اس سلسلے کی خطرناک سازش مقدس حوض کے نام سے جانی جاتی ہے۔

اس منصوبے کے تحت نام نہاد مذہبی مقدس مقامات قدیم شہر، وادی قدرون اور جبل زیتون کے علاقے میں 22.5 کلو میٹر کے رقبے میں یہودی رنگ چڑھایا جائے اور اسلامی آثار مٹائے جائیں۔

برکت کی جگہ:۔ قرآن مجید میں تو یہ اعلان بھی ہے کہ یہاں برکت ہے سورۃ اعراف، سورۃ اسراء، سورۃ انبیاء، سورۃ سباء میں۔

اسرائیل یہاں جم کر بیٹھا ہوا ہے اور عیسائی حفاظت کر رہے ہیں، سارے کفار تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

عالم اسلام کے انتشار کا شکار ہونے کے باوجود فلسطینی آج بھی نہتے مزاحمت کر رہے ہیںاور اسرائیلی درندگی کا ڈٹ کر سامنا کر رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں ہماری ذمے داری ہے کہ ہم معصوم و مظلوم فلسطینیوں کی کھل کر تائید کریںاور انہیں ان کا حق دلائیں ،ساتھ ہی انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں انہیں دوا اور غذا سمیت ہرممکن مدد بھی فراہم کرنی چاہیے۔