April 19th, 2024 (1445شوال10)

قبلۂ اول کی بے حرمتی نامنظور!

تحریر: حافظ ادریس

مسجد اقصیٰ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے سفر پر آسمانوں کی طرف تشریف لے جائے گئے تھے۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول اور تیسرا حرم پاک ہے۔ اس کی بے حرمتی کوئی مسلمان قبول نہیں کرسکتا۔ اللہ کا ارشاد ہے: پاک ہے وہ [خالق] جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔ حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا۔ (بنی اسرائیل۱۷:۱)

ارض فلسطین پر قائم کی گئی یہودی ریاست کا وجود ناجائز اور غیرقانونی ہے۔ صہیونی تحریک کے ایک خونخوار لیڈر تھیوڈور ہرتزل نے 1897ء میں صہیونی تنظیم کا اعلان کیا۔ اس کے پیش نظر یہ تھا کہ یروشلم (بیت المقدس) پر استعماری قوتوں کی مدد سے قبضہ کیا جائے۔ 1901ء میں اس نے ترک خلیفہ سلطان عبدالحمید خان کو پیغام بھجوایا کہ ہم ترکی کے تمام قرضے ادا کردیں گے بشرطیکہ آپ ہمیں فلسطین میں ایک یہودی وطن بنانے کی اجازت دے دیں۔ سلطان عبدالحمید نے جواب دیا: ’’میں فلسطین کا ایک چپہ بھی یہودیوں کے حوالے نہیں کروں گا اور تمہاری ساری دولت پر میں تھوکتا بھی نہیں۔‘‘

صہیونیوں کی اس سازش کو آگے بڑھاتے ہوئے خلافت کے آخری ایام میں برطانیہ نے 1917ء میں اپنے وزیرخارجہ بالفور کے ذریعے ایک اعلان کیا کہ یہودیوں کو فلسطین میں آباد کیا جائے گا۔ اس فیصلے کو بھی ترک خلیفہ عبدالحمید ثانی نے مسترد کردیا اور برطانیہ کی طرف سے مالی پیش کش کے بارے میں بھی فرمایا: ’’میں ارض مقدس کے ایک چپے پر بھی تمہاری سودے بازی کو کسی صورت قبول نہیں کرسکتا۔ میں تمہاری پیش کش پر تھوکنا بھی پسند نہیں کرتا۔‘‘ خلیفہ کے اس غیرت مندانہ جواب پر پوری دنیا کی اسلام دشمن قوتیں سیخ پا ہوگئیں۔ خلیفہ کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے سارے شیطان اکٹھے ہوگئے۔ یوں خلافت کی بساط لپیٹ کر ترکی پر ایک فری میسن مصطفی کمال کو مسلط کردیا گیا۔ اس طرح فلسطین کی سرزمین پر 1948ء میں اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کرنے کا منصوبہ کامیاب ہوگیا۔

اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب میں بنایا گیا، مگر اسلام دشمن مسلسل کوشش کرتے رہے کہ مسلمانوں کے قبلۂ اول اور مسجد اقصیٰ کو منہدم کردیا جائے۔ نیز اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب سے یروشلم (بیت المقدس) میں منتقل کیا جائے۔ فلسطینی مسلمانوں نے اس کی شدید مزاحمت کی اور پوری دنیا کی مسلم آبادی کے علاوہ غیرمسلم بھی بڑی اکثریت میں اس شرانگیز ارادے کی مخالفت کرتے رہے۔ برطانیہ نے فلسطینی ریاست کو قائم کیا اور امریکا نے قدم قدم پر اس کی سرپرستی کی۔ اسرائیلی ریاست کسی صورت باقی نہیں رہ سکتی اگر امریکا اس کی سرپرستی سے ہاتھ اٹھالے۔ المیہ یہ ہے کہ امریکا پر یہودی اور صہیونی اقلیت اپنے مالی اور ابلاغی وسائل اور قوت کے بل بوتے پر قابض ہیں۔ امریکی حکومتیں ان کے اشاروں پر ناچتی رہی ہیں۔ البتہ موجودہ خبیث صدر ٹرمپ سے پہلے کسی حکومت نے یہ حماقت نہیں کہ کہ عالمی رائے عامہ اور انصاف کے تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرلیں۔

ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسلام دشمنی کے جو ریکارڈ قائم کیے اس کے نتیجے میں اگرچہ عوامی رائے کی اکثریت اسے حاصل نہ ہوسکی، مگر انتہا پسند اور نسل پرست امریکیوں نے اس کا بھرپور ساتھ دیا۔ عوامی ووٹوں میں شکست کھاجانے کے باوجود طریقِ انتخاب اور نمائندگان کی حمایت کے بل بوتے پر یہ شرپسند انسان امریکا کا صدر منتخب ہوگیا۔ اس کا حالیہ اعلان دنیا کو ایک بہت بڑے بحران میں مبتلا کرنے کا سبب بنے گا۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنی جرأت وغیرت کی روایت قائم رکھتے ہوئے امریکا کو اس فیصلے پر آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ موصوف نے OIC کا اجلاس طلبہ کرنے کے لیے بھی مطالبہ کردیا ہے۔ اسی طرح دیگر مسلم ممالک نے بھی اس فیصلے کو مکمل طور پر مسترد کردیا ہے۔ پاکستان کی پارلیمان میں اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے پیش کردہ قراردادِ مذمت متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ہے، جو خوش آئند ہے۔

امت مسلمہ کا المیہ یہ ہے کہ عالم اسلام پارہ پارہ ہے اور یہی چیز اسلام دشمنوں کو جری بنانے کا سبب ہے۔ ٹرمپ کی حالیہ شرارت کے جواب میں مثبت بات یہ سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب اور ایران جو ایک دوسرے کا نام بھی سننا نہیں چاہتے، اس موضوع پر دونوں کی طرف سے پہلا اور فوری ردعمل یکساں آیا ہے۔ دونوں نے دیگر مسلمان ممالک کی طرح اس فیصلے کو مسترد کیا ہے اور شدید الفاظ میں ٹرمپ کی مذمت کی ہے۔ مسلمان ملکوں کے علاوہ چین، روس، یورپ کے اہم ممالک فرانس، برطانیہ، جرمنی اور دیگر خطوں کی حکومتوں نے بھی ٹرمپ کے فیصلے کو غیرحقیقت پسندانہ اور عالمی امن کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ اگرچہ امریکا کی لونڈی ہے، مگر مسلمان ممالک کو مل کر اقوام متحدہ میں بھی اس مسئلے کو پرزور انداز میں پیش کرنا چاہیے۔ حماس نے جب اپنا پہلا انتفاضہ شروع کیا تو اس نے اسرائیل کو باور کرادیا تھا کہ اس کی بالادستی ہمیشہ کے لیے قائم نہیں رہے گی۔ بدقسمتی سے اس وقت حمایت کرنے کے بجائے گرد ونواح کے مسلم ممالک نے بھی الٹا اس کی مخالفت کی تھی۔ صرف ترکی اس کی پشت پر کھڑا رہا۔

گزشتہ دنوں حماس اور الفتح کے درمیان صلح کرائی گئی جو ایک لحاظ سے خوش آئند تھی، مگر پس پردہ عزائم کچھ اور تھے۔ حماس نے اس نئے امریکی حکم نامے پر اعلان کیا کہ ایک اور انتفاضہ وقت کا تقاضا ہے۔ پوری فلسطینی قوم اس نئے اقدام پر احتجاج کرتے ہوئے میدان عمل میں نکل آئی ہے۔ یہودیوں اور صہیونیوں کی خباثت تاریخ کے اوراق میں اتنی نمایاں ہے کہ اس پر کچھ زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ امریکی قوم اور عوام بھی سمجھ چکی ہے کہ ٹرمپ کے زیر حکومت وہ پوری دنیا میں نفرت کا نشان بن جائیں گے۔ بہت جلد ٹرمپ کی حرکتوں پر امریکی عوام کا ردعمل بھی سامنے آنے کی قوی امید ہے۔ یہ صدارتی فیصلہ بلاشبہ ایک شر ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ شر میں سے کوئی خیر برآمد کردے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ باہمی اختلافات کو بھلا کر آپس میں خون ریزی بند کرے اور اس مسئلے پر یک قالب ویک جان، یک رنگ ویک زبان ہو کر قبلہ اول کے تقدس کی حفاظت کرے۔ اتحاد کے نتیجے میں ہماری بقا اور فتح یقینی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اے اہلِ اسلام! حوصلہ بلند رکھیے اور قرآنی حکم کے مطابق اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیجیے۔ یقین رکھیے کہ ؂

شرے برانگیزد عدو

کہ خیرِ مادر آں باشد