March 19th, 2024 (1445رمضان9)

مسئلہ کشمیر ۔۔۔ چیلنجز اور درکار اقدامات

عبدالرشید ترابی امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیر
پاکستان 1990ء سے5فروری اہل کشمیر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طو رپر مناتے ہیں ۔ جناب قاضی حسین احمد رحمتہ اﷲ علیہ کا یہ ایک ایسا صدقہ جاریہ ہے جو ہر سال پوری قوم کو اہل کشمیر کی پشت پر لا کھڑا کرتا ہے ۔ پاکستان کے متنوع مزاج حکمرانوں کے بدلتے ہوئے رحجانات اور کمزور پالیسیوں کی وجہ سے بعض اوقات شکوک و شبہات بھی پیدا ہو تے رہتے ہیں لیکن ہر سال 5فروری قوم کے اندر ایسی لہر اٹھا دیتا ہے کہ سازشیں دم توڑ دیتی ہیں اور پوری قوم اہل کشمیرکو یہ پیغام دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے کہ قوم کا بچہ بچہ اہل کشمیرکی پشت پر ہے۔ یوں تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی تقویت ملتی ہے ۔
امسال یکجہتی کشمیر ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے جبکہ میدان کارزار میں اہل کشمیر مشکلات کے باوجود منزل کے حصول کے لیے پر عزم ہیں ، ایک طرف وہ بھارتی استبدادکا بے جگری سے مقابلہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف گزشتہ سیلاب میں 55لاکھ کشمیریوں نے بری طرح متاثر ہونے کے باوجود بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں ریلیف لینے سے انکار کرتے ہوئے اپنی قومی غیرت کو نیلام ہونے سے بچا لیا۔اﷲ کی تائید و نصرت اور باہم اتحاد و یکجہتی سے بھارت کے ہر وار کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔اس عرصے میں گونا گوں چیلنجز ابھرتے رہے ۔
نریندر مودی نے اپنے انتخابی منشور میں بھارتی آئین کی دفعہ 370کے خاتمے کے ذریعے مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے بھارت میں مکمل انضمام کا اعلان کیا تھا اور مقبوضہ ریاست کی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کر نے کے لیے بھرپور مہم چلائی اور پے در پے کئی دورے کر کے بڑے بڑے معاشی پیکیجز کا اعلان کیا لیکن مسلم اکثریتی نشستوں میں سے بی جے پی ایک بھی نشست حاصل نہ کر سکی، یوں اسے مجبوراً مفتی سعید کے ساتھ ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت سے سرینگر میں مخلوط حکومت میں شامل ہونا پڑا۔مرکزی سرکار کی آشیر باد سے بی جے پی نے ریاست کا مسلم اکثریتی تشخص ختم کرنے کے لیے کئی ہتھکنڈے استعمال کیے لیکن قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت نے بر وقت اقدام کرتے ہوئے پوری کشمیری قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں بدل دیا ، شہداء کے جنازے ریفرنڈم کی حیثیت اختیار کر گئے ۔ حالات نے قائدین حریت کو کندھے سے کندھا ملا کر چلنے پر مجبور کر دیا جناب شبیر احمد شاہ اور دیگر حریت تنظیمیں سید علی گیلانی کی قیادت میں منظم اور یکجہت ہو گئیں۔
نامساعد حالات کے باوجود اپنے ذرائع کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے ایک مرتبہ پھر قابض افواج کو پیغام دیا کہ جب تک استعماری قبضہ ختم نہیں ہوتا مجاہدین اپنی جدوجہد ترک نہیں کر سکتے۔یہ نوخیز نوجوان قوم کے ہیرو قرار پائے ان کا سرخیل حزب المجاہدین کا ایک کمانڈر برہان مظفر وانی وہاں آج کے نوجوانوں کا آئیڈیل ہے ۔ گزشتہ چند ماہ میں کئی عسکری معرکوں میں بھارتی فوج کو شدید حزیمت اور نقصان کاسامنا رہا ۔ اس عرصے میں نریندر مودی کے مقبوضہ کشمیر کے دوروں کے موقع پر تاریخی ہڑتالوں نے ثابت کیا کہ کشمیری خوف اور لالچ کے کسی ہتھکنڈے کو خاطر میں لائے بغیر منزل کے حصول تک آزادی کے مشن پر گامزن رہیں گے۔
نریندر مودی کی حکومت کے بر سراقتدار آتے ہی پاکستان سے بات چیت کا سلسلہ منقطع کر دیاگیا اور لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ روز افزوں ہوگیا جس کے نتیجے میں سویلین اور فوجی شہادتیں ہوئیں لیکن افواج پاکستان نے بھی دندان شکن جواب دیا ۔ ادھر آزاد جموں وکشمیر کی تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے کل جماعتی کشمیر رابطہ کونسل کے پلیٹ فارم سے حق خود ارادیت کے ون پوائنٹ ایجنڈے پر اتحاد کرتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سرگرمیوں کا اہتمام کیا ۔ برطانیہ اور امریکہ میں بڑے بڑے مارچ کیے گئے ، بالخصوص نریندر مودی کی برطانیہ آمد کے موقع پر تحریک کشمیر برطانیہ اور دیگر جماعتوں نے ایک جھنڈے اور ایک نعرے کے ساتھ بھرپور احتجاج کیا ۔ کل جماعتی رابطہ کونسل کے کنوینئر کی حیثیت سے راقم ساری جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہوئے ان سارے پروگرامات میں شریک رہا ۔ برطانوی میڈیا اور ممبران پارلیمنٹ نے بھی ان سرگرمیوں سے متاثر ہو کر کشمیر میں انسانی حقوق کی بد ترین پامالی کے ریکارڈ پر نریندر مودی اور بھارتی حکومت کی سخت مذمت کی اور اپنی حکومت اور بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ خطہ اور دنیا کے امن کو کسی بڑے حادثے سے بچانے کے لیے کشمیر جیسے دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے بھارتی حکومت پر دباؤ بڑھایا جائے ۔
اسی عرصے میں وزیر اعظم پاکستان نے جنرل اسمبلی میں اپنے قومی موقف کا احیاء کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر پر بڑا دو ٹوک موقف اختیار کیا ۔اسی طرح چیف آف آرمی سٹاف نے بھی ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف کانفرنسوں میں مسئلہ کشمیر کو تقسیم بر صغیر کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے عالمی برادری پر واضح کیا کہ پاکستان کشمیریوں کی برحق جدوجہد سے کسی طور پر پیچھے نہیں ہٹ سکتا ۔ ان سارے عوامل یعنی مقبوضہ ریاست میں عوامی و عسکری مزاحمت ، پاکستان کا دو ٹوک موقف اور بین الاقوامی دباؤ نے نریندر مودی کی حکومت کو پاکستان سے ’’ کُٹی‘‘ کرنے کی پالیسی ختم کرنے پر مجبور کیا جس کے نتیجے میں پہلے ان کی وزیر خارجہ شسما سوراج اور پھر نریندر مودی پاکستان وارد ہوئے اور دو طرفہ بات چیت کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا ۔ پاکستان اور اہل کشمیر نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل ہو اس سلسلے میں سو سے زیادہ ادوار ہو چکے ہیں لیکن شومئی قسمت سے مسئلہ کے حل کی طرف بھارتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی ۔ جب بھی بین الاقوامی دباؤ بڑھا بھارت بات چیت کا ڈول ڈالتے ہوئے محض وقت حاصل کرتا رہا ۔اس لیے قائد حریت سید علی گیلانی سمیت تحریک آزادی سے وابستہ تمام حلقے یہ موقف پیش کرتے رہے ہیں کہ اگر بات چیت ہو تو محض آلو پیاز پر اور اسی طرح کے جزوی مسائل پر نہ ہو بلکہ مسئلہ کشمیر پر ہو اور ان شرائط کے ساتھ ہو کہ :
 بھارت اٹوٹ انگ کی رٹ ترک کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کو حل طلب تسلیم کرے۔-1
 مقبوضہ کشمیر سے فوجی انخلاء کرے ، کم از کم پہلے مرحلے پر آبادیوں سے فوج واپس بلائے-2
 کالے قوانین واپس کرے۔-3
 ہزاروں گرفتار شدگان جو سال ہا سال سے جیلوں میں پڑے ہیں ، کو رہا کیا جائے۔-4
-5 قائد حریت سید علی گیلانی اور دیگر قائدین حریت کی حراستوں کو ختم کرتے ہوئے شہری آزادیاں بحال کرے اور انہیں اپنا مقدمہ بین الاقوامی برادری کے سامنے پیش کرنے کا موقع دے ۔ اس سلسلے میں انہیں سفری دستاویزات فراہم کرے۔
-6 55لاکھ متاثرین سیلاب کے لیے بین الاقوامی NGOsاور آزادکشمیر و پاکستان میں مقیم کشمیریوں کو کشمیری بھائیوں تک امداد پہنچانے کا موقع فراہم کرے۔
ان شرائط پر عمل پیرا ہوئے بغیر محض بات چیت ماضی کے تجربات کی روشنی محض بھارتی ہتھکنڈا ہے ،اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور بھارت پر بین الاقوامی دباؤ بڑھانے اور تحریک آزادی کی تقویت کا اہتمام جاری رکھنا چاہیے ۔کوئی اورایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے تقسیم کشمیر کی راہ ہموار ہو یا کم از کم ہندوستان کو ایسا کرنے کا جواز فراہم ہو خصوصاً گلگت بلتستان جو تاریخی اعتبار سے ریاست جموں وکشمیر کا حصہ ہیں ، انہیں تمام بنیادی حقوق دیے جائیں جو پاکستان کے تمام شہریوں کو حاصل ہیں لیکن آئینی لحاظ سے مسئلہ کشمیر کے پس منظر کو نظر انداز کر کے انہیں پاکستان کا صوبہ بنانا ایسی بے تدبیری ہوگا جس کے نتیجے میں کشمیریوں اور پاکستان کے درمیان بے اعتمادی کی فضا جنم لے گی ۔حالات کا تقاضا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان کشمیری قیادت کی مشاورت سے ایک واضح حکمت عملی طے کریں تاکہ آزادی کی منزل قریب تک ہو سکے۔