March 19th, 2024 (1445رمضان9)

کشمیر بھارت کا ہو ہی نہیں سکتا

سید منور حسن سابق امیرجماعت اسلامی پاکستان
عوام نے 5 فروری 1990 ء کو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کر کے اور واہگہ سے مظفر آباد پل تک انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کا جو بے مثال مظاہرہ کیاتھا آج تک یہ دن ہر سال شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتاہے۔پاکستان نے کشمیر کی اس جدوجہد آزادی کی ہمیشہ بھر پور حمایت کی اور سیاسی ، اخلاقی اور سفارتی سطح پر ان کی بھر پور مدد کی
کشمیر کا مسئلہ مغربی استعمار نے اپنے ظالمانہ فیصلوں اور مسلم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے آج سے 70سال قبل پیدا کیا تھا ۔ یہ مسئلہ ہنوز حل طلب ہے ۔ کشمیر کی ملت اسلامیہ نے ایک دن کے لیے بھی کشمیر جنت نظیر پر بھارت کی بالادستی کو قبول نہیں کیا۔ہر سال پاکستان کا یوم آزادی (14 اگست) کشمیری پاکستان کا پرچم لہراتے ہیں ۔’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں بھارتی فوج کا ظلم سہتے ہیں۔ ہر سال بھارت کا یوم آزادی 15) اگست( کشمیری یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں ۔ اسی طرح ہر سال 26 جنوری ،جو بھارت کا یوم جمہوریہ ہے اس کو بھی یوم احتجاج کے طور پر مناتے ہیں۔ پاکستان اخلاقی و سیاسی ہر لحاظ سے مظلوم کشمیریوں کی حمایت کا پابند ہے اور بھارت کے ساتھ اصل مسئلہ ( کورایشو) کشمیر کا تنازعہ ہی ہے ۔
جس اصول سے بھی دیکھا جائے ، کشمیر بھارت سے وابستہ نہیں ہو سکتا ۔ 3 جون 1947 ء کے تقسیم ہند کے اصول کے مطابق مسلم اکثریتی علاقے پاکستان میں شامل ہوئے تھے لیکن 27 اکتوبر 1947 ء کو قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کشمیر کی واضح مسلم اکثریت کی ریاست میں بھارتی حکومت نے جارحانہ طور پر اپنی فوجیں اتار دیں اور ریاست کے حکمران ڈوگرہ مہاراجہ کوبھارت کے ساتھ الحاق کرنے پر مجبور کیا لیکن کشمیر کی مسلمان اکثریت نے اسے مسترد کر دیا اور دشمن ملک کو اپنے علاقے سے نکالنے کے لیے جدوجہد شروع کر دی ۔ پھر بھارت 1948 ء میں خود کشمیر کے مسئلہ کو لے کر اقوام متحدہ میں پہنچا اور وہاں اس شرط پر کشمیر میں جنگ بندی منظور کر لی کہ کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق آزادانہ رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جائے گا ۔ قرار داد کے الفاظ یہ ہیں :
’’ ریاست جموں و کشمیر کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا مسئلہ آزادانہ و غیر جانبدارانہ رائے شماری کے جمہوری طریقے سے طے پائے گا ۔‘‘ (13 اگست 1948 ء )
بھارت اور پاکستان دونوں نے اس قرار داد کو تسلیم کیا جس کے بعد ریاست میں جنگ بندی عمل میں آئی لیکن 1951 ء میں بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد قانون ساز اسمبلی قائم کر کے اپنا موقف تبدیل کر لیا ۔ 1955 ء میں اقوام متحدہ نے بھارت کے اس موقف کو ماننے سے انکار کر دیا اور انتخابات کو رائے شماری کا بدل تسلیم نہیں کیا ۔ اس کے بعد 1962 ء میں بھارت چین جنگ کے موقع پر بھارتی وزیراعظم نے امریکہ اور برطانیہ کے نمائندوں کے ذریعے پاکستان کے صدر جنرل محمد ایوب خان کو خط بھیجا جس میں انہوں نے صدر پاکستان سے درخواست کی کہ پاکستانی فوج اس موقع پر کوئی مداخلت نہ کرے ۔ جب چین کے ساتھ ہمار ا سرحدی تنازعہ حل ہو جائے گا تو میں ضمانت دیتاہوں کہ بھارت کشمیر کے اندر رائے شماری کرا دے گا لیکن وقت آنے پر بھارت اس وعدے سے پھر منحرف ہو گیا ۔ اس طرح وہ اقوام متحدہ کی اس قرار داد پر عملدرآمد کرنے کے بجائے کھلے بندوں اس کا انکار کرتے ہوئے کشمیر کو اپنا ’’اٹوٹ انگ ‘‘ اور’’ داخلی مسئلہ ‘‘ قرار دینے لگا ۔
1972 ء کے شملہ معاہدے کے تحت بھارت کشمیر کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا پابند تھا لیکن سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے 1989 ء میں پاکستان کی سرزمین پر یہ کہہ کر شملہ معاہدہ کی دھجیاں اڑا دیں کہ’’ مقبوضہ کشمیر میں چار انتخابات ہو چکے ہیں اور کشمیریوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کرلیاہے اس لیے اب وہاں رائے شماری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔‘‘ اس کا جواب پاکستان کی وزیراعظم تو نہ دے سکیں لیکن کشمیری عوام نے نومبر 1989 ء کے انتخابات کا مکمل بائیکاٹ کر کے بھارت پر واضح کر دیا کہ کشمیری عوام اپنے آپ کو بھارت کے ساتھ وابستہ نہیں کر سکتے اور نہ ہی وہ بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرنے پر کسی صورت میں تیار ہوں گے ۔ اس کے ساتھ ہی اہل کشمیر نے اپنی آزادی کی تحریک کا باقاعدہ آغاز کر کے یہ واضح کر دیا کہ اگر کمزور مظلوم و محکوم اقوام اپنی آزادی و خود مختاری کے حصول کا عزم کر لیں تو انہیں بڑی سے بڑی مادی طاقت بھی غلام نہیں رکھ سکتی ۔
بھارتی فوج نے آزادی کی اس تحریک کو کچلنے کیلئے کشمیریوں پر مظالم کے پہاڑ توڑنے شروع کردیئے ،ان کے گھروں ،کھیتوں اور کھلیانوں کو جلانا شروع کردیا ،نوجوانوں کو پکڑ پکڑ کر بدنام زمانہ انوسیٹی گیشن سینٹروں میں تعذیب کا نشانہ بنایا جانے لگا۔اس دوران بھارتی فوج کے مظالم سے تنگ آکر کئی کشمیر ی خاندان ہجرت کرکے آزاد کشمیرپہنچنے لگے ۔بھارتی فوج کے اس ظلم و بربریت کے خلاف اور کشمیریوں کی ہجرت کے بارے میں پاکستانی اور عالمی میڈیا نے کوئی خبر نہیں دی۔جماعت اسلامی نے آزاد کشمیر میں ان لٹے پٹے کشمیری خاندانوں کو آباد کرنا شروع کردیا اور ریلیف کیمپ قائم کئے ،دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کروانے کیلئے سابق امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ؒ نے 5۔جنوری 1990 کو لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس میں 5فروری 1990 ء کو ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی۔یہ پورے ملک میں کامیاب ہڑتال تھی ۔پنجاب حکومت نے بھی اس ہڑتال کو کامیاب بنانے میں کردار اداکیا ۔مرکز میں بے نظیر کی حکومت تھی ،اگلے سال مرکزی حکومت نے 5۔فروری کو سرکاری طور پر ’’یوم یکجہتی کشمیر ‘‘منانے اور اس دن ملک بھر میں تعطیل کا اعلان کردیا ۔اس کے بعد ہرسال یہ دن قومی سطح پرپوری شان و شوکت کے ساتھ منایا جانے لگا۔یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر تمام سیاسی ومذہبی جماعتیں اور سماجی تنظیمیں بڑی بڑی ریلیاں اور جلوس نکالتی اور جلسے و سیمینار منعقد کرتی ہیں اور پورے ملک میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا بے مثال مظاہرہ کیا جاتا ہے ۔یوم یکجہتی کے حوالے سے ہونے والے پروگرامات میں قومی رہنما شریک ہوتے اور خطاب کرتے ہیں ۔گزشتہ 24سال سے 5۔فروری قومی جوش وجذبے اور روائتی انداز میں منایا جاتا ہے ۔
جنرل مشرف نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر مشتمل موقف کو ترک کر کے کشمیر پر تواتر سے لچک دار بیانات دیئے تھے ،موجودہ (باقی صفحہ 9 نمبر 4)
حکومت بھی اسی ڈگرپر چلتے ہوئے مسلسل پسپائی اختیار کررہی ہے لیکن حکمرانوں کو بھارتی قیادت کے دل جیتنے میں ذرا بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی کہ وہ’’ اٹوٹ انگ ‘‘کی رٹ چھوڑ کر کشمیر کو’’ متنازعہ‘‘ ماننے پر ہی تیار ہو گیاہو ۔کشمیری مجاہدین کے ہاتھ پاؤں باندھنے کے بعد بھارتی فوج کشمیرسے اپنی تعداد کم کرنے کے بجائے مقبوضہ کشمیر میں فوجی کاروائیوں میں اضافہ کر چکی ہے بلکہ اس کے ساتھ کابل اور قندھار کے راستے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ پاکستانی حکومت دونوں محاذوں پر بے بس اور مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و تشدد اور انسانی حقوق کی بدترین پامالی پر کوئی ردعمل ظاہر کرنے سے بھی معذور نظر آتی ہے جس کے باعث کشمیری عوام کا اعتماد متزلزل ہو رہاہے اور کشمیری مجاہدین میں یہ احساس جڑ پکڑ رہاہے کہ پاکستانی حکمران کشمیر میں بھی وہی کچھ کریں گے جو انہوں نے افغانستان میں کیا ہے ۔
المیہ یہ ہے کہ گزشتہ دو عشروں سے زائد عرصے میں کشمیری مسلمانوں نے قربانیوں اور استقامت کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کو پاکستانی حکمرانوں نے یکسر نظر انداز کرتے ہوئے ایسے یکطرفہ اقدامات اور اعلانات کیے ہیں جو بھارت کے معاشی اور سیاسی مفادات کا تحفظ کرنے والے ہیں ۔ بھارت کے ساتھ تجارت ، وفود کے تبادلے ، ریل اور بس سروس کا اجرا،بجلی خریدنے کے معاہدے اور سب سے بڑھ کر خون مسلم کے پیاسے ہندو کو پسندیدہ ترین قوم قرار دینا،عملا بھارت کی بالا دستی قبول کرنے کے مترادف ہے ۔ آج کشمیری مجسم سوال ہیں کہ انہوں نے ایک لاکھ جانوں کی قربانیاں کس کے لیے دی تھیں ۔ آج بھی ان کے ہزاروں نوجوان بھارت کے تفتیشی مراکز میں ہیں ۔custodial killing کا سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں اپاہج اور لاپتہ ہیں ۔ ہزاروں ماؤں بہنوں کی عزتیں بھارتی فوجی درندوں کے ہاتھوں پامال ہوئیں ۔ ان کے گھر بار اور کھیت کھلیان جلائے گئے ۔ کشمیریوں کو اس کے بدلے میں کیا حاصل ہوا ۔ پاکستانی حکمرانوں کی شکست خوردگی بلکہ غداری کی وجہ سے ان کی منزل پہلے سے بھی کہیں دور چلی گئی ہے ۔ کیا انہیں بھارتی درندوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ دیا گیا ۔ کیا وہ ان حالات میں اپنی تحریک جاری رکھ سکیں گے اور مزید قربانیاں کس امید پر دیں گے ؟
حال ہی میں پیش کئے گئے ’’ سیلف گورنس ‘‘اور ’’ ریاست ہائے متحدہ کشمیر ‘‘ کے فارمولوں کو ’’ کنٹرول لائن ‘‘ کو مستقل سرحد بنانے اور دونوں حصوں میں ’’ اندرونی خود مختاری ‘‘ پر اکتفاکرلینے کی سازش اور ’’Selfdetermination‘‘ کا مطالبہ ترک کرکے ’’Self Rule‘‘کی بات کرنا حکمرانوں کی شکست خوردہ ذہنیت کا ثبوت فراہم کرتی ہے ۔جس سے فائدہ اٹھا کر بھارت نے کنٹرول لائن پر ’’دیوار برہمن ‘‘کی تعمیر شروع کردی ہے۔
’’سیلف گورنس ‘‘ جیسے فارمولے پر خفیہ بات چیت اور ’’پیش رفت‘‘ پارلیمنٹ اور عوام کو نظر انداز کرکے کی گئی ہے۔اس ’’فارمولے‘‘کو پاکستانی عوام کی تائید حاصل نہیں ہے نہ کشمیری عوام اسے تسلیم کریں گے ۔ ’’فوجوں کے انخلاء‘‘کی تجویز بھی اسی صورت میں قابل قبول ہو سکتی ہے جب یہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی روح کے مطابق اور ان پر عمل درآمد کے حوالے سے ہو اور پوری ریاست سے فوجوں کے انخلاء کے
بعد کشمیری عوام کو اقوام متحدہ کی قرا ر دادوں کے مطابق اور نگرانی میں اپنے مستقبل کے تعین لئے آزادانہ رائے دہی کا حق استعمال کرنے کا موقع دیا جائے اور وہ اپنی آزاد مرضی سے یہ طے کریں کہ بھارت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔
قائد اعظم ؒ کا یہ فرمان کہ ’’ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے ‘‘ ایک طرف کشمیر کی اہمیت کو اجاگر کرتاہے اور دوسری طرف پاکستان کی بقا و سلامتی کو پنج ۂ ہنودسے آزاد کرانے کے لیے مسلسل جدوجہد اور پیہم کوشش کی دعوت دیتاہے۔