April 19th, 2024 (1445شوال11)

برھان مظفر وانی کا یوم شہادت

حافظ محمد ادریس
نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان

بھارتی سرکار کے مظالم تمام حدود کو پھلانگ گئے ہیں۔ باہر کی دنیا تو خاموش بیٹھی تماشا دیکھ ہی رہی ہے مگر حکومت پاکستان کا رویہ بھی محل نظرہی نہیں باعث اذیت ہے۔ کشمیریوں کی بے پناہ قربانیوں کے بعد اگر ہم سرکاری و سفارتی سطح پر اس اہم قومی ایشو کو عالمی اداروں اور تمام ممالک کے ارباب حل وعقد تک پہنچا سکتے تو کشمیری اپنی قربانیوں کے باوجود مکمل اطمینان کا اظہار کرتے۔ انہیں حوصلہ ملتا کہ وہ خود کو پاکستانی کہتے ہیں تو پاکستان کے حکمران بھی ان کو اپنا سمجھتے ہیں۔ ایک سال قبل کشمیر کے ایک نوجوان برھان مظفر وانی کو انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا تھا، اس سے قبل اس کا بڑا بھائی خالد وانی بھی بھارتی فوجیوں کی درندگی کا شکار ہوا اور اسے شہید کردیا گیا۔ برھان مظفر وانی کا پہلا یوم شہادت 8 جولائی کو آیا، تو وادی کشمیر میں ہر شخص بھارتی استعمارکو للکار رہا تھا۔ آج بھارتی سرکار اس قدر گھبرائی ہوئی ہے کہ دو نوجوان شہدا کے والد اور بزرگ کشمیری شہری پروفیسر مفظر احمد وانی کو بھی اپنے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔ پروفیسر وانی کو ان کے گھر سے بلاوجہ گرفتار کرکے نا معلوم مقام پر مقید کردیا گیا ہے۔
ظلم کہ یہ سیاہ رات آخر ختم ہوکر رہے گی۔ وانی خاندان پوری کشمیری آبادی کے لیے نہایت احترام مقام رکھتا ہے ۔ان کی تعلیمی میدان میں خدمات کا ایک زمانہ متعرف ہے۔ اور اپنے دو نونہال بچوں کی قربانی دے کر انہوں نے ظلم کے خلاف مظلوم کو ایک آواز اور جرات دی ہے۔ اپنے دوسرے فرزند برھان وانی کی شہادت پر ان کے والد سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی گفتگو منظر عام پر آچکی تھی۔ اس عظیم استاد اور مدبر کشمیری نے فرمایا: اولاد بہت عزیز ہوتی ہے۔ بیٹوں کی جدائی وہی والدین محسوس کرسکتے ہیں جن پر یہ قیامت گزرے۔ لیکن ہم صرف والدین ہیں نہیں مسلمان بھی ہیں۔ اللہ ہمارا خالق و مالک ہے، قرآن ہمارا دستورِ حیات ہے اور محمد ﷺ ہمارے ہادی و راہبر ہیں۔ اللہ اور بیٹے کی محبت کا معاملہ ہو یا اور قرآن اور بیٹے سے تعلق کی بات ہو یا عشقِ مصطفی ﷺ اور اولاد کی محبت ہو، ان تمام معاملات میں اوّلیت اللہ، قرآن اور محمد ﷺ کو حاصل ہے۔ ہم اللہ کے فیصلے پر راضی ہیں اور اس بات پر مطمئن ہیں کہ ہمارے بیٹوں نے کوئی جرم کرکے اپنی جان نہیں گنوائی بلکہ مظلوم انسانیت کی نجات کے لیے اپنا بنیادی حقِ حریت استعمال کیا اور شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے۔
واقعی یہ الفاظ ایک ایسے بندہ مومن ہی کی زبان سے نکل سکتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ نے کامل ایمان عطا فرمایا ہو۔ آج پوری وادی کشمیر میں ہر شخص کی زبان پر یہی نعرہ ہے۔ اپنی جان دے دیں گے مگر بھارتی بالا دستی کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ برھان مفظر وانی کے یوم شہادت پر پوری دنیا میں  مقیم کشمیری اور پوری پاکستانی قوم بھارتی مظالم کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کر رہی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ موقع انتہائی اہم ہے۔ ہر پاکستانی کو مسلک و مشرب اور سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کی آواز میں اپنی آواز ملانی چاہیے۔ ہم احتجاجی مظاہروں کو مکمل طور پر پُر امن رکھتے ہیں۔ ہمارے پیشِ نظر کبھی تصادم نہیں ہوتا ۔ مظلوم کشمیری اس سال تو اپنے جواں سال شہید کی برسی بھی منارہے ہیں لیکن ان کا شہدائے کشمیر کے حوالے سے 13جولائی کو سال ہا سال یہ معمول ہے کہ وہ پوری دنیا میں یہ یوم مناتے ہیں۔ اس مرتبہ اس کی شان کچھ نرالی ہوگی۔
پاکستان میں متعین برطانوی ہائی کمشنر مسٹر تھامس ڈریو(Thomas Drew)نے مرکز جماعت اسلامی پاکستان منصورہ میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سنیٹر سراج الحق صاحب سے 5جولائی 2017ء کو ملاقات کی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان نے اس موقع پر مہمانوں کے سامنے دو ٹوک الفاظ میں کشمیر اور پاکستانی قوم کی نمائندگی اور ترجمانی کرتے ہوئے واضح کیا کہ برطانوی راج کے اختتام پر کشمیر کا فیصلہ کشمیری عوام کو کرنا تھا۔ یہ ایجنڈا اب تک تشنہٓ تعبیر ہے۔ اس نامکمل ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا برطانوی حکومت اور قوم کی اخلاقی ذمے داری ہے۔ برطانوی پارلیمان کے حالیہ اجلاس میں ارکان پارلیمان نے کشمیر کے مسئلے پر مثبت ردعمل ظاہر کیا ہے، جو خوش آئندہ اور قابلِ تحسین ہے۔
بھارت اور امریکا کے کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد قراردینے کے باوجود، برطانیہ کا یہ مؤقف ان کی خود داری اور آزاد خارجہ پالیسی کا عکاس ہے۔ پاکستانی حکومت کو بھی جرات مندی کے ساتھ اس مسئلے پر آواز بلند کرنی چاہیے۔ پاکستان اس قضیہ کا فریق ہے۔ اگر پاکستان چپ سادھے رکھے، تو یہ مدعی سست، گواہ چست کے مترادف ہوگا۔
ہم ایک سیاسی جماعت کے کارکان ہیں جس کا راستہ واضح ہے۔ ہم اپنے ملک میں جمہوری طریقوں سے تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک سے ہم گفت و شنید اور تعلقات کے قائل ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کشمیری حریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دیا ہے، تو اس پر احتجاج ہر پاکستانی کا حق ہے۔ اس کے باوجود اگر امریکی سفیر بھی ملاقات کے لیے آئے تو ہم دروازے بند نہیں کریں گے۔ برطانوی پارلیمان کے اچھے کام کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہوگی۔ برطانیہ میں کشمیری بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں جو وہاں کے شہری بھی ہیں وہ اپنی مادرِ وطن کے حق میں کھلے عام برطانیہ میں پُر امن مظاہرے کرتے ہیں اور کئی برطانوی النسل شہری اور سیاست دان بھی ان کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتے ہیں۔ برھان مظفر وانی کی شہادت نے جہاں کشمیری مسلمانوں کے دل زخمی کیے ہیں وہیں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ زندہ برھان وانی جو اسلحہ کے بجائے سوشل میڈیا پر اپنی آواز بلند کرتا تھا، اپنی شہادت کے بعد بھارت کے لیے مزید خطرہ کا باعث بن گیا ہے۔
بھارت ایک ہاری ہوئی جنگ لڑرہا ہے۔ بھارتی حکومت کے اعصاب ٹوٹ جانے کا بار بار اظہار ہورہا ہے۔ کئی بھارتی دانشوار یہ کہتے ہیں کہ انڈیا کا مقدر بالآخر شکست ہوگا۔ اور تو اور خود بھارتی حکومت کا ایک حکم نامہ ملاحظہ فرمائیے۔ پاکستانی اخبارات میں 18جون2017ء کو ایک یک کالمی خبر چھپی جس نے ثابت کردیا کہ وادی کشمیر کا عظیم فرزند برھان مظفر وانی اپنی شہادت کے بعد بھارتی حکمرانوں کے اعصاب پر سوار ہے۔ شکست خوردہ بننے کی بدحواسی اس خبر سے بالکل نمایاں ہے۔
’’نئی دلی 18جون (اے این این )بھارت کی وزارت داخلہ نے تمام افسران اور سیکورٹی ایجنسیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ تحریری رابطے کے دوران حزب کمانڈر برھان وانی کا نام نہ لکھیں۔ بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس نے وزارت داخلہ کے ایک سینئر افسر کا حوالہ دے کر لکھا ہے کہ مستقبل میں تمام رابطوں کے دوران برھان وانی کا نام لکھنے کے بجائے 8جولائی کو مارے گئے تین جنگجو لکھا جائے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ یہ زیادہ محفوظ رہے گا۔ وزارت داخلہ کی طرف سے یہ قدم برھان وانی کی وادی کشمیر اور اقوام متحدہ سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں میں شہرت کو دیکھ کر اٹھایا گیا ہے‘‘۔ برھان مظفر وانی شہید کا یوم شہادت بھی بھارت کے بزدل بنیا حکمرانوں اور فوجوں کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے۔