April 18th, 2024 (1445شوال9)

کشمیری بھارت سے ہر صورت آزادی چاہتے ہیں، سید علی گیلانی

انٹرویو مظفر اعجاز/میاں منیر احمد

تحرک حریت کشمیر کے رہنما عظیم قائد سید علی گیلانی سے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے جسارت کا خصوصی انٹرویو

سوال: جموں و کشمیر کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کیا کہیں گے ؟
سید علی گیلانی: کشمیر کی موجودہ صورتحال گزشتہ کئی دھائیوں کے کشت وخون اور تباہی وبربادی سے کچھ مختلف نہیں ہے۔ پوری وادی کو ایک بڑے جیل خانے میں تبدیل کیا گیا ہے، جس میں درجنوں چھوٹے چھوٹے عقوبت خانوں میں ہر عمر کے آزادی پسند لوگوں کو عذاب وعتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہر طرف خوف وہراس اور سیاسی غیریقینی کا ماحول ہے۔ بھارتی فوج کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے ہیں۔ اُن کی درندگی اور سفاکیت کے نشان چہار سو دیکھے جاسکتے ہیں۔ موجودہ عوامی لہر کو تیروتفنگ کے بے دریغ استعمال سے دباکر 100کے قریب لوگوں کو شہید کردیا گیا۔ سینکڑوں کو بینائی سے محروم کیا گیا، ہزاروں کو زخمی کرکے ناکارہ بنادیا گیا، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو جیلوں میں اذیت ناک تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ غرض انسانی حقوق کی بدترین پامالی کو یہاں کے نام نہاد حکمرانوں کے ذریعے عمل میں لایا جارہا ہے، لیکن اس سب کے باوجود یہ تحریک یہاں کے ہر ذی حس اور ذی ہوش انسان کی رگ وپے میں موجود ہے اور اپنے منطقی انجام تک انشاء اللہ جاری وساری رہے گی۔
سوال: سنا ہے کہ کشمیری عوام کی اکثریت مکمل آزادی چاہتی ہے وہ نہ ہندوستان کے ساتھ رہنے کی خواہاں ہے نہ پاکستان کے ساتھ ۔ حقیقت کیا ہے ؟
سید علی گیلانی: حقیقت جاننے کا سب سے اچھا اور پُرامن طریقہ یہ ہے کہ لوگوں سے رائے پوچھی جائے جس کے حق میں وہ فیصلہ دیں گے وہ ہر فریق کو قبول ہونا چاہیے۔
سوال: قوموں کی تاریخ میں عسکری جدوجہد سے انکار نہیں ۔اب دنیا کے تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں مذاکرات زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں ۔آپ سمجھتے ہیں آزادی کشمیر کیلئے عسکری جدوجہد کا خاتمہ درست اقدام تھا ؟ جس کے بعد ہندوستان اٹوٹ انگ کے سلوگن کو ترک کر کے مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کے لئے سنجیدہ ہو گیا ہے ؟
سید علی گیلانی: عسکری جدوجہد تو اب بھی جاری ہے۔ اس کاخاتمہ تو نہیں ہوا ہے۔ ہمارے سرفروش اب بھی اپنی اٹھتی جوانیوں کو اسلام اور آزادی کے لیے قربان کررہے ہیں۔ مذاکرات کا ڈراما تو پچھلے 70سال سے چلاآرہا ہے، لیکن زمینی حقائق جوں کے توں ہیں، کیونکہ 152بار سے زائد مرتبہ بات چیت کے ڈرامے رچائے گئے لیکن ان سے جموں کشمیر کی زمینی صورتحال پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی اور یہ مسئلہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھتا گیا۔ نہ تو ہندوستان نے اٹوٹ انگ کی راگنی ترک کی ہے اور نہ ہی اپنے بدمست اور بے لگام فوجیوں کو نکیل ڈالی ہے۔
سوال: شہید مظفر وانی کے واقعے کے بعد کشمیر میں صورتحال میں کہاں تک موثر تبدیلی دیکھتے ہیں ؟
سید علی گیلانی: برہان مظفر وانی کی شہادت کے بعد کی صورتحال پوری دنیا کو معلوم ہے کہ کس طرح لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ریاست کے اطراف واکناف سے اُمڈ آیا۔ پورے چھ ماہ تک احتجاجی لہر نے جہاں بھارت کے ایوان ہلاکر رکھ دئے وہیں اُن کے حاشیہ برداروں کی بھی نیندیں حرام ہوگئیں۔ گاؤں گاؤں، قریہ قریہ آزادی کی گونج سنائی دی اور ہماری نئی نسل کے قلب وذہن میں یہ بات گھر کر گئی کہ ہمیں کسی بھی صورت میں بھارت سے آزادی حاصل کرنی ہے۔ یہ سوچ اور یہ ذہنی بیداری ایک مثبت تبدیلی ہی نہیں، بلکہ تحریک آزادی کے لیے ایک انمول سرمایہ ہے۔
سوال: حریت رہنماؤں میں اختلافات کی باتیں سنائی دے رہی ہیں ۔ کیا کہیں گے ؟
سید علی گیلانی: یہ الزام بھارت کا وہ طبقہ دے رہا ہے جس کو کشمیر کے حوالے سے حقائق بیان کرنے سے اپنی کرسی خطرے میں نظر آرہی ہے، ورنہ خود بھارت کے صحافی حضرات اور دانشوروں نے اس بھونڈی اور گھسی پٹی دلیل کو زمینی صورتحال کی ٹھوس بنیادوں پر یکسر مسترد کردیا ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو چونکہ حقائق اور سچ راس نہیں آرہا ہے اس لیے وہ اپنے جھوٹ، مکر اور فریب کی بنیادوں پر ایسے من گھڑت الزامات منظر عام پر لارہا ہے، جس کو حقیقت کی دنیا کے ساتھ دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔
سوال: پاکستان کی جانب سے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے کہاں تک ساتھ تعاون کیا جاتا ہے ؟
سید علی گیلانی: پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے عرصہ دراز سے سیاسی، سفارتی اور اخلاقی تعاون دے رہا ہے۔ ایک خود مختار ملک ہونے کے ناتے ان کی اپنی ترجیحات ہیں۔ جہاں تک ہمارے نقطۂ نظر کا تعلق ہے اس کے مطابق مسئلہ کشمیر، کشمیر کے لیے ہی نہیں بلکہ خود بھارت اور خاص کر پاکستان کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اس لیے اس کے حل کے لیے جو بھی سنجیدہ اور ٹھوس کوشش کرے گا وہ اس کے اپنے بھی مفاد میں ہے۔
سوال: کیا پاک ، چین اقتصادی راہداری سے خطے کے حالات کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں ؟۔ اس منصوبے سے جموں و کشمیر پر کیا اثرات دیکھتے ہیں ؟
سید علی گیلانی: پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کی معیشت کے لیے دوررس نتائج کی حامل ہے۔ یہ پروجیکٹ چونکہ ہمارے سینے پر سے بھی گزرتا ہے اس لیے ہمیں بھی اس بارے میں بات کرنے (باقی صفحہ 9 نمبر 2)
کا اخلاقی اور قانونی حق ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان سے گزرنے کی اجازت اس عملی تعاون سے مشروط ہونی چاہیے جس کے مطابق چین اپنے ذرائع اور وسائل سے اس دیرینہ مسئلہ کے حل کے لیے کوئی عملی اقدام کرنے کا مکلف ٹھہرایا جاتا۔
سوال: دیکھنے میں آیا ہے حریت رہنماؤں کی جانب سے کشمیر تنازعہ کو موثر انداز میں عالمی سطح پر نہیں اٹھایا گیا ۔ کیا وجہ ہے ؟
سید علی گیلانی: اکثر حریت راہنما یا تو جیلوں یا پھر گھروں میں نظربند ہیں اور جو باہر ہیں اُن کے پاس سفری دستاویز نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی سطح پر اُن کی موجودگی محسوس نہیں کی جارہی ہے۔ اس کے باوجود ذرائع ابلاغ اور باقی مواصلاتی نظام کی بدولت پوری دنیا کو یہاں کی صورتحال کے حوالے سے باخبر رکھنے کی پوری کوشش کی جاتی ہیں۔
سوال: اسلامی کانفرنس تنظیم ) oic ) کی جانب سے تنازعہ کشمیر کیلئے کئے جانے والے اقدامات کو کس طرح دیکھتے ہیں اور ان میں مزید بہتری آپ کے خیال میں کس طرح لائی جاسکتی ہے ؟
سید علی گیلانی: او آئی سی کا کردار کشمیر کے حوالے سے ہی نہیں، بلکہ پوری ملت کے حوالے سے غیر موثر رہا ہے۔ خلیجی ممالک میں شہروں کے شہر کھنڈرات میں تبدیل کئے جارہے ہیں۔ انسانوں کو زندہ درگور کرنے کی کارروائیاں اپنے عروج پر ہیں۔ دوسرے ممالک اپنے مفادات کے لیے انہیں ایک دسرے سے لڑانے کا سامان فراہم کررہے ہیں، لیکن او آئی سی خوابِ غفلت سے بیدار ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے بھی کاغذی گھوڑے دوڑانے کے علاوہ کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھایا نہیں گیا ہے، کیونکہ بھارت جیسی بڑی اقتصادی منڈی کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے لیے یہ لوگ تیار نہیں ہیں، ورنہ اس ادارے کی منصبی ذمہ داری بنتی تھی کہ کشمیر سمیت تمام امت کی چیخ وپکار اور آہ وبکا پر سنجیدگی سے غور کرنے کا فریضہ انجام دیا جاتا۔
سوال: بیرون ملک خاص کر سعودی عرب میں مقیم کشمیریوں اور پاکستانی کمیونٹی کو کیا پیغام دیں گے ؟
سید علی گیلانی: باہر کے ممالک میں مقیم کشمیریوں اور پاکستان پر یہ اخلاقی اور ملی ذمہ داری ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایک اہم اور موثر کردار ادا کریں۔ وہ ایک سفیر کی حیثیت سے اس دیرینہ مسئلے کے حق میں اپنی استطاعت کے مطابق مدد کریں۔ یہاں کے زمینی حقائق اور لوگوں کے مصائب اور مشکلات سے عوام کو باخبر کریں۔
سوال: بھارت ریاست میں پنڈتوں کو لا کر بسا رہا ہے ان اس کی ک یا قانونی حیثیت ہے؟
سید علی گیلانی: پاکستان سے آئے ہوئے مہاجرین کو یہاں آباد کرنے کی مہم کی ہر سطح پر مزاحمت کا کام جاری ہے۔ یہاں موجود قوانین کے مطابق بھی ریاست کے پشتنی باشدوں کے بغیر کسی کو بھی یہاں آباد نہیں کیا جاسکتا ہے اور بھارت اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اپنے ہی قانون کو پاؤں تلے روند کر ان شرنارتھیوں کو یہاں بساکر اپنے ’’ہندوتوا‘‘ کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاکہ 1947 ؁ء کی طرح ایک بار پھر یہاں کی آبادی کے تناسب کو اپنے موافق بناکر اس پوری ریاست کو ہڑپنے کی تیاری کریں۔
سوال: استصواب رائے میں کون لوگ حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں؟
سید علی گیلانی: استصواب رائے میں رائے دہندہ کا حق صرف اور صرف ریاست جموں کشمیر کے پشتینی باشندوں کو ہی ہے۔ اس لیے ایسی کوئی بھی کوشش عالمی اور بین الاقوامی اصولوں اور قوانین کی سریحاً خلاف ورزی ہوگی جس کو کسی بھی صورت میں برادشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔

سوال: گزشتہ برسوں میں کشمیر کی آزادی کے کتنے مواقع ملے جن سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا؟
سید علی گیلانی: ایسے کئی مواقع آئے، لیکن بھارت کی ضد اور ہٹ دھرمی اور طاقت کے نشے نے ان مواقع سے اس رستے ہوئے ناسور کو حل کرنے کی کسی بھی کوشش کو سبوتاژ کیا اور آج 70سال گزرنے کے باوجود اس کے اس ظالمانہ، سفاکانہ اور استعماری حربوں میں کوئی کمی محسوس نہیں ہورہی ہے۔