March 29th, 2024 (1445رمضان19)

۵ فروری یوم یکجہتی کشمیر

محمد اقبال خلیل

ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز انسٹی ٹیوٹ آف ریجنل اسٹڈیز پشاورفروری یوم یکجہتی کشمیر
 ۵فروری کا دن ایک بار پھر آپہنچا ۔یوم یکجہتی کشمیر پورے ملک میں ایک نئے جوش و جذبے سے منانے کا دن ہے ۔ اس بار 5فروری کی ایک نئی اہمیت ایک نیا احساس ،تازہ تازہ کشمیری نوجوان کے خون سے معطر دن ہوگا۔ نوجوان مجاہد آزادی برہان وانی نے گزشتہ سال تحریک آزادی کشمیر کو ایک نیا آہنگ دیا ایک نئی جہت عطا کی ایک نئی روح پھونک دی ۔ اس خوبصورت آنکھوں والے حسین و جمیل نوجوان نے کشمیر یوں میں ایک نئی زندگی کا جذبہ پیدا کر دیا اور وہ موت کو خوبصورت سمجھنے لگے ۔ موت ان کے لیے محبوب عمل بن گئی جس نے ان کو ہندو ستانی فوج کے ڈر اور خوف سے آزاد کر دیا ۔ جب 27سال پہلے 1990میں پاکستان کے ایک مرد مجاہدقاضی حسین احمدؒ نے 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا تھا اور پورے پاکستان میں ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کشمیر یوں سے دوستی اور یگانگت کا ایک فقید المثال مظاہرہ پیش کیا تھا تو ان کو بھی یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ایک ایسی تحریک کو جنم دے رہے ہیں جس کو سینچنے کے لیے اورتازہ کرنے کے لیے ایک خوبصورت نوجوان برہان وانی ایک دن اپنے لہو کا نذرانہ پیش کرے گا۔ قاضی حسین احمد ؒ اب اس دنیا میں نہیں رہے ۔ وہ اور برہان وانی دونوں جنت پہنچ چکے ہیں اور جنت کی خوبصورت وادیوں میں اللہ کی کبریائی کی صدائیں بلند کر رہے ہیں لیکن کشمیر کے لوگ اسی جذبہ شہادت سے سرشار نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے آزادی کے لیے تن من دھن کی قربانی پیش کر رہے ہیں اور ہندوستان اپنی لاکھوں مسلح فوج کے ہوتے ہوئے بھی حیران و پریشان ہے ۔ اس کے فوجی سوشل میڈیا پر اپنی بے بسی اور تنگدستی کی دہانیاں دے رہے ہیں۔ جنگ سے بیزاری کا اعلان کر رہے ہیں ۔ اپنی جلی ہوئی روٹیاں اور پتلی دال دکھا کر دنیا کو بھارتی سرکار کا اصلی چہرہ دکھا رہے ہیں جو خود اپنے غریب سپاہیوں کو پوری روٹی کھلانے سے بھی قاصر ہے۔وہ ان کو سنگدلی اور بربریت کے مظاہرے کے لیے تو گنیں اور گولیاں وافر مقدار میں فراہم کرتے ہیں لیکن پیٹ بھرنے کے لیے کھانا فراہم نہیں کر سکتے ۔ یہ ہے صورتحال ریاست جموں و کشمیر کی جس پربھارتی قبضے کو اب 70سال کا عرصہ ہو چکا ہے ۔
مقبوضہ جموں وکشمیر جو مسلمان اکثریت کا علاقہ ہے بلکہ یہ متنازع علاقہ گزشتہ 70سال سے بھارت اور پاکستان کے درمیان اگر ایک جانب چار جنگوں کا باعث بن چکا ہے تو دوسری جانب یہی وہ بنیادی ایشو ہے جو دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی فلیش پوائنٹ بھی بن چکا ہے۔1947-48میں کشمیر میں ایک غیر اعلانیہ جنگ لڑی گئی جس میں ڈوگرہ مہاراجہ کی جانب سے کشمیر کے ہندوستان سے ادغام کا اعلان ہونے کے باوجود ایک بڑے حصے کو آزاد کروالیا گیا ۔ 1965میں ایک بار پھر کشمیر ہی کے مسئلہ پر 17روز ہ جنگ لڑی گئی جس میں پاکستان نے اپنا کامیاب دفاع کر کے ہندوستانی حملے کو پسپا کیا ۔ پھر 1971میں مشرقی پاکستان کی بنیاد پر ایک جنگ پاکستان پر مسلط کی گئی جس میں پاکستان کو شدید نقصان کا سامنا کرنا پڑا اور مشرقی بازو کھونے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود پوری پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور ہمارے 90ہزار فوجی جنرل نیازی کی قیادت میں لڑنے کی بجائے ہندوستانی کیمپوں میں اسیر ہو گئے ۔اس وقت بھی مغربی محاذ پر جنگ کشمیر ہی میں لڑی گئی تھی ۔
1971کے بعد بھی کئی مرتبہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان چھوٹی سطح پر جنگیں ہوئی ہیں جن میں دنیا کا بلند ترین محاذ سیاچین گلیشیر اور کشمیر کا حساس ترین علاقہ کارگل شامل ہیں۔ لہٰذا کشمیر کی مخصوص پوزیشن اور اس میں مسلمانوں کی غالب اکثریت نیز یہاں کے مسلمانوں کی بھارت کے غاصبانہ قبضے سے نجات اور حق خود اختیاری کے حصول کی جدوجہد بھارتی جنتا پارٹی جیسی ہندوانتہاپسند جماعت کے لیے ہضم کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتناکہ بعض لوگوں کا خیال ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی جنتا پارٹی اور خاص کر وزیر اعظم نریند مودی کی دلچسپی بلاوجہ نہیں ہے ۔ ان کی اس دلچسپی کے پیچھے اصل محرک اکھنڈ بھار ت اور ہندوستان کو صرف ہندوؤں کا ملک قرار دینے کی انتہاپسندانہ سوچ کا کارفرما ہوناہے ۔ بی جے پی کی ہندوانتہا پسندانہ سوچ اور پالیسیوں کا اندازہ بی جے پی کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے عرصہ اقتدار 1999-2004میں مقبوضہ کشمیر کی بھارتی آئین کے آرٹیکل 370کے تحت حامل خصوصی حیثیت کے خاتمے کی مہم چلانا تھا ۔ واضح رہے کہ مذکورہ آرٹیکل میں مقبوضہ کشمیر کو نہ صرف دیگر بھارتی ریاستوں سے علیحدہ خصوصی سٹیٹس دیا گیا ہے بلکہ اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ جموں و کشمیر کو الگ سے اپنا آئین بنانے اور اس آئین کے تحت اپنا نظام حکومت چلانے کی اجازت اور آزادی بھی دی گئی ہے ۔ بی جے پی نہ صرف مقبوضہ جموں و کشمیر کے اس خصوصی آئینی کردار کو ختم کرنا چاہتی ہے بلکہ مختلف ریاستی ہتھکنڈوں کے ذریعے یہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت کی شرح کو بھی تبدیل کرنے کی خواہشمند ہے ۔
مقبوضہ کشمیر میں یہ بی جے پی کی خصوصی دلچسپی کا اظہار ہی ہے کہ سال 2014میں یہاں ہونے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی نے سب سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے اور نتائج کو اپنے حق میں موڑنے کے لیے پارٹی وسائل کے ساتھ حکومتی وسائل کا بھی بے درریغ استعمال کیاگیا جس کے خلاف اپوزیشن کی صدائے بازگشت مقبوضہ کشمیر کے علاوہ بھارتی پارلیمنٹ میں بھی سنی گئی ۔ بی جے پی اور خصوصاً نریندر مودی کی مقبوضہ کشمیر میں اس غیر معمولی دلچسپی کے ڈانڈے دراصل اس انتہا پسند ہندو جماعت اور اس کے وزیر اعظم نریندر مودی کی اسلام اور مسلمان دشمن سوچ سے ملتے ہیں جو اس جماعت اور اس کے قائدکے فلسفہ سیاست کی بنیاد ہیں ۔وزیر اعظم نریندر مودی نے ان انتخابات میں جموں و کشمیر کو بھی فتح کرنی کی ٹھانی تھی ۔ ریاستی انتخابات میں پوری مرکزی حکومت اپنے لاؤ لشکر سمیت کو د پڑی تھی ۔ لداخ اور جموں کے ہندوؤں کو ساتھ لے کر کشمیری مسلمانوں کو خریدنے کے لیے ہر ممکن حربہ استعمال کیا گیا۔ وزیر اعظم مودی نے خود ریاستی اسمبلی کے انتخابات کے لیے پارٹی کی انتخابی مہم کی قیادت کی ۔ مسلم نمائندوں کو کھڑا کیا گیا اور ان کو بھاری پارٹی فنڈز دیے گئے لیکن کشمیری مسلمانوں نے حریت کانفرنس کی قیادت میں اس مہم کو ناکام بنادیا ۔ ویسے تو حریت کانفرنس نے حسب سابق ریاستی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے بی جے پی کی سازش ناکام بنانے کے لیے ووٹروں کو اس کے خلاف ووٹ ڈالنے کی لائن دی جس کی وجہ سے 70فیصدسے ذائد ووٹ بی جے پی کے نمائندوں کے خلاف استعمال ہوئے اور وہ پہلی پوزیشن حاصل نہ کر سکے ۔
5فروری 2015سے 2016 تک کی تحریک آزادی کشمیر کا جائزہ لیں تو یہ دنیا میں جدوجہد آزادی کی تحریکوں کا ایک تابناک باب ہے جس میں نوجوان شہید برہان وانی کی شخصیت و کردار اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر نظر آتی ہے۔
14ستمبر1994 کو ایک اسکول کے استاد مظفر احمد وانی کے گھر پیدا ہونے والے بچے نے 8جولائی 2016کو جام شہادت پی کر قربانی کی ایک لازوال داستان رقم کی ۔ وہ 2010میں 15سال کی عمر میں گھر سے نکل کر میدان جہاد میں جاپہنچا ۔ 2011میں وہ حزب المجاہدین میں شامل ہوا اور کچھ ہی عرصے میں اپنی دلیری ، بہادری اور حکمت و فراست کی وجہ سے کمانڈر بن گیا ۔ اس کا کمال یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو نہیں چھپایا بلکہ سوشل میڈیا کو استعمال کر کے جہاد آزادی کو کشمیر کے گھر گھرپہنچا دیا اور کچھ ہی عرصے میں وہ کشمیریوں کی آنکھوں کا تار ا بن گیا ۔ کشمیری مائیں اور بہنیں اس کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتی تھیں۔ دادسرہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے اس نوجوان نے پلوامہ ضلع کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی کاروائیوں میں حصہ لیا اور بھارتی قابض فوجیوں پر تابڑ توڑ حملے کئے ۔ بھارتی حکومت نے اس کی سرگرمیوں سے تنگ آکر اس کے سر کی قیمت 10لاکھ روپے مقرر کی ۔ لیکن وہ اس سے خوف کھانے کی بجائے مزید دلیر ی سے کاروائیاں کرنے لگا۔ جب یکم جولائی2016 کو اس نے اپنی ایک تصویر 10دیگر ساتھیوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے فیس بک پر Uploadکی تو بہت جلد وہ پورے کشمیر میں Viral ہوگئی ۔ اس نے اپنی کاروائیوں اور اپنے جیسے دیگر نوجوانوں کو فوجی تربیت حاصل کرتے ہوئے دکھایا اور کشمیر ی نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ میدان جنگ میں اس کا ساتھ دیں جس کا کشمیری نوجوانوں پر بہت اثر ہوا۔ اس نے کہا کہ ہمیں صرف ہندوستانی قابض فوجیوں پر حملے کرنے چاہئیں اور کشمیری پولیس یا اہلکاروں کو ہدف نہیں بنانا چاہیے ۔ اس نے کشمیری پنڈتوں (ہندؤؤں )کو دعوت دی کہ وہ واپس آکر اپنے علاقوں میں رہیں ان کو کچھ نہیں کہا جائے گا ۔ بالآخر 8جولائی کو جب برہان وانی ایک اور کمانڈر سرتاج احمد شیخ اور پرویز احمد لشکری کے ساتھ کھوکھر ناگ کے گاؤں بھمدورہ میں موجود تھا تو مخبروں کی اطلاع پر ان کا محاصرہ کر لیا گیا اور فوج 19راشتریہ رائفلز نے ان کے خلاف کاروائی کر کے تینوں مجاہدین کو گھیرے میں لے کر شہید کر دیا ۔ پہلے خود فوجیوں کو بھی برہان وانی کا پتہ نہیں تھا لیکن جب کی میت کو پہچان لیا گیا تو خبر پھیل گئی تو پورا گاؤں نکل آیا اور انہوں نے فوجیوں پر پتھراؤ کیا اور کیمپ کا گھیراؤ کر لیا۔
9جولائی 2016کو برہان مظفر وانی کا جنازہ وادی کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا جس میں لاکھوں کشمیری شریک ہوئے ۔ مردوں کے ساتھ ساتھ لاکھوں خواتین بھی جنازے میں شریک تھیں۔ پورے کشمیر میں سوگ منایا گیا ۔ ہزاروں مقامات پر غائبانہ نماز جنازہ ہوئے برہان وانی کی شہادت نے مقبوضہ کشمیر کی بھارت نواز قیادت کی صفوں میں دراڑیں پیدا کر دی ۔ بر سر اقتدار پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما مظفر حسین بیگ نے مطالبہ کیا کہ اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنایا جائے کیونکہ اس حملے کے لیے طے شدہ طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا جس میں محاصرہ کرنے کے بعد ایک موقع دیا جاتا ہے کہ جنگجو اپنے آپ کو حوالے کردیں۔
سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ شیخ نے اپنے بیان میں کہا کہ اب کشمیریون کو برہان وانی کی صورت میں ایک نیا ہیرو مل گیا ہے اور مردہ (شہید)وانی ، زندہ وانی سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔
پاکستان کے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے بھی 16جولائی کو اپنے ایک بیان میں برہان وانی کی شہادت پر صدمے کا اظہار کیا اور اس کو شہید کشمیر قرار دیا ۔ انہوں نے 21ستمبر کو اقوام متحدہ کی جرنل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے بھی برہان وانی کا ذکر کیا اور اس کی شہادت کو ایک کشمیری نوجوان لیڈر کا قتل قرار دیا اقوام متحدہ میں پاکستان سفیر ملیحہ لودھی نے بھی برہان وانی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اس کو کشمیری انتقاضہ کا نوجوان رہنما قرار دیا ۔ اس طرح برہان وانی بین الاقوامی سطح پر بھی کشمیر کی جدوجہد آزادی کا ایک ہیرو اور سمبل قرار دیا ۔
8جولائی 2016کو برہان وانی کی شہادت سے اٹھنے والی تحریک نے کشمیر پر بھارتی قبضے اور اقتدار اعلیٰ کے دعوے کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ 250سے زیادہ شہادتوں اور ہزاروں کشمیری زخمی ہونے کے باوجود جس پامردی سے بھارتی قابض فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں اس نے پہلی مرتبہ عام بھارتیوں کو بھی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ وہ اخلاقی طور پر کشمیر میں شکست کھا چکے ہیں اور اب ان کو قضیہ کشمیر کے حل پر بات کرنی ہوگی ۔
بالعموم بھارتی کشمیر کے موضوع پر بات نہیں کرتے ۔ اگر آپ ان کے ساتھ گفتگو میں کشمیر کا حوالہ دیں تو یا تو وہ چراغپا ہو کر سخت جواب دیتے ہیں یا پھر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں ۔ بین الاقوامی کانفرنسوں میں یا پاکستان میں جب بھی میر ابھارتی باشندوں سے واسطہ پڑا ہے میں نے ذاتی طور پر بھی یہ بات نوٹ کی تھی کہ وہ کشمیر کے موضوع پر بالکل بات نہیں کرنا چاہتے ۔ لیکن اب ایسا ممکن نہیں رہا ۔ اب ان کے برقی چینلوں میں یہ بھی گفتگو کا موضوع بن چکا ہے۔ ان کے کئی دانشورتو کھل کر کشمیر یوں کو ان کا حق خود ارادیت دینے کی حمایت کر چکے ہیں جب کہ عام طور پر ان کے لکھاری اور اینکر پرسن پاکستان کو مورد الزام قرار دے کر سارا ملبہ اس پر گرانے کی کوشش کر تے ہیں ۔ موجودہ تحریک کے مقامی ہونے اور خالصتاً کشمیری بنیاد پر اٹھنے کی حقیقت اتنی واضح ہے کہ پاکستان میں بھی لبرل اور سیکولر لابی جو بالعموم بھارت نواز ہے اور ہندوستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی شدید خواہش رکھتی ہے ۔ اب کشمیر یوں کی طرفداری اور ان کی مرضی سے مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کر رہی ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ اب بھی ان لوگوں کو کشمیریوں کی پاکستان سے محبت بھلی نہیں لگتی ۔ ہزاروں کشمیریوں کے مجمع میں سینکڑوں پاکستانی پرچم جو انہوں نے اپنے ہاتھو ں سے گھروں میں بنا کر اٹھائے ہوتے ہیں وہ ا ن کو نظر نہیںآتے ۔ چکوال کے مشہور مذہب بیزار لکھاری ایاز امیر اب بھی لکھتے ہیں کہ جو لوگ کشمیریوں کی تحریک کو پاکستان کے حق میں قرار دیتے ہیں وہ احمق ہیں۔ لیکن بہر کیف یہ لوگ مجبوراً اقرار کرتے ہیں کہ کشمیریوں کی تحریک میں جان ہے ، وزن ہے اور اس کو اب سنجیدگی سے لیناہوگا۔ حالانکہ یہ امر تو بار بار ثابت ہو چکا ہے کہ چاہیے پاکستان کتنا ہی گرا پرا ہو،کمزور اور ناتواں ہو اپنی تخلیق کے مقصد کو بھلا چکا ہو لیکن کشمیریوں کی اس سے محبت لازوال ہے ۔ وہ جب پاکستان کا جھنڈا اٹھا کر نعرہ تکبیر بلند کرتے ہیں تو وہ تحریک پاکستان کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی موت کو دعوت دیتے ہیں ۔ اپنی جان خطرے میں ڈالتے ہیں کیونکہ بھارتی فوجیوں کے لیے اس سے بڑھ کر اشتعال انگیز حرکت کوئی اور انہیں ہو سکتی لیکن کشمیری نوجوان اس سے بے نیاز ہو کر ،جذبہ جہاد سے سر شار ہو کر یہ حرکت کرتے ہیں۔بھارتی قابض فوج نے کشمیریوں کے جذبوں کو پست کرنے اور ان کی تحریک کو کچلنے کے لیے ایک نیا حربہ استعمال کیا ،ایک نئی گن ایجا د کی اور اس کا بے دریغ استعمال کیا ۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد اٹھنے والی عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے ایک نیا حربہ استعمال کیا گیا۔ اس شاٹ گن کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کے کارتوس میں چھوٹے چھوٹے دھاتی چھرے ہوتے ہیں ۔ جن کی تعداد 100سے زائد ہوتی ہے ۔
یہ چھرے قریب سے لگتے ہیں تو کپڑوں کو پھاڑتے ہوئے جسم میں گھس جاتے ہیں اور بے پناہ تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ ان چھروں کو انسانی جلد اور عضلات کے اندر سے نکالنا عملاً ممکن نہیں ہوتا اور یہ مستقل تکلیف دیتے ہیں ۔ اگر یہی چھرے چہرے پر لگ جائیں تو بھی جلد کو چیرتے ہوئے اندر گھس جاتے ہیں اور اگر آنکھ پر لگ جائیں تو اس کو ناقابل علاج نقصان پہنچاتے ہیں اور مجروح بصارت سے محروم ہو جاتا ہے ۔ اب تک سینکڑوں کشمیری اس گن کا شکار ہو چکے ہیں اور ایک بھیانک اذیت سے دو چار ہیں اس میں وہ بچے اور بچیاں بھی شامل ہیں جو اپنے گھروں میں تھے اور اچانک اس گن کا ہدف بن گئے اور معذوری سے دو چار ہو گئے ۔ چھروں والی اس گن کا استعمال اس سے پہلے 2010کی عوامی تحریک کے خلاف بھی کیا گیا تھا لیکن پھر مقامی و عالمی رد عمل کے بعد اس کو ترک کر دیا گیا ۔
یہ محض اتفاق ہے کہ اس وقت کشمیر رہنما محبوبہ مفتی مقبوضہ کشمیر کی نام نہاد اسمبلی میں اپوزیشن رہنما تھیں اور انہوں نے اس ظالمانہ اقدام پر سخت احتجاج کیا تھا اور اب وہی محبوبہ صاحبہ مقبوضہ جموں و کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ہیں لیکن انھی کے دور اقتدار میں کشمیریون پر وہی چھروں والی بندوق استعمال کی جارہی ہے ۔ بییسیوں بچے بچیاں اپنی بینائی کھوچکے ہیں ،سینکڑوں سخت زخمی حالات میں ہسپتال میں میں پڑے ہوئے ہیں لیکن بھارتی ایجنٹوں کو یہ توفیق نہیں ہو پا رہی کہ وہ اپنی پولیس کو اس کے استعمال سے منع کر سکیں۔
کشمیر ی نوجوانوں اور بچوں کو چہرے پر چھروں والی بندوق کے مارنے سے جس اذیت کا سامنا ہے کشمیر ی اور پاکستانی بلاگر ز نے مل کر سماجی میڈیا پر ایک عجیب انداز میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا ہے ۔ انہوں نے مشہور عالمی، بھارتی وپاکستانی شخصیات کی تصاویر کو فوٹو شاپ سے گزار کر چھروں سے زخمی دکھانا شروع کیا کہ کیا خیال ہے کہ اگر کشمیری بچوں کی جگہ آپ کے ساتھ یہ عمل ہوتا تو آپ کیسے نظر آتے ۔ نریندر سنگھ مودی ، سونیا گاندھی ، امیتابچن اورشاہ رخ خان سے لے کر پاکستانی وزیر اعظم میاں نواز شریف اور فیس بک کے بانی مارک ذکر برگ کو اس عمل سے گزارا گیا اور ان کی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر فیس بک کی زینت بنیں پوری دنیا میں اس سلسلہ کو مقبولیت حاصل ہوئی اور کروڑوں کی تعداد میں اس کو شےئر کیا گیا ۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک مسلسل قربانیوں اور بھارتی فوج کے مظالم پر جو رد عمل پاکستان میں ہونا چاہیے تھا وہ نظر نہیں آیا ۔ عوامی سطح پر جماعت اسلامی نے سرگرمیاں دکھائی ہیں اور جلسوں ،مظاہروں اور ریلیوں کا اہتمام کیا ۔ بعض دیگر جماعتوں کے قائدین بشمول بلاول بھٹو نے کشمیر یوں کے حق میں بیانات دئیے لیکن ٹھوس صورت میں اقدامات نہیں کئے گئے ۔ اصل کام بین الاقوامی سطح پر سفارتکاری ہے ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستانی سفارتی حلقے کشمیر کے مسئلہ پر عالمی رائے عامہ میں آگہی پیدا کریں اور بھارتی مظالم اور کشمیری عوام کے جذبات و احساسات کو زبان دیں ۔ اگر پاکستانی سفارتخانے پوری دنیا میں اس مسئلہ کو نمبر ون ترجیح دیکر اس مقصد کے لیے کام کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر یوں کو عالمی فورمز میں اپنا حق نہ ملے اور وہ اپنا کیس خود لڑنے کی پوزیشن میں آجائیں گے۔ اگر دنیا واقعتاً عالمی امن کی خواہاں ہے اور دہشت گردی کے بنیادی اسباب کا سد باب چاہتی ہے تو اس کو دو مسئلے لازماً حل کرنے ہوں گے ۔ ایک مسئلہ فلسطین اور دوسرا مسئلہ کشمیر ۔ یہ دو ایسے رستے ہوئے ناسور ہیں جن کے علاج کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں ہو سکتا ۔ طاقت اور بد معاشی سے قوموں کو نہیں دبا یا جا سکتا ۔ عدل و انصاف کے تقاضے پورے کر کے ہی مسائل حل ہوں گے ۔ اس اصول کو جتنی جلد قبول کر کے تسلیم کر لیا جائے اور بروئے کار لایا جائے اتنی جلد ہی ہم عالمی امن کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکتے ہیں۔
اس بار 5فروری کو ایک قابل افسوس اقدام جماعتہ الدعوۃکے قائد اور جہاد کشمیر کے ایک بڑے پشتیباں حافظ سعید کی نظر بندی ہے ۔ بین الاقوامی دباؤ اور بھارتی لابی کے ایماء پر اس قسم کی کاروائی کشمیریوں کو ایک غلط پیغام دینا ہے ۔ کشمیر ی حریت رہنما تو پہلے بھی حکومت پاکستان کے کردار سے شاکی ہیں اور بر ملا اس کا اظہار بھی کرتے ہیں ۔یوم یکجہتی کشمیر سے چند روز پہلے جماعتہ الدعوۃ کے خلاف کاروائی اور حافظ سعید کی نظر بندی کا اعلان کیا معنی رکھتا ہے ۔ دوسری طرف بھارت اپنے سخت موقف سے ایک انچ بھی ہٹنے کا ارادہ نہیں رکھتا ۔ اس نے کشمیریوں کو خیر سگالی کا معمولی سا اشارہ بھی نہیں کیا بلکہ وہ مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کے ذریعے آزاد کشمیر کے شہروں کی زندگی کو مشکلات کا شکار کیا ہے ۔اب بھی سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دے رہا ہے ۔ ہماری بہادر فوج اور کشمیری عوام مسلسل اس کی زیادتیوں کا جواب دے رہے ہیں تو ہم کیوں کمزور پڑ رہے ہیں۔ کشمیر پر ہمار ا موقف مبنی بر انصاف ہے ۔ پوری کشمیر ی قوم آزادی کے لیے بے چین ہے ۔ قربانیاں پیش کر رہی ہے تو ہم کیوں کمزوری دکھائیں۔ یہ بات حکومت کو سمجھنی ہو گی اور پاکستانی قوم کو اس نکتے پر اپنی توجہ مرکوز کرنی ہو گی یہی 5فروری کا پیغام ہے ۔