April 19th, 2024 (1445شوال10)

سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ۱ ۔ تفہیم القرآن

یہ وہی واقعہ ہے جو اصطلاحاََ ’’معراج‘‘ اور ’’اِسراء‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اکثر اور معتبر روایات کی رو سے یہ واقعہ ہجرت سے ایک سال پہلے پیش آیا۔حدیث اور سیرت کی کتابوں میں اس وقعہ کی تفصیلات بکثرت صحابہؓ سے مروی ہیں جن کی تعداد ۲۵ تک پہنچتی ہے۔ان میں سے مفصل ترین روایات حضرت انس بن مالکؓ ، حضرت مالک بن صعصعہؓ، حضرت ابو ذر غِفاریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہیں۔ان کے علاوہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ، حضرت عبداللہ بن عباسؓ،حضرت ابو سعید خُدریؓ،حضرت حُذیفہ بن یمان ،ؓ حضرت عائشہؓ اور متعدد دوسرے صحابہؓ نے بھی اس کے بعض اجزاء بیان کیے ہیں۔

قرآن مجید یہاں صرف مسجد حرام(یعنی بیت اللہ)سے مسجد اقصٰی(یعنی بیت المقدس) تک حضور کے جانے کی تصریح کرتا ہے اور اس سفر کا مقصد یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اپنی کچھ نشانیاں دکھانا چاہتا تھا۔ اس سے زیادہ کوئی تفصیل قرآن میں نہیں بتائی گئی۔حدیث میں جو تفصیلات آئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ رات کے وقت جبریل ؑ آپ کو اُٹھا کر مسجد حرام سے مسجد اقصٰی تک ئراق پر لے گئے۔وہاں آپ نے انبیاء ؑ کے ساتھ نماز ادا کی۔پھر وہ آپ کو عالمِ بالا کی طرف لے چلے اور وہاں مختلف طبقات سماوی میں مختلف جلیل القدر انبیاء سے آپ کی ملاقات ہوئی۔آخر کار آپ انتہائی بلندیوں پر پہنچ کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے اور اس حضور ی کے موقع پر دوسری اہم ہدایات کے علاوہ آپ کو پنج وقتہ نماز کی فرضیت کا حُکم ہوا۔اس کے بعد آپ بیت المقدس کی طرف پلٹے اور وہاں سے مسجد حرام واپس تشریف لائے۔اس سلسلے میں بکثرت روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جنت اور دوزخ کا بھی مشاہدہ کرایا گیا ہے۔ نیز معتبر روایات یہ بھی بتاتی ہیں کہ دوسرے روز جب آپ نے اس واقعہ کا لوگوں سے ذکر کیا تو کفار مکہ نے اس کا بہت مذاق اڑایا اور مسلمانوں میں سے بھی بعض کے ایمان متزلزل ہوگئے۔

حدیث کی یہ زائد تفصیلات قرآن کے خلاف نہیں ہیں بلکہ اس کے بیان پر اضافہ ہیں،ا ور ظاہر ہے کہ اضافے کو قرآن کے خلاف کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔تا ہم کوئی شخص ان تفصیلات کے کسی حصے کو نہ مانے جو حدیث میں آئی ہیں تو اس کی تکفیر نہیں کی جا سکتی، البتہ جس واقعے کی تصریح قرآن کر رہا ہے اس کا انکار موجب کفر ہے۔

اس سفر کی کیفیت کیا تھی؟ یہ عالم خواب میں پیش آیا تھا یا بیداری میں؟ اور آیا حضور بذاتِ خود تشریف لے گئے تھی۔ یا اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے محض روحانی طور پر آپ کو یہ مشاہدہ کرا دیا گیا؟ ان سوالات کا جواب قرآن مجید کے الفاظ خود دے رہے ہیں۔سبحٰن الذی اسری سے بیان کی ابتدا کرنا خود بتا رہا ہے کہ یہ کوئی بہت بڑا غارق عادت واقعہ تھا جو اللہ تعالیٰ کی غیر محدود قدرت سے رونما ہوا۔ ظاہر ہے کہ خواب میں کسی شخص کا اس طرح کی چیزیں دیکھ لینا ، یا کشف کے طور پر دیکھنا یہ اہمیت نہیں رکھتا کہ اسے بیان کرنے کے لئے اس تمہید کی ضرورت ہو کہ تمام کمزوریوں اور نقائص سے پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے کو یہ خواب دکھایا یا کشف میں یہ کچھ دکھایا۔ پھر یہ الفاظ بھی کہ ’’ ایک رات اپنے بندے کو لے گیا، جسمانی سفر پر صریحاً دلالت کرتے ہیں۔ خواب کے سفر ۔ یا کشفی سفر کے لئے یہ الفاظ کسی طرح موزوں نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا ہمارے لئے یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محض ایک روحانی تجربہ نہ تھا بلکہ ایک جسمانی سفر اور عینی مشاہدہ تھا جو اللہ تعالیٰ نے نبی کو کرایا۔

اب اگر ایک رات میں ہوائی جہاز کے بغیر مکہ سے بیت المقدس جانا اور آنا اللہ کی قدرت سے ممکن تھا، تو آخر ان دوسری تفصیلات ہی کو نا ممکن کہہ کر کیوں رد کر دیا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہیں؟ ممکن اور نا ممکن کی بحث تو صرف اس صورت میں پیدا ہوتی ہے جبکہ کسی مخلوق کے با ختیار خود کوئی کام کرنے کا معاملہ زیر بحث ہو۔ لیکن جب ذکر یہ ہو کہ خدا نے فلاں کام کیا، تو پھر امکان کا سوال وہی شخص اٹھا سکتا ہے جسے خدا کے قادر مطلق ہونے کا یقین نہ ہو۔ اس کے علاوہ جو دوسری تفصیلات حدیث میں آئی ہیں ان پر مفکرین حدیث کی طرف سے متعدداعتراضات کئے جاتے ہیں، مگر ان میں سے صرف دو ہی اعتراضات ایسے ہیں جو کچھ وزن رکھتے ہیں۔

ایک یہ کہ اس سے اللہ تعالیٰ کا کسی خاص مقام پر مقیم ہونا لازم آتا ہے ، ورنہ اس کے حضور بندے کی پیشی کے لئے کیا ضرورت تھی کہ اسے سفر کرا کے ایک مقام خاص تک لے جایا جاتا؟

دوسرے یہ کہ نبی کو دوزخ اور جنت کا مشاہدہ اور بعض لوگوں کے مبتلائے عذاب ہونے کا معائنہ کیسے کرا دیا گیا جبکہ ابھی بندوں کے مقدمات کا فیصلہ ہی نہیں ہوا ہے؟ یہ کیا کہ سراد جزا کا فیصلہ تو ہونا ہے، قیامت کے بعد اور کچھ لوگوں کو سزا دے ڈالی گئی ابھی سے؟

لیکن دراصل یہ دونوں اعتراض بھی قلت فکر کا نتیجہ ہیں۔ پہلا اعتراض اس لئے غلط ہے کہ خالق اپنی ذات میں بلا شبہ اطلاتی شان رکھتا ہے، مگر مخلوق کے ساتھ معاملہ کرنے میں وہ اپنی کسی کمزوری کی بنا پر نہیں بلکہ مخلوق کی کمزوریوں کی بنا پر محدود وسائط اختیار کرتا ہے۔ مثلاً جب وہ مخلوق سے کلام کرتا ہے تو کلام کا وہ محدود طریقہ استعمال کرتا ہے جسے ایک انسان سن اور سمجھ سکے، حالانکہ بجائے خود اس کا کلام ایک اطلاتی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ اپنے کو اپنی سلطنت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتا ہے تو اسے لے جاتا ہے اور جہاں جو چیز دکھانی ہوتی ہے اسی جگہ دکھاتا ہے، کیونکہ وہ ساری کائنات کو بیک وقت اس طرح نہیں دیکھ سکتا جس طرح خدا دیکھتا ہے۔ خدا کو کسی چیز کے مشاہدے کے لئے کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہوتی، مگر بندے کو ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خالق کے حضور باریابی کا بھی ہے کہ خالق بذات خود کسی مقام پر متمکن نہیں ہے، مگر بندہ اس کی ملاقات کے لئے ایک جگہ کا محتاج ہے جہاں اس کے لئے تجلیات کو مرکوز کیا جائے۔ ورنہ اس کی شان اطلاق میں اس سے ملاقات بندۂ محدود کے لئے ممکن نہیں ہے۔

رہا دوسرا اعتراض تو وہ اس لئے غلط ہے کہ موقع پر بہت سے مشاہدات جو نبی کو کرائے گئے تھے ان میں بعض حقیقتوں ک مثل کر کے دکھایا گیا تھا۔ مثلاً ایک فتنہ انگیز بات کی یہ تمثیل کہ ایک ذرا سے شگاف میں سے ایک موٹا سا بیل نکلا اور پھر اس میں واپس نہ جا سکا۔ یا زنا کاروں کی یہ تمثیل کہ ان کے پاس تازہ نفیس گوشت موجود ہے مگر وہ اسے چھوڑ کر سڑا ہوا گوشت کھا رہے ہیں۔اسی طرح برے اعمال کی جو سزائیں آپ کو دکھائی گئیں وہ بھی تمثیلی رنگ میں عالم آخرت کی سزاؤں کا پیشگی مشاہدہ تھیں۔

اصل بات جو معراج کے سلسلے میں سمجھ لینی چاہیے وہ یہ ہے کہ انبیاء علیہ السلام میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے ان کے منصب کی مناسبت سے ملکوتِ سمٰوات و ارض کا مشاہدہ کرایا ہے اور مادی حجابات بیچ میں سے ہٹا کر آنکھوں سے وہ حقیقتیں دکھائی ہیں جن پر ایمان بااغیب لانے کی دعوت دینے پر مامور کئے گئے تھے، تاکہ ان کا مقام ایک فلسفی کے مقام سے بالکل ممیز ہو جائے۔ فلسفی جو کچھ کہتا ہے قیاس اور گمان سے کہتا ہے، وہ کود اگر اپنی حیثیت سے واقف ہو تو کبھی اپنی کسی رائے کی صداقت پر شہادت نہ دے گا۔ مگر انبیاء جو کچھ کہتے ہیں وہ براہ راست علم اور مشاہدے کی بنا پر کہتے ہیں، اور وہ خلق کے سامنے یہ شہادت دے سکتے ہیں کہ ہم ان باتوں کو جانتے ہیں اور یہ ہماری آنکھوں دیکھی حقیقتیں ہیں۔