March 29th, 2024 (1445رمضان19)

حجاب

معراج بانو

حجاب کا مطلب عورتوں کو محض پردے میں چھپا دینا یا کال کوٹھری میں بند کردینا نہیں ہے، بلکہ پردہ اللہ کا دیا ہوا نظامِ معاشرت ہے جس میں عورت اور مرد دونوں کر رہنے سہنے، چلنے پھرنے، پہننے کے اصول بتائے گئے ہیں، مثلاََ شوہر کے سامنے کس طرح رہنا ہے، بھائیوں کے سامنے کس طرح رہنا ، کزنز کے سامنے کس طرح آنا ہے، اجنبی مرد کے سامنے کس طرح آنا ہے اور ان تمام لوگوں سے کس طرح بات کرنی ہے، کس سے کس لہجے میں بات کرنی ہے۔ پردہ صرف جسم کا نہیں ہوتا، آواز انداز سب کے طور طریقے اللہ نے بتائے ہیں۔ اور پردہ صرف مرد سے نہیں ہوتا، بعض خواتین بھی ایسی ہوتی ہیں جن سے پاکیزہ عورتوں کو پردہ کرنا چاہیے۔ اسلام کا پردہ قبائلی پردہ نہیں کہ عورت کو گناہ یا عیب کی طرح چھپایا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسلام کا پردہ برادریوں کا روایتی پردہ بھی نہیں کہ برادری کا مرد خواہ کسی بھی قماش کا ہو عورت اُسکے سامنے ہر حلیے میں آجائے اور برادری سے باہر کا مرد عورت کا الگنی پر لٹکا دوپٹہ بھی نہ دیکھے۔ پردہ اسلام میں سوچا سمجھا ضابطہ ہے اس لیےحالات کے مطابق اس میں کمی بیشی ہوتی ہے، مثلاََ حج کے دوران پردے کے مختلف احکامات ہیں، اسی طرح مختلف غزوات کے مواقع پر پردے کے احکامات میں عارضی تبدیلی کی گئی تھی۔

اللہ نے مرد اور عورت کو مختلف جسمانی ساخت اور مختلف صلاحیتیں عطا کی ہیں، ان ہی صلاحیتوں اور قوت کے مطابق اُن کی ذمہ داریاں اور دائرہٓ کار بھی مختلف ہیں۔ مرد محض مرد ہونے کی وجہ سے برتر نہیں ہے، اسی طرح عورت محض عورت ہونے کی وجہ سے کم تر نہیں ہے۔ دونوں کو اپنے کام کے مطابق حقوق حاصل ہیں اور فرائض کے مطابق اختیارات دیئے گئے ہیں۔

مغرب نے سیاست، معاش، معیشت، تعلیم، انصاف کے شعبوں میں تو خوب ترقی کی ہے، لیکن بے حیائی، بے عصمتی، فواحش اور بے نکاح تعلق نے اُن کے معاشرے کو حیوانوں کا جنگل بنادیا ہے۔ مغرب کے پاس اپنی اس سماجی اور معاشرتی پستی کا کوئی جواز ہیں ہے اور نہ ہی اس بے راہ روی کے سدھار کا اُنہیں کوئی راستہ سُجھائی دیتا ہے۔ اُن کے نامور لوگوں کا یہ عالم ہے کہ ہالی ووڈ کی مشہور اداکارہ انجیلینا جولی نے تین مردوں کے ساتھ تمام جوانی گزار کر بالآخر اپنے تیسرے دوست بریڈ پٹ کے ساتھ  برسوں بے نکاح رہنے کے بعد نکاح کرلیا ہے۔ دیکیھے یہ نکاحی تعلق کب تک رہتا ہے! بین القوامی نشریاتی اداروں کے ٹاک شوز دیکھ لیں، اکثر میں کئی خواتین اور ایک مرد ہوتا ہے۔ خواتین منی اسکرٹ اور ہر طرف سے شوکیس کی طرح کھلی ہوتی ہیں اور مرد جوتے موزے، کوٹ ٹائی کے ساتھ بیٹھا ہوتا ہے۔ دونوں کے لیے موسم ایک ہے، موحول ایک ہے لیکن کپڑے ایک دم الگ طرح کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ نفسیاتی عارضہ نہیں تو اور کیا ہ!

اللہ نے عورت کو بھی ایسا ہی انسان قرار دیا ہے جیسا مرد ہے۔

’’مرد جیسے عمل کریں گے، اُن کا پھل وہ پائیں گے اور عورتیں جیسے عمل کریں اُن کا پھل وہ پائیں گی۔‘‘(النساء)

مرد جسمانی لحاظ سے عورت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے، لہٰذا گھر کی معاش اور معیشت اس کے ذمہ ہے۔ گھر کی حفاظت اور گھر سے باہر کے معاملات نمٹانا مرد کی ذمہ داری ہے، جب کہ عورت کو اُس کی جسمانی ساخت کے اعتبار سے ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ اللہ نے عورت کو مرد سے زیادہ نرم اور محبت کرنے والا بنایا ہے۔عورت مرد کے مقابلے میں زیادہ صبر کرنے والی ہوتی ہے، لہٰذا بچوں کی پرورش کا صبر آزما کام اور اُن کی نگہداشت عورت کے ذمہ ڈالی گئی ہے۔ ذمہ ادریوں کی یہ تقسیم فطرت کے عین مطابق ہے، لہٰذا جانوروں پر بھی اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔

مغرب کا دعویٰ ہے اُس کے معاشرے میں عورت آزاد ہے، وہ جہاں چاہے جا سکتی ہے، جب، جیسا اور جتنا چاہے کپڑا پہن سکتی ہے، وہ سب کے سامنے نے حجاب آسکتی ہے اور سب اُس کو جی بھر کر دیکھ سکتے ہیں۔ مغرب میں عورت کی یہ آزادی دراصل اُس کی بربادی ہے۔ مغرب نے عورت کو بے لباس یا کم لباس اس لیے کیا کہ مرد اُسے دیکھ کر تسکین صاحل کریں،  عورت کو ائر ہوسٹس بنا کر مردوں کی خدمت پر لگا دیا گیا ہے، عورت کے جسم کی نمائش کو مصنوعات بیچنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے، موٹر سائیکل کی مشہوری کرنی ہو تو موٹر سائیکل سے زیادہ عورت کے جسم کی نمائش کی جاتی ہے، ٹریکٹر کا ٹائر بیچنا ہو تو نیم برہنہ عورت کو اس کے ساتھ کھڑا کر دیا جاتا ہے، مردوں کے استعمال کی شیونگ کریم اور شیونگ ریزر جیسی چیزوں کی شہرت کرنی ہو تو اس کے لیے بھی عورت کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مغربی معاشرے میں عورت کو ایک جیتا جاگتا اور احساس رکھنے والا انسان نہیں سمجھا جاتا بلکہ اُسے مرد کی ہوس کی تسکین اور مصنوعات کی مشہوری کا زریعہ بنا دیا گیا ہے اور اس سب پر بڑی عیاری کے ساتھ عورت کی آزادی کا غلاف چڑھا دیا گیا ہے۔ مغرب کی بے چاری عورت اسے مساواتِ مرد و زن اور اپنی آزادی سمجھتی ہے۔ مساوات کا یہ فارمولا افزائشِ نسل پر بھی نافذ ہونا چاہیے اور بچے کو جنم دینے کا کام بھی عورت اور مرد کو باری باری انجام دینا چاہیے۔

جرمنی، فرانس، تیونس، بیلجیم میں سر پر اسکارف لینے کو جرم بنا دیا گیا ہے۔ خواتین پردہ کرنا چاہتی ہیں انھیں پردہ کرنے سے روکنا کیا ان عورتوں کی آزادیٓ عمل کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ مغرب کے مرد کو عورت کا پردہ اور اُس کا گھر تک محدود رہنا اس لیے برا لگتا ہے کہ وہ عورت سے نکاح کرکے اُسے اپنی بیوی بنا کر ذمہ داری نہیں اُٹھانا چاہتا، اور اگر اُس کی بیوی گھر میں موجود بھی ہے تو وہ ایک عورت پر قناعت نہیں کرنا چاہتا۔ اُسے سفر، دفتر، دکان اور بازار ہر جگہ کھلے چہرے، ننگے بازوؤں اور برہنہ ٹانگوں والی عورتیں درکار ہیں تا کہ وہ اُنھیں دیکھ کر اپنی آنکھیں سینکتا رہے۔ فرانس میں کسی پادری نے ایک مسلمان بچی سے پوچھا’’تم نے اسکارف سے اپنے آپ کو کیوں چھپا رکھا ہے؟‘‘ بچی نے جواب دیا:’’آپ مجھے کیوں بے پردہ دیکھنا چاہتے ہیں؟‘‘

اسلامی معاشرے میں عورت صرف اپنے خاوند کی خدمت کرتی ہے اور اُس کے عوض پورے خاندان میں عزت اور تکریم کی حقدار پاتی ہے۔ مسلمان خواہ با عمل ہوں یا بے عمل ۔ ۔ ۔ ۔  مسلمان معاشرے میں عورت اور مرد کے تعلق سے جو بچے دنیا میں آتے ہیں اُن کی معاشی ضروریات پوری کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ جب کہ مغربی معاشرے میں مرد عورت سے تسکین حاصل کرتا ہے اور بچے پالنے کے لیے اُسے تنہا چھوڑ کر چلا جاتا ہے، بچوں کا بوجھ تن تنہا عورت اُٹھاتی ہے۔

اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ بنایا ہے، گھر کے معاملات میں اُسے مرکزی حیثیت دی ہے، شوہر کو بیوی کی ضروریات پوری کرنے کا پابند بنایا ہے، بیوی خواہ کتنی ہی مالدار ہو بہر حال شوہر اُس کی کفالت کا پابند ہے، اولاد کے لیے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماں ، بہن، بیٹی کے رشتوں کو قابلِ احترام بنا کر عورت کو بڑا مقام دیا ہے۔

ہمارا معاملہ بھی عجیب ہے۔ ہمیں مغرب سے تعلیم، ہنر، سائنس لینا چاہیے تھی لیکن ہم اُن کی معاشرت اپنانا چاہتے ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب کی ترقی کا راز بے حیائی، بے راہ روی اور عریانی میں چھپا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مغرب نے بھی ہمیں یقین دلا دیا ہے کہ جب تک تمہاری عورت سرعام نہیں ہوگی، اُس کی نمائش نہیں کی جائے گی اُس وقت تک معاش، تجارت اور سائنس میں ترقی ممکن نہیں ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کی مادی ترقی کا راز اُن کی محنت، لگن اور کام میں ہے۔ اس ترقی کی بنیاد عورت کی لا محدود آزادی نہیں ہے۔

اگر ہم بھی مغرب کی طرح اپنے خاندانی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں، عورت کے تقدس کو پامال کرنا چاہتے ہیں، رشتوں کا احترام مٹانا چاہتے ہیں، اپنی بچیوں کو بے نکاح ماں بنانا چاہتے ہیں، نامعلوم باپ کے بچے پیدا کرنا چاہتے ہیں،سنگل پیرنٹ کی اصطلاح کو عام کرنا چاہتے ہیں، اپنی ماں ، بہن، بیٹی کو غیر مردوں کی خدمت پر لگانا چاہتے ہیں تو ضرور اُن کی معاشرت کو اپنا لیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور اگر آپ کو یہ سب پسند نہیں ہے تو اسلامی معاشرت اختیار کرلیں۔ یہ نا ممکن ہے کہ ہم مغربی معاشرت اپنائیں اور حیا، پاک بازی، رشتوں کا احترام کے مزے بھی لیتے رہیں۔ جب کوئی دوسرے کی بہن، بیٹی کو بے پردہ کرے گا تو اس کے نتیجے خود اُسے اپنی بہن، بیٹی کو بے پردہ کرنا پڑے گا۔  لہٰذا ایک پاکیزہ معاشرے کے لیے ہمیں اللہ کی عائد کردہ پابندیوں کو قبول کرنا چاہیے۔

پردہ یا حجاب صرف مسلمان خواتین کی ضرورت نہیں ہے بلکہ پردہ ہر مذہ، ہر معاشرت کی عورت کو تحفظ دے سکتا ہے۔ مسلمان خواتین کو یہ برتری غرور حاصل ہے کہ اُن کا پردہ کرنا ثواب اور آخرت کی کامیابی کا سبب ہے جب کہ غیر مسلم خواتین پردہ کرتی ہیں تو اُس کے مثبت فوائد تو اُنھیں بھی ھاصل ہوں گے لیکن وہ آخرت کے اجر سے محروم رہیں گی۔ پردہ صرف عورت پر ہی لازم نہیں ہے، اسلام نے مرد کوبھی غضِ بصر کا حکم دیاہے۔ غضِ بصرکا مطلب ہے: اپنی نگاہوں کو نیچے رکھنا،نا محرم یا اجنبی عورتوں پر اپنی نگاہیں نہ جما دینا۔ مرد کی ذمہداریوں اور دائرہ  کار کے مطابق یہ مرد کا پردہ ہے۔

مغرب کی عورت اگر بےحجاب ہے یا آزادیٓ نسواں کے نام پر بے مہار ہے توقانون کی بالا دستی کی وجہسے محفوظہے۔ امریکا میں اگر عورت نشے میں ہے اور اس حالت میں اُس سے مرد نے جسمانی تعلققائم کرلیا، عورت نشہ ختم ہونے پرپوکیس سےشکایت کرتی ہے توعدالت کا موٓقف ہوتا ہے کہ عورت نشے میں مدہوش تھی لیکن تم تو اپنے ہوش میں تھے لہٰذا خواہ تم نےعورت کی دعوت پر اُس سےتعلق قائم کیا ہو، تم ہی مجرم ہواور اس جرم کی سزا ملے گی۔ تصور کیجیے کیا ہمارے یا ہمارے جیسے کسی بھی ملک میں عورت کے ساتھ ایسا واقعہ پیش آجائے تو عورت کی کوئی سنوائی ہوگی؟ ہماری پولیس اتنے اور ایسے سوال کرتی ہے کہ مرد بھی نہیں سُن سکتے۔ ہمارے ملک کی عورت کو صرف اسلام کی تعلیمات نے تحفظ دیا ہوا ہے۔ لہٰذا ہماری عورت کو حجاب، نقاب، اسکارف، برقع میں ہی عافیت تلاش کرنی چاہیے۔