March 29th, 2024 (1445رمضان19)

گٹھیا جوڑوں کا درد

ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر


گٹھیا جوڑوں کے درد کی ایک عام قسم ہے جو ایک Autoimmune بیماری ہے جس میں جسم کا دفاعی نظام اپنی ہی صحت مند بافتوں پر حملہ کرتا ہے اور پھر انہیں نقصان پہنچاتے ہوئے انہیں ختم کردیتا ہے۔ اس میں بیماری اس صورت میں ہوتی ہے جب جسم سے یورک ایسڈ صحیح طریقے سے خارج نہیں ہوتا ہے۔
یورک ایسڈ انسانی جسم میں خون میں موجود ہوتا ہے اور یہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کیمیائی عمل کے ذریعے خوراک میں شامل پیورین نامی مرکب کی توڑ پھوڑ ہوتی ہے۔ یورک ایسڈ عام طور پر پیشاب کے راستے جسم سے خارج ہوتا ہے مگر اگر یہ پوری طرح سے جسم سے خارج نہ ہو تو یہ جسم میں موجود کسی جوڑ میں چھوٹے چھوٹے ذروں کی شکل میں جمع ہونے لگتا ہے اور یہ عام طور پر پاؤں کے انگوٹھے میں جمع ہوتے ہیں کیونکہ اس میں حرارت اور خون کی گردش کم ہوتی ہے۔ مگر یہ جوڑوں کے اطراف میں موجود بافتوں اور بعض دوسرے اعضاء کی سوزش کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
اس مرض کے نتیجے میں جوڑوں میں سوجن آجاتی ہے اور چھونے پر گرم محسوس ہونے کے ساتھ بہت زیادہ درد بھی ہوتا ہے۔ کچھ مریضوں میں تھکاوٹ، جسمانی کمزوری بھی شروع ہوجاتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس بیماری سے جسم کے مختلف نظام مثلاً نظام ہاضمہ، نظام اعصاب، نظام اخراج وغیرہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کی وجہ سے آنکھوں اور منہ کے گلینڈز کی سوزش سے آنکھیں اور منہ خشک رہنے لگتے ہیں اور اس حالت کو Sigoran’s Syndrome کہا جاتا ہے۔
گٹھیا ایک chronic بیماری ہے جو لمبے عرصے یا کئی سالوں تک رہتی ہے۔ آسٹریلیا کی آرتھرائیٹس کی ایک تنظیم کے گٹھیا کا اگر علاج نہ کروایا جائے تو درد کی کیفیت عموماً ایک ہفتے تک رہتی ہے۔ اس بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد غائب ہوجاتی ہیں۔ جب بافتوں یا ٹشوز میں سوزش موجود ہوتی ہے تو یہ فعال (Active) حالت کہلاتی ہے جبکہ سوزش ختم ہونے کے بعد کی حالت کو غیر فعال یا (Remission) کہا جاتا ہے جو بعض اوقات بغیر علاج کے اچانک آجاتی ہے اور بعض اوقات علاج کے ساتھ آہستہ آہستہ ظاہر ہوتی ہے۔ یہ حالت کئی عرصے تک جاری رہ سکتی ہے اور بیماری کی علامات مکمل طور پر غائب ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے مریض خود کو تندرست محسوس کرنے لگتا ہے اور پھر جب علامات ظاہر ہوتی ہیں تو اس حالت کو Relapse کہتے ہیں جس میں مریض تھکاوٹ محسوس کرنے کے ساتھ ساتھ جسمانی قوت بھی کھو دیتا ہے۔ بھوک ختم ہوجاتی ہے اور پٹھوں اور جوڑوں میں درد محسوس ہوتا ہے۔ خاص کر صبح اٹھنے کے بعد جسم کے جوڑوں اور پٹھوں میں سختی کا احساس بہت گہرا ہوجاتا ہے اور ان سب کی وجہ جوڑ کے اندر پائی جانے والی بافتوں کی سوجن ہوتی ہی جو جوڑوں میں موجود مادے (Synovial Fluid) پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ ابتدا میں گٹھیا کے مرض میں زیادہ عرصہ کا وقفہ ہوسکتا ہے لیکن اگر احتیاطی تدابیر اختیار نہ کی جائیں تو اس مرض کے دوروں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور یہ درد زیادہ جلدی اور زیادہ شدت سے ہوتے ہیں اور پھر یہ جوڑوں کو ہمیشہ کے لیے نقصان پہنچا سکتے ہیں اور پھر آگے بڑھ کر یہ ایک مستقل مرض کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق گٹھیا کے پچاس فیصد سے زیادہ مریض ایسے ہوتے ہیں جن کے خاندان میں اس بیماری کی ہسٹری موجود ہوتی ہے۔ جبکہ یہ بیماری عورتوں کے بہ نسبت چالیس سے پچاس سال کی عمروں کے مردوں میں زیادہ عام ہے جبکہ عورتوں میں یہ بیماری چالیس سال کی عمر ہونے کے بعد ان کی ماہواری بند ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے۔
امریکہ کے تحقیقاتی ادارہ مایو کلینک کے مطابق کچھ بیماریاں بھی گٹھیا کا باعث بن سکتی ہیں جن میں ہائی بلڈ پریشر، ذیابیطیس، خون میں چربی یا کولیسٹرول کی زیادتی اور شریانوں کی تنگی وغیرہ شامل ہیں جبکہ گردوں کی بیماری بھی اس مرض کا سبب بن سکتی ہے۔
اچانک کسی بیماری یا کوئی چوٹ لگ جانے کے بعد بھی گٹھیا کا مرض لاحق ہوسکتا ہے اس کےعلاوہ کچھ ادویات بھی گٹھیا کے مرض کے خطرے کے امکانات کو بڑھا دیتی ہیں جن میں اسپرین، جسم سے پانی خارج کرنے والی ادویات، اعضاء کی پیوند کاری اور کیموتھراپی کے دوران استعمال ہونے والی ادویات وغیرہ شامل ہیں۔
گٹھیا سے بچاؤ کے لئے ایسی خوراک سے پرہیز کرنا چاہیے جس میں پیورین کی مقدار زیادہ ہو مثلاً خمیر (Yeast)، سرخ گوشت، پھلیاں، مکھن، آئسکریم، بطخ کا گوشت وغیرہ شامل ہیں جبکہ الکوحل یورک ایسڈ جسم سے پوری طرح سے خارج نہیں ہوپاتا ہے اور جسم میں جمع ہونے لگتا ہے جو گٹھیا جیسے مرض کا باعث بنتا ہے۔
گٹھیا کے درد کی حالت میں مریض کو عموماً درد کش اور سوجن کم کرنے والی ادویات دی جاتی ہیں مگر درد کی شدت کی زیادتی یا بار بار درد کی صورت میں یورک ایسڈ کو جسم پیدا ہونے سے روکنے کے لیے ادویات دی جاتی ہیں۔ مگر ادویات ہمیشہ اپنے ڈاکٹر کی تجویز کردہ ہی استعمال کرنی چاہیے۔
آرتھرائٹس کے مرض کی روک تھام کے لیے اپنے وزن کو کنٹرول رکھنا چاہیے۔ کیونکہ وزن کی زیادتی کی صورت میں جوڑوں پر دباؤ زیادہ پڑتا ہے مگر وزن کو کنٹرول ڈائٹنگ یا فاقہ کشی سے گریز کرتے ہوئے متوازن خوراک اور طرز زندگی کے ساتھ کرنا چاہیے۔
اپنی خوراک میں گوشت کو کم رکھنا چاہیے ماہرین کے مطابق کم چربی والا گوشت بہترین ہوتا ہے۔
الکوحل کا استعمال ترک کرکے پانی اور فریش مشروبات کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے اس سے جسم میں موجود اضافی یورک ایسڈ اور زہریلے مادے جسم سے خارج ہوتے رہتے ہیں۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل سینٹر کی ایک تحقیق کے مطابق ایسی غذائیں جن میں فائبر یا ریشوں کی بھاری مقدار موجود ہوتی ہے جیسے اسپغول، دلیہ، باجرہ، جو، بروکلی، سیب، کینو، ناشپاتی، اسٹرابیریز، بلیو بیریز، کھیرا، گاجر وغیرہ کیونکہ یہ جسم میں یورک ایسڈ کی بلند ترین سطح کو کم کرنے میں بے حد معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیلشیم اور اینٹی آکسیڈینڈ (Antioxidant) والی غذائیں زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے چاہیے۔ کیلوں کا استعمال جسم میں یورک ایسڈ کی سطح کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ گٹھیا کے مرض ہونے کے عمل کو روکنے اور جوڑوں کے دیگر امراض کے لیے بھی ایک فائدہ مند پھل ہے۔ اس کے علاوہ سیب میں میلک ایسڈ کی وافر مقدار کی وجہ سے یورک ایسڈ کے اثرات بے اثر ہوجاتے ہیں اور اس سے پیدا ہونے والے امراض میں بھی آرام حاصل ہوتا ہے۔
چیری میں Anthocynin نامی مادہ شامل ہوتا ہے جو سوزش کے خلاف مزاحمت کے ساتھ جسم میں یورک ایسڈ کی سطح کو بڑھنے سے روکتی ہے بلکہ جسم میں موجود مختلف کیمیکل کے مرکب کے نقصانات سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔ جبکہ بیریز اور بلیوبیریز یورک ایسڈ کو کرسٹلز بننے سے بھی روکتی ہیں کیونکہ یہ ہی کرسٹلز جوڑوں میں جمع ہو کر گٹھیا کا درد پیدا کرتے ہیں۔
گٹھیا کے علاج کے لیے کچھ خاص قسم کی جسمانی ورزشیں بھی جوڑوں کے درد میں کمی کے لیے کی جاتی ہیں۔ مگر اس کے کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا لازم ہے۔