March 28th, 2024 (1445رمضان18)

تھکاوٹ

ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر (پی ایچ ڈی مائکرو بیالوجی)

زندگی جیسے جیسے سہل اور آسان ہوتی جارہی ہے ویسے ویسے اس دور جدید میں انسانی مصروفیات اس قدر بڑھتی جارہی ہیں کہ ہر پل ہر لمحہ انسان مصروف رہتا ہے اور پھر یہ مصروفیت انسان کی جسمانی اور دماغی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے اور اسی تھکاوٹ کی وجہ سے انسان کی صحت تنزلی کی طرف مائل ہونا شروع ہوجاتی ہے اور اس کی اوسط عمر کم ہونے لگتی ہے۔ ہم اپنی روزمرہ کی زندگی میں کچھ ایسا کر رہے ہوتے ہیں کہ جو ہمیں تھکاوٹ کا شکار بنا دیتی  ہے۔ تھکاوٹ ایک عام شکایت اور مرض بنتا جارہا ہے اور بوڑھے اور بڑی عمر کے افراد تو درکنار آج کل  تو نوجوان اور بچے بھی اس مرض کا شکار نظر آتے ہیں۔ تھکاوٹ کا ایک اہم سبب ذہنی پریشانی اور ڈپریشن بھی ہے جس سے دماغ کے خلیات اور ہارمونز ڈسٹرب ہوجانے سے بدن میں سستی اور پٹھوں میں کھنچاؤ اور تھکاوٹ ہوجاتی ہے۔ پانی کی کمی یا ڈی ہائیڈریشن بھی جسم میں توانائی کو کم کردیتی ہے۔ پانی کی کمی سے جسم میں خون کی  مقدار کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ گاڑھا ہوجاتا ہے اور پھر اس کے باعث دل کی کارکردگی بھی کم ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ پٹھوں اور اعضاء کو آکسیجن فراہمی کم ہوجاتی ہے جس کے باعث انسان تھکاوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔
ورزش اور جسمانی سرگرمیوں سے دوری بھی تھکاوٹ کی ایک اہم وجہ ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق صحت مند مگر سست رفتار طرز زندگی کے حامل افراد اگر ہفتہ میں تین بار کی ورزش کو اپنا معمول بنالیں تو خود میں بھرپور توانائی اور تھکاوٹ کا کم احساس محسوس کرتے ہیں۔ 
روزمرہ کی بنیاد پر کی جانے والی ورزش جسمانی مضبوطی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ دل کے نظام کو بھی بہتر طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ جسم میں آئرن یا  فولاد کی کمی بھی انسان کو سست اور چڑچڑا بنا دیتی ہے۔ فولاد کی کمی سے انسان کے خلیات اور عضلات کو آکسیجن کم ملتی ہے جو تھکاوٹ کا باعث بنتے ہیں اور آئرن کی مستقل کمی سے جسم میں مختلف پیچیدہ مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ آئرن کی کمی جسمانی موٹاپے کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ جسمانی کمزوی اور تھکاوٹ کا باعث بھی بنتی ہے۔ آئرن کی کمی کو سبز پتوں والی سبزیوں، انڈوں اور خشک  میوہ جات اور وٹامن سی کے حامل غذاؤں کے استعمال کرنے سے  پورا کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ جسم میں وٹامن بی کی کمی بھی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے جس کی کمی کو انڈے، دودھ ، پنیر، گوشت، مچھلی اور مرغی وغیرہ  سے پورا کرسکتے ہیں۔
ناشتہ نہ کرنے کی عادت بھی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے کیونکہ رات کو کھانے کے بعد سونے کے دوران جسم سے حاصل ہونے والی توانائی کو خون کی فراہمی اور آکسیجن کو پھیلانے کے لیے استعمال ہوتی ہے اور صبح کا بھرپور ناشتہ دن بھر اس توانائی کو پورا کرنے میں مدد دیتا ہے جس کی وجہ سے تھکاوٹ کا احساس نہیں ہوتا ہے۔ ناشتے میں دودھ ، فریش جوسز، پھل، انڈے اور مغزیات وغیرہ دن بھر کی مصروفیات کے لیے مناسب توانائی فراہم کرتے ہیں۔
جنک فوڈ یا  بہت زیادہ تیل اور چینی والی خوراک جسم میں بلڈ شوگر بڑھا دیتی ہیں اور پھر کچھ دیر بعد اچانک بلڈ شوگر کی سطح کم ہوجاتی ہے مگر یہ اتار چڑھاؤ تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے جبکہ متوازن غذا کا استعمال جسم کو چاک و چوبند رکھنے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہر چیز اور ہر میدان میں خود کو مکمل اور ماہر ثابت کرنا بھی تھکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق کسی ایسے مقصد کا حصول یا ہدف جس کا حصول ناممکن ہو تو زندگی میں اس کو حاصل کرنے کے لیے  کی جانے والی محنت بلا مقصد اور تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے اور پھر ڈپریشن میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جبکہ بہت سے لوگوں میں انکار کی ہمت نہیں ہوتی اور وہ ہر شخص کے کہے ہوئے کام کو کرنے کے لیے ہمہ وقت رضامند ہوجاتے ہیں۔ خاص طور پر اپنے پیاروں دوستوں میں سے کوئی کسی کام کرنے کو کہے تو وہ منع نہیں کرپاتے ہیں اور پھر یہ عادت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کو افسردہ اور چرچراہٹ میں رکھنے کا باعث بن جاتی  ہے۔ کیفین کا زیادہ استعمال بھی جسمانی کارکردگی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ درحقیقت دن کے آغاز میں یعنی نہار منہ کافی یا چائے پینا صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ کافی سے جسم میں طاقت کم اور تھکاوٹ میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ دن بھر میں دو سے تین کپ کافی سے زیادہ استعمال نیند اور جاگنے کے سائیکل کو متاثر کرسکتا ہے جس کی وجہ سے تھکاوٹ کا احساس بڑھ جاتا ہے۔
اس کے علاوہ گھر یا دفتر کی بے ترتیبی بھی ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتی ہے جو فرد کی توجہ، کام اور صلاحیتوں پر مرکوز کرنے کے بجائے بے ترتیب کردیتی ہے اور دماغی صلاحیتوں کو بھی محدود کردیتی ہے۔ جبکہ آفس کا کام گھر پر کرنے یا گھر میں آرام کے دوران بار بار ای میلز چیک کرنے یا دماغ مسلسل دفتری کاموں میں لگے رہنے کے باعث بھی جسمانی توانائی سے محرومی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے لہٰذا گھر میں آرام کے دوران جسم اور دماغ کو دفتری امور سے آزاد چھوڑ کر ہی جسم کو اگلے دن کے لیے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق جسمانی تھکاوٹ کی ایک وجہ نیند کی کمی بھی ہے کیونکہ نیند جسم کی تھکاوٹ دور کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ جسم کو تھکاوٹ سے محفوظ رکھنے کے لیے وقتوں وقتوں میں نیند لینا بہتر اور مناسب نہیں ہوتا ہے بلکہ ایک گہری اور مکمل نیند کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ تھوڑی تھوڑی دیر میں نیند پوری کرنے کی کوشش میں انسان مزید تھکاوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ سونے کی جگہ یا سونے کے اوقات میں موبائل فون یا لیپ ٹاپ کا استعمال بھی تھکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے۔ موبائل فون وغیرہ سے خارج ہونے والی مضر صحت  شعائیں جسم میں نیند کو ریگولیٹ کرنے والے ہارمونز کو متاثر کرتی ہیں جو نیند پر براہ راست اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر تھکاوٹ کا احساس غالب آجاتا ہے۔
تھکاوٹ کی ایک بڑی وجہ توانائی کی بھی کمی ہے جو درست خوراک بروقت نہ لینے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ غذاؤں کو غیر فطری انداز میں دیر تک پکانے سے ان میں موجود وٹامنز اور معدنی اجزا ختم ہوجاتے ہیں جن کی انسانی جسم کو ضرورت ہوتی ہے اور جس کی کمی کی وجہ سے توانائی میں بھی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ ذہنی اور جسمانی بیماریاں مثلاً لو بلڈ پریشر، بلڈ شوگر میں کمی، مختلف انفیکشنز، جگر کی خرابی اور مختلف ادویات اور غذاؤں سے الرجی، بے خوابی، ذہنی دباؤ اور جذباتی افسردگی وغیرہ بھی ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتے ہیں۔
تھکاوٹ سے دور رہنے کے لیے توانائی سے بھرپور ایسی غذائیں استعمال کرنی چاہیے جن میں مختلف پروٹینز اور فائبر سے بھرپور اجزاء موجود ہوں۔ نیوٹریشن اسٹڈی(Nutrition Study) نامی جریدے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق جسم میں پانی کی کمی جو تھکاوٹ کی ایک بنیادی وجہ ہے اس سے بچنے کے لیے تربوز کا استعمال بے حد فائدہ مند ہوتا ہے کیونکہ تربوز میں ۹۰ فیصد پانی ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مختلف اقسام کے وٹامنز اور منرلز سے بھی بھرپور ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پروٹینز سے بھرپور غذائیں جسم کو چست اور توانا رکھتی ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق پنیر کا روزانہ استعمال جسم میں پروٹین کی مقدار کو نارمل رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے جبکہ سبز چائے کا استعمال بھی توانائی فراہم کرتا ہے کیونکہ اس میں Theanine نامی امائنو ایسڈ موجود ہوتا ہے کسی بھی بیماری کی صورت میں توانائی کے ضیاع کو روکتا ہے۔
تھکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے پوٹاشیم اور کیلشیم پر مشتمل سبزیاں اور پھل بھی فائدہ مند ہوتے ہیں۔ کیلشیم جسم کو سکون اور آسودگی فراہم کرتے ہیں اور بے خوابی اور تناؤ کی کیفیت کو دور کرنے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ دودھ اور دودھ سے بنی ہوئی چیزیں، پتوں پر مشتمل سبزیاں، اخروٹ اور بادام وغیرہ کیلشیم کے اچھے ماخذ ہوتے ہیں۔
طبی تحقیق کے مطابق جو افراد کھانوں کے دوران مختلف اسنیکس کھاتے رہتے ہیں وہ تھکاوٹ کا بہت کم شکار ہوتے ہیں اور ان میں سوچنے کی صلاحیت زیادہ  ہونے کے ساتھ ساتھ وہ چست اور مستعد ہوتے ہیں مگر یہ اسنیکس تازہ یا خشک پھلوں، تازہ پھلوں اور سبزیوں کے جوسز وغیرہ پر مشتمل ہونے چاہیے۔
سورج کی روشنی میں وقت گزارنے سے بھی تھکاوٹ کے احساس کو کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو افراد سورج کی روشنی میں کم اور گھر پر زیادہ وقت گزارتے ہیں وہ زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سورج کی روشنی میں کم ازکم 15 سے 29 منٹ تک تیز چہل قدمی کرنی چاہئے جس سے جسم کو مطلوبہ وٹامن ڈی بھی حاصل  ہوسکتی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق چیونگم چبانے سے انسانی جسم میں چستی اور پھرتی کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ جس سے موڈ پر مثبت اثرات پڑنے کے ساتھ ساتھ توانائی اور دل کی دھڑکن بھی بہتر ہوجاتی ہے۔