March 29th, 2024 (1445رمضان19)

اوسٹیو پوروسس (ہڈیوں کا بھربھرا پن)

ڈاکٹر سیدہ صدف اکبر

پی ایچ ڈی مائیکرو بیالوجی

ہڈیوں کا بھربھرا پن ایک عام مرض ہے جسے اوسٹیو پوروسس کہا جاتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اوسٹیو پوروسس، دل کے امراض کے بعد دنیا بھر میں سب سے زیادہ پایا جانے والا مرض ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے تحت عالمی سطح پر ہڈیوں کے اس مسئلے سے بچاؤ اور اس سے آگاہی سے متعلق کوششیں جاری ہیں۔ اسی سلسلے میں عالمی طور پر ہر سال 20 اکتوبر کو ہڈیوں کے بھربھرے پن (Osteoporosis) کا دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد عوام الناس میں ہڈیوں کے کھوکھلے پن کے بارے میں شعور اور آگاہی اجاگر کرنا ہے۔

اوسٹیو پوروسس جسے ہڈیوں کے کھوکھلا ہونے کا مرض بھی کہتے ہیں، اس میں ہڈیوں کی لچک میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور وہ بھربھرے پن کا شکار اور نرم ہوجاتی ہیں۔ اور پھر اتنی کمزور ہوجاتی ہیں کہ جس کے باعث ان کے ٹوٹنے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مرض دونوں اصناف کے لوگوں میں پایا جاتا ہے مگر عمومی طور پر یہ بیماری مردوں کی بہ نسبت خواتین میں زیادہ عام ہے۔ عورتوں میں یہ عموماً ۴۰ فیصد زیادہ ہوتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 45 سال کی عمر کے بعد خواتین میں اس مرض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ مردوں میں ۵۰ برس میں یہ مرض پایا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ سے زائد افراد اس عارضے میں مبتلا ہیں۔ خواتین میں چونکہ مردوں کے مقابلے میں زیادہ کیلشیم کی کمی ہوتی ہے اور پھر دوران ِ حمل ہڈیاں کمزور ہوجاتی ہیں۔ اس کے علاوہ خواتین میں مختلف ہارمونل تبدیلیوں کی وجہ سے ہڈیاں کھوکھلی ہوجاتی ہیں، ساتھ ہی ایسٹروجن کی سطح تبدیل ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے ان میں ہڈیوں کے کھوکھلے پن کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ اوسٹیوپوروسس کا مرض شہری علاقوں میں دیہی علاقوں کی بہ نسبت زیادہ پایا جاتا ہے۔ شہری زندگی کے حامل افراد میں دھوپ میں نہ نکلنا، دن کا زیادہ تر وقت بند عمارتوں، گاڑیوں اور بند جگہوں پر گزرتا ہے جس کے باعث جسم کے لیے ضروری دھوپ سے محروم رہتے ہیں۔ ہر وقت ایئر کنڈیشنز ماحول میں رہنا، موٹاپے کے خوف سے مناسب غذا کا نہ لینا یہ سب عوامل مل کر ہڈیوں کے مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ اور اس کے علاوہ خوراک میں دودھ ، مچھلی اور ہڈیوں کو مضبوط کرنے والے دیگر غذائیت بھرے اجناس کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔

ایک تحقیق کے مطابق انسانی جسم میں ہڈیوں کی 25 سے تیس سال کی عمر تک نشونما جاری رہتی ہے اور عمر کی تیسری دہائی کی ابتداء میں یہ ہڈیاں عمر کے دوسرے ادوار کے مقابلے میں مضبوط ہوتی ہیں۔ اس وقت اگر ہڈیوں کو مضبوط رکھنے کی تدابیر اور احتیاط کرلی جائیں تو بڑی عمر میں یہ مضبوطی کم ہوجانے کے باوجود اوسٹیوپوروسس کی نوبت نہیں آتی ہے۔

ہڈیوں کی مضبوطی کا تعلق انسانی جسم میں موجود کیلشیم اور فاسفورس کی جذب کردہ مقدار پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کے جسم میں کیلشیم کا تناسب ضرورت کے مطابق موجود ہو تو اوسٹیوپوروسس کے خطرات کم ہو سکتے ہیں۔

ایک طبی تحقیق کے مطابق جسم میں ایسٹروجن (Estrogen) کی کمی بھی اوسٹیوپوروسس کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔

جس کی وجہ سے چالیس سے زائد عمر کی خواتین میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ مرد اینڈروجن (Androgen) کی کمی سے اس مرض کا شکار ہو سکتے ہیں۔ وہ خواتین یا مرد جو زیادہ تر گھروں میں سورج کی روشنی سے دور رہتے ہیں اور دھوپ میں بہت کم نکلتے ہیں ان میں زیادہ تر وٹامن ڈی (D) کی کمی واقع ہوجاتی ہے جو اوسٹیو پوروسس کی ایک اور اہم وجہ ہے۔ اس کے علاوہ تھائرائیڈ کے مسائل، پٹھوں کو آرام کرنے کی عادت، ہڈیوں کا کینسر، سگریٹ نوشی وغیرہ بھی اوسٹیو پوروسس کا سبب بن سکتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق خاندان میں پہلے سے اگر یہ بیماری موجود ہو تو وہ آگے آنے والی نسلوں میں منتقل ہوسکتی ہے۔ نوجوان عورتوں میں پہ در پہ حمل ٹھہرنا اور مسلسل کئی سالوں تک بچوں کو دودھ پلانے کی وجہ سے بھی اوسٹیو پوروسس کا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ کاربونیٹڈ مشروبات (carbonated Drinks) کا بہت زیادہ مقدار میں استعمال ہڈیوں کی مضبوطی پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے مشروبات کے اجزاء کی کیلشیم کی پیداوار کو روکنے کے ساتھ کیلشیم کو ہڈیوں میں بھی جزب نہیں ہونے دیتے ہیں۔ بوسٹن کی ٹفٹس یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ان مشروبات میں فاسفورس ایسڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے ہڈیوں کی کثافت کم ہو کر ان میں کمزوری بڑھنے لگتی ہے۔ جسم میں فاسفورس اور کیلشیم کا ایک قدرتی توازن ہوتا ہے جو ان کاربونیٹڈ مشروبات کے استعمال کی وجہ سے فاسفورس کی مقدار بڑھنے پر توازن کو قائم رکھنے کے لیے ہڈیوں سے کیلشیم کا اخراج بھی زیادہ ہوتا ہے جو ان کے کھوکھلے ہونے اور ٹوٹنے کے خطرات کو بڑھادیتا ہے۔ اس کے علاوہ چائے اور کافی کا زیادہ استعمال بھی ہڈیوں کو کمزور بنادیتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق کیفین کا زیادہ استعمال جسم میں موجود وٹامن ڈی کی کمی کی وجہ بنتا ہے جس کی وجہ س ہڈیاں کمزور پڑنے لگتی ہیں۔

سویڈن میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق بلوغت کو پہنچنے کے بعد وزن کم کرنے اور دبلے ہونے کی کوشش میں اکثر خواتین اوسٹیو پوروسس کا شکار ہوجاتی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق دبلی خواتین کے لئے کولہے کی کمزوری یا شکستگی کا خطرہ ان عورتوں کی نسبت زیادہ پایا گیا جنہوں نے اٹھارہ سال کی عمر کے بعد نو کلو گرام یا اس سے زیادہ وزن بڑھایا تھا۔ اس بیماری کی جسم میں کوئی خاص علامات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے اسے خاموش بیماری کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ جس کی زیادہ تر وجہ جسم میں کیلشیم کی کمی ہوتی ہے۔ خصوصاً ریڑھ کی ہڈی، کولہے کے جوڑ اور کلائی کے ہڈیوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اور بغیر کسی وجہ کے پورے جسم میں درد، ہڈیوں اور جوڑوں میں درد، جسمانی تھکاوٹ، کمر میں جھکاؤ اور معمولی چوٹوں پر بھی ہڈیوں کا ٹوٹنا شامل ہے۔ ہڈیوں کے بھربھرے پن کی ابتدائی علامات میں مریض کو جوڑوں کے درد کے ساتھ ساتھ نشست و برخاست میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔خاص طور سے بزرگوں اور عمر رسیدہ افراد میں ریڑھ کی ہڈی کا مڑ جانا اس بیماری کی خاص علامتوں میں سے ایک علامت ہے۔ ہمارے جسم میں روزانہ کی وٹامن ڈی کی ضرورت پوری ہوتی جاتی ہے۔ وٹامن ڈی چونکہ ہڈیوں میں کیلشیم کو جمع کرنے کے لیے بے حد ضروری ہوتا ہے۔ آنے والی نسلوں کو ہڈیوں کے اس کھوکھلے پن کی بیماری سے بچانے کے لیے ابھی سے ہی اقدامات کرنے چاہئیں۔