March 29th, 2024 (1445رمضان19)

خواتین کے استثنائی معاملات

شگفتہ عمر

منا سکِ حج و عمرہ کے ضمن میں)

عمرہ یا حج کے لیے احرام باندھنے سے قبل حیض یا نفاس کی صورت میں یا احرام باندھنے کے بعد حیض کی صورت میں خواتین کیا کریں؟ نیز اگر عمرہ ادا کرنے سے قبل پاک نہ ہوں اور حج کے ایام شروع ہو جائیں تو کیسے نیت کریں اور کیا عمل کریں؟ اگر طواف زیارت اور طواف وداع کے وقت حالتِ حیض میں ہوں تو کیا کریں؟ ان تمام حوالوں سے مکمل راہنمائی ہمیں احادیث کی کتب میں درج تین اہم واقعات سے ملتی ہے۔

پہلا واقعہ حجۃ الوداع کے سفر میں ذوالحلیفہ کے مقام پر، حضرت ابوبکرؓ کی بیوی حضرت اسماءؓ بنت عمیس کے ہاں محمد بن ابی بکرؓ کی پیدائش کا ہے۔ دوسرا واقعہ اسی سفر میں حضرت عائشہؓ کا مکہ پہنچ کر حیض سے ہونے کی بابت ہے اور تیسرا واقعہ طواف وداع کے وقت حضرت صفیہؓ کے حالتِ حیض میں ہونے کے متعلق ہے۔ یہ تینوں واقعات ذیل میں درج کرنے کے بعد اس حوالے سے مختلف احکام، عام فہم انداز میں بتائے جائیں گے۔

(۱)۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ ذوالحلیفہ کے سفر میں اسماءؓ بنت عمیس کو محمد بن ابوبکرؓ کے پیدا ہونے کا نفاس ہوا۔ان کے احرام کے بارے میں پوچھنے پر رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ ان سے کہیں نہائیں اور لبیک پکاریں۔ اسی واقعے کی دوسری روایت یوں ہے: حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ نے محمد بن ابوبکرؓ کو جنم دیا، آپؓ نے سرور کونین سے دریافت کروایا کہ میں کیا کروں؟ آپنے ارشاد فرمایا: غسل کرے اور ایک کپڑے کا لنگوٹ باندھ لے۔

(۲)۔ بخاری کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ حج کے مہینوں اور حج کے دن راتوں میں نکلے۔ ہم سرف کے مقام پر اترے تو آپ اپنے اصحابؓ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: تم میں سے جس کے پاس ہدی نہیں ہے اور وہ اسے عمرہ بنانا چاہے تو ایسا کرے اور جس کے پاس قربانی کا جانور ہو وہ ایسا نہ کرے۔ آپ کے اصحابؓ میں سے بعض نے کیا اور بعض نے چھوڑ دیا۔ رسول اللہ اور آپ کے اصحابؓ میں سے بعض لوگ طاقت رکھتے تھے اور ان کے پاس قربانی کے جانور تھے لہٰذا وہ عمرہ نہیں کر سکتے تھے۔ رسول اللہ میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی۔ فرمایا: اری بھولی! کیوں روتی ہو! میں نے عرض کیا کہ آپ نے اصحاب سے جو فرمایا وہ میں نے سنا لیکن میں عمرہ نہیں کرسکتی۔ فرمایا کہ کیا بات ہوئی؟ عرض گزار ہوئی کہ میں نماز نہیں پڑھتی (یعنی حیض سے ہوں) فرمایا کہ تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ تم بھی حضرت آدم ؑ کی بیٹیوں میں سے ایک ہو۔ تمہارے لیے بھی اللہ نے وہی لکھا ہے جو ان کے لیے لکھا۔ لہٰذا تم حج کرو۔ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ تمہیں دونوں چیزیں نصیب کر دے۔ ہم اپنے حج کے سلسلے میں منیٰ پہنچے تو میں پاک ہو گئی۔ پھر میں منیٰ سے نکلی تو میں نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ پھر میں آپ کے ساتھ آخری کوچ میں نکلی اور آپ محصب میں ٹھہرے اور آپ کے ساتھ ہم بھی اترے تو آپ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر کو بلا کر فرمایا: اپنی بہن کو حرم سے لے جاؤ تاکہ وہ عمرہ کا احرام باندھ لے۔ پھر فارغ ہو کر دونوں یہاں آؤ میں تمہارے آنے کا انتظار کروں گا۔ پس ہم نکلے اور جب میں اور وہ طواف سے فارغ ہوئے تو میں صبح کے وقت حاضر بارگاہ ہوئی۔ فرمایا کیا تم فارغ ہو گئے۔ میں نے کہا ہاں۔ آپ نے اپنے اصحابؓ کو کوچ کا حکم فرمایا۔ پس لوگ مدینہ منورہ کی طرف متوجہ ہو کر چل پڑے

(۳)۔سنن نسائی کی روایت کے مطابق حضرت جابرؓ سے مروی ہے کہ ہم حضور سرور کونین کے ساتھ لبیک پکارتے ہوئے آئے صرف حج کیا اور حضرت عائشہ صدیقہؓ عمرے کی لبیک پکارتی ہوئی تشریف لائیں۔ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو حیض آ گیا۔ یہاں تک کہ ہم لوگ مکہ مکرمہ پہنچے اور کعبہ معظمہ کا طواف کیا، صفاء مروہ میں سعی کی، بعد ازاں حصور اکرم نے ہمیں احرام کھول ڈالنے کا حکم فرمایا۔ جس کے ساتھ قربانی کا جانور نہ ہو (یعنی جس کے پاس جانور نہ ہو تو عمرہ کا احرام کھول کر حج تمتع کرے)۔ ہم نے دریافت کیا کہ ہمیں کون کون سی اشیاء درست ہوں گی جو احرام میں منع تھیں۔ آپ نے فرمایا ہر چیز! بعد ازاں ہم نے عورتوں کے ساتھ جماع کیا اور خوشبو لگائی، کپڑے پہنے (یعنی احرام کھول کر تمام پابندیوں سے فارغ ہو گئے) اور نویں تاریخ میں ابھی چار راتیں تھیں۔ پھر ہم نے آٹھویں تاریخ حج کا احرام باندھا۔ حضور اکرم ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کے پاس تشریف لائے اور دیکھا تو آپؓ رو رہی ہیں۔ آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہوا۔ انہوں نے عرض کیا کہ مجھے حیض آ گیا اور لوگوں نے احرام کھول ڈالا۔ میں نے نہ تو احرام کھولا اور نہ ہی بیت اللہ کا طواف کیا (ابھی تک عمرے سے فارغ نہیں ہوئی) اور لوگ اب حج کو جا رہے ہیں۔ میرا حج بھی گیا۔ آپ نے فرمایا یہ تو وہ چیز ہے جو اللہ جل شانہ نے حضرت آدم علیہ السلام کی بیٹیوں کے لیے لکھ دی ہے۔ آپؓ غسل کریں اور حج کی لبیک پکاریں۔ آپؓ نے ایسا ہی کیا اور سب جگہوں میں قیام فرمایا یعنی منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں۔ جب حیض سے فارغ ہوئیں تو بیت اللہ شریف کا طواف کیا اور صفا مروہ میں دوڑیں اور فرمایا اب آپ کے حج اور عمرہ دونوں ادا ہو گئے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓنے عرض کیا میرے دل میں کھٹکتا ہے کہ میں نے حج سے پہلے کعبہ مکرمہ کا طواف نہیں کیا (تو عمرہ کیسے ادا ہوا)۔ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہؓکے بھائی سے فرمایا کہ انہیں لے جاؤ اور انہیں تنعیم سے عمرہ کرا لاؤ (جومکہ مکرمہ سے تین کوس کے فاصلے پر ایک مقام ہے۔ مکہ کے عارضی رہائشی عمرے کا احرام اکثر اسی جگہ سے باندھتے ہیں اور اب یہاں مسجد بنا دی گئی ہے) اور یہ واقعہ اس رات پیش آیا ، جس رات ہم محصب کے مقام پر اترے تھے

(۴) ۔حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صفیہ بنت حیئیؓ (ام المومنین) کو طوافِ افاضہ کے بعد حیض آ گیا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے ان کے حیض آنے کا رسول اللہﷺ سے ذکر کیا۔ رسول اللہنے فرمایا: کیا وہ ہم کو روک لیں گی؟ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ، وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں، اس کے بعد حائضہ ہوئی ہیں۔ رسول اللہ نے فرمایا: چلو پھر چلیں

) ان تینوں واقعات اور احادیث میں موجود دیگر ہدایات کی روشنی میں حج اور عمرہ کے ضمن میں خواتین کے لیے حیض و نفاس کے حوالے سے درج ذیل احکامات وضع ہوتے ہیں۔

۱۔ حائضہ بھی حج اور عمرہ کے لیے احرام باندھے گی (خواہ گھر سے روانگی کے وقت یا ۸ ذی الحجہ کو مکہ سے روانگی کے وقت)۔

۲۔ احرام باندھتے وقت حائضہ کے لیے بھی غسل کرنا افضل ہے کیونکہ یہ غسل نظافت ہے غسل طہارت نہیں (لیکن اگر بیماری کا اندیشہ ہو تو غسل نہ کرے)۔

۳۔ اگر عمرہ کا احرام حالت حیض میں باندھا ہے تو عمرہ کے ارکان میں سے صرف احرام (نیت اور تلبیہ) ادا کر کے پاک ہونے کا انتظار کرے گی اور دیگر ارکان یعنی طواف، سعی اور قصر بعد ازاں کرنے ہوں گے۔

۴۔ حائضہ کو نبی اکرم نے طواف کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں: ۱) طواف نماز کی طرح ہے ا ور طہارت اس کی ادائیگی کی لازمی شرط ہے۔

۲) طواف مسجد کے اندر ہوتاہے جہاں جانے کے لیے پاکی شرط ہے۔

۵۔ سعی کے لیے پاکی شرط نہیں ہے۔ چنانچہ نبی کریم نے حائضہ کو سعی کرنے سے منع نہیں فرمایا تھا لیکن آج صفا و مروہ کے مسجد کے اندر واقع ہونے کی وجہ سے سعی بھی ایسی حالت میں ادا نہیں کی جا سکتی۔

۶۔ پاک ہونے پر دوبارہ غسل کر کے احرام باندھنا ہو گا۔ چونکہ احرام کی حالت میں جسم سے بال وغیرہ دور نہیں کیے جا سکتے چنانچہ ایسا کوئی بھی کام احرام باندھنے سے قبل کرنا ہو گا نیز دوبارہ احرام اپنی رہائش گاہ سے ہی باندھنا ہو گا۔ مسجد تنعیم جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

۷۔ اگر عمرہ کی نیت ہواور بوجہ حیض عمرہ مکمل نہ ہوا ہو اور حج کے لیے روانگی کا وقت آ جائے یعنی ۸ ذی الحجہ، تو حائضہ عمرہ کی نیت کو حج کی نیت سے بدل لے گی یعنی غسل کر کے حج کا احرام باندھ لے گی اور لبیک حجاً کہتے ہوئے حج کی لبیک پکارے گی۔ حج کے تمام مناسک ادا کرے گی۔ نبی اکرم نے اسی طرح حضرت عائشہؓ کو حکم دیا تھا۔ جہاں حیض سے پاک ہو وہیں غسل کر کے دوبارہ احرام پہنے ، بعد ازاں طواف اور سعی کرنے سے حج اور عمرہ دونوں کا ثواب حاصل ہوجائے گا، جیسا کہ حضور اکرم نے حضرت عائشہؓ کو بتایا تھا۔ لیکن اگر چاہے تو عمرہ مکمل کرنے کے لیے دوبارہ تنعیم سے احرام باندھ کر طواف اور سعی کر سکتی ہے۔(تنعیم سے احرام اس صورت میں باندھے گی کہ اگر حج کرنے کے بعد حج کا احرام کھول دیا ہو گا)۔

۸۔ دوران حج حائضہ، طواف اور سعی کے علاوہ حج کے تمام مناسک ادا کر سکتی ہے یعنی منیٰ، عرفات، مزدلفہ میں قیام، ذکر، وقوف، رمی، جمار، قربانی وغیرہ۔ مسجد کے بیرونی صحن میں بیٹھ کر ذکر اذکار کیا جا سکتا ہے اور دعائیں مانگی جا سکتی ہیں۔(مسجد کا بیرونی صحن جو دروازوں کے باہر ہے، مسجد کے عمومی حکم میں نہیں آتا۔ گو نمازی باہر تک صف در صف ہوں تو وہاں نماز باجماعت شمار ہوگی)۔

۹۔ حج کے دنوں میں حیض کی وجہ سے طواف زیارۃ ادا نہ کرنے پر انتظار کرنا ہو گا۔ گو طوافِ زیارۃ؍افاضتہ ۱۰ ذی الحجہ سے ۱۲ ذی الحجہ تک (مجبوری کی حالت میں) کیا جا سکتا ہے۔ حائضہ خاتون کے لیے یہ قید بھی نہیں ہے وہ ان دنوں کے بعد بھی حیض سے فارغ ہو تو غسل کر کے دوبارہ احرام پہن کر طوافِ زیارۃ اور سعی کر سکتی ہے۔

۱۰۔ اگر دیگر حاجی منیٰ سے مکہ واپس آ گئے ہوں تو بھی پاک ہونے پر مکہ سے ہی غسل کر کے اور احرام پہن کر طواف اور سعی ادا کرے گی۔ منیٰ جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

۱۱۔ اگر وطن واپسی کی فلائٹ ہو یا مدینہ روانگی کی تاریخ طے ہو اور بوجہ حیض طواف زیارۃ سے رکنے کا اندیشہ ہو تو درج ذیل صورتیں اختیار کرنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے:

* فلائٹ کی تاریخ آگے کروالی جائے۔

* پہلے سے معلوم ہونے کی صورت میں حیض روکنے کی دوا استعمال کر لی جائے۔

۱۲۔ اگر اوپر بیان کردہ دونوں صورتیں ممکن نہ ہو تو مختلف فقہاء کی آراء کی روشنی میں عورت معذور شمار ہو گی۔ ایسے میں اس سے حج کا رکن تو ساقط نہیں ہو گا لیکن طہارت کا واجب ہونا جو کہ اس رکن کی ادائیگی کے لیے شرط ہے، ساقط ہو جائے گا اور وہ اسی حالت میں طواف زیارۃ؍افاضتہ کر سکے گی۔ گویا یہ وہ آخری صورت ہے جس پر اسے قدرت حاصل ہے۔ بعض فقہاء کے نزدیک ایسی صورت میں اسے بَدَنہ یعنی ایک اونٹ کی قربانی دینا ہو گی اور بعض کے نزدیک فدیہ دینا بھی ضروری نہیں(۶) ۔ اگر کسی کے معاشی حالات اجازت دیں تو قربانی دے دینا بہتر ہے بصورت دیگر ایسی خاتون اللہ کے نزدیک گناہ گار نہ ہو گی۔

۱۳۔ اس صورت کے علاوہ ناپاکی کی حالت میں طواف جائز نہیں۔ اگر ناپاکی میں طواف کر لیاتو پاک ہونے پر لوٹانا ہو گا وگر نہ دم دینا ہو گا۔

۱۴۔ حج و عمرہ کے سفر میں شرعی اعتبار سے حیض روکنے کی دوا استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے طویل مدت کے لیے استعمال نہ کرنا بہتر ہوتا ہے۔ بہرحال جو خواتین مختصر دورانیے کے لیے یعنی تقریباً دس سے پندرہ روز کے لیے جا رہی ہوں یا جنہیں طواف زیارۃ؍افاضتہ چھوٹنے کا احتمال ہو وہ دوا کا استعمال کر سکتی ہیں۔

حضرت ابن عمرؓ کی رائے میں اگر عورت کوئی دوا استعمال کرے جس سے حیض وقتی طور پر رُک جائے تاکہ وہ طواف زیارۃ؍افاضتہ کر سکے تو کوئی حرج نہیں اور آپؓ نے ایسی عورتوں کے لیے درخت اراک (کریر) کا پانی تجویز کیا تھا۔

۱۵۔ دوا کا نام اور طریقہ استعمال کسی مستند ڈاکٹر سے پوچھ کر جائیں۔ حاجی کیمپ میں بھی موجودخواتین ڈاکٹرز اس حوالے سے راہنمائی دیتی ہیں بلکہ حاجی کیمپ میں ایسی دواؤں کو پیک بھی کیا جاتا ہے ورنہ سعودی عرب جا کر خریدی جا سکتی ہیں۔

۱۶۔ اگر حیض روکنے کے لیے دوا استعمال کی جا رہی ہو اور درمیان میں داغ لگتا رہے تو اس کے لیے استحاضہ (بیماری والا) کا حکم ہو گا یعنی ہر نماز اور ہر طواف کے لیے تازہ وضو کرنا ہو گا۔

۱۷۔ ایک دفعہ دوا شروع کرنے کے بعد جب تک حیض کو روکنا مقصود ہو دوا کا مسلسل استعمال جاری رکھنا ہو گا۔ دوا چھوڑنے کے تقریباً۳ روز بعد حیض شروع ہو گا۔

۱۸۔استحاضہ، بواسیر اور دیگر امراض (میلان الرّحم وغیرہ) کی حامل خواتین کو نماز اور ہر طواف کے لیے نیا وضو کرنا چاہیے۔ (استحاضہ وہ خون ہے جو حیض کے علاوہ کسی بیماری کی وجہ سے آئے)۔

۱۹۔ اگر کسی خاتون نے طواف زیارۃ؍افاضۃ کر لیا تھا اور مکہ سے روانگی کے وقت حیض آ گیا تو اس پر طواف وداع واجب نہیں ہو گا بلکہ طواف افاضۃ؍زیارۃ یا کوئی اور نفلی طواف اس کی طرف سے طواف وداع شمار ہو گا۔

۲۰۔ اگر طواف کے دوران حیض آ جائے تو وہیں سے طواف کو چھوڑ دے۔ اگر عمرہ یا حج کا طواف تھا تو بھی فراغت کے بعد مکمل کرے اور اگر نفلی طواف شروع کر دیا تھا تو بھی بعد میں اسے ادا کرے کیونکہ اگر کوئی نفلی کام شروع کر کے چھوٹ جائے تو اسے مکمل کرنا ضروری ہو تا ہے۔

۲۱۔ مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں قیام کے دنوں میں حیض سے ہوں تو مسجد کے اندر نہیں جا سکتے، نماز اور طواف نہیں کر سکتے، ہاں مسجد کے بیرونی صحن میں جا سکتے ہیں اور ذکر و دعا کر سکتے ہیں۔ ایسی جگہ بیٹھ جائیں جہاں سے خانہ کعبہ نظر آئے جسے دیکھنابھی عبادت ہے۔

۲۲۔ مشترکہ غسل خانوں کی صورت میں حیا، طہارت و نظافت کے حوالے سے حیض کے دنوں میں کوڑا پھینکے کے لیے لفافوں کا استعمال ضرور کرنا چاہیے۔